شلوار اور لُنگی

شارجہ میں پولیس نے گشت کے دوران ایک شخص کو لنگی پہننے کے جرم میں گرفتار کر لیا اور اس سے تفتیش شروع کر دی۔پولیس افسران کا کہنا تھا کہ لوگوں سےیہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوام میں شائستہ لباس پہن کر باہر آئیں۔ جبکہ اس شخص کا واویلاتھا کہ لنگی نے مجھے اوپر سے نیچے تک ڈھانپ رکھا تھا۔ میری ٹانگیں مکمل طور پر ڈھکی ہوئی ِ تھیں۔ لُنگی میرے آبائی وطن کا روایتی لباس ہےجسےاسے عام پہنا جاتا ہے۔پھر یہ غیر شائستہ کیسے ہوئی۔۔؟
شلوار اور لنگی،جن کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں کوئی تال میل نہیں پھر بھی ایک دوسرے کے حریف ہیں۔

دونوں ایشیائی لباس کا حصہ ہیں۔ شلوار تو قومی لباس کے آدھے حصے میں بھی شامل ہے۔ یہ دونوں خود مشہور ہوئے کہ نہیں پر ان کی بدولت ان کے جوڑی دار خوب مشہور ہو ئے۔شلوار کے ساتھ کئی طرح کے کُرتے فروغ پا گئے۔کئی طرح کی اونچی، نیچی، لمبی، چھوٹی قمیضیں فیشن میں آ گئیں۔ اِدھر لنگی دراصل ایک مسکین سا لباس ہی رہی، جس کے ساتھ چاہے کرتا پہن لو یا قمیض اور بنیان کے ساتھ بھی باکمال، جبکہ بڑے بڑے لوگ سیاستدان، افسروں، تھانیداروں کا گھروں میں تخلیے میں یہ بے تکلف سا حلیہ ہے۔ اوران سے بھی بڑھ کر شاعر حضرات کا پسندیدہ لباس ہے بنیان اور لنگی۔ حالانکہ یہ مشہور لوگ اسے چھپ کر پہنتے ہیں ۔سر ِعام پہننے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے گھروں پر کوئی اچانک چھاپہ مار لے تو یہ چھپنے لگتے ہیں یا اسے بدلنے کے لیے دو چار منٹ کے لیے ادھر ادھر ہونے لگتے ہیں۔ دراصل لنگی کے ساتھ ان کی پُر رعب شخصیت کا گراف کچھ نیچے آ جاتا ہے۔ حالانکہ لنگی میںبھی کافی ورائٹی آئی۔ ڈبیوں والی، چارخانوں والی، لائنوں والی،جاپانی لیڈی نے بھی اسے اپنے حسیں گداز بدن کا پہناوا بنایا۔ اور گھبراہٹ میں آدھے کی بجائے پورے جسم کی زینت بنا لیا۔ مگر کپڑا چونکہ محدود تھا اس لیے یہ لباس کافی چست بنا کہ اسے چلنا مشکل ہو گیا کیونکہ اسے پہن کر وہ جاپانی حسینہ، انجمن کی طرح چھلانگیں نہیں مار سکتی تھی۔ تبھی تو اسے پھولوں کو بھی اپنے پہناوے میں شامل کرنا پڑا اور چہرے پر اک ملکوتی مسکراہٹ سائیو نارا سائیو نارا کرکے لانی پڑی۔ سو ادھر ادھر کے مانگے لوازمات سے اس لنگی نما لباس کی عزت رکھنی پڑی۔

ویسے سری لنکا کے لوگوں کی لنگی بڑا متاثر کرتی ہے جسے وہ مچھیروں کی طرح اتنا اونچا باندھ لیتے ہیں جیسے ہر وقت شٹرپ شٹرپ پانی میں سے گزر رہے ہوں اور بنگالی بھائیوں کا تو یہ پسندیدہ لباس ہےجسے وہ مچھلی اور چاول کی مرغوب غذا کے ساتھ خوب پسند کرتے ہیں۔ وہاں بنگالی خواتین جتنا خوش ہو کر ساڑھی پہنتی ہیں، مرد سرعام اتنی ہی بے تکلفی سے لنگی پہنتے ہیں۔ ساڑھی اور لنگی کافی ملتے جلتے لباس ہیں۔ویسے اگر ایک ساڑھی کو درمیان سے کاٹ دیا جائے تواس سے دو لنگیاں بآسانی تیار ہو سکتی ہیں ۔ پھر مردوں کے لیے اس کے ساتھ زمین پر کھانا کھانے کے لیے بیٹھنا بھی کتنا آسان ہے۔ جبکہ پتلون والا زمین پر بیٹھنے میں کتنی تردد کرتا ہے۔ سو طرح کے بہانے بناتا ہے۔ کہ مجھے بھوک نہیں، پیٹ بھرا ہوا ہے۔ اور بھوکا ہو کر بھی بھوکے نہ ہونے کا ناٹک کرتا ہے۔

لنگی پہن کر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ ورزش کی جا سکتی ہے۔ یوگا کے آسن لگائے جا سکتے ہیں۔ پھسکڑی ماری جا سکتی ہے۔بس کراٹے کرنے والوں کے لیے یہ لباس خطرے سے خالی نہیں۔

ویسے کہنے میں کیا حرج ہے۔ اپنی جگہ دونوں ہی نیم عریاں لباس ہیں۔ اگر شلوار کو عزت دار بنانے کے لیے قمیض نہ ملتی اور لنگی کو بنیان جیسی ساتھی نہ ملتی تو دونوں ہی فحش کیٹیگری میں آ جاتے۔

کہتے ہیں جب سکندر اعظم کی فوجیں برصغیر میں آئیں تو اپنے ساتھ مختلف طرح کے کھانے اور لباس کے انداز لائیں جن میںبھیڑکا نمکین گوشت اور قمیض کے ساتھ شلوار چلی آئی۔جب وہ واپس گیا تو اس کے اکثر فوجی اسی علاقے میں رہ گئے ،یہیں مقامی لوگوں سے انھوں نے شادیاں کرلیں تویوں ان کے کھانے اور لباس بھی مقامی لوگوں میں رچ بس گئے۔تو سکندر بھیا شلوار کو دوام بخشنے کا سہرا تمہارے سر ٹھہرا۔۔شلوار پاکستان کے علاوہ عرب ممالک میں بھی کافی مشہور ہے۔ خاص طور پر بیلی ڈانس کرنے والی پر تو خوب جچتی ہے۔ ایک دوست خوب فیشن کی دلدادہ تھی۔ ایک بار اس نے ٹیلرسے سوٹ سلوایا تو اسے بتا بتا کر اپنی شلوار نئے طریقے سے ڈیزائن کروائی۔ جب تیار شدہ شلوار ٹرائل کے لیے پہن کر آئی تو سب کا ہنستے ہوئے برا حال ہو گیا وہ کوئی عربی رقاصہ لگ رہی تھی۔ شلوار میں ڈھیر سارا کپڑا علیحدہ کھپ گیا تھا اور چنٹیں ہی چنٹیں نظر آ رہی تھیں۔ اسی طرح کی ایک اور دلچسپ شلوار فلم پریم روگ میں پدمنی کولہا پوری نے پہنی تھی۔ گانا چل رہا تھا،
محبت ہے کیا چیز ہم کو بتاؤ
یہ کتنے سروں کی ہمیں بھی سناؤ

اس میں وہ جو شلوار کا پہناوا پہنے نظر آئی تو اس کی ٹانگیں مرغی جیسی لگ رہی تھیں جسے دیکھ کر یقینا فلم بین بھی سوچتا ہو گا،
یہ پہنی ہے کیا چیز ہم کو بتاؤ
یہ کتنے گزوں کی ہمیں بھی بتاؤ

خیر اس کے بعد تو خوب شلوار فیشن آئے، پٹیالہ شلوار، بیلٹ شلوار، پنجابی شلوار، دھوتی شلوار وغیرہ وغیرہ، شلوار کے بالمقابل چوڑی دار پاجامہ آیا۔ ٹراؤزر، غرارہ، شرارا، کی صورت نئے نئے مقابل سامنے آئے مگر شلوار جتنے مشہور نہیں ہو سکے۔ پاکستان کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک پنجابی سے پٹھان، سندھی سے بلوچی تک سب ہی شلوار کے دلدادہ ہیں۔ بس اپنی علاقائی ثقافت دکھانے کے لیے اوپری لباس پر زور لگا دیتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہیں شلوار کھلی ہے اور کہیں تنگ۔۔! جیسے پٹھان کی شلوار اسکے مزاج کے الٹ کھلی کھلی ملے گی۔ یوں شلوار چاروں صوبوں میں نظر آتی ہے جبکہ لنگی صرف پنجاب میں۔ لیکن اس سے یہ مت سمجھیے گا کہ لنگی پہننے والوں کا تناسب کم ہو گیا ہے۔ ہرگز نہیں اب دیکھیں نا اگر سیاستدان شلوارسے شغف فرماتے ہیں تو اُدھر فردوس، نغمہ، رانی، عالیہ، آسیہ سے لے کر انجمن، ریما، صائمہ پنجابی فلموں کی ہیروئن لنگی نما لاچا پہنتی رہی ہے۔

لنگی وہ کپڑا ہےجسےکمر سے لے کر گھٹنوں یا پنڈلیوں تک باندھتے ہیں۔ یہ ریشم یا سُوتی کپڑے سے بنائی جاتی ہے اور اسے کمر کے گرد باندھا جاتاہے۔ بھارت، پاکستان اور بعض دوسرے جنوب ایشیائی ممالک میں مرد حضرات اور بعض علاقوں میں خواتین بھی لنگی پہنتی ہیں۔لاچا، لنگی ، دھوتی ، چادر یہ سب ایک ہی برادری سے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ لاچا مذکر ہے اور لنگی مونث، فلموں میں عورت مذکر پہن رہیہے اور مرد مونث، اور معاشرے کو بھی اس پہ چنداں اعتراض نہیں۔۔جبکہ عورت کے پتلون پہننے پر ہوہو ہاہا کار مچ جاتی ہے۔۔ اب دیکھیں نا، لاچا پہن کر انجمن نے کھیتوں میں کتنے کدکڑے لگائے ہیں ، کتنی فصلیں تباہ کی ہیں۔اور سلطان راہی نے لنگی پہن کرگنڈاسہ اٹھایا ہے، بڑکیں ماری ہیں اور بہتوں کے ٹوٹے کیے ہیں۔

لنگی کے تو اور بھی ہزار فوائد نکلے۔ ایسا لباس جسے کاٹنا سینا پرونا بھی نہیں پڑتا۔ ادھر بازار سے لائے ادھربندہ پہننے کو تیار، بوقت ضرورت بسترپر بچھ سکتی ہے۔ سر پر ڈالی جا سکتی ہے۔ چھتری کی طرح تانی جا سکتی ہے۔سر پر باندھنے کا صافہ بنا دیا جاتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر جب کوئی دوسرا کپڑا دستیاب نہ ہو رہا ہو تو فورا لوگ اسے استعمال میں لے آتے ہیں۔ اس کے چار کونے گرہیں باندھنے میں بڑے کارآمد ہیں۔ اسی لیے دھوبی جب بھی گندےکپڑے لینے آتا ہے تو باقی کپڑے اس لنگی نما چادر میں لپیٹ کر فورا گٹھڑی بنا لیا ہے۔ یقین نہ آئے تو آئندہ اسے کہہ دیکھیے کہ صاحب کی پتلون میں کپڑے باندھ کے لے جائے یا بیگم صاحبہ کے شرارے میں میلے کپڑے باندھ لے۔

ویسے سمجھا جاتا ہے کہ لنگی ایک دیہاتی پہناوا ہے۔ تو کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ شہر میں آپ کو لنگی پہننے والوں کا تناسب ذرا کم نظر آئے گا اوردیہات میں زیادہ، وہاں اس کے دلدادہ اور دلدار زیادہ ملیں گے۔ کچھ لوگ اس سے اتنے مانوس اور بےتکلف ہیں کہ لنگی کے لٹکتے سرے کو پکڑ کر اس سے بھی کوئی نہ کوئی کام لے لیتے ہیں۔ جیسےہاتھ منہ پونچھ لیے، منہ دیکھنے کے لیےآئینہ پکڑ کر صاف کر لیا، اور نہیں تو اس سے بچے کی بہتی ناک صاف کر دی ۔پھراس کی ڈب اک خفیہ تجوری کا کام دیتی ہے ۔ کچھ مہربان اسی سرے میں روپے لپیٹ کر جلدی سے اسے اڑس لیتے ہیں۔

لنگی کی ایک اور قسم ہمسایہ ملک کی ہندی فلموں میں بھی نظر آتی ہے اور ان کے ٹی وی ڈراموں میں بھی۔ جو کچھ ایسے انداز، بھول بھلیوں کی طرح نظر آتی ہے کہ فلم بین کہانی چھوڑ کر اس لنگی کو پہننے کا طریقہ سوچنے لگتا ہے۔ کمال کی بات ہے کہ اس طرح لنگی پہن کر کچھ شلوار جیسی دکھنے لگتی ہے۔

ویسے ہر زمانے میں لنگی آرام دہ نائٹ سلیپنگ ڈریس بھی رہی ہے۔ لنگی ایک رنگ کی ہوتی تھی یا لائنوں ڈبیوں والی ۔ شکر ہے کبھی پھولوں والی لنگی دیکھنے کو نہیں ملی۔

ویسے کہنے میں کیا حرج ہے، شاعر علامہ اقبال بھی گھر میں اسے شوق سے پہنتے تھے۔

اور سکھ صاحبان تو لنگی پہن کر خوب۔۔ آہو آہو، بلے بلے۔۔ کر کے بھنگڑا ڈالتے ہیں۔

پہلوان لوگ لنگی پہن کر اسی کو چڈی میںتبدیل کر کے فوراکمر کس کر اکھاڑے میں اتر آتے ہیں۔

عربی لوگ بھی چوغہ کے نیچے لُنگی ہی تو پہنتےہیں ۔

ساڑھی بھی ایک طرح سے اسی برادری سے ہے جس کا دو تہائی حصہ کمر پر لنگی کی طرح ٹانگوں کے گرد لپیٹ کرباقی ایک تہائی حصہ فورا پلو کی طرح کندھے یا سر پر ڈال لیا جاتا ہے۔

پاکستان میں شلوار پہلے زیادہ عورتوں کا پہناوا ہوا کرتی تھی یا پھر گاؤں کے پگڑی والے جاگیر دار، وڈیرے، نمبردار اسے پہنتے تھے۔ لیکن صدر ضیا الحق نے شلوار سوٹ پہن کر اسے مردوں میں عام دوام بخش دیا۔ اس فیشن کو آگے لے جانے کے لیے بعد میں نواز شریف نے بھی خوب ساتھ دیا۔ وہ کلف لگے شلوار سوٹ کے ساتھ بااعتماد امریکہ کا دورہ کیا کرتے تھے اور امریکن صدر کے بالمقابل بیٹھا کرتے تھے۔

لوگ اور سیاستدان شلوار سوٹ کو خوب کلف لگا کر پہن کر اکڑے پھرتے ہیں۔ جبکہ لنگی سادہ ہی رہتی ہے اور اسے پہننے والا بھی منکسر المزاج رہتا ہے۔

ویسے شارجہ میں پولیس نے گشت کے دوران ایک شخص کو لنگی پہننے کے جرم میں گرفتار کر لیا اور اس سے تفتیش شروع کر دی۔پولیس افسران کا کہنا تھا کہ لوگوں سےیہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوام میں شائستہ لباس پہن کر باہر آئیں۔ جبکہ اس شخص کا واویلاتھا کہ لنگی نے مجھے اوپر سے نیچے تک ڈھانپ رکھا تھا۔ میری ٹانگیں مکمل طور پر ڈھکی ہوئی ِ تھیں۔ لُنگی میرے آبائی وطن کا روایتی لباس ہےجسےاسے عام پہنا جاتا ہے۔پھر یہ غیر شائستہ کیسے ہوئی۔۔؟

ہاں بھئی۔۔اسی لیے تو بنگالی اور کیرالہ والے مہربان بنیان کے نیچے دھوتی پہن کر آرام سے بازاروں میں گھومتےہیں۔

اب شلوار کتنی تمیز کے دائرے میں ہے اور لنگی غیر شائستہ، ان کے مداحوں کی تعداد کبھی کم نہ ہو گی۔ بہت سالوں غالبا صدیوں سے یہ دونوں پہناوے چلے آ رہے ہیں۔ ابھی تک کوئی بھی زمانہ، رواج اور فیشن انھیں مکمل آوٹ نہیں کر سکا۔ یہ بھی ثقافتی لباس کی طرح بڑے کروفر سے اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں کیونکہ ہر گھر میں ایک آدھ فرد ضرور لنگی پہننے والا مل جاتا ہے اور خاندانی تناسب اس سے بھی زیادہ۔ سو امید ہے کہ اسی طرح یہ دونوں رواج میں رہتے ہوئے آنے والے فیشن کو مقابلہ اور ٹکر دیتے رہیں گے۔
Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 53256 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More