چچا برساتی کےاوائل جوانی کے دن تھے انهی
دنوں اس کا میٹرک کا رزلٹ آیا تھا جس میں وه دس میں سے تین مضامین ہی پاس
کر پایا تھا باپ نے غصہ میں آکر لعن طعن کر کے گھر سے نکال دیا اب وه اپنے
کسی دوست کے گھر رہائش پذیر تھا اتفاق سے اک دن روٹیاں لیتے اس کے بڑے
بھائی نے کسی تندور پر دیکھا اسے بھائی کی حالت زار پہ بہت دکھ ہوا ان دنوں
اسکی مین بازار میں سنیار کی دکان هوتی تھی- وه چچا برساتی کو پکڑ کر اپنی
دکان پر لے گیا اسے خوب سمجھانے بجھانے کے بعد دکان پہ بیٹھنے کی تلقین کی
جس سے اس نے صاف انکار کر دیا مگر بھائی کے بہت اصرار پر وه رضامند ہو گیا
اب چچا برساتی ادھر ادھر آواره گردی کرنے کی بجائے بہت محنت سے اپنے بھائی
کی دکان پر کام کرتا اور رات کو وہیں سو جاتا یہ ایک تلخ دور سے نکل کر
قدرے پر سکون دن تھے اسے گھر کے روک ٹوک بھرے ماحول سے نجات مل گئی تھی اسے
یہاں رہنا بھا گیا تھا رفتہ رفتہ یہی دکان اس کا مستقل مسکن بنتا جارہا تھا
- اس کے بھائی نے اب باپ کو سمجھانا شروع کیا تھا وه گھر میں کشیدگی کی فضا
دور کرنا چاہتا تھا سو اس کی کو ششوں سے کچھ دن تک وه باپ کو بھی راضی کر
کے اسے اپنے ساتھ گھر لے آیا اسے خوشی تھی کہ اس نے اپنا خاندان بکھرنے سے
بچا لیا اور اپنے چھوٹے بھائی کو کسی غلط راه پر بھٹکنے نہیں دیا- |