خدارا انِ مدارس کو اپنی حالت پر رہنے دیجئے

مدارس اسلامیہ اور یہاں پڑھنے والے طلبہ کی ایک طبقہ کو سب سے زیادہ فکر رہتی ہے ،مدارس کے نصاب تعلیم کو عصری تعلیم سے ہم آہنگ بنانے اور جدید طرز اختیار کرنے کی وہ ہمیشہ وکالت کرتے نظر آتے ہیں ،اپنی تحریروں اور تقریروں میں ہمیشہ مدارس پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہاں پڑھنے والے طلبہ حقائق سے ناآشنا،نابلد اور بے کار محض ہوتے ہیں ، ایک زمانہ تھا جب انہیں مدارس سے بو علی سینا ،فارابی ،رازی اور غزالی سے نامور سائنسداں ،محقق اور ماہرین پید اہوئے لیکن آج ان مدارس کے فضلاء جاہل اور ناگوار ہوتے ہیں ،نہ حکومت انہیں تعلیم یافتہ شمار کرتی ہے اور نہ قوم وملت اور سماج میں وہ کوئی انقلاب بر پاکرپاتے ہیں۔
گذشتہ 29 مارچ 2016 کو کچھ ایسی ہی باتیں غالب اکیڈمی کے ایک پروگرام میں ہمیں سننے کو ملی ،انڈین مائناریٹی فورم نے مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم کی اہمیت پر ایک پروگرام منعقد کیا تھا ،وہاں دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین جناب قمر احمد صاحب،نارتھ ایسٹ دہلی کے ڈی سی پی جناب محمد علی صاحب ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر جناب جنید حارث صاحب ،مکہ میں قیام پذیر جناب زہیر شمس صاحب ،مولانا محمد ساجد منصور صاحب نظام الدین درگاہ کے سجادہ نشیں کاشف نظامی صاحب اور کئی اہم شخصیات شریک تھیں ، ان کے علاوہ مولانا ظفر صدیقی قاسمی ،مولانا عامر ظفر قاسمی ،شمشیر ایجوکیشنل اکیڈمی کے جنرل سکریٹری حافظ امتیاز صاحب ،سوانح نگار عارف اقبال صاحب ،کریٹیو اسٹار کے چیر مین مسٹر فیضی صاحب ،اسٹا نیوز کے چیف ایڈیٹر نوشادعثمانی صاحب سمیت کئی معزز احباب بھی شریک تھے ۔

اس پروگرام میں مجھے نظامت کے فرائض انجام دینے تھے اور کلیدی خطاب بھی مجھے ہی پیش کرناتھا ،پروگرام کے اکثر شرکاء نے مدارس کے نصاب پر سوالیہ نشان قائم کیا ،کچھ حضرات نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ان مدارس سے انجینئر ،ڈاکٹر اور سائنسداں پید ا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر نصاب تعلیم کو بدلنانہیں چاہتے ہیں ،قرآن وحدیث کی تعلیم کے نام پر قوم کی ذلت ورسوائی کا سبب بنے ہوئے ہیں ، ان اہل مدارس نے ہمیشہ ان لوگوں کو قبول نہیں کیا جنہوں نے جدت پسندی اور موڈرائزیشن کی بات کی ۔

ان باتوں کو سننے کے بعد میں خاموش نہیں رہ سکا اور اخیرمیں مجھے مدارس کی تاریخ بیان کرنے کے ساتھ یہ تبصرہ کرنا پڑاکہ مدارس کا سلسلہ یقیناًبہت قدیم ہے لیکن بر صغیر میں مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہوجانے اور انگریزوں کے برسراقتدار آجانے کے بعدقیام مدارس کا نہج ،طریقہ کار اور مشن مختلف ہوگیا،1866 میں مفکر اعظم مولانا محمد قاسم الناناتوی نے دارالعلوم دیوبند کو شعائر اسلام کی حفاظت ،مذہبی علوم کی ترویج واشاعت اور ملت کی سربلندی کیلئے قائم کیاتھا ،مولانا محمد قاسم ناناتوی کا مشن اور مقصد ایسے نوجوانوں کو تیار کرناتھا جو رنگ ونسل کے لحاظ سے ہندوستانی اور ذہن ودماغ کے لحاظ سے اسلامی ہوں ،اس کے بعد قائم ہونے والے تمام مدارس اسی نہج پر گامز ن ہیں ۔

مدارس نے دنیا کو کیا دیا اور کیا نہیں دیا اس سوال کا جواب وقت پر معلوم ہوجائے گا لیکن عصری اداروں نے ملت اسلامیہ کو کیا دیا ہے ،کتنے مسلمان نامور سائنسداں بن سکے ہیں ،یونیوسٹیز سے نکلنے والے کتنے لوگوں نے طب کی دنیا میں نام روشن کیا ہے ، دنیا کے اہم ترین سائنسی اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی کا فیصد کیا ہے ،ان کی سیاسی خدمات کیا ہے ،سماجی دنیا میں انہوں نے کون سا انقلاب بر پا کیا ہے ،یہ سوال عصری اداروں سے آج کیا جارہا ہے جن کے پاس قوم کے کریم بچے ہوتے ہیں ، 98 فیصد مسلمان بچے ان درسگاہوں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں ،ان اداروں اور وہاں زیر تعلیم بچوں پر کڑوروں روپے خرچ کئے جاتے ہیں ، حکومت کی جانب سے انہیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کرائی جاتی ہے ۔

جہاں تک بات ہے انگریزی زبان اور عصری تعلیم کی مخالفت کی تویہ بدیہی جھوٹ ہے ،مدارس نے کبھی ان علوم کی مخالفت نہیں کی ہے ،حضرت تھانوی اور مولانا قاسم ناناتوی نے جیسے اکابر انگریزی زبان سیکھنے کے حامی تھے ،گذشتہ 20 سالوں سے دارالعلوم دیوبند سمیت ملک کے متعدد مقامات پر فضلاء مدارس کو انگریزی زبان سے ہم کنارکرنے کیلئے دوسالہ ڈپلوماکورس کے ادارے چل رہے ہیں ، دنیا کے بیشتر مقامات پر یہاں کے فضلاء تعلیمی ،سماجی ،صحافتی اور سیاسی میدانوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں،مدارس میں علوم پڑھائے جاتے ہیں زبان نہیں اس لئے ان لوگوں کا اعتراض بھی بیجاہے جو یہ کہتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ کو عربی نہیں آتی ہے ،جہاں جو زبان رائج ہے وہاں درس وتدریس کیلئے اسی زبان کا استعمال کیا جاتاہے ،میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتاہوں جو ماہر ترجمہ نگار ہیں ،سفارت خانہ میں کام کرتے ہیں لیکن فقہ کی عبارت اور قرآن کریم کی آیت کا ترجمہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اس لئے یہ کہناکہ آٹھ سالوں تک مدرسہ میں پڑھنے کے باوجودعربی نہیں آتی ہے بالکل مہمل بات ہے ۔

مدارس اسلامیہ کے طلبہ کیلئے عصری علوم سے واقفیت بقدرضرورت ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ اسکول اور کالجز کے طلبہ کیلئے دینی علوم کا سیکھنا ،مذہب سے واقفیت حاصل کرنا اور شعائر اسلام کو اپنا نا ضروری ہے ،عصری اداروں میں پڑھنے والے بیشتر طلبہ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت صرف یہ ہوتاہے کہ ان کی ولادت کسی مسلم گھرانے میں ہوتی ہے اور بس نہ انہیں کلمہ یاد ہوتا ہے اور فرائض سے واقف ہوتے ہیں ،جن لوگوں نے مدارس میں عصری تعلیم کی اہمیت او ر ضرورت پریہ پروگرام کیا ہے ہم ان کے تہ دل سے شکر گزار ہیں ساتھ ہی ان سے مطالبہ ہے کہ آپ اس کے برعکس بھی ایک پروگرام چلائیں اور عصری اداروں کے طلبہ میں دینی تعلیم بیداری مہم چلائیں انہیں مذہی احکامات کا پابند بنائیں ۔

اخیر میں ہم آپ کو حکیم الامت علامہ اقبا ل کی ایک تحریر کا یہ اقتباس بھی سنادیتے ہیں کہ وہ ان مدرسوں سے کیا توقع رکھتے تھے اور موجودہ نہج پر جومدارس ہیں وہ ان سے کس قدر مطمئن تھے ۔

جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرے قلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا، جو تم چاہتے ہو، انقلاب، ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کے دوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئی، ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا اسے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کے مسلمان مکتبوں کے اثرسے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈر اور الحمراء اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیرواں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دہلی کے لال قلعہ کے سِوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔
کل ایک شوریدہ بارگاہِ نبی پہ رُورُو کے کہہ رہا تھا
کہ مصروہندوستان کے مسلم بِنائے ملت مٹارہے ہیں
غضب ہے یہ رہبران خودبیں خدا تری قوم کو بچائے۔
مسافرانِ رہِ حرم کو رہِ کلیسا دکھا رہے ہیں

غالب اکیڈمی میں ہونے والے پروگرام میں کی گئی تقریر کے یہ کچھ اجزاء ہیں جسے ہم نے یہاں پیش کیا ہے تقریر کے کچھ اہم اقتباسات رپوٹ میں بھی درج ہیں۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180699 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More