ایک روشنیوں کا شہر تھا !

محترم و معزز قارئین ! پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہونے کہ ساتھ ساتھ کھربوں روپے کا مقروض بھی ہے۔۔۔ملکِ خداد پاکستان میں سیاست برائے خدمت کی بجائے سیاست برائے تجارت ہے ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاست دان ارب پتی نہیں تو کڑوڑ پتی تو بن ہی جاتے ہیں۔۔۔کچھ( بیچارے) موقع نہ ملنے کی وجہ سے ابھی تک لکھپتی ہی ہوں گے۔۔۔ہمارے مقروض ملک کہ سیاست دانوں کہ ٹھاٹھ باٹھ قابل دید ہیں۔۔۔اس ٹاٹھ باٹھ اور شان بان کا تذکرہ ہالی وڈ کی مشھور اداکارہ اور اقوام متحدہ کی خیر سگالی کی سفیر اینجیلنا جولی(لورا کرافٹ)نے سن ۲۰۱۰ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کہ دورے کہ بعد پیش کی جانے والی رپورٹ میں بھی کیا۔۔۔ہمارے سیاست دانوں کی عیاشیاں اگر دنیا کے کھرب پتی بھی دیکھیں توانہیں اپنی دولت کم لگنے لگے۔۔۔طاقت کا ایسا بے دریغ استعمال کرتے ہیں کہ جانور تو بہت دور کی بات ہے ،اگر چوکیدار بھی دروازہ کھولنے میں دیر کردے یا کہیں پارکنگ والا صحیح جگہ گاڑی پارک کرنے کو کہہ دے تو اسے کسی کیڑے مکوڑے کی طرح روند دیتے ہیں یا مار مار کر بھرکس نکال دیتے ہیں۔۔۔کبھی کبھی تو جان سے ہی مار دیتے ہیں۔۔۔یہ قانون سے ماوراء پاکستانی مخلوق ہیں۔۔۔یہ وہ مخلوق ہے جو ہمارے اعمالوں کہ بدلے وجود میں آئی ہے۔۔۔

یہ مضمون سیاست دانوں یا انکی عیاشیوں پر نہیں لکھ رہا ۔۔۔ایک وقت تھا جب کراچی کو روشنیوں کا شہرکہا جاتا تھا۔۔۔کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے۔۔۔شہہ رگ ہے ۔۔۔مگر عرصہ دراز سے لاقانونیت کا شکار ہے ۔۔۔بھتہ خوری، چھینا جھپٹی ، چلتے پھرتے لوگوں کا قتل، گھروں اور زمینوں پر قبضے ، خوف و ہراس وغیرہ وغیرہ یہ سب کراچی جیسے شہر کی پہچان بن چکے ہیں۔۔۔رہی سہی کثر پچھلے سال پڑنے والی گرمی نے پوری کردی، انگنت لوگ کراچی میں لقمہ اجل بن گئے۔۔۔بجلی نہیں ہے، پانی نہیں ہے اور کہیں گیس بھی نہیں ہے۔۔۔سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، گٹر بہہ رہے ہیں، جگہ جگہ کچرے کہ ڈھیر پڑے ہیں۔۔۔دیواروں پر اشتہارات کی بھرمار ہے۔۔۔بینرز لگے ہیں پوسٹرز لگے ہیں۔۔۔ نوجوانِ کراچی چائے ، پان، گٹکا، سگریٹ کی لتوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔۔۔سچ پوچھئے تو اب کراچی میں گھومتے پھرتے ہوئے دل پسیج جاتا ہے اور آنکھیں بھر آتی ہیں۔۔۔کچھ عرصہ قبل تک کراچی ،پاکستان کہ دوسرے شہروں میں رہنے والوں اور بیرونِ ملک رہنے والوں کیلئے ایک انتہائی پر خطر شہر سمجھا جاتا تھا۔۔۔جہاں شائد چوبیس گھنٹے گولیوں کی گھن گھرج سنائی دیتی ہے۔۔۔کراچی میں سیاست اور سیاسی ماحول ہر وقت گرم رہتا ہے ۔۔۔یہاں ہر سطح پر سیاست زیر بحث رہتی ہے ۔۔۔بچہ بچہ سیاسی بیان دینے اور سیاسی حریف کو گالی دینے سے دریغ نہیں کرتا۔۔۔ایسا ہی مذہب کہ نام پر بھی ہوتا ہے۔۔۔کوئی کسی کو کافر کہنے سے پہلے سوچتا تک نہیں اور چوکتا نہیں۔۔۔کراچی کی اور کراچی والوں کی ایسی زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے۔۔۔کراچی کی مثال کچھ ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص سفید کاٹن کہ کلف لگے کپڑوں میں ملبوس ہو اور اچانک وہ کسی کیچڑ زدہ گڑھے میں گر جائے پھر اس کی حالت کو دیکھ کر اسے پاگل سمجھا جائے پھر اس پر گلی کہ بچے پتھر ماریں۔۔۔جن سے بچنے کیلئے وہ بھاگے گرتے پڑتے اسکے کپڑے پھٹ جائیں اور وہ زخم خوردہ لہو لہو ہوجائے ۔۔۔پھر ہر آنے جانے والے سے خاموشی سے اپنی مدد کی التجا ء کرے جسے کوئی سن نہ سکے۔۔۔

پاکستان کی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی کہ منعقدہ عالمی کپ سے بغیر سیمی فائنل کھیلے باہر ہوگئی ۔۔۔ قوم کو دلی رنج و صدمہ ہوا۔۔۔شاہد آ فریدی کی وجہ سے یہ بھی سہہ گئے۔۔۔ٹیم وطن واپس آگئی ہے کوئی خاص باز پرس ہوتی نظر نہیں آرہی ۔۔۔باس پرس کرے کون اور کس کی۔۔۔یہ بھی وہی حمام ہے جس میں سب بے پیرہن ہیں ۔۔۔یہاں تو سب ایک دوسرے کا تن ڈھانپنے میں مصروف ہیں۔۔۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی کچھ بھی کرتا پھرے اسے کچھ نہیں کہا جاتا۔۔۔ہماری عوام چاہے کراچی کی ہو یا کسی اورشہر کی فوج کی طرف ہی دیکھتی رہتی ہے۔۔۔جبکہ عوامی نمایندگان فوج کہ نام سے کانپنے لگتے ہیں۔۔۔

اس تمام صورتحال میں ہمارے میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔۔۔کراچی کہ باسی انتہائی انتشاری کیفیت کا شکار ہیں۔۔۔کراچی کو غریب پرور شہر بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔اپنی تمام تر برائیوں کہ باوجود۔۔۔کراچی میں پاکستان کہ ہر شہراور گاؤں کا فرد آباد ہے۔۔۔آپ کبھی ریلوے اسٹیشن یا بس کہ اڈوں پر کچھ وقت گزاریں۔۔۔آپکو کراچی آنے والوں کا ایک اژدھام ملے گا۔۔۔جن میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جو کراچی بسلسلہ روزگار آتے ہیں۔۔۔پہیری والا، رکشے والا، ہوٹل والا، اسطرح کہ پیشوں سے وابسطہ لوگوں کی اکثریت کسی اور شہر سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔۔۔یہ اس شہر کی خوبصورتی بھی یہی ہے ۔۔۔یہ ایک ایسی خوبی ہے جو دوسرے تمام شہروں سے کراچی کو مختلف کرتی ہے۔۔۔مگریہی خوبی کراچی کہ مقامی لوگوں کیلئے پریشانی کا باعث بنتی ہے انکا یہ کہنا ہم بیروزگار ہیں اور ہمارے شہر میں باہر سے آکر لوگ روزگار کما رہے ہیں۔۔۔اس کہ برعکس کراچی کہ شہری کراچی کہ علاوہ کہیں اور جا کر نوکری کرنے کا سوچتے بھی نہیں ۔۔۔ ایسا کیوں ہے۔۔۔یہ ایک سوال ہے جس کا جواب اربابِ اختیار ہی دے سکتے ہیں۔۔۔

کراچی سندھ کا مرکزی شہر ہے ۔۔۔سندھ حکومت کی عمارتیں بھی کراچی میں ہی ہیں۔۔۔اسمبلی حال بھی کراچی میں ہی ہے۔۔۔ممبران کا ہاسٹل بھی کراچی میں ہی ہے۔۔۔مگر اسمبلی ہال میں بیٹھنے والوں کی اکثریت کا تعلق کراچی سے نہیں ہے ۔۔۔اور نہ ہی اکثریت کراچی کی رہاشی ہے۔۔۔یہ لکھتے ہوئے قطعی کوئی عار محسوس نہیں ہورہی کہ سندھ حکومت صرف تصویریں بنانے اور زبانی جمع خرچ کی سیاست کرتی آرہی ہے۔۔۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ مخالفت نا ہونا۔۔۔حکومت وقت ایسی ہے کہ جیسے لگتا ہے کہ حکومت نام کی کو ئی شے سندھ میں تو نہیں ہے ۔۔۔اگرسندھ میں ہے تو کراچی میں تو بلکل نہیں ہے۔۔۔حکومتِ سندھ کا حال ایسا رہا ہے کہ نا تو خود کچھ کرتے ہیں اور نہ کسی کو کچھ کرنے دیتے ہیں۔۔۔

حقوق کی بات جہاں کہیں بھی ہوتی ہے وہاں لڑائی جھگڑا لازمی آجاتاہے۔۔۔جدید دور میں کوئی کسی کو اس کا حق تک دینے کو تیار نہیں ہے (جی ہاں حق دینے کو تیا ر نہیں ہے)۔۔۔بس سب موقع کی تلاش میں ہیں کہ کس طرح سے سامنے والا چونکے اور اسکی حق تلفی کی جائے اور دوسرے کہ حق پر قبضہ کیا جائے۔۔۔کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جہاں لوگوں کو باشعورتصو ر کیا جاتا ہے (شائد یہ با شعورہونے کی دلیل ہی ہے کہ پورے پاکستان سے آنے والے افراد کراچی میں بستے ہیں)۔۔۔تعلیمی ادارے لاتعداد ہیں ان میں پڑھنے والے طالبِ علم بھی لاتعداد ہیں لیکن علم کی قلت ہے ۔۔۔جو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔یہ بات بلکل صحیح ثابت ہونے جا رہی ہے کہ ڈیگرییاں آپ کی تعلمی سند کم بلکہ تعلیم پر خرچ ہونے والے اخراجات کی ایک رسیدہے۔۔۔اس بات کی کیا سند ہے کہ کسی بہت بڑے تعلمی ادارے سے فارغ طالب علم باشعور بھی ہوگا۔۔۔پھر اداروں میں تقرریاں۔۔۔کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کا حق ماراگیا۔۔۔حق مارنے کیلئے بدعنوانیوں کا سہارا لیا جانا۔۔۔یعنی حق تلفیوں کی ایک زنجیر ہے ۔۔۔جو طویل تر ہے۔۔۔

ہمیں کراچی کو بچانا ہوگا۔۔۔کراچی کہ لوگوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور اضطرابی کیفیت سے نکالنے کیلئے حکومت کو (سندھ حکومت نہیں کیونکہ اس نے کچھ کرنا ہے ہی نہیں سوائے چھٹیاں دینے کہ) آپریشن کی طرح کہ اقدامات کرنے ہونگے۔۔۔سب سے پہلے بلدیاتی نظام کو بحال کرائیں۔۔۔جس کہ جو اختیارات ہیں وہ انکو منتقل کروائیں۔۔۔کچھ ایسی کاروباری اصطلاحات لے کر آئیں کہ کراچی کہ رہائشی کو پاکستان کہ دیگر شہروں میں کاروبار کرنے کہ مواقع فراہم کیئے جائیں۔۔۔جس سے بین الصوبائی ہم آہنگی کی فضاء قائم ہوگی۔۔۔لوگ کراچی والوں کو جانے گے اور کراچی والے بھی پاکستان کے دوسرے شہروں میں اپنے لئے مواقع تلاش کرینگے۔۔۔شہروں کہ مابین باہمی اتفاقِ کہ سلسلے میں اقدامات کریں۔۔۔ادیبوں شاعروں اور ایسے لوگوں کو آگے لے کر آئیں ۔۔۔اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر شہروں کہ دورے کیئے جائیں۔۔۔ذہنوں کو جلا دینی ہوگی۔۔۔بندوق اور گولی کسی مسلئے کا حل نہیں ہے۔۔۔صرف اعلانات کرنے سے کچھ نہیں ہوتاکوئی عملی اقدامات کیجئے جس سے پتہ چلے کہ پاکستان ہم سب کا ہے ۔۔۔کسی کی پاکستانیت پر سوال نہیں اٹھانا چاہئے۔۔۔

پاکستان کہ ہر شہر، دیہات اور اداروں کو کاسمیٹکس سرجری نہیں بلکہ اوپن ہارٹ سرجری کی ضرورت ہے۔۔۔شہر اور شہروں میں ادارے تباہ ہورہے ہیں آ پ زبانی جمع خرچ سے باز ہی نہیں آرہے۔۔۔اگر کچھ نہیں ہوتا توان لوگوں کو بتائیں جو کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وطن عزیز سے سچی محبت رکھتے ہیں۔۔۔ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔۔۔

Sh. Khalid Zahid
About the Author: Sh. Khalid Zahid Read More Articles by Sh. Khalid Zahid: 529 Articles with 454734 views Take good care of others who live near you specially... View More