جب سے انسانیت معرضِ وجود میں آئی ہے موت و
حیات کا سلسلہ جاری ہے اور یہ قیامت تک جاری وساری رہے گا۔خوشی و غمی میں
شریک ہونے کا سلسلہ بھی ابد الآباد تک قائم رہے گا۔کس کی کیا نےّت ہے یہ
اُس کے ساتھ مخصوص ہے۔خوشی میں شامل ہو یا نہ ہو لیکن غمی میں انسان کو
پیچھے نہیں رہنا چاہیے ۔آج کل لوگ مرنے کے بعد جو اپنے پیاروں سے اِظہارِ
ہمدردی کرتے ہیں اِس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر میں چند گزارشات سپردِ
قلم کر رہا ہوں صرف اس نےّت کے ساتھ ’’ شائد کسی دل میں اُتر جائے میری بات‘‘
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو جب صدمہ
پہنچے تو وہ اُس کے ساتھ اِظہارِ تعزیّت کرے ۔اور یہ کریم آقا ﷺ کی سنّتِ
مُبارکہ بھی ہے۔حضرت معاویہ بن قرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روائت
کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص غائب ہو گیا آپ نے اُس کا حال
دریافت کیا تو لوگوں نے کہا کہ اس کا ایک بیٹا مر گیا ہے تو آپ نے فرمایا
’’ قوموا ان نعزیہ ‘‘ یعنی چلو اس کی تعزیّت کر آئیں چنانچہ ہم اُٹھ کر اُس
کی تعزیّت کے لیے گئے۔
تعزیّت کرنے والے کو ثواب کتنا نصیب ہوگا اس کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشادِ
گرامی ہے کہ ’’ جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت میں تعزیّت کرے گا
قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اسے کرامت کا جوڑا پہنائے گا ‘‘دوسری جگہ پر آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا :’’ جس شخص نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیّت کی اُس کے لیے ایسا ہی
اجرو ثواب ہے جیسا اُس مصیبت زدہ کے لیے ‘‘
ہم کسی کے ساتھ اِظہارِ تعزیّت کرنے کے لیے جب جاتے ہیں تو ہم اُن سے اِن
الفاظ میں اِ ظہارِ تعزیّت کرتے ہیں کہ ’’ بڑا افسوس ہوا ‘‘ ایسے الفاظ
ہمیں نہیں کہنے چاہییں کیونکہ اﷲ کے حُکم سے روح پرواز کر گئی تو پھر اﷲ کے
حُکم پر افسوس کیسا؟ویسے بھی ہم مسلمان ہیں اور مسلمان جب بھی کوئی کام
کرتا ہے تو اپنے آقا ومولیٰ ﷺ کے اُسوہ حسنہ کی پیروی کرتا ہے ۔اور آقا
کریم ﷺ کا اس حوالے سے کیا عمل ہے وہ ہمارے سامنے ہونا چاہیے۔آپ ﷺ نے حضرت
معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کی وفات پر ایک تعزیّت نامہ لکھوایا
جس کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے ۔
’’ اﷲ کے نام سے شروع جو بڑا رحم کرنے والا مہربان ہے۔اﷲ کے رسول محمد ﷺ کی
جانب سے معاذ بن جبل کے نام ۔تم پر سلامتی ہو میں پہلے تم سے اﷲ تعالیٰ کی
حمدبیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔حمدو ثنا کے بعد (دعا کرتا
ہوں کہ ) اﷲ تمھیں اجرِ عظیم عطا فرمائے ،صبر کی توفیق دے اور ہمیں اور
تمھیں شکر اداکرنا نصیب فرمائے اِس لیے کہ بے شک ہماری جانیں، ہمارا مال
اور ہمارے اہل و عیال (سب ) اﷲ بزرگ و برتر کے خوشگوار عطیے اور عاریت کے
طور پر سپرد کی ہوئی امانتیں ہیں اﷲ تعالیٰ نے خوشی اور عیش کے ساتھ تم کو
اس سے نفع اُ ٹھانے اور جی بہلانے کا موقع دیا اور( اب ) تم سے اِس کو اجرِ
عظیم کے عوض میں واپس لے لیا ہے ۔اﷲ کی خاص نوازش ،رحمت اور ہدائت کی( تم
کو بشارت ہے) اگر تم نے ثواب کی نےّت سے صبر کیا پس تم صبر کے ساتھ رہو ۔تمھارا
رونا دھونا تمھارے اجر کو ضائع نہ کر دے کہ پھر تمہیں پشیمانی اُٹھانی پڑے
اور یاد رکھو ! کہ رونا دھونا کسی مےّت کو لوٹا کر نہیں لاتا اور نہ ہی غم
و اندوہ کو دور کردیتا ہے اور جو ہونے والا ہے وہ تو ہو کر ہی رہے گا اور
جو ہونا تھا وہ ہو چُکا ‘‘۔
حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر جا کر آپ ﷺ نے حضرت ابو سلمہ کے
لیے یوں دعا فرمائی ’’ اے اﷲ تو ابو سلمہ کی مغفرت فرما اور ہدائت یافتہ
لوگوں میں اس کا درجہ بلند فرما ۔پیچھے رہ جانے والوں اور باقی ماندہ لوگوں
کے لیے اس کا خلیفہ بن جا اور اس کی مغفرت فرما ۔ اے ربّ العالمین ! اس کی
قبر کو کشادہ اور روشن کر دے ‘‘۔
تعزیّت کے لیے آنیوالوں کے سامنے اگر اہلِ مےّت کے آنسو نکل آتے ہیں تو اس
میں کوئی مضائقہ نہیں۔لیکن وہ آہ و زاری اور واویلا نہ کریں ۔ یہ بھی آپ ﷺ
کی سُنّت مُبارکہ ہے۔جب آقا کریم ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی
اور آپ ﷺ کی چشمان مبارک سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے تو حضرت عبد
الرحمان بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اِظہارِ تعجب کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا
’’ آنکھ روتی ہے دل غمگین ہوتا ہے لیکن ہم اپنی زبان سے اپنے رب کی رضا کے
خلاف کوئی کلمہ نہیں کہتے ‘‘۔
ان احادیث کی روشنی میں اہلِ میت اور تعزیّت کرنے والوں کے لیے سبق ہے کہ
ہمارے مروّجہ کلمات درست نہیں ہمیں وہ کلمات کہنے چاہییں جو شریعت سے ثابت
ہوں اور جس سے اہلِ مےّت کا غم ہلکا ہو وہ اس طرح کہ ہم اُن کے سامنے مصیبت
پر اجر اور اس پر صبر کرنے کا اجر و ثواب ذکر کریں اور یہ کہیں کہ دنیا
فانی اور ختم ہونے والی ہے اور آخرت ہی ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے ۔بقول فیض
رسول فیضان
صبر و تسلیم و رضا کا آبِ حیوان پیجئے
خیر خواہی اور دلجوئی سے پُرسہ دیجئے
کام ایصالِ ثواب و مرحمت سے لیجئے
کیجئے فیضان ؔتعزیّت تو ایسے کیجئے
تعزیّت گھر میں جا کر ہونی چاہیے نہ کہ قبرستان میں کیونکہ قبرستان میں
تعزیّت کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور جہنم میں لے جانے والی
ہے۔آج کل ہم اس بدعت کو بڑے زور و شور سے پروان چڑھارہے ہیں۔ہمارے پاس ٹائم
نہ ہونے کی وجہ سے ہم گھر جانا مناسب ہی نہیں سمجھتے۔ اور جو امیر یا صاحبِ
اقتدار ہوتا ہے وہاں تو تعزیّت کرنے والوں کا رش ہی ختم نہیں ہوتا اور غریب
کے گھر جانے کا تو کوئی سوچتا بھی نہیں ۔(اﷲ ہمیں ہدائت نصیب فرمائے )تعزیّت
کا وقت موت سے تین دن تک ہے اس کے بعد مکروہ ہے ہاں کوئی مجبوری ہو تو بعد
میں بھی جانا جائز ہے ۔ایک دفعہ ہی تعزیّت کافی ہے دوبارہ جانا بھی مکروہ
ہے اور اہلِ میت کا گھر کے دروازے پر بیٹھنا بھی مکروہ ہے کیونکہ یہ جاہلیت
کا طریقہ ہے( اور یہ بھی ہم میں عام ہے ) اور اس سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے
۔لہذا ہمیں اس سے پرہیز کرنا چاہیے ۔تعزیّت کے لیے مصیبت والے گھر میں یا
مسجد میں تین دن تک بیٹھنا چاہیے۔’’آپ ﷺ نے جب حضرت جعفر بن ابی طالب ،حضرت
زید بن حارث اور حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضوان اﷲ عنہم اجمعین کے شہید ہونے
کی خبر سُنی تو آپ ﷺ مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور لوگ آپ کے پاس آآ کر
تعزیّت کرتے ‘‘ مسجد میں اگر بیٹھا جائے جائے تو بے شمار فوائد حاصل ہونے
کے ساتھ ساتھ مسجد میں بیٹھنے کا ثواب بھی ملے گا اور مسجد کو اس کا
معاشرتی مقام بھی (جو اُس کاہے ) ملے گا۔ |