موسم میں گرمی کی شدت کی وجہ ہی ہوگی کہ مسجد
انتظامیہ نے مغرب کی نماز مسجد کے ہال کی بجائے باہر صحن میں کروانے کے
فیصلہ کیا۔ ہمارے گھر کے ساتھ والی مسجد بہت بڑی ہے، اس میں ہر نماز میں
سیکڑوں نمازی اپنے خالق کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں، مغرب کے وقت باہر صفیں
دیکھ کر تبدیلی کا احساس تو ہوا، مگر طویل وعریض صحن میں دس بارہ صفیں
تھیں، ہمیں تیسری صف میں جگہ ملی، ویسے تو کھڑے ہوتے ہی محسوس ہوگیا تھا کہ
صف مٹی سے کس قدر آلودہ ہے، مگر جب سجدے کا وقت آیا تو قیام بھول گیا، یعنی
مٹی جوکہ ہاتھوں اور پیشانی وغیرہ کو محسوس ہورہی تھی، تاہم وہی کپڑوں پر
بھی لگی ، اس معاملے میں دوسری اہم بات یہ تھی کہ اس صف سے مخصوص قسم کی
بُو بھی آرہی تھی، جو کسی چیز کے بارش یا اوس وغیرہ میں پڑی رہنے سے آتی
ہے۔ یعنی یہ صفیں دن رات یہیں بچھی رہتی ہیں، رات کی نمی اور دن کی مٹی سب
اپنی جان پر برداشت کرتی ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، اگلی دوچار صفوں کے
بعد والی صفیں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی تھیں، یعنی خراب، گرد آلود
اور ٹوٹی ہوئی صفیں، جن کے یا تو پاؤں والی جگہ صف نہیں تھی، فرش پر کھڑے
ہونا پڑتا تھا، یا پھر سجد ہ کی جگہ فرش تھا۔ اﷲ معاف فرمانے والا اور
نمازیں قبول فرمانے والا ہے، ہمارا ذاتی تاثر نماز کی کراہت کا ہی تھا۔
امام نے نماز سے سلام پھیرا تو ایک صاحب کھڑے ہوگئے،انہوں نے بتایا کہ پورے
کا پورا دین ہماری زندگیوں میں کیسے آئے گا، اس کے لئے کس قسم کی محنت کی
ضرورت ہے، اس کے بارے میں بقیہ نماز کے بعد بات ہوگی۔
اس مسجد میں نمازیوں کے رش کی ایک وجہ زیادہ آبادی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ
مسجد سے ملحق ایک مدرسہ بھی ہے، جس کے اساتذہ اور طلبا اسی مسجد میں نماز
پڑھتے ہیں، اور تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ کہ یہ مسجد تبلیغی جماعت کا
مرکز بھی ہے۔ اگرچہ یہ مرکز اب دوسری مسجد میں منتقل ہوگیا ہے، مگر اِ س
مسجد میں جماعتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ پچھلے دنوں مسجد کے صحن کے آخر تک
بستر پڑے تھے، نمازیوں کی نماز کے وقت کوئی ترتیب نہیں بنتی تھی، اگرچہ ان
لوگوں کا بندوبست کافی منظم ہوتا ہے، مگر بہت سی بے ترتیبی اور بے تدبیری
دیکھنے کو ملی۔ جب کبھی زیادہ جماعتیں آجائیں تو فجر کی نماز میں عجیب سا
ماحول ہوتا ہے، راستے میں کھانے کی چیزوں کے ٹکڑے وغیرہ پڑے ہوتے ہیں۔
رمضان المبارک میں کھجور کی گٹھلیاں عام پائی جاتی ہیں، فجر کی نماز میں
پاؤں میں چپچپاہٹ محسوس ہو تو جان لیجئے کہ رات کسی روزہ دار نے شربت نوشِ
جاں کیا ہوگا، جس کا کچھ حصہ صف پر گر گیا۔ یاسالن وغیرہ بھی گر سکتا ہے۔
فروٹ کے چھلکے، جن میں کیلا بھی شامل ہے، بعض اوقات مسجد کے صحن یا برآمدوں
میں پڑے ہوتے ہیں۔
تبلیغی جماعت پاکستان کی سب سے اہم جماعت ہے جسے حکومتوں ، اداروں وغیرہ کی
نظر میں بے ضرر قرار دیا جاتا ہے، ایک طنز بھی ان پر کی جاتی ہے، کہ ان سے
کسی کو کوئی خطرہ نہیں، یا یہ زمین کے نیچے کی بات کرتے ہیں یا آسمان سے
اوپر کی۔ اس گہری طنز میں کچھ حقیقت بھی ہے، کہ یہ لوگ انسانیت کی اصلاح کا
بیڑہ تو اٹھاتے ہیں، مگر دنیا کی بہتری کے لئے بہت سے اقدام نہیں کرتے، جو
دنیا اور آخرت دونوں کے لئے ضروری ہیں۔ جب نماز کے بعدایک بھائی کھڑے ہوکر
دین میں پورے کے پورے داخل ہونے کی بات کرتے ہیں، تو وہ یہ بات بھی خوب
جانتے ہیں کہ دین کے داعیﷺ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا تھا، یعنی آدھا
ایمان تو اس وقت مکمل ہوجاتا ہے، جب انسان صفائی کا اہتمام کرلیتا ہے، مگر
بدقسمتی سے یہاں صفائی پر دھیان کم ہی جاتا ہے۔ یہ کسی ایک مسجد کا مسئلہ
نہیں، پاکستان بھر میں مساجد کی بھاری تعداد ایسی ہے، جن میں صفائی کا
فقدان ہوتا ہے، اگر مسجد خوبصورت اور چمکیلی بھی ہے توا س کے واش روم کی
حالت غیر ہی ہوتی ہے، بدبو اور غلاظت کا مسجد کے واش روم میں وجود کوئی
اچھمبے کی بات نہیں، کسی کے دروازے ٹوٹے ہوئے ہیں تو کسی کے دروازے مقفل
ہیں۔ جوتیاں سلیقے سے اتارنے کا بندوبست بھی محدود ہے، ایک دوسری کے اوپر
جوتیاں اتار کر نمازی اندر تشریف لے جاتے ہیں۔ اگر کسی نے اپنی مناسب سی
جوتی وہیں اتار دی تو ممکن ہے واپسی پر موجود ہی نہ ہو، یہ بھی ہوسکتا ہے
کہ اس کے اوپر جوتے سمیت کتنے لوگ گزر کر اس کی شکل بگاڑ چکے ہوتے ہیں۔
مسجد کو تو ہر لحاظ سے صفائی اور سلیقے کا نمونہ ہونا چاہیے۔
|