اَکھ کو اردو میں آنکھ ،فارسی میں
چشم، سنسکرت میں آکش اور انگریزی میں (Eye)کہتے ہیں ۔آنکھ کا لفظ سب سے
پہلے 1503میں استعمال ہوا ۔آنکھ اﷲ کریم کی بہت بڑی قدرت اور انمول تحفہ ہے
آنکھ نہ ہوتی تو دنیا کا حسن ،نظارے اور قدرت کے شاہکار تعریف سے محروم رہ
جاتے آنکھ نہ ہوتی تو حسن پرستی نہ ہوتی۔انسان کو اﷲ نے ایک نہیں دو آنکھیں
عطا فرمائی ہیں ۔آنکھیں دیکھنے کے کام آتی ہیں آنکھیں سائز کے حساب سے کئی
طرح کی ہوتی ہیں چھوٹی،بڑی ،موٹی ،درمیانی اور رنگوں کے حساب سے بھی مختلف
ہوتی ہیں مثلاًنیلی،ہری ،لال،گلابی اور پیلی وغیرہ آنکھوں کی کئی اقسام
ہیں۔سوتی آنکھیں،جاگتی آنکھیں، روتی آنکھیں ،ہنستی آنکھیں ،دُکھتی آنکھیں
،پرائی آنکھیں ،اپنی آنکھیں ،چمکتی اوردمکتی آنکھیں،نشیلی آنکھیں ،خونی
آنکھیں ،پتھر کی آنکھیں ،میلی آنکھیں ،شرارتی آنکھیں،روحانی آنکھیں،اور
شکّی آنکھیں وغیرہ جب عام انسانوں کی آنکھیں ایک جیسی نہیں ہیں نہ رنگ میں
،نہ سائز میں اور نہ دیکھنے میں تو جس آنکھ جیسی کائنات میں کوئی آنکھ نہیں
اور جس آنکھ کی تعریف خود خالقِ کائنات نے کی ہے اُس آنکھ کے برابر کس کی
آنکھ ہو سکتی ہے اب اُس سرکار اور خُدا کے یار کی آنکھ کی بات کرتے ہیں ۔آپ
ﷺ کی آنکھیں سیاہ تھیں جو خوبصورتی کی علامت سمجھی جاتی ہیں اس کے علاوہ آپ
ﷺ کی آنکھوں کی سفیدی میں سرخ رنگ کے ڈورے پڑے ہوئے تھے جو آنکھوں کی
انتہائی خوبصورتی کی علامت ہوتے ہیں نبی کریم ﷺ کی آنکھیں قدرتی طور پر
کالی سیاہ تھیں اور صحابہ کرام دیکھتے تو اندازہ لگاتے کہ آپ نے سُرمہ
لگایا ہے حالانکہ آپ ﷺ نے اُس وقت سُرمہ نہیں لگایا ہوتا تھا حضرت جابر بن
سمرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی آنکھوں کی طرف دیکھ کر اندازہ
لگاتا کہ آپ نے سرمہ لگایا ہے حالانکہ آپ نے سُرمہ نہیں لگایا ہوتا۔بقولِ
شاعر ؔ والضحیٰ چہرہ ، واللیل زلف، یٰس دا سہر ا پایا اے
ما زاغ البصر دا کاجل اے واہ واہ یار خدا نے بنایا اے
آپ کی پلکیں دراز تھیں جو مردوں کے لیے قابلِ تعریف صفت ہے اور آپ کے ابرو
مبارک خم دار باریک اور گنجان تھے دونوں ابرو جُدا جُدا تھے جو آپس میں
ملتے نہیں تھے ان کے درمیان ایک رگ تھی جو غصّہ کے وقت اُبھر جاتی تھی
۔(دلائل النبوۃ )بقولِ شاعر
ؔ جس نے دیکھی ہے میرے آقا کی آنکھ،رخسار اورہونٹ
زندگی اُسی کیف کے فخر میں گزاری اُس نے
اﷲ کریم ارشاد فرماتا ہے مازاغ البصرُ وما طغیٰ۔نہ درماندہ ہوئی چشمِ(
مصطفےٰ)اور نہ (حد ادب سے) آگے بڑھی۔یعنی آقا کریم ﷺ کی آنکھیں اﷲ کریم کے
معراج کی رات کے جلوے اور انوارکی چمک دمک سے خیرہ ہو کر چُندھیا نہیں گئیں
،درماندہ ہو کر بند نہیں ہو گئیں بلکہ جی بھر کر اُن کا دیدار کیا ۔اور اُس
حریمِ ناز میں صفاتی تجلّیات اور ذاتی انوار کا جو مشاہدہ آپ کی آنکھوں نے
کیا کسی اورنے نہیں کیا ۔
آقا کریم ﷺ اپنی آنکھوں کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں ’’ بے شک میں وہ کچھ
دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور میں وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سُن
سکتے۔(ترمذی ،مشکوٰۃ) سیدنا سہل بن حنظلیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ
اسلامی لشکر اﷲ تعالیٰ کے حبیب کی معےّت میں حنین کی طرف روانہ ہوا اور رات
گئے تک چلتے رہے پھر ایک گھوڑ سوار آیا اور عرض گزار ہوا یارسول اﷲ میں نے
پہاڑ پر چڑھ کر دیکھا ہے بنو ہوازن سارے کے سارے اپنی عورتوں اور مال مویشی
سمیت حنین میں اکٹھے ہو رہے ہیں یہ سن کر آقا کریم ﷺ مسکرائے اور فرمایا ’’
یہ سب کچھ کل ان شاء اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو غنیمت میں ہاتھ آئے گا
۔(مشکوٰۃ)بقولِ شاعر
ؔ جس طرف اُٹھ گئی دم میں دم آ گیا
اُس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام
آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’ بیشک اﷲ کریم نے میرے لیے زمین کو لپیٹ دیا تو
میں نے اُس کے مشرق و مغرب دیکھے ‘‘ (صحیح مسلم)آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’
بے شک اﷲ کریم نے دنیا کو میرے سامنے کردیا ہے لہذا میں دنیا کو اور جو کچھ
دنیا میں تا قیامت ہونے والا ہے سب کچھ یوں دیکھ رہا ہوں جیسے اپنے ہاتھ کی
ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ‘‘ (زرقانی شرح مواہب ،کنزالعمّال) سیدنا ابو اےّوب
رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ ہم رات کو نبی اکرم ﷺ کے ساتھ باہر نکلے تو آپ نے
کچھ آوازیں سُنی تو فرمایا ’’ یہودیوں کو قبروں میں عذاب ہو رہا ہے
‘‘۔(بخاری، مشکوٰۃ )
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ آقا کریم ﷺ اندھیرے
میں بھی یوں ہی دیکھتے تھے جیسے روشنی میں دیکھتے تھے (شفا، حجۃ اﷲ،خصائصِ
کُبرٰی) سیدنا ابو سعید راوی ہیں کہ ہم شاہِ کونین ﷺ کے ساتھ نکلے تو آپ
وادی عسفان میں ٹھہر گئے اور وہاں کئی دن قیام فرمایا تو کچھ لوگوں نے کہنا
شروع کر دیا ہم یہاں کچھ بھی نہیں کر رہے اور ہمارے گھر خالی ہیں ہماری
عورتیں تنہا ہیں ہم اپنے گھروں کو محفوظ و مامون نہیں سمجھتے یہ خبر سُن کر
آقا کریم ﷺ نے فرمایا ’’ مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری
جان ہے مدینے کی ہر گلی اور ہر راستے پر دودو فرشتے پہرہ دے رہے ہیں اور وہ
ہمارے واپس جانے تک پہرہ دیتے رہیں گے ازاں بعد فرمایا چلو مدینے کی طرف
کوچ کرو اور جب ہم مدینہ پہنچے تو اُس ذات کی قسم جس کی قسم کھائی جاتی ہے
ابھی ہم نے سامان رکھا بھی نہ تھا کہ بنو غطفان حملہ آور ہو گئے (مسلم
،مشکوٰۃ)اس روائت سے پتہ چلا کہ آپ ﷺ کی آنکھوں نے دور سے دیکھ لیا کہ
مدینے پر فرشتے پہرہ دے رہے ہیں۔ـسید انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ
رسول اﷲ ﷺموتہ کے دن لوگوں کو بتا رہے تھے کہ لو اب زید امیرِ لشکر شہید ہو
گئے اور جھنڈا جعفر نے پکڑ لیا لو اب جعفر بھی شہید ہو گئے ہیں اور اب
جھنڈا ابن ِرواحہ نے پکڑ لیا ہے لو اب ابنِ رواحہ بھی شہید ہو گئے اور ساتھ
ہی سرکار کی چشمان مبارک سے آنسو بھی بہہ رہے تھے پھر فرمایا اب جھنڈا سیف
اﷲ خالد بن ولید نے پکڑ لیا ہے اب اﷲ نے مسلمانوں کو فتح دے دی ہے ۔( صحیح
بخاری ، مشکوٰۃ) ابھی بہت سی احادیث ہیں آپ کی چشمان مبارک کے حوالے سے مگر
آقا کریم ﷺکی بارگاہ میں عرض کے ساتھ ختم کرتا ہوں ۔
ؔیانبی تری نگاہ سے ایسی شراب پی میں نے پھر نہ بیہوشی کا دعوٰی کبھی کیا
میں نے
وہ اور ہوں گے جنہیں موت آ گئی ہو گی نگاہِ سرکار سے پائی ھے زندگی میں نے
|