"24مارچ کے دن پاکستان کی اساس و دو قومی نظریئے پرجب
جسموں اور لباس کو مختلف رنگوں سے رنگین کیا جارہا تھا اس سے ایک دن قبل
یوم پاکستان کی شاندار تقریب اس بات کا احساس دلا دلا چکی تھی کہ قائداعظم
محمد علی جناح نے جب پاکستان کا مطالبہ کیا تھا تو دوٹوک موقف تھا کہ
ہندوستان میں دو قومیں بستی ہیں ، جن کا رہن سہن ، مذہب اور معاشرتی اقدار
ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ لہذا انگریزوں کی غلامی سے نجات کے بعد ایک ایسی
ریاست کا قیام عمل لانا ہے جس کا نظام قرآن کریم کے آفاقی اصولوں پر مشتمل
ہو۔ حیدرآباد (دکن) میں عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبا ء کو 1941ء میں کچھ یوں
بیان کیا کہ"اسلامی حکومت کے تصورکا یہ امتیازہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ
اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا" واحد
ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول" ہیں۔اسلام میں اصلا نہ کسی" بادشاہ "کی
اطاعت ہے نہ کسی" پارلیمان " ,نہ کسی اور "شخص" یا "ادارہ "کی۔"قرآن کریم
"کے احکام ہی سیاست یا معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین
کرتے ہیں، اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی
ہے اور حکمرانی کیلئے آپ کو علاقہ اور مملکت کی ضرورت ہے۔ (اورینٹ پریس
بحوالہ روزنامہ انقلاب ، لاہور مورخہ 8 فروری 1942ء( آج نام نہاد آزادی
کے69سالوں میں ملک کے دو لخت ہونے کے باوجود ہم غلامی کے حصار سے باہر نہیں
نکل سکے ، ہم آج بھی غیراسلامی ثقافتوں کے غلام ہیں اور ان کا طوق اپنے
اپنی گردنوں میں ڈال کر خود کو لبرل ، سیکولر ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
مقام حیرت نہیں ہے یہ سب کچھ ، کیونکہ ہم میں اپنی قومی حمیت کا احساس صرف
کرکٹ میچ تک ہی محدود کردیا ہے۔کرکٹ میچ میں پاکستان اگر بھارت کو شکست دے
ڈالے تو یہی ہمارے لئے بہت ہے ۔ باقی مقبوضہ کشمیر میں ایک آئرن لیڈی پا
کستان کا پرچم سر بلند کرکے لاکھوں بھارتی فوجیوں کی ٹڈی دل رٹ کو چیلنج
کرے تو ہم میں ملی جذبہ بیدار کرنے کیلئے بھی میوزک کی ضرورت پڑتی ہے۔مجھے
کسی غیر مسلم کے تہوار منانے پر قطعاََ اعتراض نہیں ہے ، خاص کر اس صوبے
میں جس کا وزیر اعلی زہریلی شراب پینے والوں کو شہید کہتا ہو ، اور ہماری
اسمبلیوں میں دعا مغفرت مانگی جاتی ہو۔میں شائد بہت تلخ ہوجاتا لیکن مجھے
اس وقت جواب نہیں بن پڑا ، جب کھتولک مسلک کے پوپ فرانسیس نے اٹلی میں اپنے
رسم کے مطابق تین مسلمان بچیوں کے پاؤں خود دھو کر انھیں بوسہ دیا ۔ بلکہ
آرتاھا ڈاکس اور کیھتلک پناہ گزینوں کے پیردھوئے اور قدم بوسی کی۔پوپ کی یہ
کاروائی اس وقت منظر عام پر آئی ہے جبکہ مسلم دشمن اور پناہ گزین دشمن
لفاظی عروج پر تھے اور بروسلز میں حملوں کے بعد اس میں مزید شدت پیدا ہوگئی
پوپ فرانسیس نے اسے"جنگ کی نشانی "قرار دیا۔یہ ان کا عقیدہ ہے کہ صلیب پر
چڑھانے سے پہلے مبینہ طور پر جیسس نے بھی اپنے چیلوں کے پیر دھوئے اور قدم
بوسی کی تھی ۔ یہ رسم صدیوں سے جاری ہے ، اس بار پوپ فرانسیس نے وٹیکن سٹی
کی نمائندگی کی۔ ایک قدم اور بڑھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین
بچوں کی طرح ضد اختیار کئے بیٹھے ہیں کہ پاکستان میں ہندو کیوں وزیر اعظم و
صدر نہیں بن سکتا ، وہ اپنے نانا کے 1973ء آئین کی کھلم کھلا مخالفت کرتے
نظر آتے ہیں اور خود کو مغرب میں سیکولز ازم کا علمبردار ثابت کرنے کیلئے
پاکستان کے آئین کا کھلم کھلا مذاق اڑا رہے ہیں۔ان کے وزیر اعلی شرابیوں کو
شہید کا خطاب دے رہے ہیں ، شراب پینے والوں کو امداد کے نام پر کروڑوں
روپیہ امداد کے نام پر مال مفت دل بے رحم کی طرح تقسیم کیا جا رہا ہے۔کیا
شراب پینا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حلال ہے کہ انھیں اس غیر قانونی عمل
کیلئے خراج تحسین پیش کیا جائے اور ان کے لئے انھوں دعا مغفرت کس طرح کی
گئی ہوگی یہ بھی معلوم نہیں ، لیکن بڑی عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہوگی کہ جب
ہم کچھ یوں دعا مانگ رہے ہوں کہ ، یااﷲ بتوں کی پرستش کرنے والے اور شراب
پی کر ’ معصوم بے گناہ شہید ‘ ہونے والوں کے گناہ معاف کرکے انھیں جنت
الفردوس میں اعلی مقام دے ۔ بلاول بھٹو زرداری کی اس میں کوئی غلطی نہیں ہے
کیونکہ ان کی تربیت مغرب زدہ ماحول میں ہوئی ہے اور انھیں اسلامی اقدار اور
مشرقی روایات کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے ۔ہندو تہوار پر مسلم اکثریت کو
بھی عام تعطیل کا اعلان ذاتی طور پر عجیب لگا تھا لیکن یہ سوچ کر خاموش کہ
ہماری عیدین اور دیگر اسلامی تہواروں میں بھی اقلیتوں کو بھی تعطیل پر
سرکاری طور پر مجبور کردیا جاتا ہے اس لئے دل نا سمجھ کو سمجھایا کہ اب اس
پر جز بز ہونے کے بجائے خاموشی پر اکتفا کریں تو زیادہ بہتر ہے ۔ کیونکہ
پاکستان میں نہ اسلامی مملکت ہے اور نہ جمہوری مملکت ہے ، عجیب سا نظام
حکومت ہے جہاں اقلیت اکثریت پر حکومت کر رہی ہے ۔ لیکن جب پوپ فرانسیس نے
اٹلی میں اپنے ہاتھوں سے مختلف عقائد والوں اور خاص کر تین مسلمان پناہ
گزین بچیوں کے پاؤں دھو کر قدم بوسی کی تو تمام غصہ ختم ہوگیا ۔ میں اس عمل
کو انسانیت کے پیرائیے میں دیکھا حالاں کہ یہ ان کے مذہب کی باقاعدہ رسم ہے
، لیکن جب پوری دنیا دو جنگی بلاکوں میں تقسیم ہوچکی ہو اور ایک طرف مسلم
اور دوسری طرف غیر مسلم ہوں اس پر ان کا یہ عمل ہمیں تو کچھ اور نظر آئے
لیکن یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے ایک دلی سکون کا باعث ضرور بنے
ہوگی اور اس عمل نے مغرب کی مسلم انتہا پسندی کو جھنجھوڑا ضرور ہوگا۔
ہندوؤں کے تہوار میں مسلمانوں نے جس خوش و خروش سے ہولی منائی تو بعض
ہندوؤں کو یہ شک گذار کہ شائد یہ تہوار مسلمانوں کا ہے ۔ کیونکہ جو اہتمام
مسلمان نام رکھنے والے مسلموں نے کئے تھے اس نے بھارت کو بھی مات دے ڈالی
کہ تم سے اچھا تہوار تو ہم مناتے ہیں ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے
معصومانہ خواہش ان کے دل سے نکل کر پھر سامنے آئی اور انھوں نے ادھر تم
ادھر ہم کا نعرہ دوسرے انداز میں لگا دیا کہ ہندو ؤں کاپاکستان الگ اور
مسلمانوں کا پاکستان الگ نہیں مانتا۔ایک ریاست کا فرض ہے کہ وہ مذہبی
اقلیتوں کو ان کے رسم و رواج کے مطابق آزادی دے ان کی حفاظت کرے اور انھیں
مکمل تحفظ کے ساتھ ریاستی ذمے داری پوری کرے ، لیکن ماتھے پر تلک لگا کر
مندر میں گھنٹی بجا کر ، بھنگ ، شراب پی کر غیر اسلامی رسومات منانے سے قوم
کو کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ اسلام ہمیں یہ سیکھاتا ہے۔ ایک معروف
پرائیوٹ اسکولز منجمنٹ کے اعلی ذمے دار نے اعتراض کیا کہ کہ اب ہم اپنے
طالب علموں کو کیا بتائیں کہ کہ ہولی کا تہوار کیا ہوتا ہے ، ہولی کیوں
منائی جاتی ہے ، رنگ کیوں پھینکا جاتا ہے اور بھنگ کیوں پی جاتی ے۔ میں نے
ان سے پوچھا کہ چلیں آپ مجھے یہ بتائیں کہ پرائیوٹ اسکولز میں اسلام کے
بارے میں کتنا پڑھایا جاتا ہے ، اسلام کے نامور صحابہ اور انبیا اکرام کی
سیرت اور مسلمان حکمرانوں کے کارناموں پر کیا نصاب تشکیل دیا ہے تو اس کا
جواب مجھے نہیں ملتا ، جب آپ کے نظام تعلیم میں اسلام کے بارے میں بلا
امتیاز آگاہی نہ ہو اور مدارس کو دہشت گردوں کی آجامگاہ سمجھیں تو پاکستانی
بچے کو تو ویسے ہی معلوم ہے کہ ہولی کیا ہوتی ہے ، کیونکہ بھارتی فلموں کی
وجہ سے یہ تہوارانھیں ہندوؤں سے زیادہ آگائی ہے ۔ہمیں قرآن کریم میں واضح
ہدایت ہے کہ کسی کے خدا کو برا نہ کہو تاکہ وہ تمھارے اﷲ کو برا نہ کہیں ،
لیکن ایسا تو کہیں نہیں لکھا کہ تم بھی ان کی طرح بن جاؤ ، اسی سوچ کو لیکر
سلمان رشدی معلون نے’ شیطانی آیات‘ نامی گستاخانہ کتاب لکھی تھی۔ اسکولوں
میں دوہرا نظام تعلیم ہے ، نہ مشرقی مسلم اقدار اپنائی جا سکتی ہے اور نہ
ہی مغربی اقدار کو مکمل گلے لگایا جا سکتا ہے۔ ہندو برادری سمیت تمام غیر
مسلم اقلیتوں کو پاکستان میں اپنے مذہبی رسم و رواج مکمل آزادی سے کرنے کا
حق حاصل ہے اور ریاست کا کام ان کو مکمل تحفظ دینا ہے کیونکہ یہ اسلام کا
حکم ہے۔کسی کو بھی ان پر قطعی اعتراض نہیں ہونا چا ہے لیکن یہ جو مسلم نام
رکھ کر غیر اسلامی شعائر کو اپناتے ہیں انھوں نے کبھی یہ سوچا کہ معصوم نا
پختہ بچوں کے اذہان ،جہاں بھارتی ثقافتی یلغار اس قوی ہو کہ بچے والدین سے
پوچھیں کہ پھیرے کب ہونگے ، تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری آیندہ نسل کس
راستہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔اگر سمجھ نہیں آیا تو ہندو کی زبانی خود جان لیں
کہ پاکستان کیا تھا ۔نظریہ پاکستان کیا تھا ایسے خود ہندو قوم پرست بتاتے
ہیں۔یکم نومبر 1941ء کو لدھیانہ میں اکھنڈ بھارت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی
صدارت ہندوؤں کے مشہور رہنما ء مسٹر منشی نے کی۔انھوں نے کہا "تمھیں معلوم
بھی ہے کہ پاکستان ہے کیا ؟ ،نہیں معلوم تو سن لیجئے کہ پاکستان کا مفہوم
یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسکا حق حاصل ہے کہ وہ ملک کے ایک یا ایک سے زیادہ
علاقوں میں اپنے لئے ایسے مسکن بنا لیں جہاں طرز حکومتـ" قرآنی اصولوں" کے
ڈھانچے میں ڈھل سکے اور جہاں ـ" اردو" ان کی قومی زبان بن سکے ،مختصرا یوں
سمجھئے کہ پاکستان مسلمانوں کا ایک ایسا خطہ ارض ہوگا جہاں اسلامی حکومت
ہوگی۔)ٹریبیون 2 نومبر 1941ء( ۔1936 ء سے 1938ء تک سراقبال نے جتنے مکتوب
جناح کو بھیجے ہیں اس میں بھی دو قومی نظرئیے کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ |