جاپان میں مقیم پاکستانی ادیب ناصر ناکاگاوا کا
شمار اردو زبان کے با صلاحیت نثر نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی
فعالیت کے اعجاز سے اقلیم ادب اور ذوقِ سلیم سے متمتع قارئین کے دلوں کو
مسخر کر لیا ہے ۔خاص طور پر ان کے سفرناموں میں ان دروں بینی ،ذوقِ سلیم
،جذبۂ شوق ،تخلیقی وجدان ،عالمی کلاسیک کے مطالعہ کا اعلا ذوق،شگفتہ مزاجی
اور نا قابلِ تقلید گل افشانیٔ گفتار کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ناصر
ناکاگاوا کے سفرناموں کا نمایاں وصف تازگی،شگفتگی،تنوع اور ندرت ہے ۔ ناصر
ناکاگاوا کے ان مقبول سفرناموں میں حِسِ ظرافت اور مزاح نگاری کی وہی کیفیت
ہے جو ممتاز امریکی سفر نامہ نگار بِل برائسن (Bill Bryson,B:08-12-1951)کی
تحریروں کا اہم وصف سمجھا جاتا ہے ۔ ان کا سفرنامہ ’’دیس بنا پردیس
‘‘قارئینِ ادب میں بہت مقبول ہوا ۔ناصر ناکاگاوا کی شگفتہ تحریروں کا کرشمہ
اس طرح دامن دل کھینچتا ہے کہ قاری کے لیے ہنسی ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے
۔وہ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کے ماحول ،معاشرت،تہذیب و تمدن ،سماج و ثقافت
کے بارے میں اس حسین و دل کش انداز میں لفظی مرقع نگاری کرتے ہیں کہ قاری
اپنے دِل کے آئینے میں جھانک کر سفر نامے میں مذکور تما م مقامات کو دیکھ
لیتا ہے ۔ایک حساس ،دردمند اور جذبۂ انسانیت نوازی سے سر شار تخلیق کار کی
حیثیت سے ناصر ناکاگاوا نے ہمیشہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا
مطمح نظر بنایا ہے ۔معاشرتی زندگی کے ہمدردانہ شعور سے متمتع ایک مدبر نباض
کی حیثیت سے انھوں نے اپنے اسلوب میں احساس تحیر کو اس مہارت سے سمو دیا ہے
کہ قاری محو حیرت رہ جاتا ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہو رہی ہے ۔زندگی کی
ناہمواریوں،بے اعتدالیوں تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات کے بارے میں خلوص اور
دردمندی سے لبریزشعور رکھتے ہو ئے وہ جس ذہا نت خلوص اور وفا سے انھیں زیب
قرطاس کرتے ہیں وہ ان کی انفرا دیت کی دلیل ہے۔ ان کے سفر نا مے قاری کے
فکر و خیال میں چھپے ما یو سی ، اضطراب اور اضمحلال کی گرد کوصاف کر کے اسے
تازہ ہوا اور وسیع کا ئنات میں پہنچا دیتے ہیں۔اپنے سفر نامے میں اپنے
مشاہدات کا احوال بیان کرتے ہوئے ناصر ناکا گاوا نے اپنے جذبات و احساسات
کی لفظی مرقع نگاری کے اس خوش اسلوبی سے جو ہر دکھائے ہیں کہ منفرد اسلوب
کی زرنگار صورت دیکھ کر قاری کے دِل کی کلی کِھل اُٹھتی ہے ۔نثر کی سادگی
،سلاست اور تحریر کا عام فہم انداز قاری کے لیے حصولِ مسرت کا موثر ترین
وسیلہ ثابت ہوتا ہے ۔ وہ جن مقامات تک پہنچتے ہیں ان کے بارے میں نہایت
مہارت،محنت،لگن اور مستعدی سے معلومات یک جا کر دیتے ہیں اور ان مظاہر سے
مسرت کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے سفر نامے پڑھنے کے بعد خواجہ حیدر
علی آتش کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے :
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر ِ سایہ دار راہ میں ہے
عالمی ادبیات میں عالمی کلاسیک کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر نامہ ہر
عہد میں مقبول رہا ہے ۔ہومر کی اوڈیسی (Homer’s Odyssey) میں ایک ہیرو
اوڈیسز (Odysseus) کے سفر کا بیان ہے ۔اسی طرح دانتے کی ڈیوائن
کامیڈی(Dante’s Divine Comedy) میں بھی جہنم کے مختلف حصوں کے سفر کا احوال
بیان کیا گیا ہے ۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران اردو کے ممتاز تخلیق کاروں نے
شعر و ادب کو متعدد نئی جہات اور اسالیب سے متعارف کرایا ہے ۔ بیسویں صدی
عیسوی کے وسط کے بعد پس نو آبادیاتی دور سے تعلق رکھنے والے ممالک کے
باشندوں اور جغرافیائی حدود کے بارے میں سفرنامہ نگاری کو بہت مقبولیت حاصل
ہوئی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔اس عرصے میں سماجی اور سیاسی سطح پر رونما
ہونے والی تبدیلیوں نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے ۔ ان حالات میں سفر
نامہ نگاری کو معاشرتی زندگی اور سماجی حالات پر کڑی نظر رکھنے والی ایک
موثر تنقیدی صنف ادب کے طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ اردو زبان
میں سفر نامہ نگاری نے قارئیں کو بدلتے ہوئے عالمی حالات پر ارتکاز توجہ پر
مائل کیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں دنیا نے ایک
گلوبل ویلج (Global Village)کی صورت اختیار کر لی ہے ۔اردو سفر نامہ نے جو
ارتقائی سفر طے کیا ہے اس پر ایک نگاہ ڈالنے سے اس صنف کی مقبولیت کا احساس
ہوتا ہے کہ اس میں کیسے کیسے جو ہر قابل معجزۂ فن سے فکر و نظر کو مہمیز کر
تے رہے ہیں۔ تاریخ ادب کے حقائق کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ
اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخری عشرے تک بر عظیم پاک و ہندکے بہت کم لوگ
بیرونی ممالک کے سفر پر روانہ ہوئے ۔اس سے قبل اگر کوئی مقامی با شندہ
بیرونی ممالک کے سفر پر روانہ ہوا تو اس نے اپنے سفر کی یادداشتوں کو فارسی
زبان میں تحریر کیا ۔ ان یادداشتوں کو بر عظیم میں سفر نامہ نگاری کے
ابتدائی رجحانات سے تعبیرکیا جا سکتا ہے ۔اردو کے پہلے سفر نامہ نگار یوسف
خان کمبل پوش (1803-1861)کا آبائی وطن حیدر آباد دکن تھا ۔بچپن ہی سے وہ
ایک سیلانی مزاج کا مالک اور سیر وسیاحت کادلدادہ شخص تھا۔ اس نے ملک کے
اندر پہلا سفر 1828میں کیا ۔اس کے بعد اس نے بیرون ملک جا کر پوری دنیا
دیکھنے کا فیصلہ کیا ۔سیر و سیاحت کا عزم اپنے دل میں لیے وہ دنیا کی سیر
کرنے پر کمر بستہ ہو گیا۔ یورپ کے مختلف ممالک کی سیر کے بعدانیسویں صدی
عیسوی کے اوائل میں ’’عجائبات فرنگ ‘‘کے نام سے اس نے جو سفر نامہ لکھا اسے
اردو کا پہلا سفر نامہ سمجھا جاتا ہے ۔1836میں اپنے بیرون ملک سفر پر
روانگی کے وقت یوسف خان کمبل پوش اردو ادب میں صنف سفر نامہ کے ارتقا کی
جانب ایک اہم پیش رفت کا آغاز کررہا تھا۔اس نے ایک برس دنیا کے مختلف ممالک
کی سیاحت میں گزارا ۔ دیارِ مغرب کی سیر و سیاحت کے واقعات کا امین اس کا
یہ سفر اردو سفر نامے کے ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ا س نے
پیرس ،لزبن ،جبرالٹر ،مالٹا ،مصر اور سیلون کا سفر کیا۔اس سیاحت کے اعجاز
سے اس کے خیالات میں جو وسعت پیدا ہوئی اس نے اس تخلیق کار کے فکر و نظر کی
دنیا میں انقلاب بر پا کر دیا ۔ یورپ کی ترقی اور خوش حالی کو دیکھ کر اس
کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں ،جب کہ اپنے وطن کی پس ماندگی پر اس کا
دِ ل خون کے آنسو روتاتھا ۔اپنے اس سفر سے واپسی کے بعد جب وہ بمبئی پہنچا
تواس کی دلی خواہش تھی کہ وہ بر عظیم کے محکوم اور مظلوم با شندوں کو آزاد
دنیا کے بارے میں اپنے منفرد تجربات ، حیران کُن مشاہدات، قلبی و ذہنی
تاثرات ،دلی جذبات اور عمیق مطالعات سے آ گاہ کرے ۔اس مقصد کی خاطر یوسف
خان کمبل پوش نے اپنے بیرونِ ملک سفر کی یادداشتوں کو شائع کرنے کا فیصلہ
کیا۔یوسف خان کمبل پوش نے سب سے پہلے اپنے طویل سفر کی یادداشتوں کو فارسی
زبان میں تحریر کیا لیکن فارسی زبان میں لکھے گئے اس سفر نامے کی اشاعت کی
نوبت نہ آ سکی ۔ اس زمانے میں ارد وزبان پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد
میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا اور فارسی داں طبقے کی تعداد بتدریج کم ہو رہی
تھی،اس لیے یوسف خان کمبل پوش نے قارئین کے ذوقِ سلیم کا احساس کرتے ہوئے
اپنے سفرکی تمام یادداشتوں کو از سرِنو اردو زبان میں تحریر کیا۔یوسف خان
کمبل پوش کا لکھا ہوا اردو کا یہ پہلاسفر نامہ پہلی بار ’’تار یخ یوسفی ‘‘
کے نام سے 1847میں مکتبہ العلوم، دہلی کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ قارئین ادب
نے اس سفر نامے کی بہت پزیرائی کی ۔اُردو داں طبقے کے لیے اپنی نو عیت کے
اعتبار سے یہ پہلی اور انوکھی کتاب تھی جس میں مصنف نے اپنی حیران کُن لفظی
مرقع نگاری اور منفرد اسلوب بیان سے سماں باندھ دیا تھا۔ اردو کے اس پہلے
سفر نامہ نگار کا یہی سفر نامہ دوسری بار مکتبہ نول کشور کے زیر اہتمام
’’عجائبات فرنگ ‘‘ کے نام سے 1873میں شائع ہوا ۔’’ عجائبات فرنگ‘‘ کو بھی
توقع کے عین مطابق قارئین نے بہ نظر تحسین دیکھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
اردو ادب میں صنف سفر نامہ کو بہت مقبولیت نصیب ہوئی ۔اردو زبان میں
سفرنامے کے ارتقا پر نظر ڈالیں تواس صنف ادب کی تابانیوں میں جن ممتاز
ادیبوں نے خدمات انجام دیں ان کے نام حسب ذیل ہیں:
سر سید احمد خان (پیدائش: سترہ اکتوبر ،1817 وفات:ستائیس مارچ 1898)
:مسافران لندن۔یہ سرسید احمد خان کے 1869میں لندن کے سفر کی یادداشتوں پر
مشتمل ہے ۔
شبلی نعمانی(پیدائش: تین جون1857 وفات:اٹھارہ نومبر 1914)سفر نامہ مصر روم
و شام
منشی محبو ب عالم:سفر نامہ یورپ (1908)،سفر نامہ بغداد
محمو د نظامی :نظر نامہ (1958)
خواجہ احمد عباس :مسافر کی ڈائری
ابن انشا (شیر محمدخان) (پیدائش: پندرہ جون 1927 وفات: گیارہ جنوری 1978 ):
دنیا گول ہے (1972)،آوارہ گرد کی ڈائری،ابن بطوطہ کے تعاقب میں،چلتے ہو تو
چین کو چلیے،نگری نگری پھر ا مسافر۔ابن انشا نے اپنی گل افشانیٔ گفتار سے
اردو سفرناموں کو نئے آہنگ اور منفرد اسلوب سے آشنا کیا ۔ خلوص، محبت اور
چاہت کے جذبات سے مزین ابن انشا کے سفرنامے قارئین میں بہت مقبول ہوئے ۔ابن
انشا نے سفرنامہ نگاروں کے اسلوب میں پائی جانے والی روایتی انداز کی غیر
معمولی سنجیدگی،بیزار کن تقلیدی روش،اکتا دینے والی یکسانیت،گڑے مُردے
اکھاڑنے کی بھیڑ چال،قاری کو خون کے آنسو رُلا دینے والی تاریخ نگاری ،آثار
قدیمہ کی خشک لفظی مرقع نگاری،اصلاح پسندی،مقصدیت اور تعمیر و ترقی کی بے
وقت کی راگنی سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ابن انشا کے بعد اردو
سفر نامے میں مواد کے اعتبار سے ایک اچھوتا اور دل کش جہانِ معنی دکھائی
دیتا ہے ۔سفر نامے کی کہکشاں کے چند اور تابندہ ستارے درج ذیل ہیں:
بیگم اختر ریاض الدین:دھنک پر قدم (1969)
عطا الحق قاسمی :شوقِ آوارگی
کرنل محمد خان : بسلامت روی (1975)
ممتاز مفتی (پیدائش گیارہ ستمبر 1905،وفات: ستائیس اکتوبر 1995) : لبیک
شیخ منظور الٰہی :در دل کشا ،نیرنگِ اندلس
مختا ر مسعود : سفر نصیب
اشفاق احمد : (پیدائش :بائیس اگست ،: 1925 ،وفات سات ستمبر 2004 )سفر در
سفر
محمد کاظم: مغربی جرمنی میں ایک برس
رضا علی عابدی:جرنیلی سڑک
قیام پاکستان کے بعد یہاں اردو ادب کے فروغ کی مساعی میں اضافہ ہو گیا ہے
۔با صلاحیت تخلیق کاروں نے تخلیقی ادب کو متعدد نئی جہات سے آشنا کیا ہے
۔یہ امر خوش آئند ہے کہ اس وقت اردو کے زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار
اسلوبیاتی تنوع اور شگفتہ بیانی کو مناسب اہمیت دے رہے ہیں۔ اردو نثر میں
سوانح نگاری ،خود نوشت ،سفر نامہ اور خاکہ نویسی ،جیسی اصناف کی مقبولیت سے
یہ واضح ہو تا ہے کہ تخلیقی سطح پر زندگی کی حرکت و حرارت کو ملحو ظ رکھا
جا رہا ہے ۔ زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ کی خاطر کی جانے والی ان کاوشوں
کے قومی کلچر پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہو ں گے ۔جہانِ تازہ کی جستجو میں
تخلیق کار افکار تازہ پر انحصار کر رہے ہیں۔اہل نظر نے تازہ بستیاں آباد
کرنے کاعزم کر رکھا ہے جس کا پر تو اظہار و ابلاغ ،تہذیب و معاشرت ،رہن سہن
اور ادب و فنون لطیفہ میں صاف دکھائی دیتا ہے ۔اردو زبان میں جن ممتا
زادیبوں نے سفر نامے لکھ کراردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ہے ان میں سے
کچھ اہم نام درج ذیل ہیں :
آصف محمود ،اعجاز مہاروی ،اے ۔بی اشرف ڈاکٹر ،احمد شجاع پاشا ، اختر ریاض
الدین، ابن انشا ،امجد اسلام امجد ، امجد ثاقببشریٰ رحمٰن ، تقی عثمانی
،جمیل الدین عالی ، حکیم محمد سعید ،حسن رضوی ،حسین احمد پراچہ ڈاکٹر ،حنا
یعقوب ،خواجہ ممتاز احمد تاج ،ڈاکٹر عباس ،ذوالفقار احمد تابش ،رفیق ڈوگر
،رضا علی عابدی ،ریاض الرحمٰن ساگر ،سلیم اختر ڈاکٹر ،سعیدآسی ،سعید شیخ
،شاہد حسین بخاری ڈاکٹر ،ضمیر جعفری سید ،ظہیر احمد بابر ، عطیہ فیضی ،عطا
الحق قاسمی ،عنایت اﷲ فیضی ،عزیز علی شیخ ،علی سفیان آفاقی،عبدالرؤف ڈاکٹر
، عبدالرحمٰن خواجہ ڈاکٹر ،عبدالحمید ،عبدالر حمٰن عبالہ ،غازی صلاح الدین
،فرخندہ لو دھی ،فرید احمد ،فوزیہ صدیقی ،قمر علی عباسی ،کوثر نیازی ،کرنل
محمد خان ،کشور ناہید ،کوکب خواجہ ،محمد حمزہ فاروقی ،محمد اعجاز ،مسکین
علی حجازی ،محمد اختر ممونکا ،محمد توفیق ،محمد حسن صدیقی ،محمد لطف اﷲ
خان،مستنصر حسین تارڑ ،مسعود قریشی ،مسرت پراچہ ،مہر عبدالحق ڈاکٹر ،ناصر
ناکاگاوا ،نصیر احمد ناصر ڈاکٹر اور نیلم احمد بشیر ۔
پاکستان میں قمر علی عباسی نے سفرنامہ نگاری پر بہت توجہ دی اوربڑی تعداد
میں سفر نامے لکھے ۔ان کی سفر نامہ نگاری نے انھیں شہرت عام اور بقائے دوام
کے دربار میں اعلا مقام عطا کیا۔وہ شفیق الرحمٰن ،کرنل محمد خان ،ابن انشا
اور مجتبیٰ حسین کے اسلوب کو پسند کرتے تھے ۔ قمر علی عباسی نے درج ذیل سفر
نامے لکھے :
لندن لندن،دلی دور ہے ،چلا مسافر سنگا پور ،امریکہ مت جائیو ،برطانیہ چلیں
،واہ برطانیہ ،ایک بار چلو وینس ،نیل کے ساحل ،بغداد زندہ باد ،لر نا کا
آیا ،لا پیرس ،قرطبہ قرطبہ ،جاناں سوئٹزر لینڈ ،اور دیوار گرگئی ،ترکی میں
عباسی ،کینیڈا انتظار میں ،شو نار بنگلہ ،ماریشس میں دھنک ،میکسیکو کے میلے
،سنگاپور کی سیر ،عمان کے مہمان ،صحرا میں شام ،سات ستارے صحرا میں ،شام
تجھے سلام ،ہندوستان ہمارا ،لنکا ڈھائے ،ساحلوں کا سفر ،ناسو ہرا ہے ،ذکر
جل پری کا ،ہوا ہوائی
اردو میں پہلی خاتون سفر نامہ نگار عطیہ فیضی ہیں ۔انھوں نے 1906میں حصول
علم کے سلسلے میں بر طانیہ کا سفر کیا ۔ ایک سال بعد جب وہ اپنی تعلیم مکمل
کر نے کے بعد واپس آئیں تو اپنی یادداشتوں کو ’’روزنامچہ ‘‘کے عنوان سے
مرتب کیا جو مجلہ ’’تہذیب النسواں ‘‘لاہور سے اگلے سال شائع ہوا۔اس کے
بعدعطیہ فیضی کا یہ سفر نامہ 1921میں ’’زمانۂ تحصیل ‘‘ کے نام سے منظر عام
پر آیا ۔آج سفر نامہ اردو ادب کی ایک مقبول صنف ہے اور اب تک ارد ومیں چار
سو سے زائد سفرنامے لکھے جا چُکے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ اس صنف ادب کے
بنیاد گزاروں کے نام یاد رکھے جائیں اور ان کی علمی و ادبی کامرانیاں بھی
قارئین کے ذہن میں رہیں ۔ارد وکے ممتاز شاعر رام ریاض ( ریاض احمد شگفتہ
)نے کہا تھا :
کس نے پہلا پتھر کا ٹا پتھر کی بنیاد رکھی
عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے
دنیا کے مختلف مقامات کے بارے میں خوب صورت الفاظ کے بر محل استعمال سے
ناصر ناکاگاوا نے جو لفظی مرقع نگاری کی ہے اس کے اعجاز سے قاری چشمِ تصور
سے وہ تمام مقامات دیکھ لیتاہے جن کا احوال ان سفر ناموں میں بیان کیا گیا
ہے ۔تخلیق کار کے ذہن اور روح کے جملہ تاثرات اسے ان مقامات تک پہنچادیتے
ہیں اور وہ ان کی سیر سے خوب حظ اُٹھاتا ہے ۔ناصر ناکاگاوا نے اپنے منفرد
اوردل کش تجربات،مشاہدات اور جذبات و احساسات کو اس حسین اور دل کش
اندازمیں اپنے سفر ناموں میں پیش کیا ہے کہ قاری ان کے مطالعہ سے نشاط کی
گھڑیاں تلاش کر لیتا ہے۔ان کی تحریر کا اہم وصف یہ ہے کہ وہ اپنے سفر ناموں
میں حسین لفظی مرقع نگاری سے صرف اہم مقامات کا حقیقی منظر نامہ ہی نہیں
دکھاتے بل کہ ان تمام مقامات کا تاریخی پس منظر بھی ان کا اہم موضوع بن
جاتا ہے۔ اقوام و ملل کے عروج و زوال پر ان کی گہری نظررہتی ہے ۔وہ اس
تاریخی صداقت کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں
اقوام اور ملل کا کروفر ،رعب و دبدبہ شوکت،سطوت ،ہیبت،قوت اورجاہ و جلال تو
خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتا ہے مگر تہذیب پر کبھی آنچ نہیں آتی۔ موجودہ
دور میں کوئی با شعور شخص قصرِ فریدوں یا درِ کسریٰ پر صدا نہیں کرتا ۔ہر
شخص اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ یہ بوسیدہ کھنڈرات جن میں کرگس ،شِپر
اور چغد کے غول کے غول گُھس گئے ہیں ، اب اس قدر بے وقعت ہو چکے ہیں کہ لوگ
ان کی نحوست سے پناہ مانگتے ہیں ۔ناصر ناکاگاوا نے اپنے سفر ناموں میں اپنی
تہذیبی میراث کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔ مشرقی تہذیب
کو سمے کے سم اور طوفانِ مغرب کے مہیب بگولوں نے جو ناقابلِ تلافی نقصان
پہنچایا ہے اسے دیکھ ناصر ناکاگاوا کو دلی رنج ہے ۔مغرب اور مشرق کے تہذیبی
،ثقافتی ،معاشی ،سماجی اور معاشرتی زندگی کے تضادات،اختلافات،بے اعتدالیوں
اور کجیوں کو دیکھ کر وہ اپنے رنج و کرب کا بر ملا اظہار کرتے ہیں۔یورپ کی
طاقت ور اقوام کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کے باعث مشرق کی پس ماندہ اور کم
زور اقوام پر جو کوہِ ستم ٹوٹا ہے اس کی وجہ سے اہلِ مشرق کی زندگی کی تمام
رُتیں ہی بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں۔وہ اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ مشرق کے
مکینوں کو مغرب کی بھونڈی نقالی کے بجائے اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ سیکھنا
چاہیے۔جب تک وہ ا حساسِ کم تری سے نجات حاصل نہیں کریں گے وہ دنیا میں عزت
اور وقار کی زندگی بسر نہیں کر سکیں گے۔ عالمی تاریخ کے مختلف ادوار کے
سانحات اور تلمیحات کے حوالے سے ناصر ناکاگاواکے سفرناموں کا ایک ایک لفظ
گنجینۂ معانی کا طلسم ثابت ہوتا ہے۔اپنے فہم و ادراک کو رو بہ عمل لاتے
ہوئے انھوں نے اپنے سفر ناموں میں اصلاح اور مقصدیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے
اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی تجسیم اس مؤثر انداز میں کی ہے کہ قاری فکر وخیال
اورحیرت و استعجاب کی نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے ۔
اپنے سفر کے تجربات کو حسین اور دل کش انداز میں ادبی چاشنی کے امتزاج سے
پیش کرنا ایک با کمال سفرنامہ نگار کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ ادب میں
سفرکو ہمیشہ کو ایک استعارے کی حیثیت حاصل رہی ہے ۔سفر کاذکر صحیفوں ،رزمیہ
داستانوں اور متعدد فن پاروں میں موجود ہے ۔تاریخ ،جستجو اور مہم جوئی کے
ساتھ سفر نامے کا گہر ا تعلق ہے۔سفرنامہ نگار کے کے تجربات،مشاہدات،قلبی و
روحانی کیفیات اور سفر کی مشکلات سب سمٹ کر سوانح عمری کی شکل اختیار کر
لیتے ہیں۔اس کے مطالعہ سے قاری مصنف کی شخصیت کے سر بستہ رازوں سے آگہی
حاصل کر سکتا ہے ۔سفر اور سیر و سیاحت کے احوال پر مبنی یہ تحریریں قارئین
میں وسعت نظر پیدا کرنے کا موثر وسیلہ ثا بت ہوتی ہیں۔ناصر ناکاگاوا نے
فلپائن کے سفر کا احوال نہایت دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔تحریر کی جاذبیت
کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے:
’’ جس طرح پاکستانی مرد پوری دنیا کا داماد ہے اسی طرح فلپائینی خاتون کو
بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پوری دنیا کی بہو ہے ۔پاکستانی مردوں اور
فلپائینی خواتین میں کئی خصوصیات مشترک ہیں مگر کچھ تضاد کے ساتھ ، مثلاََ
پاکستانی مرد اپنے خاندان یعنی بہن بھائی اور والدین کے لیے کسی بھی قسم کی
قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے اور ان کے روشن مستقبل کی خاطر اپنا مستقبل
داؤ پر لگا کر پردیس کا رخ کرتے ہیں اور پھر ساری زندگی اپنے خاندان کی
خواہشات کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں، جب کہ پاکستانی خواتین پردیس جانا پسند
نہیں کرتیں اور گھروں میں رہ کر حکمرانی کرتی ہیں۔یہی حال فلپائینی خواتین
کا ہے کہ وہ بھی اپنے بہن بھائیوں اور والدین کی خوشیوں کی تلاش میں ہمیشہ
سرگرداں رہتی ہیں مگر ان کے مرد زیادہ تر ملک میں ہی رہتے ہیں اور گھروں
میں پڑے مردانگی دکھاتے رہتے ہیں ۔پاکستان کو ملنے والا خطیر زرِ مبادلہ
پاکستانی مردوں کا مرہونِ منت ہے تو فلپائین کو ان کی خواتین زرِ مبادلہ
مہییا کرتی ہیں۔‘‘
مسافر کاانداز ِ بیان ،سفرکی تیاریاں ،دورانِ سفر پیش آنے والے مسائل
،مسافرت کے نشیب و فراز اور مسافر کا صبر و تحمل اور برداشت سب مِل کر
تحریر کو جام ِ جہاں نام بنا دیتے ہیں۔سفر کا شوق ،قابل دید مقامات میں
دلچسپی،سیاحت کے لیے منتخب ملک کے عوام کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ
محبت کے معجز نما اثر سے سفرنامہ ایک قابل، قدر ادبی تخلیق کا درجہ حاصل کر
لیتا ہے ۔جاپان کے باشندوں کے رہن سہن اور دیگر مشاغل کا ذکر رکتے ہوئے
ناصر ناکا گاوا نے جاپانیوں کی جانوروں سے محبت اور صفائی میں جاپانیوں کی
دلچسپی کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
جاپان میں جانور پالنے کا بھی لوگوں کو بہت شوق ہے مگر جانوروں میں کتے اور
بلی زیادہ پالے جاتے ہیں وہ بھی فلیٹس یا اپارٹمنٹس وغیرہ میں نہیں بلکہ
عام گھروں میں پالنے کی اجازت ہے ۔ کتوں کو صبح و شام باہر کی سیر بھی
کروائی جاتی ہے اور کسی بھی جانور کا مالک یا مالکہ جب اپنے پالتو کتے کو
لے کر باہر جاتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ایک کھرپی اور پلاسٹک کی تھیلی بھی
ہوتی ہے جو کتے کی حاجتِ فطرت کے بعد میں استعمال کی جاتی ہے اور کتے کے
مالک یا مالکہ اس کے فُضلے کو تھیلی میں بند کرکے اپنے گھر واپس لاتے ہیں
اور اسے کچرے کے ساتھ ضائع کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔پورے جاپان بھر میں
کہیں پر بھی کچرے کے ڈھیر اور مکھیوں سے بھنبھناتے کچروں کے مخصوص مقامات
کو نہیں دیکھا جاسکتا ، کوڑا کرکٹ کے لیے مختص کیے گئے مقامات بھی اتنے صاف
ستھرے ہوتے ہیں کہ اسے دیکھ کر تصور کرنا محال ہے کہ یہاں کچرا پھینکا جاتا
ہے۔‘‘
کسی نے سچ کہا تھا کہ ہزار ہا میل کا سفر بھی پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے ۔اس
لیے شاہراہِ حیات کے آبلہ پا مسافروں کو مضمحل ہونے کے بجائے سرکے بل چل کر
منزل مقصود کی جانب اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے کیونکہ وہاں گُلِ مُراد ان
کے منتظر ہیں۔جب کوئی سیاح اپنی سیر و سیاحت اور سفر کی روداد قلم بند کرتا
ہے تو وہ در اصل تاریخ کے ایک خاص دور اور علاقے کے مخصوص ماحول کے بارے
میں چشم دید واقعات کو محفوظ کر لیتا ہے ۔ یہ معلومات مستقبل کے محقق اور
مورخ کے لیے اہم بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے
سفرنامے ایسا دائرۃ المعارف ہیں جن کے مطالعہ سے قاری کسی خاص خطے کی تہذیب
و ثقافت اور تمدن و معاشرت کے بارے میں تمام حقائق سے آگاہ ہو جاتا ہے
۔ناصر ناکاگاوا کے سفر نامے جہاں ان کی تخلیقی فعالیت ،تخیل کی جو لانیوں
اور اظہار و ابلاغ پر قدرت کے مظہر ہیں وہاں یہ اپنے دامن میں آداب معاشرت
کا گنج گراں مایہ بھی لیے ہوئے ہیں۔کوریا کے سفر اور وہاں کے طعام کا ذکر
کرتے ہوئے ناصر ناکا گاوا نے لکھا ہے :
’’میں اس علاقے میں بے مقصد گھومتا رہا اور رات گئے ایک کورین ریستوران میں
داخل ہوا اور کورین معروف ڈش YAKINIKU بھنا ہوا گوشت کھایا جو جاپان میں
بھی بہت مقبول ہے۔ کھانے میں گوشت کے علاوہ تازہ سبزیوں کی بھر مار تھی جس
میں میری پسند کی ہری مرچی کی تعداد بھی کافی تھی اور میرے سامنے ایک میز
سجادیا گیا۔ ریستوران کی ایک خاتون اپنے ہاتھوں سے تازہ گوشت خصوصی قینچی
سے کاٹ کاٹ کر انگیٹھی پر سینک کر میری پلیٹ میں رکھتی گئی۔ ایسی سروس
جاپان میں نہیں ہوا کرتی اگر میسر آبھی جائے تو وہ انمول ہوتی ہے ۔آخری میں
کورین کیمُوچی مرچی والا سوپ پیش کیا گیا جس میں سفید اُبلے ہوئے چاول بھی
تھے۔ مجھے پُوری میز صاف کرنے میں کوئی ایک گھنٹہ لگا ۔میرا خیال تھا کہ
یہاں اتنی مہنگائی نہیں ہوگی مگر جب ادائیگی کا وقت آیا تو پتا چلا کہ
جاپان سے بھی کچھ مہنگا کھانا تھا لیکن نسوانی سروس کا خیال آیا تو سستا
لگا ۔‘‘
کینیا اور نیروبی کا سفر ناصر ناکاگاوا کے ذوق سلیم کے کئی منفرد پہلو
سامنے لاتا ہے ۔اس سفر کے حالات اور کینیا و نیروبی میں ایک ہوٹل میں کھانا
کھاتے وقت ایک سیاہ فام بیرے کا ذکر کیا گیا ہے جو نہایت مستعد ،خوش اخلاق
اور چاق و چوبند تھا ۔ اس سدا بہار اور پُر اسراربیرے کی خوش اخلاقی، انتھک
خدمات اور حیران کُن حد تک تیزی کے ساتھ احکامات کی بجا آوری کے بارے میں
اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے ناصر ناکاگاوا نے لکھا ہے :
’’جاپانیوں کی طرح سیاہ فام لوگوں کی صحیح عمر کا اندازہ کرنا بھی بہت مشکل
ہے ۔ اسی پھرتیلے بیرے کومیں نے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ بیٹا کتنی عمر
ہے تمھاری ہے؟ اس نے جواب دینے کی بجائے مجھ سے میری عمر پوچھ لی ۔میں نے
کہا کہ 50پلس۔۔۔ تو بے آواز ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا اور قہقہہ لگاتے ہوئے
کہنے لگا کہ میں نہیں، تم میرے بیٹے کے برابر ہو !!میری عمر 79برس ہے !!۔اس
نے خوش ہوتے ہوئے جب مجھ سے مصافحہ کیا تو مجھے اپنا ہاتھ کسی آہنی شکنجے
کی گرفت میں محسوس ہوا ۔ 79سالہ بابا جی اور اتنا طاقتور ہاتھ !!بمشکل مجھے
وہ تیس پینتیس کا لگا تھا۔ میری تعریف کرنے پر وہ بہت خوش ہوا اور میرے لیے
ایک اسپیشل مشروب بطورِ تحفہ پیش کی ۔‘‘
طنزو ظرافت کی آمیزش سے اسلوب میں نکھارپیدا کر کے ناصر ناکاگاوا کی تحریر
میں جوجامعیت،پختگی اور ہمہ گیری پیدا ہوئی وہ جامد و ساکت پتھروں اور
سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا ،منو الیتی ہے ۔ سفرنامے کے بارے
میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ مسافر کی خود کلامی کا ایک دل کش اور منفرد روپ
ہے ۔ مسافراپنے وطن سے دُور ایک بالکل اجنبی ماحول میں اپنی یادوں کو ا
حاطۂ تحریر میں لاتا ہے ۔اپنے دِل کی بات وہ قلم اور قرطاس کے معتبر حوالے
کی صورت میں پیش کر کے حق گوئی کا حسین نمونہ قاری کی نذر کرتا ہے ۔ ناصر
ناکا گاوا کے سفر نامے میں آپ بیتی کا عنصر اس کی اثر آفرینی میں بے پناہ
اضافہ کرتا ہے ۔جاپان کے حجام بالوں کے تراشنے اور حجامت کرنے کا بھاری
معاوضہ طلب کرتے ہیں ۔ناصر ناکا گاوا نے اپنی سر گزشت بیان کر تے ہوئے لکھا
ہے :
’’چند سال بعد جب اپنی موجودہ اور اکلوتی بیگم سے شادی ہوئی تو محدود آمدنی
میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے خلیفہ جی کے پاس جانے پر سب سے پہلے
پابندی عائد ہو گئی کہ صرف چھ ماہ میں ایک بار جایا جائے اور اگر ہر ماہ
جانے کی ضرورت محسوس کریں تو بیگم کی خدمات حاصل کی جائیں یعنی وہی چالیس
سال پہلے والی کہانی پھر دہرائی گئی!! ۔ اس طرح میری بیگم ہمارے آنے والے
دونوں بچوں کے بال خود کاٹنے کے لیے پورا ایک سال تک مجھ پر تجربہ کرتی
رہیں اور انھوں نے ہمیشہ بچوں کے بال ایک تجربہ کار نائین کی طرح کاٹے ہیں
مگر خود باقاعدگی سے بیوٹی سیلون جاتی ہیں کبھی ہمیں موقع نہیں دیا کہ ان
کے بالوں کی سفیدی مجھ پر عیاں نہ ہوجائے۔‘‘
بر عظیم میں سفر نامہ صدیوں سے مقبول صنف ادب کی حیثیت سے ادب کی زینت رہا
ہے۔ باذوق ادیبوں نے ہر عہد میں اپنے سفر ناموں میں وادیٔ خیال کو مستانہ
وار طے کرتے ہوئے متعدد اہم حقائق کی گرہ کشائی کی ہے ۔ تاریخ کے مختلف
ادوار سے وابستہ صداقتوں ،عمارات اور کھنڈرات کے بارے میں اس علاقے کے
باشندوں کی یادیں دلچسپ انداز میں جمع کی ہیں۔ارضی اور ثقافتی حوالے سے
دیکھیں تو متعدد سنسکرت رزمیہ میں بھی سفر نامے موجود ہیں ۔ناصر ناکا گاوا
نے فن کارانہ انداز میں دوران سفر مختلف شخصیات سے ہونے والی ہونے والی
ملاقات ،خاطر مدارات ،بیتے لمحات اور سفر کے معمولات کے بارے میں اپنے
تاثرات اور احساسات کو اپنے سفرناموں میں شامل کیا ہے ۔ یہ بات کسی حد تک
درست ہے کہ سفر کے تلخ تجربات اور کٹھن مراحل اپنی نوعیت کے لحاظ سے عارضی
اور بے ثبات ہوتے ہیں لیکن بیرون ملک سفر سے وابستہ بعض شخصیات سے ہونے
والی ملاقاتوں کی حسین یادیں ایسی پُر کیف ہوتی ہیں جو لوحِ دِل پر انمٹ
نقوش ثبت کرتی ہیں۔ ناصر ناکا گاوا نے اپنے بھارت کے سفر میں تہران
یونیورسٹی میں اردو کی ایرانی پروفیسر محترمہ وفا یزدان مینش صاحبہ سے
ملاقات کی حسین یادوں کااحوال اس طرح بیان کیا ہے :
’’ دورانِ چائے تہران کی ڈاکٹر وفا یزدان کی اردو سننے کو ملی ان کا اردو
لہجہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی انگریز اردو بولتا ہے۔ محترمہ کی با رعب اور
پُر کشش شخصیت اور اردو زبان پر عبور نے مجھے بہت متاثر کیا ۔ اگر میں شادی
شدہ نہ ہوتا یا پھر میرے ازدواجی تعلقات اپنی جاپانی بیوی سے ذرا سے بھی
خراب ہوتے اور محترمہ وفا شادی شدہ نہ ہوتیں یا ان کے اپنے شوہر سے تعلقات
جتنے بھی اچھے کیوں نہ ہوتے تو سمجھ لیجیے کہ میں محترمہ وفا سے پچاس فیصد
شادی کرنے کا فیصلہ کرچکاہوتا، پچاس فیصد اس لیے کہا ہے کہ میری طرف سے ہاں
ہوتی۔‘‘
ناصر ناکاگاوا کے سفر ناموں میں کسی خاص علاقے ،ملک یا سر زمین کے باشندوں
سے ملاقات کا احوال ان سفرناموں کی انفر ادیت کی دلیل ہے ۔اگرچہ یہ مشاہدہ
کسی خاص شہر ،علاقے یا ملک تک محدود ہوتا ہے مگر اس کی وسعت اور اثر آفرینی
لا محدود ہے ۔بے حس معاشرے اور ظالم سماج کی بند آنکھوں کو نمودِ سحر کے
امکانات سے آشنا کرنے کی خاطر ایک دردِدِل رکھنے والا تخلیق کار اپنے ذہن
وذکاوت اور بصیرت و تدبر کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اپنے تجربات اور مشاہدات
کو اُس دیانت ،بے باکی اور جرأت کے ساتھ پیرایۂ اظہار عطا کرتا ہے کہ تحریر
کا ایک ایک لفظ عبرت کا تازیانہ بن جاتا ہے ۔ایک عمدہ سفر نامہ اس دنیا کے
آئینہ خانے میں ہمیں اپنا تماشا دیکھنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ بھارت میں جب
ایک مقامی گائیڈ دہلی شہر کی اہم عمارات کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتا
ہے تو اس موقع پر چشم کشا صداقتوں سے لبریزباتیں قاری کے فکر و خیال کو
مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتی ہیں۔ کئی معاملات ایسے ہیں جن کا تعلق
انسانیت کو درپیش مسائل سے ہے ۔طبقاتی کشمکش اور غریبوں کی بے ثمر زندگی کے
بارے میں یہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن حقائق قاری پر فکر و نظر کے نئے دریچے
وا کر نے کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے۔ان سفرناموں میں راحت اور رنج کا بیان
منفرد صورت میں موجود ہے ۔یہاں یہ امر قابلِ غور ہے کہ راحت اور رنج کا خیر
اور شر سے اساسی تعلق نہیں مگر اس تعلق کو کسی حد تک وقوفی نوعیت کا حامل
سمجھا جاتا ہے ۔وفور مسرت کے عالم میں زیست کی جُملہ فعالیتیں مثبت انداز
میں پروان چڑھتی ہیں۔اس کے بر عکس ہجوم غم میں یاس و ہراس سے دوچار ہونے کے
بعد فرد کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور زندگی کے معائر تحت
الثریٰ میں جا پہنچتے ہیں۔ممتاز شاعر صاحب زادہ رفعت سلطان نے رنج اور راحت
میں پائے جانے والے چولی دامن کے تعلق کے بارے میں کہا تھا :
کیا کہوں رنج ہے کہ راحت ہے
جی رہا ہوں یہی غنیمت ہے
اُردو ادب میں سفر نامہ صدیوں کا ارتقائی سفر طے کرنے کے بعد اب ایک مضبوط
اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر چُکا ہے ۔ماضی بعید کے متعدد سفرنامے
جو اپنے عہد میں مختلف ممالک کے بارے میں معلومات کا مخزن سمجھے جاتے تھے
،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دلچسپی ،دل کشی اور حسن و رعنائی کی چکا
چوند ماند پڑنے لگی ہے ۔اس کا سبب یہ ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے
موجودہ زمانے میں انٹر نیٹ پر دنیا بھر کے ممالک اور اہم مقامات کے بارے
میں معلومات قاری کی دسترس میں ہیں ۔ جدید دور میں سفر نامے کا قاری تاریخی
عمارات،باغات،کھنڈرات،عجائبات،آثار ِ قدیمہ اور جغرافیائی معلومات میں بہت
کم دلچسپی لیتا ہے ۔آج ادب کا قاری نئے اسالیب کا گرویدہ ہے اور نئے افکار
کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجو کو اپنا مطمح نظر قرار دیتا ہے ۔قحط
الرجال کے موجودہ زمانے میں زندگی کی اقدار عالیہ ،درخشاں روایات اور قواعد
و ضوابط کو جس بے دردی سے پامال کیا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں سماج،معاشرے
اور زندگی سے بیزاری ،معاشرے سے اجنبیت اور بے تعلقی بڑھنے لگی ہے ۔ظالم و
سفاک ،مُوذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں سے پس ماندہ ممالک میں
اُجالا داغ داغ اور سحر شب گزید ہو گئی ہے ۔غریبوں اور فقیروں کے حالات تو
اب بھی جوں کے توں ہیں مگر مفاد پر ست بے ضمیروں کے وارے نیارے ہیں۔ اپنے
سفر ناموں میں ناصر ناکا گاوا نے اپنے ذوق سلیم اور انفرادی خصوصیات کے
امتزاج سے زندگی کے تلخ حقائق کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ایک باذوق
سیاح کی حیثیت سے ناصر ناکا گاوا نے جس علاقے کی بھی سیاحت کی، وہاں کے
باشندوں کے طرز زندگی ، معاشرت اور سما جی حالات کے بارے میں تمام حقائق کا
نقشہ الفاظ میں کھینچ کر رکھ دیا۔ سفر ناموں کا قاری چشم تصور سے ان مقاما
ت کے با شندوں کو عملی زندگی میں سرگرم عمل دیکھ کر حیرت زدہ رہ جا تا ہے
۔اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ سب مناظر پہلے ہی دیکھ چکا ہے۔ بعض سیاح
عالِم بن کر سارے عالَم کے حالات بیان کرنا اپنا فرض اوّلین سمجھتے ہیں، اس
کے بر عکس ناصر ناکاگاوا نے ایک مسافر بن کر دنیا کا سفر کیا اوردنیا کی ہر
شے کو مسافر اور ہر چیز کو راہی سمجھتے ہو ئے اس پر اپنی نگا ہیں مر کوز کر
دیں۔دہلی کے سفر میں وہاں کے قابل ِدید مقامات کے متعلق گائیڈ ’’شام جی‘‘کے
ساتھ ہونے والی گفتگو گہری معنویت کی حامل ہے:
’’شام جی ہمیں دہلی گیٹ دور سے دکھاتے ہوئے کہنے لگا کہ دیکھ لو جی یہ دہلی
گیٹ ہے اب ہم آگے جا رہے ہیں اور وہ دیکھو جو بلڈنگ نظر آرہی ہے وہ
پارلیمنٹ ہاؤس ہے ، وہ پرائم منشٹر(منسٹر) ہاؤس ہے اور یہ آپ کے لیفٹ سائڈ
پر آرمی ہاؤس ہے۔ یہ علاقہ بہت ہی خوب صورت اور صاف ستھرا تھا جیسا ہمارا
اسلام آباد۔ جس کی وجہ صاف ظاہر تھی کہ ان عمارتوں میں وقت گزارنے والے عام
لوگ نہیں ہوتے وہ تو خاص لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے غریبوں کا ملک چلانا ہوتا
ہے جنھیں غریبوں اور گندگی سے نفرت ہو تی ہے۔‘‘
اپنے سفر ناموں میں ناصر ناکا گاوا نے قاری کو ہمیشہ روشنی کا سفر جاری
رکھنے پر مائل کیا ہے ۔ ایک وسیع النظر ،عالی ظرف اور حساس سیاح کی حیثیت
سے ناصر ناکا گاوا نے ہر مقام پر اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کیا ہے ۔قاری
انھیں ایک ایسے مخلص ،درد مند ،با وفا اور ایثار پسند سیاح کی حیثیت سے
دیکھتا ہے جو جہاں بھی پہنچا وہاں کے باشندوں سے درد کا رشتہ استوار کرنے
میں کبھی تامل نہ کیا ۔یہ بے ساختگی اور مانوس آہنگ دیکھ کر اجنبی منزلوں
کے مسافر بھی اس سیاح کے قریب آ کر اسے حالِ دِل سنانے کے آ رزومند رہتے
ہیں ۔کئی مقامات پر دِل کے افسانے جب نگاہوں کی زباں تک پہنچتے ہیں تو قاری
یہ سوچنے لگتا ہے کہ اس بار جو بات چل نکلی وہ کہاں تک پہنچے گی لیکن ان
ادھوری ملاقاتوں میں کئی ضروری باتیں تشنۂ تکمیل رہ جاتی ہیں۔قاری یہ سوچتا
رہ جاتا ہے کہ زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ ہی جاتا ہے مگر راہِ
رفتگاں پر چلنے والے مسافر کا پُورا وجود کِرچیوں میں بٹ جاتا ہے ۔ان سفر
ناموں میں زندگی کی برق رفتاریوں ،سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں،تخت و کلاہ و
تاج کے موہوم سلسلوں ، جاہ و حشمت کے مٹتے افسانوں ،اپنی بربادیوں پر جشن
مناتے ہوئے نادانوں اور روزمرہ زندگی کے بکھیڑوں کا حال دیکھ کر قاری محو
حیرت رہ جاتا ہے ۔مغل بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں(پیدائش :سترہ مارچ
1508،وفات:ستائیس جنوری 1556)جو دہلی میں چھبیس دسمبر 1530سے لے کر ستائیس
جنوری 1556تک مسند شاہی پر براجمان رہا ،زندگی بھر ٹھوکریں کھاتا رہا اور
ستائیس جنوری 1556کو سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس کا پاؤں اپنے چغے میں بُری
طرح اُلجھ گیا اور وہ سیڑھیوں سے لڑھکتا ہوا کھردرے پتھر پر سر کے بل آ گرا
اور تین دن موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد عدم کی بے کراں
وادیوں کو سدھار گیا۔ بعض حقیقت پسند مورخ کہتے ہیں کہ ہمایوں زندگی بھر
ٹھوکریں کھاتا رہا اور ٹھو کر کھا کر مرنا اس کا مقدر بن گیا۔ابتدا میں مغل
بادشاہ ہمایوں کا جسد خاکی دہلی کے پرانا قلعہ میں سپرد ِ خاک کیا گیا ۔
سات اکتوبر 1556کو جب ہیمو بقال نے دہلی کی طر ف پیش قدمی کی تو شکست خوردہ
مغل فوج نے فرار ہوتے وقت ہمایوں کی قبر کھودی اور اس کی مدفون لاش لے کر
کلانور پہنچی اور اسے وہاں دفن کیا گیا۔اسی شہر میں ہمایوں کے بیٹے جلال
الدین اکبر کی تاج پوشی کی رسم ادا کی گئی ۔ہیمو بقال کی شکست کے بعد جب
مغل بادشاہ اکبر کی فوج دوبارہ دہلی پہنچی تو ہمایوں کی تدفین دہلی میں اس
نئے مقبرے میں کی گئی ۔ اس مقبرے کی تعمیر کا آغاز سال 1565میں ہوا اور اس
کی تعمیر سات سال میں مکمل ہوئی ہوئی ۔ ہمایوں کے مقبرے کے بارے میں جان کر
قاری کا ذہن ایک غبی،کند ذہن، ابلہ اور بز اخفش قماش کے مسخرے ماشکی نظام
سقے کی طرف جاتا ہے جس نے انسانی ہمدری کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنی جان پر
کھیل کر دریا ئے جمنامیں ڈوبتے ہوئے ہمایوں کی جان بچائی تھی اور اس کے عوض
ایک دن کے لیے تخت دہلی پر براجمان ہوا اور چام کے دام چلا دئیے ۔ بعض
لوگوں کا خیال ہے کہ بچہ سقہ بھی نظام سقہ ہی کی نسل کا ایک شخص تھا
۔ہمایوں کے مقبرے کے نقشے کی تیاری اور اس کی تعمیر اس عہد کے ممتا ز معمار
مراق مرزا غیاث کی نگرانی میں ہوئی ۔ہمایوں کے مقبرے کی طرف جاتے ہوئے
صدیوں کے تحیر کے آئینہ دار ناصر ناکا گاوا کے تاثرات حقیقت نگاری کی عمدہ
مثال ہیں :
’’وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور ہم تینوں خانہ پوری کرتے ہوئے ہر مقبرے کے
پاس ایک دو تصاویر اتارتے اورآگے بڑھتے رہے اس لیے مجھے کچھ اتنا یاد نہیں
کہ فلاں قبر شاہی خاندان کے کس فرد کی تھی اور اسے کس نے اور کب تعمیر کیا
تھا۔ اس سے مجھے غرض بھی نہیں تھی بل کہ میں تو حیران ہو تا رہا کہ اُس
زمانے میں مغل بادشاہوں کے پاس وقت اور دولت کی کتنی فراوانی تھی کہ وہ صرف
ایک مقبرہ یا قبر کی تیاری پر بے دریغ صرف کردیتے تھے۔ مانا کہ آج ا ن
عمارتوں اور مقبروں کو عالمی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے اور بھارت کی سیاحت
کی صنعت کو اس سے بہت فائدہ بھی ہوتا ہوگا ۔ کاش مغل خاندان ان فضولیات کی
جگہ کوئی اسکول، کالج،یونیورسٹی ، ہسپتال یا کوئی ایسی انسانی فلاح و بہبود
کے لیے عمارتیں بنوا جاتے تو آج کا انسان کتنا فیض یاب ہوتا !! میرا خیال
ہے کہ مغل حکمران ایک طرف تو فنون لطیفہ مثلاََ شاعری ،مصوری ،خطاطی،موسیقی
اور فن تعمیر کا بھی ذوق رکھتے تھے اور دوسری طرف انھیں اس بات کا بھی جنون
کی حد تک شوق رہا ہوگا کہ ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی دنیا انھیں یاد
رکھے لیکن شاید انھیں یہ ادراک نہ ہوگا کہ اگر کوئی ہسپتال ،لائبریری یا
تعلیمی ادارہ کی عمارت بھی تعمیر کروا دیتے تو ان کا ذوق ِفن تعمیر بھی
پورا ہوجاتا اور نہ صرف ان کی رعایا بل کہ آج کی عوام بھی اس سے استفادہ
کرتی رہتی اورا پنا نام زندہ رکھنے کا ان کا شوق بھی پورا ہوتا رہتا۔بہ ہر
حال اپنی سوچ کی انہی بھول بھلیوں سے نکلا تو احساس ہوا کہ ہم ایک اوربڑے
دروازے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں فواروں سے گزر کر ہمایوں کے مقبرے میں داخل
ہو گئے جو اونچائی پر ایک وسیع و عریض چبوترے پر محرابی شکل میں تعمیر
کیاگیا ہے اس کے چاروں اطراف محرابی دروازے لگے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘
ناصر ناکا گاوا کے سفر نامے عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں ممد و معاون
ثابت ہو رہے ہیں۔ان سفر ناموں میں موضوعات کا تنوع ،تجربات و مشاہدات کی
وسعت اور موضوعات کا تنوع انھیں ادبی تخلیقات کے ارفع معیار پر فائز کرتا
ہے ۔سفر کے دوران کوہ سے لے کر کاہ تک کوئی چیز ناصر ناکا گاوا کی دُوربین
نگاہوں سے اوجھل نہیں رہتی۔مثال کے طور پر جاپان کے حجام اور دندان ساز کے
بارے میں دی گئی معلومات قاری کے لیے جہاں حیرت و استعجاب کا سبب بنتی ہیں
وہاں انھیں پڑھ کر مصنف کی فکری اپج اور باریک بینی کا بھی قائل ہو جاتا ہے
۔دورانِ سفر ایک فطین سیاح کی حیثیت سے ناصر ناکا گاوا نے اپنے اشہبِ قلم
کی جولانیاں اس خوش اسلوبی سے دکھائی ہیں کہ قاری چشمِ تصور سے ان تمام
مقامات اور افراد کو دیکھ لیتا ہے جن کا مصنف نے ذکر کیا ہے ۔دلچسپیوں اور
موضوعاتی تنوع سے لبریز یہ سفر نامے قاری کو مسرت اور تفریح فراہم کرنے کا
موثر وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔نئے مقامات ،نئے کردار،نیا ماحول ،نئی تہذیب و
ثقافت ،نیا تمدن و معاشرت اور سب سے بڑھ کر نیا اسلوب قاری کے ایک ایسا
انوکھا تجربہ ہے جو اسے ایک نئی دنیا میں پہنچا دیتا ہے ۔جبرِ مشیت کو سہنے
والی الم نصیب دکھی انسانیت کے اس درد آشنا کی شگفتہ تحریر یں پڑھنے کے
بعدآلامِ روزگار کی گرد قاری کی چشمِ پُر آب سے بہنے لگتی ہے ۔غم کی موسلا
دھا ر بارش بھی مسافر کی مسافت کے نقش پا کو دھو نہیں سکتی۔بے لوث محبت
،خلوص اور دردمندی کے اس سفیر نے اپنے اسلوب سے قارئین کے دلوں کو ایک
ولولۂ تازہ عطا کیا ہے ۔ دنیا بھر میں ناصر ناکا گاوا کی طلسمی شخصیت کے
لاکھوں مداح موجود ہیں جو ان سفر ناموں کو پڑھنے کے بعد اجنبی منزلوں
،رفتگاں کی یاد اور بیتے وقت کے تذکروں میں کھو کر پکار اُٹھتے ہیں:
ہم آندھیوں کے بن میں کسی کارواں کے تھے
جانے کہاں سے آئے ہیں جانے کہاں کے تھے
اب خا ک اُڑ رہی ہے یہاں انتظار کی
اے دِل یہ بام و در کسی جانِ جہاں کے تھے
مہم جوئی ،تحیر اورتجسس کے امتزاج سے ناصر ناکا گاوا نے اپنے سفرنامے کو
قابل مطالعہ مواد سے ثروت مند بنایا ہے۔ان کے مطالعہ سے قاری ہر لحظہ نیا
طُور نئی برق تجلی والی کیفیت سے آ شنا ہوتا ہے اور اس کی دلی تمنا ہوتی ہے
کہ مرحلۂ شوق ابھی طے نہ ہو ۔قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل دکھانا اس وسیع
المطالعہ تخلیق کار کا امتیازی وصف ہے ۔سفرنامے کی رنگینیوں اور رعنائیوں
میں کھوئے ہوئے متجسس قا رئین کو مصنف کی یہ مانوس صداسنائی دیتی ہے کہ
بڑھے چلو کہ ابھی نشاط دیدہ و دل کے گھڑی دور ہے ،چلے چلو کہ منزل تک
پہنچنے میں ابھی کچھ وقت اور لگے گا ۔اے رہروانِ وفا ابھی تو سیکڑوں دورِ
فلک آنے والے ہیں ،رحیل ِ کارواں کی آواز تو سنو جو تمھیں سوئے منزل قدم
بڑھانے پر مائل کر رہی ہے ۔قاری ان سفرناموں کو پڑھنے کے بعد مصنف کے
تخلیقی مقاصد کی تہہ تک پہنچ جاتاہے جو ایک واضح پیغام ہے:
اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
نفسِ سوختۂ شام و سحر تازہ کریں |