بسم اﷲ الرحمن الرحیم
دین اسلام اپنا ایک جامع ومکمل نظام زندگی اور دستور حیات رکھتا ہے،اور
انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں کسی دوسرے نظام اور قانون سے مدد لئے
بغیربھرپور رہنمائی اور قیادت کی صلاحیت رکھتاہے،اسلام نے انفرادی زندگی کے
ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی کے بارے میں بھی انسانیت کی مکمل رہنمائی کی
ہے،اجتماعی زندگی میں سیاست کا شعبہ سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے،اس لئے کہ
باقی شعبہ ہائے زندگی پر اس کے اثرات غیرمعمولی ہوتے ہیں،چنانچہ انسانی
زندگی کا اتنا اہم اور مرکزی شعبہ اسلامی نظام کے حدود سے باہر کیونکر رہ
سکتا تھا،لہٰذا اسلام اپنا ایک جامع ومکمل نظریہ سیاست وحکومت بھی رکھتا
ہے،اسلامی نظریہ کے مطابق شرعی بنیادوں پر ایک حکومت اور ریاست کا قیام
مسلمانوں کا مذہبی اور دینی فریضہ اور ان کی منصبی ذمہ داری ہے،قرآن نے
کہیں اس کو اقامت دین سے اور کہیں تمکین فی الارض سے تعبیر کیاہے،ارشاد
ربانی ہے:’’اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ‘‘(الشوری:۱۳)،ترجمہ:کہ اس دین کو
قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا،اسی طرح سنت نبوی سے بھی ہمیں اس کی
اہمیت معلوم ہوتی ہے،فرمان نبوی ہے:’’کہ جو شخص اس حال میں دنیا سے رخصت
ہوا کہ اس کی گردن میں کسی امامت کا طوق نہ ہوتو اس کی موت جاہلیت کی موت
ہے‘‘(صحیح مسلم،باب الامر بلزوم الجماعۃ،حدیث نمبر:۱۸۵۱)
اور پیغمبر اسلام ﷺنے باقاعدہ ریاست قائم کرکے اور خلفائے راشدین نے اس
ریاست کے استحکام وتوسیع کے ذریعہ اسلام کے ریاستی وسیاسی تصور کو بہت
صراحت کے ساتھ دنیا کے سامنے نمایاں کردکھایا،اسلام کے سیاسی وریاستی احکام
اسلام کو دین بناتے ہیں،یعنی اس کی جامعیت وشمولیت کو عملی شکل میں ظاہر
کرتے ہیں،اور اسے دیگر مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں،ان کو دین اسلام سے الگ
کرنایا ریاست وسیاست کو دین سے کلیتاًآزاد کردینادین اسلام کے حقیقی تصور
میں تحریف کے مترادف ہے،دین وسیاست کا دو الگ الگ خانوں میں بٹوارہ کرنے
والوں پر نقد کرتے ہوئے نباض ملت علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کہاتھا
جلال پادشاہی ہوکہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
تاہم اسلام اور دیگر مذاہب میں فرق یہ ہے کہ اسلام کا تصور ریاست وسیاست
پاپائیت(theocracy)سے مکمل طور پر پاک ہے،اسلام کا مقصد صرف مذہبی وروحانی
اقدار کا فروغ وقیام نہیں،بلکہ ظلم واستحصال کی ہرشکل کے خاتمہ ،فتنہ وفساد
کی سرکوبی اور امن عالم کا قیام ہے،قرآن مجید خود اس مقصد کی نشاندہی
فرماتاہے،ارشاد ہے:’’ہوالذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین
کلہ ولو کرہ المشرکون‘‘(التوبہ:۳۳)،ترجمہ:وہی (اﷲ)ہے جس نے اپنے رسول(ﷺ)کو
ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا،تاکہ اس کو ہر دین پر غالب کردے،اگرچہ
مشرکین کو برالگے،دوسری جگہ ارشاد ہے:’’وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون
الدین کلہ ﷲ‘‘ (الانفال:۳۹)،ترجمہ:ان کافروں سے جنگ کرو،یہاں تک کہ فتنہ
باقی نہ رہے،اور دین پورا کا پورا اﷲ کے لئے ہوجائے،اس آیت مبارکہ میں
ریاست اسلامیہ کو تمام فتنوں کی سرکوبی کے لئے قیام امن کے بحال تک جنگ
جاری رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔
اسلام کے اسی وسیع مقصد کے تناظر میں پیغمبر اسلام ﷺ نے عرب کے نظم وقانون
سے آزاد معاشرہ میں نہ صرف ایک کامیاب فلاحی ریاست قائم کی،بلکہ اپنی زندگی
میں اس کو پورے جزیرہ نمائے عرب تک وسیع کردیا،خلفائے راشدین ؓ کے دور میں
یہ ریاست دنیا کے نقشہ پر ایک منظم ،مضبوط ،معتبر،حقوق انسانی کی
محافظ،جمہوری اقدار کی مظہر ،بین المذاہب رواداری اور ہم آہنگی کی امین اور
مختلف برادریوں ،لسانی اکائیوں اور مذہبی طبقات کے درمیان پُرامن بقائے
باہمی کے نمونہ کے طور پر ابھری۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود شریعت اسلامی میں ریاست وحکومت کا بنیادی ہدف
ومقصد اسلام کے جامع نظام حیات کو ذاتی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنا
ہے، صرف حکمرانی اور اقتداردین میں مقصود بالذات نہیں،یہی وجہ ہے کہ شریعت
میں جہاں کہیں بھی قیام حکومت کا ذکر آتا ہے،اس کے ساتھ ہی اس کے مقاصد اور
اس کے شرائط وضوابط بے حد اہمیت کے ساتھ نمایاں طور پر بیان کئے گئے
ہیں،چنانچہ شریعت میں اقتدار یا عہدہ کی خواہش کو قابل مذمت
ٹھہرایاگیا،لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان امت کا مقصد قرآنی تعلیمات کی
روشنی میں ایک ایسے اخلاقی سماج کی تشکیل وترتیب ہے جس کی بنیاد نیکی اور
اچھائی کے اصولوں سے وابستگی اور بدی وبرائی سے پرہیز کے اصولوں پر استوار
ہو،مسلمانوں کا اتحاد واتفاق اسی صورت میں قائم اور مستحکم ہوسکتا ہے جب کہ
وہ ایک دینی برادری میں رہتے ہوئے مبنی بر انصاف سماج تشکیل دینے کی سعی
کریں،ایک ایسا سماج جہاں ظلم وزیادتی ،ناانصافی اور سماجی نابرابری کاکوئی
گزرنہ ہو۔
لہٰذا ریاست وحکومت کے قیام کی جو کوشش بھی ان مقاصد کو نظرانداز کرکے کی
جائے گی وہ اسلامی نہیں کہلائے گی،اور جس نظام میں بھی قرآن وحدیث کے ان
واضح اور روشن تعلیمات کی نمائندگی کے بجائے اس کی خلاف ورزی ہوگی ،وہ
اسلامی نظام نہیں بلکہ اسلام مخالف نظام شمار ہوگا،اور اس سے امن وامان اور
عدل وانصاف کے قیام کے بجائے فتنہ وفساد اور ظلم وزیادتی کا راج
ہوگا،چنانچہ اسلام کی نظر میں ان مقاصد کی تکمیل اصل اور مقدم ہے،اور ان
مقاصد کی تکمیل کے وسائل وذرائع میں سے ایک اہم اور سب سے مؤثر وسیلہ اور
ذریعہ حکومت وریاست کا قیام ہے،اس سلسلہ میں ہمیں سنت نبوی سے واضح رہنمائی
ملتی ہے کہ آپ ﷺ نے ہجرت سے قبل عقبہ کی گھاٹی میں مدینہ کے قبائل اوس
وخزرج کے سرداروں سے سمع وطاعت پر بیعت لی،اس سے پہلے آپ ﷺ نے مصعب بن
عمیرؓ کو دین کامل کے داعی کی حیثیت سے مدینہ کی طرف روانہ فرمایا،ان کی
کوششوں سے جلد ہی مدینہ میں اسلام پھیل گیا،آپﷺ نے مکی مسلمانوں کو مدینہ
کی طرف ہجرت کرنے کا حکم فرمایا،تاکہ وہاں مسلم معاشرہ کی تشکیل عمل میں
آئے،کیوں کہ اس مقصد کے لئے تمام ضروری اقدامات کئے جاچکے تھے،اور ایک
اسلامی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوچکی تھی،پھر آپ ﷺ نے خود بھی ہجرت
فرمایا،مدینہ پہنچ کر آپﷺ نے اسلامی معاشرہ تشکیل دیا،مسجد نبوی کی تعمیر
کی،یہودی قبائل سے معاہدے کئے،جو میثاق مدینہ سے جانے جاتے ہیں،ایسا نہیں
ہوا کہ آپ ﷺاچانک مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے ہوں اور مدینہ کہ حکمرانی یک
بیک آسمان سے غیبی طور پر نازل کردی گئی ہو،سنت نبوی سے صاف معلوم ہوتا ہے
کہ امت مسلمہ میں اجتماعیت اور اتحاد پیدا کرنے کے لئے دین کی اقامت وغلبہ
کے لئے اور فتنہ یعنی کفر وشرک کی شوکت کو ختم کرنے کے لئے آپﷺ نے ایمان
باﷲ کی مضبوط ومستحکم بنیادوں پر ایک ایسا اسلامی معاشرہ تشکیل دیا،جو
قیامت تک آنے والی انسانیت کے لئے مکمل نظام حیات کا ایک جیتا جاگتا اور
عملی نمونہ ہے،اب اس اسلامی معاشرہ کو آپ دارالاسلام کہئے یا اسلامی ریاست۔ |