محبت بھرا بچپن میں عارضی واپسی

کہتے ہیں کہ ’’بچپن میں سب سے بڑا سوال یہ ہوتاہے کہ بڑے ہوکر کیا بنو گے جبکہ بڑے ہونے کے بعد سب سے بڑی آرزو یہ پھر بچپن کی جانب لوٹ جانے کی ہوتی ہے مگر وہ آرزوہی کیا جو پوری ہو‘‘مدرسے کی محبت اور سکون سے بھری زندگی سے محروم ہوئے ابھی تین سال ہی ہوئے ہیں ، اساتذہ کی پیار بھری باتیں اور شفقت بھری ڈانٹیں، آج بھی دل کے نہاں خانوں میں تازہ ہیں ،آج بھی جب کبھی ’’باس ‘‘کی بے جا نصیحتیں سنتے ہیں اور بحیثیت ’’ملازم ‘‘ایسی سلوک سے واسطہ پڑتاہے جس کا سامنا ہر ملازم کو کرنا ہوتاہے تو بے ساختہ اساتذہ کی محبتیں یاد آتی ہیں،جو۔طالب علمی کے بعد ــ’’غم ِروزگار ‘‘اورــ’’عشق بتاں‘‘میں الجھے ہوئے یقین نہیں آتاتھا کہ پھر کبھی سکون و راحت اور محبتوں کا وہ ماحول نصیب ہوگا جو کبھی مادرِعلمی میں حاصل تھا مگر بھلا ہو میری مادر علمی کا ،سدا سلامت رہے میری محبتوں کا مرکز ،برسوں چکمتارہے ،صدیوں دمکتارہے جامعہ الرشید ،عمر ِدراز پائیں میرے اساتذہ ،اﷲ ہر حاسد کے حسد سے محفوظ رکھیں میرے روحانی والدین کوجنہوں نے ہمیں ایک بار پھر کچھ لمحے اپنے سایہ محبت و شفقت میں گزارنے کا موقع دیا ،جامعۃ الرشید میں گزرے یہ تین دن کیا تھے ،وہاں ہمارے جذبات کیا تھے ، ہماری دلی کیفیات کیا تھیں ،ایک عرصے بعد اس مرکز ِ محبت میں جمع ہوکر ہم نے کیا محسوس کیا ؟ان سب سوالوں کا ایک ہی جملے میں جواب دیا جائے تو سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ’’ہم پھر بچپن میں لوٹ گئے تھے‘‘ وہی سکون، وہی راحت ،وہی دنیا سے بے خبر یاد الٰہی میں مشغول،راتوں کو اٹھ کر امت مسلمہ کے غم میں رب لم یزل کے سامنے ہاتھ پھیلا کر گڑگڑا کر دعاؤں میں مشغول ہونا،فجر کے اول حصے میں ذکرواذکارسے دل کی کشت ِویراں کو سیراب کرنا ،نماز فجر کے بعد اساتذہ کی قیمتی باتوں سے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا کہ دین کی خدمت کیسے کرنا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی معاشی زندگی کے لئے پروگرام بنانا ۔

اس تین روزہ اجتماع میں برسوں کا تجربہ رکھنے والے اساتذہ کرام کی باتیں بلا شبہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ،مگر آج کی ان سطور میں صرف ایک نشست کی چند باتیں عرض کرو ں گا ، وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے اور برسوں بعد کے حالات کا پہلے ہی سے تجزیہ کرنے اور ساتھ ساتھ اس کا حل بھی پیش کرنے والے ـ’’ایک استاد محترم ‘‘نے اپنے خطاب میں فرمایا !
’’آپ جہاں بھی کام کریں ،جس ادارے میں بھی افسر ہوں ،کسی بھی دفتر ،کسی بھی محکمہ میں ورکر ہوں، اپنے کام سے دلچسپی رکھنا ،انہوں نے کہا کسی بھی ورکر، کسی ملازم اور کسی بھی افسر کے پاس کامیابی کے تین آپشن ہوتے ہیں ،پہلا یہ کہ وہ اپنے کام کو دیانت داری سے کرے ،اس میں خیانت نہ کرے ،لگن اوردل جمعی سے کام کرے ۔یہ بھی کامیابی ہے مگر یہ کامیابی اس حد تک ہے کہ کسی کو اس سے شکایت نہیں ہوگی ۔

دوسرا یہ کہ اپنے کام کو دیانتداری کے ساتھ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کام کو اپنے او پر سوار کرے ،ادارے میں ہو یا ادارے سے باہر ہر وقت اپنے کام کے بارے میں سوچے ،اپنے ادارے کی ترقی کے بارے میں منصوبہ بندی کرتا رہے۔ یہ وہ گر ہے کہ بہت جلد لوگ آپ کے گرویدہ ہوجائیں گے ،آپ کو بہت جلد ترقی مل جائے گی ،آپ کو ہر کوئی اہمیت دے گا ،کوئی آپ کی غیر موجود گی میں آپ کیخلاف بات کرے گا تو وہاں موجود ہر شخص آپ کی طرف سے دفاع کرے گا ۔

تیسرا اور انتہائی نکتہ یہ کہ آپ اپنے ادارے اپنے کام میں اتنی دلچسپی لیں کہ خود اس کام پر سوار ہوجائیں ۔آپ جہاں بھی ہوں دفتر میں یا گھر میں ،سفر میں یا حضر میں کام آپ کے ہاتھ میں ہو،آپ کام کو مجبور کردیں کہ اسے کس وقت پورا ہونا ہے ،آپ پریشان نہ ہوں کہ فلاں وقت تک کام مکمل ہوگا یا نہیں ۔یہ ایک ایسا تریاق ہے کہ لوگ آپ کو اہمیت دینے، آپ کو ترقی دینے کی بجائے ادارہ ہی آپ کے حوالے کردیں گے ۔محکمے کو آپ کے ہاتھ گروی رکھنے کو تیار ہوں گے ۔

قارئین کرام !ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے ادارے سے شکوہ کناں ہیں ،ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اپنے ’’باس‘‘ سے شکوے شکایتیں ہیں ،آج اگر ہم ان باتوں پر عمل کریں تو ہماری سارے مسائل،سارے شکوے دور ہوجائیں گے ۔ازمائش شرط ہے ۔
Shehbaz Khail
About the Author: Shehbaz Khail Read More Articles by Shehbaz Khail: 9 Articles with 9216 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.