مغرب زدہ تہذیب

گرمی کا موسم تھا، سور ج اپنی پوری مسافت طے کرلینے کے بعد افقِ مشرق میں ابھی پوری آب وتاب کے ساتھ شعلے بکھیررہا تھا، اس کی کرنوں میں ابھی سفیدی کے آثار باقی تھے، مگر اس کا دائرہ سرخ ہوا جارہاتھا،اس حالت میں بھی اس کی شعلہ بار کرنوں پر آنکھیں ٹک نہیں رہی تھیں ،مگر ممبئی کی معتدل اور خوشگوار فضا میں، وہ بھی سمندر کے کنارے جہاں شام کے وقت سمندری لہروں کے ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتی ہیں،گرمی کا بالکل ہی احساس نہیں ہورہاتھا، کثیر تعداد میں لوگ تنہایا اپنی اپنی محبوبہ کے ساتھ جوہوچپاٹی کے ساحل پر آنے لگے تھے، جوڑوں کی تعداد زیادہ تھی، جوں جوں سورج مشرق کی اور ڈھل رہا تھا، اسی قدر زائرین کی تعدا د میں بھی اضافہ ہورہاتھا، فضا نہایت پر سکون اور خوشگوار تھی، لوگوں کی اس جلو میں یہ بندۂ ناکارہ بھی چل نکلا تھا، ممبئی میں جوہوچپاٹی کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، اس سے پہلے اس کی دلکشی، چہل پہل اور چمک دمک کے بارے میں صرف سنتاہی تھا ، مگر آج یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے جارہاتھا، اس کے دلکش نظارے کی خبریں پہلے ہی سے دل میں ہزاروں تمنائیں جگا چکی تھیں اور تصورات کے پنوں پر نہ جانے میں نے کیسے کیسے خوب صورت اور دیدہ زیب مناظر کے نقشے بنا لیے تھے، مگر جب میں وہاں پہنچا، تو سب سے پہلے جس چیز پر میری نظر پڑی وہ میری زندگی کا ایک نایاب تجربہ تھا، اس سے قبل کبھی بھی میری آنکھوں نے ایسانظارہ نہیں دیکھا تھا، میرے دل نے بھی کبھی یہ سوچنے کی جرأت بھی نہیں کیا تھا، میری آنکھیں بھٹک رہی تھیں، دل میں عجیب عجیب خیال پیدا ہورہاتھا، کبھی یوں محسوس ہوتا کہ شاید میں کوئی خواب دیکھ رہاہوں اور شیطان میرے دل وسوسے ڈال رہا ہے، لیکن جلد ہی لوگوں کی سماعت کو چیڑ دینے والے ہنسی مذاق اور شور وغوغا کے باوصف عالمِ فنائیت سے عالمِ حقیقت میں غوطے کھانے لگتا،پھر ذہن یہ سوچنے پر مجبور کردیتا کہ تم خواب نہیں دیکھ رہے ہو ،بلکہ یہ توحقیقت ہے۔ اورلوگ تو اب ترقی یافتہ ہوچکے ہیں اور اس ترقی یافتہ دور میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ یہ کیا چیز ہے شاید اس سے بھی زیادہ نظر فریب منظر دیکھنے کو ملے؛ ’آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا‘۔

ٍ بالآخر وہ قصۂ پاک کیا تھا جس نے اب تک آپ کی سمع خراشی کی؟ قصہ تو اس زمانے کے لحاظ سے کوئی خاص نہیں تھا ،تاہم میراوہ پہلا تجربہ تھا اسی لیے مجھے خاص لگاتھا۔ وہ قصۂ دلگداز دراصل یہ تھا کہ جب میں نے اپنے ہمجولیوں سے جوہو جانے کے بارے اپنے دل کے جذبات کو واکیا تو یہ بھی ایک عجب اتفاق تھا کہ ان کے جذبات بھی کسی قدر مجھ سے کم نہیں تھے،چنانچہ ایک دن دلوں میں ہزار وں ارماں لیے ہوئے ہم نے دل کے اس جذبات کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے اپنی چھٹی کا ایک دن منتخب کیااور تقریبا تین لوگوں کے ساتھ جوگیشوری ویسٹ سے بذریعہ ایس ٹی جو ہو کی طرف محو سفر ہوا۔ دوپہر کے بعد عموما شہروں میں ٹرافک کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور پھر ممبئی جیسے بھیڑ بھاڑ والے شہر کا کیا پوچھنا،ہر طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں نظر آرہی تھیں، دل تویہ چاہ رہا تھا کہ چڑیوں کا پر لگا کر منزل مقصود پر جلد ازجلد پہنچ جاؤں، مگر ٹرافک پر کس کا بس چلتا ہے۔بس کبھی بیل گاڑی اور کبھی اپنی ر فتار سے مستقل اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی ،دل پر پتھر رکھ کر اس وقت کا شدت سے انتظار کرہا تھا کہ کب ساحل پرپہنچوں، بالآخر تقریباً ایک یا دوگھنٹے کی صبرآزماں مسافت طے کرنے کے بعدہم جوہو کے ساحل سے ذرا کچھ دور کھڑے تھے، چونکہ بس نے ہمیں ساحل سے دور ہی چھوڑ دیا تھا،اس لیے ساحل تک پہنچنے کے لیے ہمیں پیدل ہی چلنا پڑا، زائرین کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، لوگ کافی تعداد میں آجارہے تھے، جس کے باوصف بہ آسانی پیدل چلنا بھی مشکل ہوگیا تھا، اس لیے ہم لوگ بھیڑ بھاڑ والی جگہ چھوڑ کر ایک کنارے سے ساحل کی طرف بڑھنے لگے،چلتے وقت گرمی کا احساس توہورہاتھا مگر جوں جوں ہم ساحل سے قریب ہورہے تھے ہماری گرمی سمندر کی تیز لہروں میں گم ہوتی جارہی تھی، ہم نہات اطمینان سے ساحل کی طرف بڑھ رہے تھے،پھر خراماں خراماں ہم ساحل تک پہنچ ہی گئے۔ مگرساحل پر میری پہلی نظر ہی مجھے دھوکہ دینے لگی، میری آنکھوں کے پردہ پردوانسانوں کی تصویر جم گئی،چونکہ وہ اس طرح ایک دوسر میں مل گئے تھے کہ دوجسم ہونے کے باوجود ایک ہی معلوم ہورہاتھا، دونوں ایک دوسرے کو اس طرح جکڑے ہوئے تھے کہ ایک کی ہونٹ کا ظاہری حصہ دوسرے کے منہ کے اندراور دونوں کی ٹانگیں اس طرح مل گئیں تھی کہ گویا بغیر شاخوں کے ایک درخت اپنے تنے پر اِستادہ ہو ، یہ ایک ایسا منظر تھا جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا، ابھی دن بھی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر تھا، روشنی ہر طرف برابر پڑ رہی تھی، لوگ بھی شاید اس دن زیادہ ہی تعدادمیں جمع ہوگئے تھے، موقعہ واردات پر بھی لوگ کافی تعداد میں موجود تھے، ایسے ماحول میں حیا کاجنازہ نکل رہاتھا،کچھ لوگ اس کو دیکھ کر محظوظ بھی ہورہے تھے اور اپنی نظر کی پیاس بجھارہے تھے، کچھ مخولیہ قسم کے نوجوان تالی اور سیٹی سے اس عمل کا خیر مقدم کررہے تھے،توکچھ لوگ اس کو دیکھتے مسکراتے اور گذرجاتے اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ اگر اچانک ان کی نگاہ ان پرپڑگئی ہو تو وہ فوراً اپنی نگاہ نیچے کیے ہوئے وہاں سے گذرگئے، یہ بندۂ ناکارہ بھی اسی صف میں تھا، پہلی ہی نظر میں فطری شرم وحیا نے آدبوچا، جس بے خیالی سے اس طرف نگاہ اچانک اٹھ گئی تھی اسی قدر سرعت سے پلکیں زمین کو آلگیں اور ذہن ودماغ میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے، کبھی ایسا خیال ہوتا کہ وہ چند نوجوان اسے دیکھ کر کیوں ہنس رہے تھے، بعض لوگ مسکراہٹ ہی پر کیوں اکتفا کررہے تھے اور کچھ لوگ اس کو بے حیائی کا نام دے کر اس سے نظریں پھیر لے رہے تھے، ایک ہی عمل پر تین قسم کے مظاہرے، قابل تعجب تو ہے ہی۔مگر یہ خیالات بھی زیادہ دیر دل میں نہ ٹھہر سکے ، کیونکہ آج تو تقریباً پوری دنیا مغرب کے پرستار ہو چکے ہیں، ان کے ہر فعل وعمل کو پابند عمل بنانا ہماری اولین کوشش ہوتی ہے ،نہ تو باپ کو بیٹی کی عزت کی پرواہ ہے اور نہیں بیٹی کو باپ کی غیرت کی لاج، ہر شخص اپنی جنسی پیاس بجھانے میں آزاد ہے، نہ حکومت کا خوف ہے اور نہیں کوئی مذہب جس کا پاس ولحاظ ہو،ہم نے شرم وحیا کا اس طرح جنازہ نکالا ہواہے کہ شیطان بھی ہماری ان حرکتوں پر انگشت بدنداں ہیں۔ ہم انسانوں نے اپنی خواہش کی تکمیل میں جانوروں کو بھی پیچھے چھوڑدیا ، جانور تو کم از کم اپنی فطری خوا ہش پوری کرنے کے لیے جنگل جھاڑی یاایسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کسی کی ان پر نظر نہ پڑ سکے، مگر ہم انسان تو ترقی یافتہ ہیں ، مجلسِ عام اور عوامی شاہ راہ پر بھی اس کام کو دھرلے سے کر گذرتے ہیں، آج کا کوئی بھی پارک اور ساحلی علاقہ اس سے پاک نظر نہیں آئیگا، ہر جگہ ننگے پن کا کھلے عام ناچ ہورہاہے،اس کو سب سے زیادہ تقویت فلموں سے ملی ہے، ان فلموں میں ہیرو اور ہیروئنوں کی عریانیت وفحاشیت کو ظاہر کیا جاتا ہے، اس کا اثرناظرین پر بھی تو ہونا ہے،لہذا وہاں جووہ یکھتے ہیں اس کو وہ اپنی عملی زندگی میں وجود میں لانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے کبھی تو وہ کال گرلس کا سہارالیتے ہیں، تو کبھی اپنے کالج کی فرنڈس کا سہارا لیتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کی یہ صنف نازک موجودہ صنف سخت بھی اس میدان میں کسی سے ایک قدم پیچھے نہیں رہ گئیں،پیسے اور عہدے کی لالچ میں اس قوم کا جو استحصال کیا گیاہے، شاید یہ قوم اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ حقیقت سمجھ میں بھی آئے کیسے ،ان کے سروں پر بھی توملکہ بننے کا بھوت سوار ہے، ہر کوئی ماڈل اور فلمی دنیا کی ہیروئن بننا چاہتی ہیں، حالانکہ وہ نہیں سمجھ پاتیں کہ آج کی ایکٹریس ترقی یافتہ دور کی ترقی یافتہ طوائف ہیں، جو پیسے کی ہوس میں ہروہ کام کرسکتی ہیں جو ایک طوائف کا فطری عمل ہوتا ہے۔28اکتوبرکوکوچی کافی بار کا قضیہ بھی اسی قصہ کی ایک لمبی داستان ہے، جہاں ایک جوڑا برسرعام اسی بے حیائی کاارتکاب کررہے تھے، اچانک کسی نے ان پر حملہ کردیا، بس کیا تھا اس مسئلے نے اتنا طول پکڑاکہ کافی تعداد میں لوگ اس کی حمایت میں اتر آئے ، فیس بک اوروَاٹ سیپ پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ، خصوصا ہماری نئی نسل کے نوجوان اس کی حمایت میں ایک نئی مہم چھیڑ دی ، اس سلسلے میں چنئی، کولکاتا،بنگلوراور اس ملک کی راجدھانی دہلی سمیت کئی بڑے شہروں میں نوجوانو ں نے حکومت اور ان لوگوں کے خلاف جم کرنعرہ بازی کی جو اس فعل کے مخالف ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کا حق ہے اور انسان اپنے حق کے وصول میں کسی زمان ومکان کا پابند نہیں، وہ جب چاہے اورجہاں چاہے اس کام کو انجام دینے کا حق رکھتے ہیں،کسی کوبھی ان کی ذاتی آزادی سے محروم کرنے کا حق نہیں اور ہم اپنے حق کی لڑائی اس وقت لڑیں گے جب تک ہمیں انصاف نہ مل جائے،مگر سوال یہ ہے کہ ہر فطری ضرورت کے لیے پبلک پلیس تو موزوں نہیں! چھوٹے بچوں کو دودھ پلاناماں کی ذمہ داری اور بچے کا حق ہے، پیشاب پاخانہ، یہ سب انسان کی فطری ضرورت ہے ، مگرقطعاً اس کا یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ ماں اپنے بچے کو بر سرعام جہان چاہے اپنی چھاتی کھول دے اور اپنے بچے کی بھوک مٹانے لگے،کسی کو پیشاب اور پاخانہ کی ضرورت ہوئی پھر وہ جہاں چاہے بیٹھ جائے، چاہے وہ قہوہ خانہ ہو یا شاہراہِ عام، کیا کوئی کم عقل انسان بھی اس کی اجازت دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ،بلکہ جب بچہ روتا ہے تو ماں پہلے اپنے بچے کو آنچل میں چھپاتی ہے پھر اس کو دودھ پلاتی ہے اسی طرح ایک انسان جب ضرورت محسوس کرتا ہے تووہ باتھ روم یا ایسی جگہ کا انتخاب کرتا ہے جہاں کسی کی اس پر نظر نہ پڑسکے۔ اسی طرح اگر آپ اپنی جنسی خواہش کی آگ سرد کر کرنے کے لیے اتنے ہی باولے ہوئے جارہے ہیں تو شوق سے اپنی جنسی پیاس بجھائیے ،مگر کسی کمرہ یاہوٹل میں چلے جائیں، کسی گوفے یاجہنم کے غار میں دبک جائیں پھر جیسے چاہیں اپنی پیاس بجھائیں، کوئی بھی آپ کو نہیں روکے گا، لیکن اس ملک میں جس کی تہذیب وتمدن میں آج بھی غیرت باقی ہے ، جہاں کی عورتیں آج بھی بڑے بزرگ کو دیکھ کراپنے سروں پر گھونگھٹ ڈال لیتی ہیں ، جس ملک کی خواتین آج بھی بڑوں سے بات کرتے وقت جھجھک محسوس کرتی ہیں وہ کیسے آپ کے اس فعل بد کو برداشت کرسکتی ہیں ۔جس تہذیب وتمدن میں غیرت زندہ ہو وہ کیسے اس کو گوارا کر سکتی ہے؟
Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 66195 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.