زنا کی مذمت اور سزا کے متعلق چالیس احادیث (قسط سوم)
(syed imaad ul deen, samundri)
(٢٥)
حضرت ابو ہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا جب کوئی شخص زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان نکل جاتا ہے گویا کہ وہ
اس کے اوپر سائبان ہو اور جب وہ اس سے توبہ کرتا ہے تو اس کا ایمان لوٹ آتا
ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٦٩٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٢٧،
المستدرک ج ١ ص ٢٢، سنن بہیقی ج ا ص ٥٣٦٦ )
(٢٦)
حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور ہم اکٹھے جاتے۔ آپ نے فرمایا : اسے مسلمانوں
کی جماعت ! اللہ سے ڈرو اور رشتہ داروں سے ملاپ رکھو، رشتہ داروں سے میل
جول سے زیادہ جلد پہنچنے والا اور کوئی ثواب نہیں ہے اور بغاوت سے (یا زنا
سے) بچو کیونکہ اس سے زیادہ جلد پہنچنے والا اور کوئی عذاب نہیں ہے، اور تم
ماں باپ کی نافرمانی سے بچو کیونکہ ایک ہزار سال کی مسافت سے جنت کی خوشبو
آتی ہے اور ماں کبریائی صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ (الترغیب والترہیب
ج ٣ رقم الحدیث : ٣٠١٩، مجمع الزوائد ج ٥ ص ١٢٥ )
(٢٧)
راشد بن سعد المقرائی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے فرمایا جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا یسے لوگوں کے پاس سے گزر
ہوا جن کی کھال آگے کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھی۔ میں نے کہا اے جبریل سے
گزرا جس سے سخت بدبو آرہی تھی میں نے پوچھا اے جبریل یہ کون لوگے ہیں ؟
انہوں نے کہا یہ وہ عورتیں ہیں جو زنا کرانے کے لئے خود کو مزین کرتی تھیں
اور وہ کام کرتی تھیں جو ان کے لئے جائز نہ تھے۔ یہ حدیث مرسل ہے۔ (شعب
الایمان رقم الحدیث : ٦٧٥٠، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٤٠ )
(٢٨)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے فرمایا عادتاً زنا کرنے والا بت پرست کی مثل ہے۔ (مساوی الاخلاق
للخرائطی رقم الحدیث : ٤٧٧، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٤١، تاریخ
دمشق الکبیر لابن عساکر جز ٢٣ ص ١٧٣ رقم الحدیث : ٤٩٣١، مطبوعہ دار احیاء
التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)
حافظ منذری نے کہا صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ عادی شرابی بت پرست کی طرح اللہ
سے ملاقات کرے گا اور اس میں شک نہیں کہ زنا شرابی نوشی سے بڑا گناہ ہے۔
(الترغیب والترہیب ج ٣ ص ٢٣٧، بیروت، ١٤١٤ ھ)
(٢٩)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا جس بستی میں زنا اور سود کا ظہور ہو انہوں نے اپنے اوپر اللہ کے
عذاب کو حلال کرلیا۔ (یہ حدیث صحیح ہے) (المستدرک ج ٢ ص ٣٧، الترغیب
والترہیب رقم الحدیث : ٣٤٣، شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٤١٧) (٣٠) حضرت ابن
مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس قوم میں زنا اور سود کا ظہور ہوا انہوں نے
اپنے اوپر اللہ کے عذاب کو حلال کرلیا۔ (مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٤٩٨١،
الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٤٤، ٢٧٧٠، مجمع الزوائد ج ٤ ص ١١٨)
(٣١)
حضرت مقداد بن اسود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ تم زنا کے متعلق کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے
کہا یہ حرام ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے۔ یہ قیامت تک کے
لئے حرام ہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے
فرمایا اگر کوئی شخص دس عورتوں سے زنا کرے تو یہ اس کی بہ نسبت زیادہ آسان
ہے (یعنی ان کی اس کی سزا اس سے کم ہے) کہ وہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا
کرے۔ (مسند احمد ج ٦ ص ٨، اس کے راوی ثقات ہیں، الترغیب والترہیب رقم
الحدیث : ٣٥٤٧ )
(٣٢)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا جو شخص اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا، اس کی طرف اللہ قیامت
کے دن نہیں دیکھے گا اور نہ اس کو پاک کرے گا اور فرمائے گا دوزخ میں دو
زخیوں کے ساتھ داخل ہو جائو۔ (مساوی الاخلاق للخر ائطی رقم الحدیث : ٤٨٥،
مسند الفردوس الدیلمی رقم الحدیث : ٣٣٧١، الترغیب والترہیب رقم الحدیث :
٣٥٤٨ )۔
(٣٣)
حضرت ابو قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا جو شخص اس عورت کے بستر پر بیٹھا جس کا شوہر غائب ہو، قیامت کے
دن اللہ ایک اژدھے کو اس کے اوپر قادر کردے گا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث
: ٣٢٧٨، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٢٣٧، الترغیب والترہیب رقم الحدیث :
٣٥٣٩، مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٥٨ )۔
(٣٤)
حضرت عبد اللہ بن عمر و (رض) بیان کرتے ہیں کہ جو شخص اس عورت کے بستر پر
بیٹھتا ہے جس کا شوہر غائب ہو، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کو قیامت کے
اژدھوں میں سے کوئی سیاہ اژدھا بھنبھوڑ رہا ہو۔ (الترغیب والترہیب رقم
الحدیث : ٣٥٥٠، حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا
ہے اور اس کے راوی ثقات ہیں، مجمع الزوائد ج ٦ ص ٢٥٨ )۔
(٣٥)
حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے
فرمایا مجاہدین کی بیویوں کی حرمت، جہاد پر نہ جانے والوں کے لئے ان کی
مائوں کی مثل ہے اور مجاہد جس شخص کے اوپر اپنی اہلیہ کو چھوڑ کر جائے اور
وہ اس میں خیانت کرے تو اس کو قیامت کے دن کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد اس
کی نیکیوں میں سے جس قدر چاہے گا، لے لے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ کیا تم یہ
سمجھتے ہو کہ وہ اس کی نیکی چھوڑ دے گا ؟ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٧، سنن
ابو دائود رقم الحدیث : ٢٤٩٦، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٨٩)
(٣٦)
حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے
فرمایا بنی اسرائیل کے ایک عابد نے ساٹھ سال اپنے گرجے میں اللہ کی عبادت
کی، پھر بارش ہوئی اور زمین سرسبز ہوگئی۔ راہب نے اپنے گرجے سے باہر جھانکا
اور سوچا کہ میں گرجے سے باہر نکل کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کروں اور زیادہ
نیکی حاصل کروں۔ وہ گرجے سے اُترا، اس کے ہاتھ میں ایک روٹی یا روٹیاں بھی
تھیں، جس وقت وہ باہر کھڑا تھا تو ایک عورت آکر اس سے ملی وہ دونوں ایک
دوسرے سے کافی دیر تک باتیں کرتے رہے حتیٰ کہ اس عابد نے اس سے اپنی خواہش
پوری کرلی، پھر اس پر بے ہوشی طاری ہوگئی پھر وہ ایک ترم تالاب میں نہایا،
اس کے بعد ایک سائل آیا تو اس نے ان دو روٹیوں کی طرف اشارہ کیا، پھر اس کی
ساٹھ سال کی عبادت کا زنا کے گناہ کے ساتھ وزن کیا گیا تو گناہ کا پلڑہ
بھاری نکلا، پھر ان روٹیوں کی نیکی کا وزن کیا گیا تو نیکیوں کا پلڑہ بھاری
نکلا سو اس کو بخش دیا گیا۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کا بیان
ہے ساٹھ سال کی عبادت ایک زنا کے گناہ سے ضائع کردی اور دو روٹیوں کو صدقہ
کرنے کی نیکی سے اس کے گناہ بخژ دیا، وہ جس گناہ پر چاہے پکڑ لیتا ہے اور
جس نیکی کو چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔ (صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٧،
الترگیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٣١، ١٣٨٧، ١٢٩٩)
(٣٧)
شعبی بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی (رض) نے جمعہ کے دن ایک عورت کو رجم
(سنگسار) کیا تو کہا میں نے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی
سنت سے رجم کیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٨١٢)
(٣٧)
شیبانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے سوال
کیا کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم (سنگسار) کیا ہے ؟
انہوں نے کہا ہاں، میں نے سوچا سورۂ نور کے نزول سے پہلے یا اس کے بعد ؟
انہوں نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٨١٣، صحیح مسلم
رقم الحدیث : ١٧٠٢)
اس سوال کا منشاء یہ ہے کہ اگر رجم سورۂ نور کے نازل ہونے سے پہلے ہوا ہے
تو ہوسکتا ہے کہ سورۂ نور کے نازل ہونے کے بعد وہ منسوخ ہوگیا ہو کیونکہ
سورۂ نور میں زانیوں کو کوڑے مارنے کا حکم ہے اور اگر سورۂ نور کے نازل
ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا ہے تو اس کا
مطلب یہ ہے کہ سو کوڑے مارنے کا حکم رجم کرنے کے منافی نہیں ہے یعنی کنوارے
اگر زنا کریں تو ان کو سو کوڑے مارے جائیں اور اگر شادہ شدہ زنا کریں تو ان
کو رجم (سنگ سار) کیا جائے۔ اور تحقیق یہ ہے کہ سورۂ نور کے نزول کے بعد
رجم کیا گیا ہے کیونکہ سورۃ ٔ نور کے نزول کے متعلق ہم بیان کرچکے ہیں کہ
تین قول ہیں، ٤ ہجری، ٥ ہجری اور ٦ ہجری اور صحیح یہ ہے کہ سورۃ ٔ نور
شعبان ٥ ہجری میں نازل ہوئی ہے اور رجم اس کے بعد کیا گیا ہے کیونکہ رجم کے
موقع پر حضرت ابو ہریرہ (رض) موجود تھے اور وہ ٧ ہجری میں اسلام لائے تھے،
اور حضرت ابن عباس (رض) بھی موجود تھے اور حضرت ابن عباس (رض) اپنی والدہ
کے ساتھ ٩ ہجری میں مدینہ آئے تھے۔ (فتح الباری ج ٤ ص ٧٩، مطبوعہ دار الفکر
بیروت، ١٤٢٠ ھ)
(٣٩)
حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ وہ زنا
کرچکا ہے اور اس نے چار مرتبہ قسم کھا کر اپنے متعلق زنا کرنے کا اقرار کیا
اور وہ شخص شادی شدہ تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو
رجم (پتھر مار مار کر ہلاک) کردیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : سنن ابو
دائود رقم الحدیث : ٤٤١٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٣٢، السنن الکبریٰ
للنسائی رقم الحدیث : ٧١٥٨، مسند احمد رقم الحدیث : ٥٥ ا ١٥، عالم الکتب
بیروت)۔
(٤٠)
حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے فرمایا مجھ سے حکم لو، مجھ سے حکم لو، اللہ نے زنا کرنے والیوں کی
سزا کی راہ بیان فرما دی اگر کنواری کنوارے کے ساتھ زنا کرے تو ان کو سو
کوڑے مارو، اور ایک سال کے لئے شہر بدر کردو، اور اگر شادی شدہ، شادی شدہ
کے ساتھ زنا کرے تو ان کو رجم (سنگسار) کردو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :
١٢٩٠، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤١٦، ٤٤١٥، سنن الترمذی رقم الحدیث :
١٤٣٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٣٤، سنن کبریٰ للنسائی رقم الحدیث :
١١٠٩٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٥٥٠ ) |
|