’’ہیلو! احمد کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے ۔ آپ
فورا ہسپتال پہنچ جائے۔‘‘
’’ کون سے ہسپتال ؟ اور کیا ہوا ہے اسے؟‘‘
’’ اس کی حالت بہت خراب ہے۔ سٹی ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔‘‘
’’ او کے۔ میں نکل رہا ہوں ‘‘
حامد اپنے اکلوتے بیٹے کے ایکسیڈنٹ کا سن کر فورا اٹھ کھڑا ہوا اور گاڑی
نکال کر پوری رفتار سے ہسپتال کے طرف دوڑانے لگا۔ وہ اپنے بیٹے کے بارے میں
سوچ رہا تھا کہ کیسے ایکسیڈنٹ ہوچکا ہوگا؟ اسے کہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آئی
ہوگی؟ اسی کشمکش میں اسے روڈ پر دوڑتے ہوئے گاڑیوں کا خیال نہیں رہا اور
اچانک ان کی گاڑی ایک تیز رفتار بس کے زد میں آگئی۔ کار کا اگلا حصہ مکمل
طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ حادثہ اتنا شدید تھا کہ وہ بری طرح زخمی ہوچکے تھے۔
اس کے جسم سے بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا۔ اس کے پہلے کہ کوئی اس کی مدد
کرتا، وہ زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔
دوسری طرف جب گھر میں باپ بیٹے کی ایکسیڈنٹ کا پتہ چلا تو حامد کی والدہ
بیٹے اور پوتے کی حادثے کا صدمہ برداشت نہ کر سکی ۔ ان کو د کا دورہ پڑگیا۔
ہسپتال پہنچنے کے چند لمحے بعد ان کا روح جسم کا ساتھ چھوڑ گئی۔
اپریل فول دوسروں کے ساتھ عملی مذاق کرنے اور بے وقوف بنانے کا تہوار ہے۔
اسکا خاص دن اپریل کی پہلی تاریخ ہے۔ یہ یورپ سے شروع ہوا۔1508سے 1539کے
ولندیزی اور فرانسیسی ذرائع ملتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مغربی یورپ
کے ان علاقوں میں یہ تہوار تھا۔ برطانیہ میں اٹھارویں صدی کے شروع میں اس
کا عام رواج ہوا۔
اپریل لاطینی زبان کے لفظ Aprilis یا Aprire سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے
پھولوں کا کھلنا،کونپلیں پھوٹنا،قدیم رومی قوم موسم بہار کی آمد پر شراب کے
دیوتا کی پرستش کرتی اور اسے خوش کرنے کیلئے لوگ شراب پی کر اوٹ پٹانگ
حرکتیں کرنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیتے یہ جھوٹ رفتہ رفتہ اپریل فول کا ایک
اہم حصہ بلکہ غالب حصہ بن گیاانسائیکلو پیڈیا انٹرنیشنل کے مطابق مغربی
ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن قرار دیا جاتا ہے اس دن ہر طرح کی
نازیبا حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے اور جھوٹے مذاق کا سہارا لے کر لوگوں کو
بیوقوف بنایا جاتا ہے یہ فضول اور فول رسم مسلم معاشرے کا ایک اہم اور لازم
حصہ بن چکی ہیں اور مسلمان اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کی تباہی اور بربادی
پر خوشی کا دن مناتے ہیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو فول بنا بنا کر ان
کو مصیبت اور پریشانی میں ڈالتے ہیں۔
آج کے مسلمان شاید یہ بھول چکے ہیں کہ جب عیسائی افواج نے اسپین کو فتح کیا
تو اس وقت اسپین کی زمیں پر مسلمانوں کا اتنا خون بہا یا گیا کہ فاتح فوج
کے گھوڑے جب گلیوں سے گزرتے تھے تو ان کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون
میں ڈوبی ہوتے تھیں جب قابض افواج کو یقین ہوگیا کہ اب اسپین میں کوئی بھی
مسلمان زندہ نہیں بچا ہے تو انہوں نے گرفتار مسلمان فرما نروا کو یہ موقع
دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتتھ واپس مراکش چلا جائے جہاں سے اسکے آباؤ
اجداد آئے تھے ،قابض افواج غرناطہ سے کوئی بیس کلومیٹر دور ایک پہاڑی پر
اسے چھوڑ کر واپس چلی گئی جب عیسائی افواج مسلمان حکمرانوں کو اپنے ملک سے
نکال چکیں تو حکومتی جاسوس گلی گلی گھومتے رہے کہ کوئی مسلمان نظر آئے تو
اسے شہید کردیا جائے ، جو مسلمان زندہ بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے
علاقوں میں جا بسے اور وہاں جا کر اپنے گلوں میں صلیبیں ڈال لیں اور عیسائی
نام رکھ لئے، اب بظاہر اسپین میں کوئی مسلمان نظر نہیں آرہا تھا مگر اب بھی
عیسائیوں کو یقین تھا کہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے کچھ چھپ کر اور اپنی
شناخت چھپا کر زندہ ہیں اب مسلمانوں کو باہر نکالنے کی ترکیبیں سوچی جانے
لگیں اور پھر ایک منصوبہ بنایا گیا ۔ پورے ملک میں اعلان ہوا کہ یکم اپریل
کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہوجائیں تاکہ انہیں ان کے ممالک بھیج دیا
جائے جہاں وہ جانا چاہیں۔اب چونکہ ملک میں امن قائم ہوچکا تھا اور مسلمانوں
کو خود ظاہر ہونے میں کوئی خوف محسوس نہ ہوا ، مارچ کے پورے مہینے اعلانات
ہوتے رہے ، الحمراء کے نزدیک بڑے بڑے میدانوں میں خیمے نصب کردیے گئے جہاز
آکر بندرگاہ پر لنگرانداز ہوتے رہے ، مسلمانوں کو ہر طریقے سے یقین دلایا
گیا کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا جب مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ اب ہمارے
ساتھ کچھ نہیں ہوگا تو وہ سب غرناطہ میں اکٹھے ہونا شروع ہوگئے اسی طرح
حکومت نے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرلیا اور انکی بڑی خاطر مدارت
کی۔ یہ کوئی پانچ سو برس پہلے یکم اپریل کا دن تھا جب تمام مسلمانوں کو
بحری جہاز میں بٹھا یا گیا مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑتے ہوئے تکلیف ہورہی
تھی مگر اطمینان تھا کہ چلو جان تو بچ جائے گی دوسری طرف عیسائی حکمران
اپنے محلات میں جشن منانے لگے ،جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کیا اور جہاز
وہاں سے چل دیے ، ان مسلمانوں میں بوڑھے، جوان ، خواتین ، بچے اور کئی ایک
مریض بھی تھے جب جہاز سمندر کے عین وسط میں پہنچے تو منصوبہ بندی کے تحت
انہیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا اور یوں وہ تمام مسلمان سمندر میں ابدی
نیند سوگئے۔ اس کے بعد اسپین میں خوب جشن منایا گیا کہ ہم نے کس طرح اپنے
دشمنوں کو بیوقوف بنایا ۔ پھر یہ دن اسپین کی سرحدوں سے نکل کر پورے یورپ
میں فتح کا عظیم دن بن گیا اور اسے انگریزی میں First April Fool کا نام
دیدیا گیا یعنی یکم اپریل کے بیوقوف ۔آج بھی عیسائی دنیا اس دن کی یاد بڑے
اہتمام سے مناتی ہے اور لوگوں کو جھوٹ بول کر بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
یہ ہے اپریل فول کی حقیقت! مسلمانوں کا اپریل فول منانا جائز نہیں،کیونکہ
اس میں کئی مفاسد ہیں جو ناجائز اور حرام ہیں۔ اس میں غیرمسلموں سے مشابہت
پائی جاتی ہے اور حدیث مبارکہ میں ہے: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ
مِنْہُمْ (سنن ابی داؤد) کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں
سے ہے۔تو جو لوگ اپریل فول مناتے ہیں اندیشہ ہے کہ ان کا انجام بروز قیامت
یہود ونصاری کے ساتھ ہو۔ایک واضح قباحت اس میں یہ بھی ہے کہ جھوٹ بول کر
دوسروں کو پریشان کیا جاتا ہے اور جھوٹ بولنا شریعت اسلامی میں ناجائز اور
حرام ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: إنَّ الصِّدْقَ بِرٌّ، وإنَّ البِرَّ یَہْدِی
إلی الجنَّۃ، وإن الکَذِبَ فُجُورٌ، وإنَّ الفُجُورَ یَہدِی إلی النّار
(صحیح مسلم) ترجمہ: سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت لے جاتی ہے اور جھوٹ
بولنا گناہ ہے اور گناہ (جہنم کی) آگ کی طرف لے جاتا ہے۔بلکہ ایک حدیث
مبارک میں تو جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے: آیَۃُ
الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ
وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ (صحیح البخاری) ترجمہ: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔
جب بات کرتاہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور جب
اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔ اس دن جھوٹ کی بنیاد پر بسا
اوقات دوسروں کے بارے میں غلط سلط باتیں پھیلا دی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے
ان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے ،جو اشدمذموم وحرام ہے حدیث میں ہے: إ نَّ
دِمَاء َکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ
کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا فِی بَلَدِکُمْ ہَذَا فِی شَہْرِکُمْ
ہَذَا(صحیح البخاری) ترجمہ: تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت ایک
دوسرے پر اس طرح حرام ہے جیسے اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔
اس دن مذاق میں دوسروں کو ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے جو بسا اوقات جان لیوا
بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ 2 اپریل کے اخبارات سے لگایا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ احمد کے دوست کے اس فعل سے حامد کے گھر سے ایک ہی دن دو جنازے نکل
گئے۔ غرض اس فعل میں کئی مفاسد پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو
چاہیے کہ اس قبیح فعل سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور حکومت
وقت کو بھی اس پر پابندی لگانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
|