" جہازوں کو آگ لگا دو "
سامان جہازوں سے اتار لینے کے بعد سپہ سالار ملاحوں سے مخاطب ہواملاح حیران
و پریشان اس کا منہ دیکھنے لگے ۔۔ ایسا حکم وہی سالار دے سکتا ہے جس کا
دماغی توازن خراب ہو چکا ہو..
مسلمانوں ۔۔۔۔۔ !!
سپہ سالار لشکر سے مخاطب ہوا ۔جہازوں کو آگ لگا دو ۔ہم زندہ واپس جانے کے
لئے نہیں آئے ۔ دونوں میں سے ایک ہمارا مقدر ہے ۔ فتح یا شہادت لشکر نے
جہازوں کو آگ لگا دی ایک دفعہ پھر نوجوان سپہ سالار لشکر سے مخاطب ہوا
" اسلام کے مجاہدو !تمہارے آگے دشمن ہے اور پیچھے سمندر ۔۔ جن کشتیوں میں
تم آئے ہو انہیں تم جلا چکے ہوتمہارے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں بچا ۔۔
تمہارے پاس صرف اور صرف ایک رستہ ہے ۔۔ شجاعت اور فتح کادشمن کی تعداد سے
نہ ڈرو ۔۔ ڈرو اس شکست سے جو تمہیں بے وقار کر دے گی ۔"
یہ مسلم سپہ سالار طارق بن زیاد تھا جو صرف سات ہزار کا لشکر لے کر چار
بحری جہازوں میں اندلس کے ساحل پر اترا تھاوہ عیسائیوں کے بادشاہ راڈرک سے
اک ایسی عورت کی عصمت کا بدلہ لینے کے لئے اندلس جیسے عظیم الشان ملک پر
حملہ آورہو گیا تھا جو مسلمان بھی نہیں تھی اور اپنے ہی ہم مذہب عیسائی
بادشاہ راڈرک کی ہوس کا نشانہ بنی تھی ۔۔
یہ ایک ولولہ انگیز اور ایمان افروز داستان ہے جس کا آغاز 5 رجب 92 ہجری
بمطابق 9 جولائی 711ء کو ہواجب ایک عیسائی حاکم کاؤنٹ جولین۔۔۔،،، امیر مصر
و افریقہ موسی بن نصیر کے دربار میں فریاد لے کر آیا کہ اندلس کے بادشاہ
راڈرک نے اسکی بیٹی کو بے آبرو کیا ہے اور وہ اپنی بیٹی کی آبرو کا بدلہ
مسلمانوں کی مدد کے بغیر نہیں لے سکتا موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیاد کو
بلایا اور سات ہزار کا لشکر دے کر اندلس روانہ کیاتاکہ مظلوم عورت کی عصمت
لٹنے کا بدلہ راڈرک کی بادشاہت کی اینٹ سے اینٹ بجا کر لیا جا ئے...
طارق بن زیاد نے اندلس کے ساحل پر پہنچ کر جہازوں کو خالی کرنے کا حکم دیا
اور پھر کہا " جہازوں کو آگ لگا دو"
اندلس پر قیام کے دوران اندلس کی ساحلی فوج سے چھوٹی موٹی جھڑپیں چلتی رہیں
اسی دوران طارق بن زیاد کو موسیٰ بن نصیر کی طرف سے پانچ ہزار مزید نفری کی
کمک حاصل ہو گئی تھی ۔ یوں کل ملا کر بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ راڈرک کی
فوج کا انتظار کیا جانے لگا ۔۔
یہ 711ء کی آخری سہہ ماہی کا ایک دن تھا ۔دریائے گوالیت کے ساتھ ساتھ پھیلے
ہوئے وسیع میدان میں راڈرک کی ایک لاکھ فوج لڑنے کے لئے تیار تھی...
اس مقام پہ طارق نے اپنے رب سے فتح و نصرت کی دعا مانگی جسے علامہ محمد
اقبال نے بال جبرائیل میں ان الفاظ میں بیان کی.....
"یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے"
اس مقام کا نام میریناسیدانا تھا ۔ راڈرک کی فوج نے کشتیوں کا پل بنا کر
دریا پار کیا ۔۔ مسلمان بھی مقابلے کے لئے تیار تھےراڈرک نے حملے کا حکم
دیا ۔۔۔۔دو دو ، تین تین دستوں سے حملہ کیا جائے ۔راڈرک جو کہ فن حرب وضرب
کا استاد مانا جاتا تھااس نے اپنے جرنیلوں کو کہا : ضرب لگاؤ اور بھاگو ۔۔
دشمن کو اپنے پیچھے پہاڑیوں میں لاؤ ۔۔ پھر انہیں تیرانداز سنبھال لیں
گےادھر طارق بھی سمجھدار اور معاملہ فہم سپہ سالار تھا ۔۔ اِس نے بھی اپنے
چھوٹے بڑے کمانداروں کو ذہن نشین کروا دیا کہ جم کر کہیں بھی نہیں لڑنا ۔۔
مقصد یہ تھا کہ ہجوم کی صورت حملہ کرنے سے گھوڑے تیروں سے زخمی ہو کر اپنے
پیادوں کو کچلتے پھریں گےراڈرک نے حملے کا حکم دیا ۔۔ طارق نے تین چار
دستےآگے کئے جو اس طرح لڑنے لگے جیسے انہیں بھاگنے کی جلدی ہو ۔۔ اندلسی
کچھ سمجھ ہی نہ سکے ۔۔ مسلمان ایک پہاڑی کے دامن میں آکر اِدھر اُدھر بکھر
گئےپہاڑی کی ڈھلان سے اندلسیوں پر تیروں اور برچھیوں کا مینہ برسنے لگا ۔۔
طارق کے جو دستے دائیں بائیں ہو گئے تھے وہ بھی اکٹھے ہو گئےدشمن کے دستے
تیروں سے گھبرا کر واپس پلٹے تو دائیں بائیں سے مسلمانوں نے ان پر ہلہ بول
دیا ۔۔ اندلسی بری طرح کٹنے لگےاس روز راڈرک نے چند اور دستوں سے حملہ
کروایا لیکن طارق کی حکمت عملیوں کے آگے ناکام رہاسورج غروب ہو گیا ۔۔
میدان راڈرک کی فوج کی لاشوں سے بھرا پڑا تھا ۔۔مسلمانوں نے نصف شب کو
راڈرک کے اصطبل پر شبخون مارا اور گھوڑوں کی رسیاں کاٹ کر انکو زخمی کر دیا
۔ گھوڑوں نے رات کو راڈرک کی فوج کا بہت نقصان کیا ۔۔ اگلے دن کفار نے اور
بھی شدت سے حملہ کیا لیکن راڈرک کو اس دفعہ بھی ہزیمت اٹھانا پڑی تیسرے دن
راڈرک شدید قہر میں تھا ۔اس نے گوتھ قوم کے جرنیل کو حکم دیا کہ ہلہ بول
دولیکن اس دن آسمان نے اور ہی منظر دیکھا ۔۔ بیس ہزار گوتھ تلواریں نیاموں
میں ڈالے طارق کے لشکر کی طرف دوڑ پڑے ۔ طارق کا لشکر بھی پریشان تھا کہ یہ
کیسے حملہ آور ہیں ؟؟؟
اچانک مسلمانوں کو طارق بن زیاد کی آواز سنائی دی ۔۔" ان کا استقبال کرو یہ
اب تمہارے ساتھی ہیں "دراصل یہ گوتھ قوم کے دستے تھے جو راڈرک کے ظلم و ستم
کے ستائے ہوئے تھے اور مسلمانوں کومسیحا خیال کرتے ہوئے ان کے ساتھ شامل ہو
گئے ۔۔ مسلمانوں کے ثابت قدم رہنے سے اللہ نے مدد بھیج دی تھییہ صرف بیس
ہزار کی نفری نہیں تھی بلکہ جذبہ انتقام سے بھری ہوئی فوج تھی ۔مزید پانچ
دن راڈرک نے جنگ جیتنے کی بہت کوشش کی لیکن اسکی ہر کوشش ناکام ہوئی آٹھویں
روز طارق بن زیاد نے راڈرک کی فوج پہ "بجلی لاتزر" بن کے ٹوٹا اور کفار کو
شرم ناک شکست ہوئی ۔۔ راڈرک مارا گیا ۔۔ پچاس ہزار کی نفری قتل ہوئی ۔۔ اور
تیس ہزار کو قیدی بنا لیاگیا ۔۔
یوں اس آٹه روزہ جنگ نے مسلمانوں کو آٹه سو سال کے لیئے اندلس کا حکمران
بنا دیا...
یہ جبر و قہر نہیں ہے، یہ عشق و مستی ہے....
کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہاں بانی....
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو....
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی....
مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود....
خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی....
علامہ محمد اقبال |