سوات کارسیلا مالٹا
(Fazal khaliq khan, Kalam)
سوات کو قدرت نے حسین نظاروں کے ساتھ سال
بھر مختلف قسم کے خوبصورت موسموں سے بھی نوازا ہے جس سے لطف اُٹھانے کے لئے
پورا سال یہاں سیاحوں کا تانتا بندھارہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے پھل
بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ رنگت میں لال اور ذائقے میں بے مثال سوات کا رسیلا
مالٹا‘ جسے دیکھ کر دور ہی سے منہ میں پانی بھر آئے اور جو کھائے وہ کھاتا
ہی رہ جائے ، سردیوں کی سوغات ‘سوات کے مالٹوں کی بات ہی نرالی ہے ، آج کل
سوات میں مالٹوں کی باغات میں بہارآئی ہے جودسمبر سے شروع ہوکر ماہ فروری
کے وسط تک رہتا ہے،سوات کا مالٹا جسے شہری کھارہے ہیں لگا تار ساتھ میں لے
جارہے اپنے پیاروں کے لئے بھی ملک کے اندر اور ملک سے باہر ،ہر طرف ایک ہی
آواز ہے کہ ”مالٹا ہو تو سوات کا “نہیں تو کسی اور جگہ کیمالٹا میں وہ مزا
نہ آئے ۔مالٹا جو اپنے اندر کئی قسم کے فوائد کے بے شمار خزانے لئے ہوئے
ہیں لیکن سوات کا مالٹا ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ انتہائی میٹھا اور رسیلا
ہونے کی وجہ سے منفر د حیثیت رکھتا ہے جسے حاصل کرنے کےلئے مقامی لوگ تو
ہروقت موجود ہوتے ہیں لیکن ملک کے دیگر حصوں سے بھی اس مالٹا کا لطف
اُٹھانے والوں کی کمی نہیں ۔تحصیل بریکوٹ اور شموزئی کے علاقے جو کبھی
مالٹوں کے مرکز ہوا کرتے تھے لیکن اب گونا گوں مشکلات اور حکومتی عدم دل
چسپی کی بناءپران رس بھرے مالٹوں کی باغات میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے
،مالکان مالٹا کے باغات ختم کرکے متبادل کے طورپر آڑوکے باغات بنانے کو
ترجیح دے رہے ہیں جس سے خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ سوات سے یہ انتہائی قیمتی
پھل سرے سے غائب ہی نہ ہوجائے۔یوں تو سوات بھر میں مختلف مقامات پر رسیلے
مالٹا کے باغات ہیں لیکن اس خوبصورت پھل کے سب سے زیادہ باغ سوات کی تحصیل
بریکوٹ اور شموزئی کے علاقے ہیں ۔آج سے صرف چند سال قبل تک سوات میں مالٹوں
کی باغات کی کل تعداد 300 سو زائد تھی جس سے تقریباً تین ہزار تک گاڑیاں
بھر کر ملک کے دیگر علاقوں میں پہنچائے جاتے تھے اور جو یہاں کے باغات
مالکان کے لئے ایک نفع بخش فصل کے طورپر جانی جاتی تھی لیکن اب مناسب توجہ
نہ ہونے کی وجہ سے یہ باغات گھٹتے گھٹتے صرف تیس رہ گئے ہیں۔ مالٹوں کے
کاشتکار افضل خان کے مطابق اب ان بچے کچے باغات سے صرف تیس سے لے کر پچاس
ٹرک مال حاصل کیا جاتا ہے جس سے باغات مالکان کا اپنا خرچہ بھی پورا نہیں
ہوتا ۔باغات مالکان کے مطابق حکومتی عدم دلچسپی ان باغات کے خاتمے کا اہم
سبب ہے اگر حکومت اس جانب خصوصی توجہ دے تو سوات کے مالٹا کو ملکی زرمبادلہ
کے لئے نفع بخش بنایا جاسکتا ہے جس سے مقامی کاشتکاروں کو بھی مالی استحکام
ملے گا ۔ ، باغات مالکان کے مطابق ہم اپنی مدد آپ کے تحت اپنے باغات کو اب
تک سنبھالے ہوئے ہیں جبکہ جن لوگوں نے اپنے باغات ختم کئے ہیں ان کا کہنا
ہے کہ مالٹا اگر چہ نفع بخش فصل ہے(کبھی تھا) لیکن اب اس کے مقابلے میں
ہمیں آڑو کی فصل مالٹا کے مقابلے میں ڈبل منافع دیتا ہے جس کی وجہ سے ہم
مالٹوں کے باغات ختم کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ ان مالکان کے مطابق موجودہ
وقت میں اگر ایک باغ میں 300 مالٹوں کے درخت ہوں تو ان سے حاصل ہونے والی
فصل سے 2,50,000 روپے تک منافع ملتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں آڑو کے تین
سو درختوں سے حاصل ہونے والی فصل سے 7 لاکھ روپے تک منافع ملتا ہے ، مالٹے
کے مقابلے میں آڑوپر خرچہ بھی کم آتا ہے پیداواری حساب سے مالٹا کے مقابلے
میں آڑو دُگنا فصل بھی دیتا ہے ۔یہی بنیادی نکتہ ہے جس کی وجہ سے کاشتکار
اب مالٹوں کی بجائے آڑو کو ترجیح دے رہے ہیںایک وقت تھا جب سوات کا مالٹا
بھر پور فصل کے باعث ملک کے کونے کونے میںپہنچایا جاتا تھا ۔لوگ تحفے کے
طورپر بھی اپنے پیاروںکو سوات کے مالٹے بھیجتے تھے لیکن پیداوار میں کمی کی
وجہ سے اب بات مقامی سطح یازیادہ سے زیادہ پشاور تک محدود ہوچکی ہے، سوات
کے مالٹے سے بازاروں میں لطف اندوز ہونے والوں کی تو کمی نہیں ہوتی لیکن
ساتھ ساتھ اس کے پارسل بھی بنا کر گھروں میں لے جائے جاتے ہیں اس کے علاوہ
بسا اوقات اگر کوئی میلہ یا فیسٹول منعقد کئے جا تے ہیں تو اس میں بھی سوات
کے مالٹا کی نمائش ضرور کی جاتی ہے ، موجودہ وقت میں بھی سوات کا مالٹا
نہایت مناسب دام پر دستیاب ہے کوالٹی کے حساب سے مالٹا فی درجن 100 روپے سے
لے کر 120 روپے تک سوات بھر میں دستیاب ہوتا ہے ۔ چونکہ مالٹا کو وٹامن سی
کا خزانہ بھی کہا جاتا ہے حکماءکے مطابق سردیوں میں انسانی جسم میں پانی کی
کمی واقع ہوجاتی ہے جسے پورا کرنے کے لئے قدرت نے مالٹا کی شکل میں انسانی
ضروریات پورا کرنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے مالٹا کے استعمال سے سردیوں میں
خشک ہوا کے باعث جلد کے پھٹنے سے بچا جاسکتا ہے۔ اس کے باقاعدہ استعال سے
نزلہ زکام اور دیگر متعدد قسم کے امراض سے چھٹکا را مل سکتا ہے جبکہ چہرے
کی رنگت کو بھی نکھارتا ہے ۔ مالٹا کی اہمیت کی پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے
کہ حکومت اس جانب مناسب توجہ دے، سوات میں مالٹا باغات کے خاتمے کے رحجان
سے بچنے کے لئے کاشتکاروں کے مطابق حکومتی توجہ انتہائی ناگزیر ہوچکی ہے ،
حکومت اگر یہاں کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں مناسب مراعات
اورفصلوں کو بچانے والی ادویات پر سبسڈی سمیت دیگر لوازمات میں سہولت فراہم
کردے تو یقینی طورپر سوات کے رس بھر ے خوبصور ت اور میٹھے مالٹوں سے ملک
بھر کے لوگوں کو فیضیاب کیا جاسکتا ہے ۔ |
|