فضیلت بانو : اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے

 ایک ضعیف اور ناتواں پر اسرار خاتون شہر میں ہونے والی کی شادی و غم کی تقریبات اور علمی و ادبی محفلوں میں اکثر دیکھی جاتی تھی لیکن سال 1985کے بعد وہ بزمِ جہاں سے ایسے رخصت ہوئی کہ پھر کبھی دکھائی نہ دی۔ دراز قامت لیکن ضعیفی کے باعث کمر خمیدہ،سر کے لمبے، سفید اور گھنے بال مری کے بر ف باری کے سرد موسم میں سر پر روئی کے گالوں کے مانند دکھائی دیتے تھے۔ اس کا لباس سادہ ،پر وقار اور صاف ستھرا ہوتا تھا اور جب وہ چلتی تو ایامِ گزشتہ کی تاریخ کے اوراق سامنے آجاتے ۔ناک پر موٹے سفید شیشوں والی نظر کی عینک رکھے وہ دائیں ہاتھ میں لاٹھی تھامے اسے زمین پر ٹیکتے ہوئے دھیرے دھیرے چلتی دکھائی دیتی تھی۔ جس طرح قدیم عمارات طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اپنی عظمت و شوکت کی داستان زبانِ حال سے بیان کرتی ہیں اسی طرح عظیم شخصیات کا بُڑھاپا بھی بیتے ہوئے شبا ب کے زمانے کے تما م مراحل کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ زندگی بھر سنگِ ستم کا نشانہ بننے کے بعد جب نفس نفس میں تنہائیوں کا زہر سرایت کر جائے پھر بھی نظر نظر میں نئے انجم سموئے صبر و استغنا سے راہِ رفتگاں پر گامزن رہنا بڑے دِل گُردے کا کام ہے۔بعض معمر لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کہولت اور نحیفی کے با وجود ان کا طرزِ زندگی ،روّیہ اور شیوۂ گفتار گردشِ ایام اور کاہلی کو آنکھیں دکھاتا ہے ۔ بُڑھاپے میں شباب کی باتیں کرنے والے اپنے خوابوں کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں۔فضیلت بانو تیزی سے گزرتے وقت اور ہر لمحہ بدلتے حالات کے سندیسے پڑھ کر اس قدر دل بر داشتہ ہوتی کہ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔زندگی کے تلخ تجربات کی تمازت نے اس کی زندگی کو نئی تاب و تواں عطا کی مگر بگلا بھگت احباب کی دل نواز نگاہوں ،شقی القلب حاسدوں کی کمین گاہوں اور مردود ِخلائق درندوں کی پناہ گاہوں سے اسے وہ کاری تیر لگے کہ اسے زندگی بھاری محسوس ہونے لگی۔وہ روز اِدھر سے گزرتی مگر کوئی توجہ نہ دیتا اس کے بعد جب صوت و بیاں کے تما م سلسلے توڑ کر یہ معمر خاتون چپکے سے زینۂ ہستی سے اُتر گئی تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اس نے چپکے سے عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھا اور ا س علاقے کے قدیم شہر خموشاں میں اپنی بستی بسا لی جو سال 713 میں بسا تھا،صدیوں پرانے سیلاب زدہ ،پراسرار اور عبرت ناک کھنڈرات کی ان نشانیوں میں ہیر اوررانجھا سال 1452سے آسودۂ خاک ہیں۔ تاریخ او ر قدیم کھنڈرات کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس مقام پر آبادی کے آثار چا رہزار سال قبل مسیح میں بھی پائے جاتے تھے۔آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے بعض ماہرین اس علاقے کی قدامت کا ذکر کرتے ہوئے ہیں اس مقام کو طوفانِ نوحؑ کی باقیات قرار دیتے ہیں۔بعض ستم ظریف اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس بات پراصرار کرتے ہیں کہ قرائن سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آج بھی یہ علاقہ پتھر کے زمانے کا ماحول پیش کرتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت کا تعلق زمانہ قبل ازتاریخ سے ہے ۔اس قدیم شہر کے جنوب میں واقع صدیوں پرانا گندہ ٹوڑا(گندے پانی کا جوہڑ)ہے جس کے بارے میں لوگوں کی لاف زنی کا یہ حال ہے کہ وہ بلا تامل یہ کہتے ہیں کہ جب ابلیس کو عالم بالا سے در بہ در کر دیا گیا تو وہ خاک بہ سر یہاں پہنچا اوراس نے سب سے پہلے اسی جوہڑ میں غسل سے اپنی خست و خجالت، نخوت، نحوست و نجاست اور ذلت و تخریب کے سلسلے کاآغاز کیا۔ سالہا سال تک شہر بھر کا کچرا اس جوہڑ میں پھینکا جاتا رہااور پہلی صدی سے بھی پہلے کا یہ جو ہڑ اکیسویں صدی کے آغاز میں کچرے سے لبا لب بھر گیاتو مقامی باشندوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ اس کے بعد بلدیہ کے سیاہ و سفید کے مالک اہل کاروں کی ہدایت پر شہر بھر کے خاکروب ہاتھوں میں جاروب تھامے نکل آئے اس جگہ کو ہموار کیا گیا اورشاہراہ پر بکھری گھوڑوں اور گدھوں کی لید اور متعفن مٹی کو بالٹیوں میں بھر بھر کر اس کوڑے کے ڈھیر پرڈال کر اس جگہ پر گھاس اُگا دی گئی اور کئی پودے بھی لگائے گئے مگر وہ ٹُنڈ مُنڈ پودے ڈال پات سے اب تک محروم ہیں۔جب اس گھاس کے میدان کو فائر بریگیڈ کی گاڑی سے سیراب کیا گیاتو یہاں سے ایسی زہریلی گیسوں کا اخراج ہوا جن کا علم کیمیا کی ان کتابوں میں بھی کہیں ذکر نہیں جو اس وقت تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک کے اعلا تعلیم کے نصاب میں شامل ہیں۔گندا ٹوڑا تو نہ رہا مگر اس کی جگہ زیرِ زمیں جو کوڑے کرکٹ کا عفونت سے لبریزمعدن دبا ہے اس کے مضرِ صحت اثرات کے بارے میں سوچ کر اہلِ درد تڑپ اُٹھتے ہیں اوراسے مندا پھوڑا کہتے ہیں ۔ تپ دق،سانس اور دمے کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو معالج سب سے پہلے یہی مشورہ دیتے ہیں کہ آئندہ وہ گندا ٹوڑا کے علاقے کا کبھی رخ نہ کریں ورنہ وہ چراغ سحری کی صورت بن جائیں گے۔

آج سے نصف صدی قبل اسی علاقے میں بہلو خان خواجہ سرا کی ہوش ربا دھریس پارٹی کامرکزی دفتر تھا۔بہلو خواجہ سرا کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا تعلق بسنت خان خواجہ سرا سے تھا۔ بسنت خان خواجہ سرا نے مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا(عہد حکومت :1719 to 1748) کے دور میں مجبوروں کے چام کے دام چلائے اورمفت کی شراب اور نجاست کے کباب میں ہڈی بننے والوں کی ہڈی پسلی ایک کر دی۔ بہلو خان خواجہ سرا کا پر داد بسنت خان خواجہ سرا آخری عہد مغلیہ کا بہت موذی و مکار ،اوچھا اور عیار دادا گیر تھا ۔ بسنت خان خواجہ سرا نے ہنومان جی کی مدام چلہ کشی کو وتیرہ بنا یا اس کی جسم فروش رذیل طوائف رقاصہ بیوی نے خرچی بٹورنے میں اس قدر تپسیا کی کہ نہ صرف اس کی تجوری زرو مال سے لبریز ہو گئی بل کہ اس کی خالی گود بھی مشکوک نسب اور منحوس نسل کے کرگس زادوں سے بھر گئی۔اس بد قسمت علاقے سے عفونت اور سڑاندکے جو بھبھوکے اُٹھتے تھے ان کا مرکز بہلوخان خواجہ سرا کی بیوی کا کو ٹھا ہی تھا ۔بہت جلد یہ ننگ انسانیت درندہ علاقے کا بہت بڑا چکلہ دار بن بیٹھا۔ فضیلت بانو نے بہلو خان خواجہ سرا کے مشکوک نسب کے بارے میں جو باتیں بتائیں ان کو حیطۂ تحریر میں لانا اس لیے ضروری ہے کہ کئی چشم کشا حقائق اس سے منسلک ہیں:
بسنت خان خواجہ سرا کو محمد شاہ رنگیلا کا بایاں بازو اور پنڈلی کا بال سمجھا جاتا تھا۔یہ کرگس زادہ جب رنگیلے بادشاہ کو چُلّو میں اُلّو بناتا تونام نہاد بادشاہ کا ہوش جاتا رہتا اور وہ بے سُدھ ہو کر منھ کے بل زمین پر لیٹ جاتا۔سب گوّیے اور کلانونت خوب داد عیش دیتے اور شاہی خزانہ اندھے کی ریوڑیوں کی طرح اپنوں میں بانٹنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ حالات کی ستم ظریفی اوراس حادثۂ وقت کا کیا نام دیا جائے کہ اردو قصیدہ ،نظم اور ہجو کے بادشا ہ مرزا محمد رفیع سودا کو بھی بسنت خان خواجہ سرا جیسے مسخرے کی اعانت کی احتیاج محسوس ہوئی۔بسنت خان خواجہ سراکی پروردہ طوائفوں اور اس کے بیسیوں ابنائے جنس نے قصرِ شاہی میں مستقل طور پر ڈیرے ڈال رکھے تھے اور اپنی چرب زبانی اور مکر کی چالوں سے رنگیلا بادشاہ کو تماشا بنا دیاتھا ۔ شاہی مسند کو دو لمبے بانسوں سے باندھا جاتا ،ان بانسوں کو آگے سے چار طوائفیں اور پیچھے سے چار خواجہ سرا اپنے شانوں پر اُٹھاتے ،بے بصر اور کو ر مغز شُوم رنگیلابادشاہ اپنے ہاتھ میں بُوم تھامے حقے کے کش لگاتا ہوا ہنہناتا ہوا اور دندناتا ہوا بیٹھا رہتا اور کئی ڈُوم اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے۔ اس مسخرے کی یہ مضحکہ خیز سواری شہر کے کُوچہ و بازارمیں سے گزرتی تو دو طرفہ ندامت ،اہلِ شہر کی ملامت اور ذلت و تخریب کی قیامت اس کے ہم رکاب رہتی۔ مسلسل چوبیس برس تک رنگیلا بادشاہ قصرِ شاہی میں گھسا رہا ،روم جلتا رہا مگر یہ ابلہ نیرو بانسری بجاتا رہا اور مجبور رعایا کے چام کے دام چلاتا رہا ۔بسنت خان خواجہ سرا جیسے سانپ تلے کے عقرب کے اقارب کے سبز قدم پڑتے ہی گلشن میں چاروں طرفگدھوں کے ہل پِھر گئے اور ہر شجر پر چغد جمع ہو گئے ۔ مغلوں کی پر شکوہ حکومت کو بے توفیقی ،بے غیرتی،بے حیائی اور بے ضمیری کے اتھاہ سمندر میں غرق کرنے کے منحوس اور قبیح سلسلے کا آغاز اسی بد اندیش رنگیلے کے عہد میں ہوا ۔

فضیلت بانو عجیب مانوس اجنبی خاتون تھی جس کے خاندانی پس منظر کا علم نہ ہو سکا۔ اس دنیا کے آئینہ خانے میں وہ دیکھنے والوں کو حیران کر کے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئی۔اس نے اپنے دل ِشکستہ کا حال کسی سے بیان نہ کیا ۔وہ جانتی تھی کہ در ِ کسریٰ پر صدا کرنا اور قبر میں شور بپا کرنا سعیٔ لا حاصل ہے ۔ اس نے لب اظہار پر ایسے تالے لگائے کہ زندگی بھر کوئی کلید انھیں کھول نہ سکی ۔ وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ اسے واقف حال لوگوں کی زبانی معلوم ہوا اکیس اپریل سال 1526کوجب مغل فاتح ظہیر الدین بابرکے پچیس ہزار جاں نثار ساتھیوں نے پانی پت کے میدان میں لڑی جانے والی پہلی لڑائی میں اپنے سے دو گنا بڑی ابرہیم لودھی کی بُزدل ٹڈی دل فوج کو عبرت ناک شکست دی تو چشم فلک نے یہ منظر دیکھاکہ ابراہیم لودھی دُم دبا کر بھاگ نکلا مگر شرم ناک شکست فاش اور ذلت ناک موت اس کے تعاقب میں تھی۔ اس ہزیمت خوردہ ،نا اہل ،کور مغزی اوربے بصری کے ہاتھوں ذہنی معذور سر پٹ دوڑتے ہوئے مفرور کی پیٹھ پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی گئی اور وہ منھ کے بل گرا اور اپنی ہی فوج کے ایک سو زخمی سراسیمہ اورسہمے ہوئے جان بچا کر بھاگنے والے ہاتھیوں کے پیروں کے نیچے کچلا گیا۔ابراہیم لودھی کے ساتا روہن کے نرغے سے بچ نکلنے والی جسم فروش رذیل طوائفوں کا ایک طائفہ تلنگانہ کے شہر محبوب نگر میں جا بسا۔ان میں سے روبی ،صبو،پونم اور شعاع نے آسو بِلا کے ساتھ پیمانِ جفاباندھا اورنواحی علاقے میں قحبہ خانہ بنا کر اپنے چہرے پر لیپا پوتی کر کے بن سنور کر بیٹھ گئیں۔ دوسری طوائفیں جن میں ظلی ،کنزی ،زویا اور گائتری شامل تھیں وہ زادو لدھڑ کو اپنا بھڑوابنا کر داد عیش دینے کے قبیح دھندے میں مصروف ہو گئیں۔محبوب نگر کے نواحی علاقے میں چار کلو میٹر کے فاصلے پر ایک قدیم باغ میں آٹھ سو سال پرانا برگد کا ایک درخت تھا جو پلا لاماری کے نام سے مشہور تھا۔ برگد کایہ درخت پلالاماری جو تین ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے کئی صدیوں سے نمرود اور فراعنہ کے عروج و زوال کی لرزہ خیز و اعصاب شکن تاریخ کا چشم دید گواہ تھا،جسے لوگ ماضی کی تاریخ کا ایک ورق اور عبرت کا ایک سبق سمجھتے تھے۔ سب طوائفیں گھومنے پھرنے کی غرض سے اکثر اس قدیم باغ کا چکر لگاتیں اور جدید دور کے عقل کے اندھے مگر گانٹھ کے پُورے جنسی جنونی عیاشوں کی تلاش جاری رکھتیں ساتھ ہی بر گد کے قدیم درخت پلالاماری کی چھاؤں میں بیٹھ کر اپنے شباب اور زیست کی دھوپ چھاؤں پر غور کرتیں۔وقت کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر وہ اکثر گھبراجاتیں اور ان کی تیوری پر بل پر جاتے لیکن وہ اس حقیقت سے بے خبر تھیں کہ حالات کی زد پر آنے کے بعد وقت ان جیسی طوائفوں کے سب کس بل نکال دیتا ہے ۔فکر و خیا ل کے ایسے تانے بانے اور ذلت کے افسانے انھیں تیورار دیتے۔ اس باغ میں دور دراز علاقوں سے سیر و سیاحت کی غرض سے آنے والے نوجوان ان کریہہ طوائفوں کے مکر کی چالوں اور نازو ادا کو دیکھ کر ان کے دامِ محبت میں پھنس جاتے۔گرد و نواح کے قصبات اور شہروں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں جنسی جنونی اس علاقے میں اکثر گھومتے اوردنیا و مافیہا سے بے خبرمے ارغوانی ،اٹھتی جوانی اور بیٹھتی زندگانی کے بارے میں سوچتے۔اس پر ہول ماحول میں جو بے شمارتلنگے،لُچے،مسخرے،شہدے،رجلے،خجلے،شُوم ،ڈُوم،ڈھاڑی،بھانڈ،بھڑوے،بھگتے اور کلانونت یہاں زاغ و زغن کے مانند منڈ لاتے رہتے،ان میں اکرو گھسیارا،کڑما بھٹیارا،رنگو رذیل، آرو بہرپیا،شرفو ڈُوم ، کھالُو شُوم اور گھونسہ بیابانی بھی شامل تھے۔وہ ہمیشہ اسی تاک میں رہتے کہ جس طرح ممکن ہو کسی نازک فاختہ،حسین بلبل یا غزال پر جھپٹ کر اس کو نوچ کھائیں۔ان ننگ انسانیت درندوں کی زادو لدھڑ اور آسو بلا کے ساتھ گاڑھی چھنتی تھی۔ چور محل میں پروان چڑھنے والے مشکوک نسب کے یہ سب بے غیرت،بے ضمیر اور سفاک قاتل ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے اور ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے تھے۔جرائم ،جنسی جنون ،منشیات اور انڈر ورلڈ کے یہ سانپ تلے کے بچھو جنھوں نے چور محل میں جنم لیا تھا اب چور دروازوں سے گھس کر تاج محل تک رسائی کی فکر میں ہلکان ہو رہے تھے۔ کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیر سے اپنے مفادات کے استخوان نوچنے کی ہوس میں انھوں نے بے غیرتی اور بے ضمیر ی کی انتہا کر دی اور اپنے خاندان کی عورتوں کو سیڑھی بنا کر یہ کر گس زادے اپنے تئیں ہما سمجھنے لگے۔ یہ فریب خوردہ بُوم اس قدر شُوم تھے کہ ہر ابلہ کی جہالت کی ہر طرف دُھوم تھی ۔زادو لدھڑ اور آسو بلا ایسے ناہنجار بھتہ خور خسیس تھے جو اپنے تئیں علاقے کے رئیس سمجھتے تھے مگر ان کی خست ان کے لیے خجالت کاباعث بن گئی ۔یہ دونوں رنگین مزاج عشقی ٹڈے سنگین جرائم کے مرتکب ہونے کے باوجود اپنے رسہ گیر آقاؤں کی آشیر باد سے داد عیش دیتے مگر کوئی ان کو لگام ڈالنے والا نہ تھا۔ یہ سبز قدم چرب زبان اپنے منھ میاں مٹھو بنتے مگر یہ بد اندیش جس طرف بھی جاتے ذلت،تخریب،بے حیائی،بے برکتی،بے توفیقی،بے ضمیری اور بے غیرتی کے کتبے نوشتۂ دیوار کی صورت میں ان کا منھ چڑاتے مگر یہ چکنے گھڑے ٹس سے مس نہ ہوتے۔ ان بد اندیش موذیوں کی سادیت پسندی،سفلگی اور سفاکی کے باعث مظلوم انسانیت کی امیدوں کی فصل غارت ہو جاتی اور ان کی عمر بھر کی محنت اکارت چلی جاتی۔اس علاقے کے مجبور ،مقہور،بے بس و لاچار اور اپنی زندگی سے بیزار انسان نسل در نسل ان ابلیس نژاددرندوں کے گھناونے کردار اور کینہ پروری کے معتوب چلے آ رہے تھے۔یہ بھڑوے اور طوائفیں اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ جنسی جنونی افراد کا شباب جس شتابی سے آتا ہے اُسی قدر خرابی کے ساتھ رخصت بھی ہو جاتا ہے۔اس کے چلے جانے کے بعددیدۂ گریاں سے اُٹھنے والی اشکِ رواں کی لہریں جگر کے خون کی آمیزش سے ایسی نہریں بن جاتی ہیں جن کی متلاطم موجیں امیدوں کے سفینوں اور امنگوں کے دفینوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں اور عیش و نشاط کے سب افسانے زمینوں کا رزق بن جاتے ہیں۔
فضیلت بانو کے آبا و اجداد کاتعلق بھی اسی علاقے سے تھا جسے حس و رومان کی ہزار داستان کا امین ہونے کی وجہ سے محبوب نگر کے نام سے پُکارا جاتا ہے۔وہ بھی برگد کے صدیوں قدیم درخت پلا لاماری سے بہت محبت کرتی تھی۔بر گد کے اس قدیم درخت کے نیچے ایک مرد ِ خود آگاہ آسودۂ خاک ہے جس پر قدرت کاملہ نے آٹھ سو سال سے برگد کے اس سایہ دار درخت کی صورت میں یہ خیمہ ایستادہ کر رکھا ہے ۔دارا و سکندر جیسے نامیوں کے نشاں تک قضا نے مٹا دئیے مگر اس مرد درویش کا نام اور مقام باقی ہے اور فیض کے اسباب ہمہ وقت جاری ہیں۔ محبوب نگر کو زرعی پیداوار کے اعتبار سے سب ریاستوں پر برتری حاصل تھی ۔اس علاقے میں حد نگاہ تک سر سبز و شاداب فصلیں اور بُو ر لدے چھتنار ایستادہ تھے ۔قدیم برگد کے درخت سے کچھ دُور ایک گھنا جنگل تھا۔ جنگل میں انواع و اقسام کی خود رو جڑی بوٹیاں پائی جاتی تھیں۔اس مخدوش جنگل میں ہمیشہ منگل کا سماں رہتا اور جنگل میں چور،ڈاکو،رہزن اور اُٹھائی گیرے سدا رقص ِابلیس جاری رکھتے مگر کوئی ان کو نکیل ڈالنے والا نہ تھا اور نہ ہی غریبوں اور مجبوروں کی صدا پر کوئی دھیان دیتا۔جنگل کے جنوبی کنارے پانی کے ایک عفونت زدہ جوہڑ کے کنارے پر ایک ہزاروں سال پرانا ایک خوف ناک مر گھٹ تھاجس کے گرد و نواح میں بد روحیں،بُھوت،چڑیلیں،آسیب،،بِجُو،خنزیر اور آدم خور اپنے پُورے زور سے جور و ستم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔اس جنگل میں خونخوار درندوں کی بھرمار تھی لیکن پرندوں میں صرف چغد ،کرگس،زاغ و زغن کے سوا کوئی اور پرندہ کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔صدیوں سے مروّج جنگل کے قانون کے تحت شب خون مارنا،مظلوموں کے خون سے ہولی کھیلنااورآرزوؤں کاخون کرنایہاں کے خون آشام درندوں کا وتیرہ تھا۔حالات کی سفاکی کا یہ حال تھا کہ کرگس زادوں کا خون اس قدر سفید ہو چُکا تھاکہ لوگ خون کے آنسو روتے مگر جنگل میں ڈیرہ ڈالے درندے مظلوموں کے خون سے ہولی کھیلتے ان کی آرزووں کاخون کرتے اور مظلوموں کے خون میں نہاتے اور جی بھر کردادِ عیش دینے کی غرض سے ڈیرہ دُون کا رُخ کرتے۔دریائے تنگا بہادرا کے جنگل بیلے میں صرف عشاق ہی اکیلے نہیں پھرتے تھے بل کہ میلوں تک پھیلے ہوئے اس وسیع صحرااور بے آب و گیاہ جنگل بیلے میں بے شمار درندے ان کے رازداں تھے۔جنگلی سور،بھیڑئیے،گیدڑ،لدھڑ،بن مانس،لنگور،مارخور،ریچھ،بجو،خار پشت ،کنڈیالے چوہے ،سگان آوارہ اور کتیائیں یہاں کثر ت سے پائی جاتی تھیں۔

اس علاقے کے چھوٹے کاشت کاروں نے اپنی ملکیتی زرعی زمین میں اپنی رہائش اورمویشیوں کے لیے جو جھگیاں اور ڈھپرے تعمیر کر رکھے تھے وہ انھیں بھینی کہتے تھے۔بھینی کی خستہ حال چھپری میں پالتو جانوروں ے لیے بُھوسہ،کھل بنولہ،کھل سرسوں اور خشک روٹیوں کاذخیرہ کر لیاجاتا۔ہاری کی قسمت جب ہاری تو وہ جنگل سے تو بچ نکلا مگرجاگیردار کے چنگل میں پھنس گیا۔وقت کے سِتم بھی عجیب نوعیت کے ہوتے ہیں کہ دِل پر گہرے گھاؤ لگاکر نہایت تیزی سے بِیت جاتا ہے۔اس کے بعد جب ہمیں ہوش آتا ہے یہ دیکھ کر ہمارے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے کہ فصلی بٹیرے اور چڑیاں کھیت چگنے کے بعدلمبی اُڑان بھر چُکی ہیں اور پُلوں کے نیچے سے بہنے والا پانی کب کا بحرِ ظلمات میں جا گرا ہے۔فکر و خیال کی کِشتِ ویراں کوسیراب کرنے اور تمناؤں کے اشجار کے ثمر بار ہونے کے خواب اب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکیں گے۔گرمیوں کی ایک سہ پہر تھی، سکوتِ مرگ کے باعث ہر طرف ہُو کا عالم تھا ،کچھ پُر اسرار سائے مر گھٹ کی جانب بڑھ رہے تھے۔ دیکھنے والوں نے یہ انہونی بھی دیکھی کہ زادو لدھڑ اور آسو بلا کی پرودہ طوائفیں اور داشتائیں رات کی تاریکی میں عجیب صورت میں گھومتی اور جُھومتی ہوئی دندناتی ہوئی ہر طرف پھرتیں اور بے بس راہ گیروں پر جھپٹتیں اور لذتِ ایذا حاصل کرتیں ۔ان کی ناک ،کان اور بال سب کے سب کٹے ہوئے ہوتے اور چہرے پر کالک ملی ہوتی تھی۔جذام،کوڑھ اور بر ص سے ہونے والے بد وضع ہو جانے والے ان وضیع افرادکے چہرے پر نحوست برس رہی تھی۔اس کے باوجود یہ طوائفیں اپنے کوڑھ زدہ چہرے پر ملمع کاری کرنے میں خجل ہوتی رہتیں۔ اپنے دھندے اور پھندے کی وسعت کے لیے یہ طوائفیں ہند ،سندھ کے جانے پہچانے سادھو امر ناتھ کے پاس جاتی تھیں ۔اس سادھو کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ اس کے پاس من جیونی بُوٹی موجود ہے جو اس نے ہنومان کی سیوا کرنے کے بعد کوہ بے ضمیری کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں واقع تیرہ و تار غار سے حاصل کی تھی ۔ تھوہر کی شکل و صورت والی اس خار دار خود رو جڑی بُوٹی کی خاصیت یہ تھی کہ جو بھی مرد اِس بُوٹی کوکھا لیتا وہ سدا جوان رہتا ہے او ر جو عورت اس بُوٹی کو لقمۂ خشک کے طور پر اپنے حلق سے نیچے اُتارتی وہ نہ صرف ہمیشہ جوانیاں مانتی اور سداسہاگن رہتی بل کہ ا س کے جسمانی حسن اور کشش میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا اور رنگ وروپ میں حیرن کن نکھار آ جاتا اور اس طرح اپنی بگڑی ہوئی تقدیر سنوارنے کی کوششیں جاری رہتی تھیں ۔ راسپوٹین قماش کایہ مسٹنڈا ،رنگیلااور جنسی جنونی سادھو اُٹھتی اور بیٹھتی جوانیوں ،ڈھلتی اور مچلتی سوانیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر اُن کی بُری طرح دُرگت بناتا اور ان کے ساتھ اپنا بھی منھ کالا کرتا تھا۔طوائفوں کے ساتھ آنے والے بھڑوے جب سادھو امر ناتھ کی گالیاں سنتے تو ہر گز بے مزا نہ ہوتے بل کہ اس کی دشنام طرازی کو اپنی قدر افزائی پر محمول کرتے تھے ۔ ہر وقت کی جُوتم پیزارسادھو امر ناتھ کا وتیرہ تھا ۔ وہ ہر بھڑوے کی جُوتوں سے پٹائی کرتا اور ان کی خُوب دھنائی کرتا تڑ تڑ پیزاریں بھی بھڑووں کو گوارا تھیں کیونکہ وہ اسے اپنے لیے ایک اچھا شگون قرار دیتے تھے۔ سادھو امر ناتھ نے کئی گدھے ،خچر ،استر ،ٹٹو اور ٹیرے پال رکھے تھے اور ان کو سِدھا رکھا تھا جو اس کے ایک اشارے پر مقررہ مقام تک جاتے اور وہاں سے سیدھے واپس آجاتے۔ واپسی پر ان کے راتب اور بھاڑے کا مناسب انتظام کیا جاتا تھا۔جب مُوذی و مکار بھڑووں میں کھٹ پٹ ہوتی تو وہ جھٹ پٹ سادھوامر ناتھ کے پاس پہنچتے اور مگر مچھ کے آنسو بہا کراسے اپنی داستانِ حسرت سناتے ۔سادھو امر ناتھ کے حکم پر یہ بھڑوے شہر کے کُوڑے کے ہر ڈھیر سے پُرانے جُوتے چُن کر گٹھڑی باندھ کر لاتے اور سادھو کے سامنے ڈھیر کر دیتے ۔ ان میں سے ایڑی والی جُو تیاں چھانٹ کر الگ کر لی جاتیں اور انھیں مقامی حلوائی کو دے کر ان کے بدلے گزشتہ صدی کی آخری دَہائی کا تیار کیا ہوا پتیسا منگوایا جاتا ۔ جِن جُوتیوں میں پہلے دال بٹتی تھی اب اُن جُوتیوں میں یہ جُوتوں کے عوض ملنے ولا پتیسا بٹنے لگتا ۔یہ پتیسا حاصل کرنے کے لیے سب بھڑوے ہنہناتے ہوئے دوڑے آتے ،لوگ دُہائی دیتے مگر اس آپا دھاپی میں سب بھڑوے اپنی اپنی ڈفلی لیے اپنا اپنا راگ الاپنے میں مصروف رہتے ۔ باقی ماندہ جُوتے جن سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے ہوتے تھے اُن سب پُرانے جوتوں کو مونج کی رسیوں میں پرو کر سادھو امر ناتھ جوتوں کے ہار بنواتا اور ہر بھڑوے کو حکم دیتا کہ وہ اپنی پسند کے مطابق جُوتوں کے ہار سنبھال لیں اور جلد جُوتوں کے یہ ہار اپنی اپنی گردن کا طوق سمجھ کر گلے میں ڈال لیں۔ان میں سے چند بڑے جُوتے سر پر تاج ِ رُوسیا ہی کے طور پر سجا لیں ورنہ تباہ کُن ہزیمت اور ذلت ناک ہار ان کا مقدر بن جائے گی۔ ٹُنڈ مُنڈ درختوں کی ڈال ڈال پر بیٹھے بُوم اور چُغد ،زاغ و زغن،شِپر اور کر گس یہ منظر دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس کے بعد سادھو ہر بھڑوے کو گدھے کی دُم کی طرف منھ کرکے گدھے پر سوار ہونے کا حکم دیتا ۔جس وقت سب بھڑوے اپنی اپنی سواری پر براجمان ہو جاتے تو ڈھنگو سپیرامارِ سیاہ لیے نمو دار ہوتا ۔یہ کالا ناگ اپنے منھ سے کالے رنگ کی رطوبت نکال رہاہوتا تھا ۔ ڈھنگو سپیراہر بھڑوے کے کریہہ چہرے کے قریب پھن لہرا کر پُھنکارتے ہوئے مارِ سیا ہ کا جبڑا لے جا تا جب یہ اژدہا پُورے زور سے پھنکارتا تو اس کے ساتھ ہی اس بھڑوے کا چہرہ اُس بھڑوے کے مقدر کی سیاہی کی طرح کالا ہو جاتا۔اس کے بعد ڈھنگو سپیرا اور اس کے ساتھی مداری ان سواریوں کو پُوری طاقت سے چابک مارتے۔ بُھوک اور پیاس سے نڈھال گدھے،خچر،استر ،مریل گھوڑے ،ٹٹو اور ٹیرے چارہ کھانے کے بجائے تازیانے کھا کر سر پٹ دوڑتے ہوئے دُور کوڑے کے ایک ڈھیر پر جا کر کھڑے ہو جاتے جہاں شہر کی صفائی پر مامور خاکروب روزانہ شہر بھر کا فضلہ اور کچرا پھینک جاتے تھے۔اب بھڑووں کا نہ تو ہاتھ باگ پر ہوتا اور نہ ہی پاؤں رکاب میں ہوتا تھا ۔ تیز رفتاری کی وجہ سے مرکب اور راکب دونوں کی آنتوں میں بل پڑنے لگتے ۔یہاں گدھے اس زور سے اُچھلتے کہ سب بھڑوے منھ کے بل کوڑے کے ڈھیر پر جا گرتے اور ان کا دہن ،کان ،آنکھیں چہرہ اور پُورا جسم فضلے سے لت پت ہو جاتا اور راکب کے سب کس بل نکل جاتے۔ اس کے بعد سادھو کے جفاکار سائیس اکرو بھٹیارے اور عارو منیارے کے سدھائے ہوئے خچر،استر ،ٹٹو ،ٹیرے اور گدھے ان ریاکار بھڑووں کو دولتیاں مارتے تھے۔یہ کریہہ مشقِ عقوبت سہنا زادو لدھڑ اور آسو بلا کا روز کا معمول تھا جسے وہ اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے۔ کئی بار روبی ،صبو،پونم ، شعاع،ظلی ،کنزی ،زویا اورگائتری کو بھی سادھو کا گیان حاصل کرنے کے لیے اسی شرم ناک تپسیا سے گزرنا پڑا ۔ان طوائفوں کی یہ ہئیت کذائی دیکھ کر لوگ سہم جاتے۔کئی بار ایسا بھی ہوا کہ یہ سب طوائفیں کتیائیں بن کر غرانے لگتیں،ان کے منھ سے جھاگ اور پانی بہنے لگتا اور دُم ہلاتی ہوئی یہ اِدھر اُدھر دوڑنے لگتیں اور اپنی پتھرائی ہوئی کرگسی آنکھوں میں انتظار کی دنیا بسائے اپنی خارش زدہ جِلد کو سہلانے اور جنسی جنون کو دبانے کی خاطر زمین پر لوٹنے لگتیں۔ اس اثنأ میں دُور کہیں سے آٹھ فربہ السیشن کتے نمودار ہوتے یہ سب کتیائیں ان کے سامنے دُم ہلانے لگتیں اور ان کے تلوے چاٹنے لگتیں۔گُرسنگی کا یہ عالم دیکھتے ہوئے جبڑے کھولے شکاری کتے ان کتیاؤں کو گردن سے دبوچ لیتے اورانھیں بھنبھوڑتے ہوئے دُور ویرانے میں لے کر غائب ہو جاتے ۔ یہ معما سمجھ سے بالا تر تھاکہ اس اجنبی شہر میں راتوں کے پچھلے پہرمیں دکھائی دینے والی کریہہ شکل والی مخلوق کہاں سے آتی تھی اور صبح ہوتے ہی کہاں غائب ہو جاتی تھی ؟ سدا وقت ایک سانہیں رہتا اپنی ہوس، شقاوت ،عیاشی ،مے نوشی ،قتل و غارت گری ،جنسی جنون ،بد اعمالیوں ،سادھو امر ناتھ سے بے وفائی اور محسن کشی کے باعث یہ سب بھڑوے اور طوائفیں کینہ پرور سادھو امر ناتھ کے عتاب اور غیظ و غضب کا شکار ہو گئے۔ ایک شام ہونی نے اپنا رنگ دکھایا ، زادو لدھڑ اپنے شریک جُرم ساتھی آسو بِلا کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ان کے پیچھے ان کی رذیل داشتائیں اور پروردہ جسم فروش طوائفیں بھی چلی آ رہی تھیں۔جب زمین کا یہ بوجھ اور ننگِ انسانیت درندے مر گھٹ میں پہنچے تو وہاں کی پُر اسرار مخلوق ،حشرات اور مافوق الفطرت عناصرنے ان مسخ شدہ شکلوں والے کریہہ اور مانوس اجنبی چہروں کو دیکھ کر خوشی کا اظہارکیا۔بہت بڑی تعداد میں اژدہا،ناگ،سانپ ،بچھو،کرگس،شِپر،بِجُو،چھپکلیاں،سانڈے ،جنگلی بِلیاں ،خار پُشت،کنڈیالے چُوہے،بُھوت،سر کٹی مخلوق،چڑیلیں،پچھل پیریاں،ڈائنیں اور اُڑنے والے سنپولیے ان کے بدمقدم کو پیچھے ہٹے مگر یہ چکنے گھڑے آگے بڑھ کر ان سے لپٹنے کی سعیٔ ناکام میں ہلکان ہو رہے تھے۔پلک جھپکتے میں ہر نائکہ اور طوائف نے ڈائن کا روپ دھار لیا اور ہر بھڑواجوا پنے خون آلود جبڑوں کو اپنی کالی زبان سے مسلسل چاٹ رہا تھا بھیڑیے کی شکل میں وہاں موجود تھا۔دُور گندے نالے کے کنارے بھی کچھ چڑیلوں کا جمگھٹا تھا جو کوڑھ ،برص ،خارش ،ایڈز اور جذام کے جان لیوا اور موذی امراض میں مبتلا تھیں ۔غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ تو وہی جسم فروش رذیل طوائفیں تھیں جو عالم شباب میں ہمیشہ شمع محفل ہوا کرتی تھیں ۔ان کے پروانے ان پر سب زرومال نچھاور کر دیتے اوران پر جان چھڑکتے تھے۔اب ان کے قویٰ مضمحل ہو گئے ،حسن و جمال کی رعنائیاں ماند پڑ گئیں اور عناصر کا اعتدال عنقا ہونے لگا تو انھیں اس شہر نا پُرساں میں التجا کرنے پر بھیک بھی نہ ملتی تھی ۔ان کے پُر ہول بوسیدہ زنگ آلودہ کشکول دیکھ کر سب لوگ لاحول پڑھتے اوران پر تُھوک کر دامن بچا کرپاس سے گزر جاتے تھے۔ ا س جگہ پر کئی لنگور اور بن مانس بھی موجود تھے جوہر بندریا کو دیکھ کر اُچھل کُود میں مصروف ہو جاتے۔مداری ان بندروں کو تگنی کا ناچ نچا رہے تھے یہ حالت دیکھ کر راز دان اس نتیجے پر پہنچے کہ ان بندروں کے رقصِ ابلیس پر مداری واقعی مبارک باد کا مستحق ہے۔ جنگل میں کٹھ پُتلیوں کا یہ تماشاجاری تھا اور یہ جنگل کیا تھا ایک چڑیا گھر تھا جس میں انواع و اقسام کے جانور اپنے اپنے پنجروں میں دُبک کر سُبک نکتہ چینیوں پر چیں بہ جبیں ہو رہے تھے ۔ہر جانور اپنی خاص ٹولی میں گھومتا اوراپنی مرضی کی بولی بولتاتھا۔زادو لُدھڑ اور آسو بلا کا بھیڑیا بن جانا ان کی فطرت کے عین مطابق تھا ۔عملی زندگی میں بھی وہ بھیڑئیے ہی تھے مگر انھوں نے انسانوں کا لباس پہن رکھا تھا ۔اب ان فریب کاروں کا حقیقی روپ سامنے آ گیا تھا ۔خون آشامی،مُردار خوری اور سادیت پسندی ان کی گُھٹی میں پڑی تھی ۔ لوگ کہتے ہیں کہ جس طرح شکر خورے کو شکر ہر حال میں ملتی ہے اُسی طرح حرام خور کے لیے حرام خوری کے فراواں مواقع ہر جگہ اورہر وقت موجود رہتے ہیں۔اب یہ ڈائنیں اور بھیڑیے جس طرف بھی جاتے انھیں شیر ،چیتے اور دوسرے جنگلی جانوروں کے شکار کے بچے کُھچے استخواں ،آنتیں ،اوجھڑیاں اور سری پائے وغیرہ مِل جاتے۔اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کی خاطر یہ منحوس ڈائنیں اور گرگ ِباراں دیدہ سرِ راہ بکھرے اس بچے کھچے، گرد آلود اورمتعفن ڈھانچوں کومالِ غنیمت سمجھ کر ان پر ٹُوٹ پڑتے۔فضیلت بانو اکثر سوچتی کہ دولت و ثروت کی اندھی ہوس موقع پرستی اور عیاری کو جنم دیتی ہے۔کُوڑے کے ہر متعفن ڈھیر سے جاہ و منصب اور زرومال کے استخواں نوچنا اور بھنبھوڑناابن الوقت عناصر کاوتیرہ ہوتا ہے۔جہاں تک حسن و جمال اور عشق و محبت کا تعلق ہے اس کا صدیوں سے ایک ہی رنگ اور آہنگ ہے۔عشق کے ڈھنگ سیکھنے والے پریشاں حالی ،درماندگی اور پریشاں نظری سے بچ جاتے ہیں۔

اس علاقے میں کئی سادھو اور مٹی کے مادھو بھی اپنے اپنے بھروں میں براجمان تھے۔مفاد پرست ،طالع آزما ،مہم جُو ،چِکنے گھڑے اور مرغِ باد نما قماش کے حیلہ جُو اِن کے گرد منڈلاتے رہتے تھے ۔گزشتہ صدی کے چوتھے عشرے کا وسط تھا ،سردیوں کی ایک شام دُور افق پر کالی گھٹا چھا گئی ،بادل گرجے ،بجلی چمکی ،موسلا دھا ر بارش شروع ہو گئی اس کے ساتھ ہی ژالہ باری بھی جاری رہی ۔ اس جنگل میں سب بھروں ،غاروں ،پناہ گاہوں میں پانی بھر گیا ۔سب درندے جان بچانے کی غرض سے باہر نکلے اور درختوں کے ایک جُھنڈ کے سائے میں پناہ لی ۔ اچانک بجلی کے ایک نگاہوں کو خیرہ کر دینے والے ایک کڑکے نے اس جُھنڈ کو جلا کر خاکستر کر دیا اور ہو لناک زلزلے نے زمیں کو اُلٹ پلٹ دیا ۔اگلی صبح بے شمار زاغ و زغن ،کرگس اور بِجُو اس علاقے میں دیکھے گئے ۔کچھ بھی نہ بچا ہر چیز راکھ کے ڈھیر میں بدل چُکی تھی۔ اسی علاقے سے ڈائنو سار کے ڈھانچے بر آمد ہوئے پھر سوامی استر کے جنتر منتر سے یہ سب ققنس کی مثال بن گئے ۔ دیکھنے والوں نے یہ انہونی دیکھی کہ راکھ کے اس عفونت زدہ ڈھیر کے گرد ناصف بقال اور زد خورو لدھیک منڈلا رہے تھے۔اچانک تھو ہر ، جنڈ،پِیلوں،سرکنڈے ،پوہلی اور کریروں کے جنگل میں سے نیم عریاں لباس پہنے گیت گاتی اور دھمال ڈالتی ہوئی طوائفوں کا ایک گروہ نمو دار ہوا ۔ان میں آٹھ طوئفیں جن میں ظِلو،رابی،شباہت شمر،پنکی،کِرن،کنزو،تحرو اور فاذو شامل تھیں۔سب کے کالے چہروں پر دُھول اور ہوائیاں اُڑ رہی تھیں وہ ہاتھ ملتی ہوئی اور دیکھنے والوں کی چھاتی پر مونگ دلتی ہوئی اس سمت میں آگے بڑھیں جہاں دونوں ننگ وجود ناصف بقال اور زد خورو لُدھیک بوسیدہ لباس پہنے غبارِ راہ میں اَٹے بال ،آلام روزگار سے نڈھال اور خستہ حال بے غیرتی ، بے ضمیری اور وبال کی تصویر بنے انھیں دیکھ کر ہنہنا رہے تھے۔ سبز قدم سینہ چاکان ِ نار ایک دوسرے سے جا ملے اور ان کی داشتائیں اور رذیل طوائفیں دو ٹولیوں میں بٹ گئیں ۔ شباہت شمر ،کرن،تحرو اوررابی تو ناصف بقال سے لِپٹ گئیں جب کہ کنزو ،فاذو،ظِلواور پِنکی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پلک جھپکتے میں زد خورو لُدھیک کے قدموں میں ڈھیر ہو گئیں اوراپنی کالی زبان سے ان بھڑووں کے تلوے چاٹنے لگیں اور ڈھیروں اُمنگوں کو دِل میں لیے مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف ہو گئیں۔ناصف بقال اور زد خورو لُدھیک نے ان جسم فروش رذیل طوائفوں کو خارش زدہ باؤلے سگان کی طرح للچائی ہوئی نگا ہ سے دیکھا اوران کے منھ سے جھا گ بہنے لگا۔

قیام پاکستان سے پہلے علاقائی ،لسانی ،نسلی اور مذہبی فسادات کی آگ کے شعلوں نے فضیلت بانو کے خاندان کے سب خرمن کو جلا کر راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔گھر کے آنگن کے سب پھول کملا گئے اور ناصف بقال اور زد خورو لُدھیک کے پالتو سگان آوارہ نے سب کچھ لُوٹ لیا اور مظلوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی ۔ جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی توفضیلت بانو تنہا لاہور پہنچی ۔مٹی کی محبت میں اس نے وہ قرض بھی اُتارے جو واجب بھی نہیں تھے ۔اس کی جہاں آنکھ لڑی ہمیشہ اپنی نگاہ وہیں مرکوز رکھی اور پل بھر کے لیے بھی کہیں اور دیکھنا گوار نہ کیا۔ایک دن لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے سامنے سے گزر ہی تھی کہ یہ دیکھ کر وہ بے حد تشویش و اضطراب میں مبتلا ہو گئی کہ سامنے حضوری باغ میں محبو ب نگر کی ویرانی کا سبب بننے والی کالا دھن کمانے والوں کی جی حضوری کرنے والی سب منحوس طوائفیں جمع تھیں اور ان کے ساتھ سبز قدم بھڑوے بھی موجود تھے۔بہت جلد وہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچ گئی کہ ان طوائفوں اور بھڑووں نے ہیرا منڈی اور شاہی محلے میں اپنے قحبہ خانے اور چنڈو خانے بنا لیے ہیں۔فضیلت بانو نے اپنے ٓٓآبائی شہر محبوب نگر سے ہجرت کے بعد خطۂ لاہور ہی کو اپنا محبوب قرار دیا۔وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ جب بھی وہ قلعہ لاہور کے شیش محل اور ایوان کے سامنے سے گزرتی ہے تو اُسے انارکلی کی چیخ پکار صاف سنائی دیتی ہے ۔ اس قدیم قلعہ کے اُداس بام اور کُھلے در چِلّا چِلّا کر انار کلی کی مظلومیت پر دُہائی دیتے ہیں۔انارکلی کی بھٹکی ہو ئی روح مغل ِ اعظم کی بے داد گری پر حشر تک انصاف طلب کرتی رہے گی۔جب بھی وہ مقبرہ جہاں گیر پر پہنچتی تو وہ زنجیر عدل لٹکانے اور انصاف کی فراہمی کے سب دعووں کو محض قصے ، مو ہوم افسانے،زیب داستاں کے لیے بڑھائے جانے والے مفروضے اور من گھڑت کہانیاں قرار دیتی۔ایک بیمار، مریل اور لاغر ہرن کی ہلاکت کے بعد اس کے عفونت زدہ ڈھانچے کوگڑھے میں ٹھکانے لگانے کے بعد وہاں اس کی یاد میں ہرن مینار تعمیر کرنے والااور اس جگہ ایک شہر بسانے والا شیخو(جہاں گیر )انار کلی کی بے چین روح کی حزیں یادوں کو تازہ رکھنے کے لیے اگر تاج محل نہیں بنا سکتاتھا تو کوئی باج محل ہی تعمیر کر ا دیتا تاکہ مظلوم انسانیت اس کی باج گزار رہتی۔جب وہ بے مہریٔ عالم کا شکار نور جہاں کی بوسیدہ اور شکستہ قبر پر جاتی تو وہ دِل تھام کر آہیں بھرتی۔وہ لوگوں کی یہ بات سن کر زارو قطار رونے لگتی کہ ہر پیمان شکن ،احسان فراموش اور محسن کُش عورت کو نورجہاں کی قبر کا حال دیکھنا چاہیے جہاں خورشید جہاں تاب کی ضیا پاشیاں بھی سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے سے قاصر ہیں ۔بھرے شہر کی چہل پہل سے بھی اس قبر کے گرد و نواح کے مہیب سناٹوں اورسکوتِ مرگ کا ازالہ نہ ہو سکا۔مہم جُو،طالع آزما،ابن الوقت اور چڑھتے سورج کی پُوجا کرنے والے پیمانِ وفا کا مُطلق خیال نہیں کرتے۔مقدر کی تاریکی بھی ظلمت شب کے مانند ہوتی ہے ایسے حالات میں انسان کا سایہ بھی ساتھ نہیں رہتا۔قحط الرجال میں زندگی کی اقدارِ عالیہ کی زبوں حالی سب سے بڑ ا المیہ ثابت ہوتا ہے ۔راہِ رفتگاں پر چلنے والوں سے دِلو ں کا سلسلہ توڑ کرقصر و ایوان میں دادِ عیش دینے والوں سے نئے سرے سے عہدِ وفا استوار کرنا ہی گردشِ لیل و نہار کا علاج سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ شیرافگن کی بیوی کو بیوگی کی چادر اوڑھانے والے مطلق العنان بادشاہ نے اسی بیوہ نو ر جہاں اپنی بیوی بنا کر ملکۂ ہند کا منصب عطا کیا لیکن اس کی شقاوت کی بنا پر تاریخ ہر دور میں اس کے ظلم پر نفرین کرے گی۔ چور محل میں جنم لینے والے مشکوک نسب کے گُرگان ِ خون آشام کا یہی تو المیہ ہے کہ وہ زندگی بھر آرزوؤں اور اُمنگوں کے تاج محل میں گل ہائے رنگ رنگ کی عطر بیزی سے اپنے قریۂ جاں کو معطر کرنے اور سرود ِ عیش گانے کا اپنی زندگی کا نصب العین بناتے ہیں۔ نیم باز چشمِ غزال کے تیرِ نیم کش سدا اپنے ہدف تک نہیں پہنچتے۔تقدیر ہر لحظہ اور ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑاتی رہتی ہے ۔وقت کی سفاکی اور حالات کی ستم ظریفی کی یہی تو پہچان ہے کہ یہ نہایت بے دردی سے ہوس کے اسیر عشق و محبت کے منھ زور جذبوں کی بے باکی کو تہس نہس کر کے ،تمناؤں کے قصر عالی شان کے مسمار شدہ کھنڈرات کو کچلتا ہوا ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے۔جب رخشِ حیات تھمتا ہے تو پُلوں کے نیچے سے گزرنے والے آبِ رواں کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے جب ان کے جاہ و جلال کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں مُند جاتی ہیں تو ان کی لحد اسی طرح حسرتوں کا مزار ثابت ہوتی ہے۔ زد خورو لدھیک اور ناصف بقال کے ہاتھوں لگنے والے زخموں نے فضیلت بانو کی زندگی کی تما م رُتوں کو بے ثمر کر دیا تھالیکن اس نے لبِ اظہار پر تالے لگا لیے اور کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائی۔ہر روز سہ پہر کے وقت یہ سب طوائفیں راوی کے کنارے چلی جاتیں اور کشتی رانی کرتے ہوئے دریا کے دوسرے کنارے واقع صدیوں پرانی کامران کی بارہ دری کے گرد و نواح میں اُگے جھاڑ جھنکار میں بیٹھ کر بڑی مچھلیاں پکڑنے کے لیے عشوہ و غمزہ و ادا کی کُنڈیا ں لگا دیتیں۔ دریائے راوی کے کنارے بیٹھے ہر راوی کے ہونٹوں پر ان طوائفوں اور بھڑووں کا افسانہ ہوتا تھا۔ دریا کے کنارے بیٹھ کر یہ طوائفیں اپنے جسم کا اور بھڑوے اپنے ضمیر کا سودا کرنے میں کوئی تامل نہ کرتے۔ ان رذیل طوائفوں کا یہی ان کاروز کا معمول تھا ان سے شکوہ فضول تھا ۔قلب اور جسم کی اُس کِشتِ ویراں کی بربادی کا کیا مذکور جسے ہزاروں مرتبہ لُوٹا گیا ہو۔ بے شمار نو دولتیے ،کالادھن کما کر اپنا منھ کالا کرنے والے گھٹیا عیاش اور انڈر ورلڈ کے جرائم پیشہ درندے ان رذیل طوائفوں پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے پر ہمہ وقت تیار رہتے ۔

دریائے راوی کی لہریں کناروں سے ٹکر ا کر انار کلی کی مظلومیت پر آہیں بھرتیں۔دریا میں کشتی رانی کرنے والے نوجوان جوڑے مقبرہ جہاں گیر کے سامنے دریا ئے راوی میں کشتی رانی کرتے وقت جب ایک دوسرے سے ہم آغوش ہو کر قہقہے لگاتے تو مرقدِ شاہ کے مینار لر زنے لگتے۔ساتھ ہی شہنشاہ جہاں گیر کی ملکہ نو ر جہاں کی آخری آرام گاہ تھی جہاں دِن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں دیکھ کر بے مہریٔ عالم کی تلخی ہر دیکھنے والے کو خون کے آنسو رُلاتی تھی۔ مولُو موہانہ ایک آزمودہ کار ملاح تھا وہ جانتا تھا کہ اس کی کشتی میں بیٹھ کر دریا کے دوسرے کنارے پر جانے والی حسینائیں اپنے آشناؤں سے ملنے کے لیے کس قدر بے چین ہیں۔اپنی نئی اور خوب صورت کشتی میں حسین و جمیل دوشیزاؤں کو بٹھا کر کشتی کودریا ئے راوی کی طوفانی لہروں کے سپر دکر کے زور سے چپو چلاتے ہوئے مولُو موہانہ ترنگ میں آکر یہ گیت گاتاتوسب مہ جبیں حسینائیں بھی اس کی ہم نوا بن کر محو رقص ہو جاتیں :
مولو موہانے کی کشتی میں سوار حسینائیں شدتِ جذبات سے مغلوب ہو کر اورعشق کے دردِ لادوا کے منھ زور دریامیں ڈُوب کر یہ تان الاپتیں:
بیڑی دِتی ٹھیل اوئے ،محبتاں دا کھیل اوئے
(ترجمہ:پِھر کشتی تیرائی ہے،چاہت ہی رنگ لائی ہے )
رب نے کرایا ساڈا پتنا ں تے میل اوئے
(ترجمہ:اپنی جوڑی خالق نے پتن ہی پہ ملائی ہے ‘
چاندی کی گردنوں میں سونے کی گانیاں پہنے حسین سوانیوں کی الھڑ جوانیوں کی مست کہانیوں کی تپش سے لبریز یہ مترنم لے سُن کر مولو موہانہ اپنا بایاں ہاتھ کان پر رکھتا اور بے تابانہ پُکار اُٹھتا:
تیرا انتظار نی! ،دِ ل بے قرار نی!
(ترجمہ:تیرا انتظار ہے جانم،دِل بے قرار ہے جانم
سدھراں دی بیڑی ساڈی رب کرے پار نی!
(ترجمہ:تمناؤں کی یہ کشتی رب ہی کرے گا پار اے جانم)
مولو موہانے کی درد بھری آواز سُن کر سب حسینائیں گہری سوچوں میں کھو جاتیں اور کتاب ِزیست کے اوراق پلٹنے لگتیں۔محبت کے افسانوں کے آغاز پر نظر ڈالتیں اور سب نشیب و فراز ان کی نگاہوں میں گھومنے لگتے۔ نوجوان حسینائیں مولو موہانے کی دلی کیفیات اور وفورِ شوق کے مظہر اس ردِ عمل کو دیکھ کر چونک اُٹھتیں اور اس سے مخاطب ہو کر یوں اپنے دلی جذبات کااظہار کرتیں:
الہڑ جوانیاں، مُڑ کے نہیں آنیاں
(ترجمہ:بھر پُور شباب نہ پلٹے گا کر کے خانہ خراب)
ہنس ہنس لائیاں بیبا، ہنس کے نبھانیاں
(ترجمہ:پیمانِ وفا خوشی سے باندھا،خُوب نبھے گا اس کا حساب)
یہ سُن کر مولو موہانہ اپنی میلی کچیلی پگڑی سے پیشانی کا پسینہ پو نچھتا، اپنی بڑی بڑی کالی مونچھوں کو تاؤ دیتا اور سینہ تان کر پُوری قوّت سے چپو چلاتے ہوئے کشتی کو کھیتا ہواتیزی سے ا ُسے ٹھاٹیں مارتے ہوئے دریا کی طوفانی لہروں کے بھنور اور گرداب کے تھپیڑوں سے بچاتا ہوا تیکھی نگاہوں سے حسیناؤ ں کو دیکھ کر گلو گیر لہجے میں جواب دیتا :
اساں نہیوں ہارنا ،تُساں نہ وِسارنا
( ترجمہ:ہار نہیں مانیں گے ہم ،تم نہ ہم کو کھو دینا)
تسیں سانوں ڈوبنا تے تُسیں سانوں تارنا
(ترجمہ:اب یہ کام تمھارا ہے تیرانا یا ڈبو دینا )

اس کے ساتھ ہی کشتی دریا کے دوسرے کنارے پر جاپہنچتی اور کشتی میں سوار تمام حسینائیں ہرنیوں کے مانند اُچھل کر کشتی سے چھلانگ لگا تیں اور کر مولو موہانے کی چھاتی پر مونگ دلتی ہنستی کھیلتی،مٹک مٹک کر چلتی دریا کے کنارے کھڑے منتظر اپنے پروانوں کے جُھرمٹ میں گُم ہو جاتیں۔مولو موہانہ حسرت و یاس کے عالم میں کھڑا ہاتھ ملتا رہ جاتا،یہی اس کی زندگی کا روز کامعمول تھا۔وہ دل ہی دل میں بڑبڑانے لگتا اور کہتاکہ موجودہ دور کی اذیتوں ،عقوبتوں اورہلاکت خیزیوں نے تو طوفان نوحؑ کو بھی مات کر دیا ہے ۔طوفانِ نوحؑ میں تو جمادات،نباتات اور حیات و کائنات زیرِ آب آئی تھی مگر جدید دور کی سائنسی ایجادات،انتہائی مہلک ایٹمی اسلحہ اور مادی دور کی لعنتوں نے تو زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کو تہس نہس کر کے تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کو غرقاب کر کے زندگی کو پتھر کے زمانے کی جانب دھکیل دیا ہے ،جہاں سب معیار پتھر میں ڈھل گئے ہیں اور نا انصافیاں عام ہیں ۔ سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ آج کے پتھر کے زمانے میں عدل و انصاف کا پتھر بھی اسے ملتا ہے جس کے ہاتھ میں تیشۂ زر ہوتا ہے ۔وہ پتھرائی ہو ئی آنکھوں سے بدلتے ہوئے زمانے کا ماحول دیکھتا رہ جاتا جس نے سب معائر کو سیاہ پتھروں میں بدل دیا تھا ۔

پُر آشوب اور آسیب زدہ ماحول نے فضیلت بانو کومایوسیوں اور محرومیوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ دیکھ کر وہ گہری سوچوں میں گُم ہو جاتی کہ جس برق رفتاری سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور معاشرتی زندگی کے افق پر خوف و دہشت کے بادل منڈلا رہے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟جن سر سبز و شاداب میدانوں میں ہری بھری فصلیں اور کھیت کھلیان ہوتے تھے ،اب وہاں بے ہنگم کچی آبادیاں سر اُٹھا رہی ہیں۔کسی نے سچ کہا ہے کہ اگر ایک غلیظ مچھلی کسی تالاب میں گُھس جائے تو پورے تالاب سے عفو نت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھنے لگتے ہیں۔اس ایک مچھلی کی نحوست اورنجاست نہ صرف تالاب کی دوسری مچھلیوں کے لیے بلائے جان بن جاتی ہے بل کہ گرد و نواح کا پُورا ماحول ہی جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔یہی حال معاشرتی زندگی کا ہے جس میں ایک فرد کی بد اعمالیوں کے باعث سماجی اور معاشرتی زندگی کا سارا منظر نامہ ہی گہناجاتا ہے۔وہ یہ سوچ کو دل گرفتہ ہو جاتی کہ شفاف پانی سے لبریز دریاؤں کے آبِ شیریں میں صنعتوں کا آلودہ پانی اور سیم نالے گر ا کر انسان اپنی تخریب میں مصروف ہے۔دریائے راوی اس سخت مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں اسی کی اپنی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے ۔اب اس دریا میں تیزابی پانی کی لہریں اُٹھتی ہیں جو آبی حیات کو ہلاک کر کے کنارے پر لا پھینکتی ہیں۔یہ اعصاب شکن منظر دیکھ کر اس کا دِل بیٹھ جاتااور وہ آہ بھر کر ان کچھووں ،مچھلیوں اور دوسری دریائی مخلوق کو دیکھتی جو چراغ سحر ی بن گئی تھی۔ہاں دریا کے کنارے ریت کے ٹیلوں پر لیٹے مگر مچھ آنسو بہا کر اپنی دلی کیفیات کا اظہار کر رہے تھے۔وہ گلو گیر لہجے میں کہتی کہ جدید دور میں کچھ بھی خالص نہیں رہا۔انسانوں اور جانوروں کے لیے اب خالص غذا اور دوابھی دستیاب نہیں ۔ہر چیز میں ملاوٹ کی جا رہی ہے پیار میں بیو پار،وفا میں جفا،دودھ میں پانی،آب میں تیزاب اور دعا میں دغا کی ملاوٹ سے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی گئی ہیں۔ دودھ دینے والے جانوروں کے لیے جعلی کھل بنولہ تیار کی جاتی ہے جس میں لکڑی کابرادہ ملایا جاتا ہے اور انھیں پھپھوندی لگی روٹی کے خشک ٹکڑے ،ملاوٹ شدہ ونڈا کھلایا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ زیادہ دودھ حاصل کرنے کی ہوس زر کے مارے خود غرض ،حریص اور انسانیت سے عاری گوالے ان بے زبان مویشیوں کوایسے مضرِ صحت نشہ آور ٹیکے لگاتے ہیں جن سے دودھ کی مقدار میں تو معمولی اضافہ ہو جاتاہے لیکن مویشیوں کے عرصۂ حیات میں غیر معمولی کمی ہو جاتی ہے ۔اپنی تجوری بھرنے کی فکر میں وہ اپنے پالتو جانوروں کا پیمانہ ٔعمر بھر جانے کی پروا نہیں کرتے ۔ اب تو جعل سازی اور ملمع کاری ہی سکۂ رائج الوقت ہے یہاں تک کہ زہر بھی خالص نہیں ملتا۔ذہن،ضمیر، قول،فعل ،عہد و پیمان یہاں تک کہ ہر چیز بکاؤ مال ہے المیہ یہ ہے کہ انصاف کی بھی قیمت مقرر ہے ۔

بعض لوگوں کا خیال تھا کہ فضیلت بانونے اپنی ایک سو سال سے زائد کی زندگی میں اپنے ذاتی تجربات ،مشاہدات اور دِل پر گزرنے والے صدمات کا اپنی زندگی کے ساتھ انسلاک کرنے میں اس قدر تپسیاکی کہ وہ خود ایک سائیکک بن گئی۔ زندگی کے ساتھ طویل رفاقت اور پُر درد مسافت کے با وجود زندگی کے راز اس کے لیے سدا پردۂ اخفا ہی میں رہے۔اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ قسمت سے محروم ایسے مجبوروں کی زندگی مفلس و قلاش فاقہ کش انسانوں کی قبا کے مانند ہے جو نوشتۂ تقدیر کی حسرتوں،محرومیوں،مایوسیوں،ناکامیوں اور نا مرادیوں کے چرکوں سے چاک ہو کر دھجیوں میں بٹ چکی ہے اسے سوزنِ تدبیر سے رفو کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ابن الوقت عناصر کے بخل اور ہوس پرست زمانے کی خست و خجالت نے اس کی بے قرار روح کو زخم زخم اور صدموں سے بوجھل دِل کو ریزہ ریزہ کر دیا ۔نا مرادانہ زیست کی طویل مدت بھی اس کے لیے کسی نا ہنجار بخیل کی دولت و ثروت کے مانند اس کے کسی کام نہ آئی ۔جب بھی وہ دریائے راوی کے کنارے پر پہنچتی تو وہ اکثر یہ ما ہیا گنگناتی اور اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگتیں :
راوی کا کنارہ ہو
ہر راوی کے ہونٹوں پر افسانہ ہمارا ہو

جب بھی کوئی راوی فضیلت بانو سے اس کے ماضی کی روایات اور حکایات کے بارے میں جاننا چاہتاتو وہ چپ رہتی مگر راوی کے کنارے خراماں خراماں چلتی پھرتی جودھا بائی گلو گیر لہجے میں کہتی:
’’ہمارے بچپن کے زمانے کا راوی اب کہاں؟نہ اب پنگھٹ باقی ہے اور نہ پنہاریاں۔ نہ مچھلیاں کہیں ملتی ہیں اور نہ ماہی گیر ،راوی میں شہر بھر کا فضلہ ، کارخانوں کا آلودہ اور متعفن پانی ہمہ وقت گرایا جارہاہے۔ اب راوی کی روانی اور طغیانی کہاں؟ ہمارے دور میں راوی کے صحت بخش پانی میں غسل کرنے کا جو لطف تھا اب وہ ہر گز نہیں مل سکتا ۔ اب تو یہ حال ہے کہ کچھوے ، مگر مچھ ، سانپ اورہر قسم کی آبی مخلوق دریا کے کناروں پر تڑپ تڑپ کر مر رہی ہے اور دریا کی آلودگی پر نوحہ کناں ہے۔‘‘

فضیلت بانو نے جب یہ دیکھا کہ جودھا بائی ایام ِگزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف ہے تو اس نے کہا :
’’ تمھاری چشم غزال کے دل کش اور مسحور کُن بلاوے شہنشاہ اکبر کو رام کرنے میں کامیاب کیوں نہ ہوسکے ؟قلعہ لاہور میں پروان چڑھنے والے حسن و رومان کے افسانے دیکھ کر بھی تم نے مداخلت نہ کی وہ کون سے الم ناک حوادث تھے جو تمھارے پاؤں کی زنجیر بن گئے ۔تمھاری کڑی کمان کے تیر جیسی چال دیکھ کر تمھارے پیچھے چلنے کے بجائے اکبر نے انار کلی کے خلاف چا ل کیوں چلی ؟ ہا ں اپنے زمانے کے دریائے راوی کے کنارے کی یادوں کا کچھ اور احوال بھی بتاؤ؟‘‘
جودھا بائی نے جواب دیا :

’’ ریت کے ٹیلوں پر تن کر کھڑے ہونے والے مسخرے جب ہمالیہ کی سر بہ فلک چوٹیوں پر تھوکتے ہیں تو کلیجہ منھ کو آتا ہے ۔ایسے کور مغزوں کے ذہنی افلاس کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے ۔موسم گرما کی چاندنی راتوں میں ہم قلعہ لاہور کے شیش محل سے نکلتے تو کئی شہزادیاں، کنیزیں اور مغلانیاں ہمارے ساتھ ہوتی تھیں ۔نوجوان لڑکیاں کشتی رانی اور تیراکی میں بے مثال مہارت ر کھتی تھیں ۔ جس وقت سارا شہر سوتا تھا ہم جاگ کر چا ندنی رات میں کشتی رانی کرتیں،تاروں سے بات کرنا اور چاند کی گھات میں رہنا ہمارا معمول تھا ۔ دریا ئے راوی کے شفاف پانی میں جب ہم غسل کرتی تھیں اس وقت ہمارا جسم صر ف ماہ اختر کے سامنے عیاں ہوتاتھا۔شیخو اور انارکلی کا رومان اسی دریاکے کنارے پروان چڑھا۔‘‘

فضیلت بانو یہ بات زور دے کر کہتی تھی کہ زمانے کے انداز بدل چکے ہیں ۔ مکر و فریب دزدی و عیاری کے بڑھتا ہوا سیلِ رواں زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو خس و خاشاک کی طرح بہائے لیے جا رہا ہے ۔‘‘
فضیلت بانو گجرات پہنچی تو دریائے چناب کی طوفانی لہروں کو دیکھ کر اس نے ا ندازہ لگا لیا کہ اب بھی اس دریا کی لہریں سوہنی کے ڈوب کر مرنے کے غم میں کناروں سے سر پٹختی ہیں۔درختوں کے جھنڈ سے ایک مہ جبیں حسینہ اس کی طر ف بڑھی اور فضیلت بانو سے لپٹ کر زارو قطار رونے لگی۔یہ سوہنی تھی جو دریائے چناب کے دوسرے کنارے بیٹھے اپنے عاشق مہینوال سے ملنے کے لیے گھر سے نکلی تھی مگر اس کے ساتھ جو فریب ہوا اس کے باعث وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ سوہنی نے آہ بھر کر کہا:
’’تقدیر اگر ہر لحظہ ہر گام انسانی تدبیر کے پر خچے نہ اُڑا دے تو اُسے تقدیر کون کہے گا؟میں ہمیشہ پکے گھڑے پر سینہ رکھ کر دریائے چناب کی طوفانی لہروں کو چیرتی ہوئی دریا کے دوسرے کنارے پر انتظار میں بیٹھے مہینوال کے پاس پہنچتی تھی۔میرے ساتھ مقدر نے عجب کھیل کھیلا کہ اس رات کسی ڈھڈو کٹنی نے گھڑا بدل دیا اور میرے پختہ گھڑے کو توڑ کر اس کی جگہ خام گھڑا رکھ کر رفو چکر ہو گئی۔میں جلدی میں تھی ،اس لیے میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ کچا گھڑا اپنے ہاتھوں میں تھا ما اور دریا میں بے خطر کود پڑی ۔کچا گھڑا دریا کی لہروں میں تحلیل ہونے لگا تو میں نے فریا د کی:
مینوں پار لنگھا دے وے گھڑیا منتا ں تیریاں کردی
رات انھیری اے ایتھے کوئی نہیں میرا دردی
ترجمہ: اے گھڑے تیری منتیں کرتی ہوں مجھے پہنچا دریا کے پار
اندھیری شب ہے نہیں کوئی بھی یہاں میرا غم گسار

میری آہ و زاری دریا کی لہروں کی روانی ،موجوں کی طغیانی اور گرداب کی حشر سامانی میں گم ہو گئی۔ کچے گھڑے کی مٹی کے ساتھ میں بھی دریائے چناب کی لہروں میں بہہ گئی جہاں ہر موج میں حلقۂ صدکام نہنگ تھا جنھوں نے مجھے لقمۂ تر بنا لیا ۔‘‘

اچانک چناب کے کنارے سے ایک نو جوان لنگڑاتا ہوا آگے بڑھا اس کی پنڈلی پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اس میں سے خون رِس رہاتھا۔اس زخمی نوجوان کو دیکھ کر آسُو بِلا غرایا:
سمجھ کے رکھیو قدم دشتِ عار میں مہینوال
کہ اِس دیار میں آسُو سارُو سیاہ بھی ہے

رسوائے زمانہ نائکہ شباہت شمر نے دُم ہلا کر بھڑوے آسُو بِلا کی ہاں میں ہاں ملائی اور اپنے کالے چہرے اور متعفن دہن کو گھما کر یوں ہرزہ سر ا ہوئی:
’’ارے او بھینسوں کے چرواہے!تُو نے مچھیرے کا سوانگ رچا کر حسین و جمیل دوشیزاؤں پر ڈورے ڈالے اور انھیں ورغلا کر اپنے جنسی جنون کی تسکین کی صورت تلاش کی۔تُو چرواہا یا مچھیرا نہیں بل کہ ایسا موذی ڈینگی مچھر ہے جس نے شراب و شباب کی لت میں مبتلا ہو کر ہلاکت خیزیوں کو عام کر دیااور زندگی کا تمام منظر نامہ ہی گہنا گیا۔‘‘

’’چھاج تو بولے مگر چھلنی کیسے بولے گی جس میں پائے جانے والے بے شمار چھید اسے کھوکھلا کر چُکے ہیں ۔‘‘ مہینوال نے غصے سے آگ بگولا ہو کر کہا ’’ قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں خرچی سے اپنی تجوری بھرنے والی رقاصہ میرے منھ نہ لگو ۔ عشق میں چرواہایا مچھیرا بن جانا باعث ننگ و عار نہیں۔میں نے محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی محبوبہ سوہنی کواپنی پنڈلی کے گوشت کے کباب کھلا دئیے مگر تم جیسی ڈائنیں اپنے گاہکوں کی خون پسینے کی کمائی اور شہ رگ کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر غٹا غٹ پی جاتی ہیں۔ تم نے شہر میں کالا دھن کمانے والے ہر بھڑوے ،خبیث اور خر سے پیمان ِ وفا باندھا اور اسے لُوٹ کر کوڑی کوڑی کا محتاج کر دیا ۔تمھاری بے راہ روی تمھارے لیے رو سیاہی اور جگ ہنسائی کا باعث بن گئی۔‘‘

’’ارے اولُولے لنگڑے جنسی جنونی !اپنی زبان کو لگام دو،تُو نے مجھے گالیاں دی ہیں،اب میری بات بھی سُن لے ۔‘‘ شباہت شمر نے پنے میلے دانت پیستے ہوئے کہا’’میں نے اور میر ی ہم جو لیوں نے اپنے چاہنے والوں پر جسم و جاں تک وار دینے سے دریغ نہ کیا ۔یہاں تک کہ اپنی متاعِ زیست بھی گنوا دی ۔اس خدمت کے عوض مجھے اور میری ہم جولیوں کو محض چند ٹکے دے کر تم جیسے ہوس پرست یہ سمجھنے لگے کہ ہمارا حساب چُکا دیا ۔یہ تمھاری بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔‘‘

’’ردِ ادب !ردِ ادب !‘‘ ما بہ دہشت کو یہ رنگ ڈھنگ پسند نہیں،جو دھا بائی نے دبنگ لہجے میں کہا ’’اس کریہہ موضوع پر مزید بات کرنے کی اجازت نہیں ۔مرغی اگر گندگی اُچھالے گی تو اپنے ہی سر میں ڈالے گی۔‘‘
پاس بیٹھے ہوئے مسخرے زاد ولدھیک نے دُم لہراتے ہوئے کہا:
یہ بازی جنس کی بازی ہے جسے چاہو گرا دو خر کیسا
گر مِیت مِلے تو مر جاؤ،مارو بھی تو پھر ہیہات نہیں

جنوری کا آغاز تھا سردی اپنے جوبن پر تھی،پہاڑی علاقوں میں گزشتہ ہفتے سے برف باری کا سلسلہ جاری تھا ۔زد خورو لُدھیک اور ناصف بقال کی پروردہ طوائفوں کا مزاج جنوری میں بھی جون جیسا تھا ۔آدھی رات کا وقت تھا جب شباہت شمر ،کرن،تحرو اوررابی تو ناصف بقال کے ساتھ اپنے قحبہ خانوں سے باہر نکلیں جب کہ زادو لدھیک کنزو ،فاذو،ظِلواور پِنکی کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ہنہناتا ہوا نمودار ہوا۔ ان رذیل جسم فروش طوائفوں کو نوچنے والے بھیڑئیے شراب کے نشے میں بد مست پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق دریا کے کنارے ایک سبزہ زار میں ان کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ دریائے راوی کے کنارے پہنچ کر بکرے کی سجی کھانے کے بعد ان طوائفوں اور ان کے عیاش پروانوں نے جی بھر کرمے گلفام سے سیراب ہونے کا فیصلہ کیا۔اس کے بعد سب مست بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر کھلے آسمان کے نیچے ایک دوسرے میں سما گئے۔اچانک بادل گرجا اور آسمانی بجلی چمکی اور نگاہوں کو خیرہ کر دینے والا ایک شعلہ زمین کی جانب لپکا اوردیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ خاکستر ہو گیاجسے گرد و نواح کی بستیوں کے مکین اور رعایا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ اس کے ساتھ ہی مو سلا دھار بارش کے ساتھ ژالہ باری بھی شروع ہو گئی سب کچھ راوی کی لہروں میں بہہ گیا۔اگلی صبح جب مطلع صاف ہوا اور دریا کی طغیانی کم ہوئی تو آس پاس کے لوگوں نے دیکھا کہ بے شمار زاغ و زغن اس جگہ پر منڈلارہے تھے جہاں گزشتہ شب آسمانی بجلی گری تھی۔زندگی بھر ان کے کالے کر توت ان کے لیے باعث ننگ و عاررہے ۔خرچی کے ذریعے کالادھن کما کر اپنا منھ کالا کرنے والے ان آدم خور درندوں کے جلے ہوئے کالے ڈھانچے کالا شاہ کاکو جانے والی شاہراہ کے دونوں طر ف بکھرے پڑے تھے ۔علاقے کے باشندوں نے اسے فطرت کی سخت تعزیروں کانام دیا اور توبہ استغفار شروع کر دی۔ان بدنام جنسی جنونیوں سے نا خوش و بیزار لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا اور پرندے پھر سے لوٹ کر آشیانوں میں آنے لگے۔

فضیلت بانو خاموشی سے اپنی بزمِ وفا میں آنے والوں کی باتیں ہمیشہ توجہ سے سنتی اور سر دھنتی رہتی ۔تاریخ کے مسلسل عمل پر اس کی گہری نظر تھی اور وہ ماضی بعید کے واقعات اور ان سے وابستہ کرداروں کے بارے میں کامل آگہی رکھتی تھی۔حیران کُن بات یہ تھی کہ ماضی کے سب کردار اس کی پُکار پر چلے آتے اور وہ ان سے ہم کلام ہو کر نہ صرف ان کے دور کے واقعات کے بارے میں معلومات حاصل کرتی بل کہ انھیں رازدار بنا کر ان سے مشورے بھی کرتی تھی۔ موم گرما کی ایک چاندنی رات تھی فضیلت بانو راوی کے کنارے سر بہ زانو بیٹھی تھی ہر سُو ہُو کا عالم تھا فضا میں ابابیل ،چُغد اورشِپر منڈلا رہے تھے ۔دُور شغال زور سے آواز نکال کر اپنی بے وقت کی راگنی کے شغل کی تسکین کر رہے تھے۔ اس اثنا میں اچانک اس نے قدموں کی آہٹ سُنی وہ چونک اُٹھی کہ اس کے نہاں خانۂ دل کے بے خواب کواڑوں پر اس وقت کس نے دستک دی ہے ۔ اس نے گلو گیر لہجے میں کہا:
’’کون ہو تم ؟اور اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘
’’میں راجپوت ہیرا کنور جُودھابائی ہوں ،میں یکم اکتوبر سال 1542 کو راجستھان میں امر کے مقام پر امر کے راجا بھرمل کے گھرپیدا ہوئی ۔ میری شادی مغل بادشاہ جلال الدین اکبر سے ہوئی ۔شادی کے وقت میری عمر تیرہ برس تھی ،شادی کے بعد میں نے اسلام قبول کر لیا اور میرا نام مریم زمانی رکھا گیا۔‘‘

’’خوب !اب تو یہاں بھی آ پہنچی۔‘‘انار کلی نے غصے سے کہا’’ مریم زمانی ! تمھاری حیات کے بے ربط افسانے میں عبرت کے تازیانے نہاں ہیں۔بر صغیر کے عوام کے لیے تُو ایک آفت نا گہانی بن گئی تھی،تیرے مفاد پرست باپ نے بے بسی اور مصلحت کے تحت اپنی ریاست اور حکومت بچانے کی خاطر تمھارا بیاہ مغل بادشاہ اکبر سے کر دیا جسے بعض لوگوں نے تمھارے باپ کی بزدلی قرار دیا۔ جب تمھارے شقی القلب باپ نے تمھیں بساط سیاست کا مہرہ بنانے کا فیصلہ کیا تو تمھاری ماں نے اس پر سخت اعتراض کیا اور فرط ِ غم سے نڈھال ہو کر تمھارے خود غرض باپ اور اپنے شوہر سے باہمی ربط اور گفتگو کا سلسلہ مکمل طور پر ترک کر دیا ۔تم نے فتح پور سیکری میں اپنے پُر تعیش مریم زمانی محل میں تینتالیس برس مخمور و مغرورمغل بادشاہ جلال الدین اکبر کی معتوب حرم سرا میں اس کینہ پرور ،ظالم اور ہوس کے مارے عیاش بادشاہ کی پانچ ہزار کے قریب حسین و جمیل اور نرم و نازک محبوب حسیناؤں اور داشتاؤں میں گزارے ۔ اہلِ نظرلوگ تجھے مغرور ، جاہ و جلال اور سطوت و ہیبت کے نشے میں چُور اکبر کی مہجور رفیقہ ٔ حیات سمجھتے ہیں۔تمھیں سکندرہ (آگرہ )میں انیس مئی سال 1623کو سپرد خاک کیا گیا اوریوں زمین کا بوجھ زیرِ زمین چلا گیا۔‘‘

’’انار کلی تمھارا غیظ و غضب اپنی جگہ ٹھیک ہے ‘‘مریم زمانی (جودھا بائی )نے آہ بھر کر کہا’’صدیوں سے میری روح راوی کے کنارے اور قلعہ لاہور کے شیش محل میں بھٹک رہی ہے۔ تمھاری زندگی فصلِ خزاں میں شجر سے سُوکھ کر خاک پر گرنے والے ایک برگِ آوارہ کی سی ہے جسے آلامِ روزگار کے مہیب بگولے اُڑا کر لے جاتے ہیں۔تمھارے ساتھ اکبر نے جو سلوک کیا مجھے اس پر بہت دکھ ہوا لیکن میں ،میرا بیٹا سلیم اور مان سنگھ سب بے بس تھے ۔ تم نے شہزادہ سلیم سے محبت کی مگر میں نے بادشاہ اکبر سے کبھی محبت نہیں کی۔میری شادی انتہائی مجبوری کے عالم میں ہوئی تم میر ی کم زوری اوربے بسی کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔ جب تمھیں زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا توہم تمھاری کوئی مدد نہ کر سکے ۔‘‘

ایک کونے سے متعفن ہوا کا جھونکا آیااس کے بعد ایک کریہہ شکل کی نوجوان عورت وہاں پہنچی،اس کی آنکھوں میں شیطانی چمک تھی اور بھیانک کالے چہرے پر نحوست کے گہرے سائے صاف دکھائی دے رہے تھے۔نیم عریاں لباس پہنے ہوئے یہ خاک بہ سر عورت جب آگے بڑی تو اسے دیکھتے ہی انار کلی پیچ و تاب کھانے لگی اور غصے سے آگ بگو لا ہو گئی ۔انار کلی نے اس شاطر عورت کو حقارت سے مخاطب کیا اور اسے دھتکارتے ہوئے بولی :
’’ اے کلموہی ڈائن! تُو میرے مقدر کی سیاہی بن کر ہمیشہ میرا تعاقب کرتی ہو دلارام! مجھے مکمل طور پر منہدم کرنے کے بعد بھی تُو میر ی جان نہیں چھوڑتی۔بادشاہ اکبر کے ٹکڑوں پر پلنے والی مکار لومڑی تُو نے اپنے مکر کی چالوں سے شہنشاہ اکبر کو اس قدر اشتعال دلایا کہ اس نے مجھے لاہور شہر کی ایک دیوار میں زندہ چنوا دیا ۔اے آستین کی زہریلی ناگن!حسد،رقابت اور کینہ پروری کی آگ میں جل کر تُو نے مجھے ہلاک کرانے کی سازش کی۔آہ! مجھے موت کے گھاٹ اتارنے کے بعدسب شیطانی منصوبے ناکام ہوئے ،مکروہ عزائم مٹی میں مِل گئے اور ہوس پر مبنی خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے ۔‘‘

’’انار کلی ! تمھاری مظلومیت کی لرزہ خیز اور اعصاب شکن کہانی ہر دور میں عبرت کا مو ضوع رہے گی۔ تم نے زندگی کی جستجو کی مقدور بھر کوشش کی مگر شاہی قلعہ اور شیش محل کے بالا خانوں میں ہر جگہ موت کے سائے اور بد نصیبی کا عفریت تمھار ا منتظر تھا‘‘دلارام نے آہ بھر کر کہا’’تمھاری ناراضی بجا ہے ،تمھارا غصہ بھی غلط نہیں ہے حسد اوررقابت کی آگ نے میرے عقل و خرد کو جلا کر راکھ کر دیا تھا ۔تمھاری موت کے بعد میں بھی شہزادہ سلیم کی نفرتوں اور حقارتوں کے باعث زندہ در گور ہو گئی۔تمھاری چشم کے مرجھا جانے کے سانحے کے بعد شہزادہ سلیم بے گناہ سپاہی علی قلی خان (شیر افگن )کی زندگی کی شمع بجھانے پر تُل گیا۔وہ جلد از جلد شہنشاہ اکبر کے اس بہادر ،وفاداراور جانثار سپاہی کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا۔‘‘

’’علی قلی خان کون تھا ؟اسے ٹھکانے لگانے کے لیے سلیم کیوں بے چین تھا؟‘‘ فضیلت بانو نے تجسس کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’علی قلی خان کے بارے میں تفصیل ضرور بتاؤ۔‘‘

دلارام نے ٹسوے بہاتے ہوئے کہا’’علی قلی خان اکبر کی فوج کا ایک بہارد ر سپاہی تھا اور اکبر کا جانثار محافظ تھا۔ایک مرتبہ جنگل میں گھوڑوں پر سفر کے دوران ایک آدم خور شیر نے اکبر کے گھوڑے پر حملہ کر دیا اور اکبر بادشاہ کی ٹانگ کھینچ لی۔علی قلی خان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً اپنے گھوڑے سے کُود پڑا اور خونخوار شیر سے گتھم گتھا ہو گیا۔شیر اس اچانک حملے سے گھبرا گیا اور اس نے علی قلی خان کو دبوچ لیا ۔اس اثنا میں علی قلی خان نے خنجر کے پے در پے وار کر کے درندے کا پیٹ پھاڑ دیا اور آنتیں،دِل اور جگر کاٹ کر باہر پھینک دیا۔شیر پیٹھ کے بل گر پڑا اور اس کے پیٹ سے خون کافوارہ بہہ نکلا۔علی قلی خان نے اپنی تلوار کے وار کر کے شیر کا سر کاٹ کر بادشاہ کے قدموں میں پھینک کر اپنی بہادری کی دھاک بٹھا دی ۔ ساتھ کھڑا مُرلی قصاب شیر کی کھال اُتار کر گھر لایا اور اس سے پوستین تیار کی۔ پوستین پہن کر وہ یہ تاثر دیتاکہ اس نے شیر کا شکار کیا ہے ۔اس طرح آدم خور درندہ تو اپنے انجام کو پہنچ گیا مگر علی قلی خان کی یہ بہادری بھی اسے اپنے الم ناک انجام سے نہ بچا سکی ۔ خنجر آزمائی کا یہ کمال بھی اس کے کسی کام نہ آیا ،اکبر نے اپنے اس وفادار سپاہی کو ’’شیر افگن ‘‘کا خطاب دیا۔‘‘

’’بہت خوب !علی قلی خان نے واقعی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اکبر کی جان بچائی ۔‘‘فضیلت بانو نے کہا ’’سوال یہ ہے کہ سلیم اپنے باپ کے وفادار محافظ اور جانثار سپاہی کو اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کس مقصد کے لیے کیا ؟ بے ضمیری پر مبنی ایسی محسن کُشی اور بے غیرتی کی مظہر اس احسان فراموشی کا کیا جواز تھا ؟‘‘
دلارام نے آہ بھر کر کہا’’ہند سندھ میں کسی جگہ بھی ،جہاں کہیں بھی کوئی حسین دو شیزہ ہوتی وہ مطلق العنان بادشاہوں کی نگاہ سے بچ نہ سکتی تھی۔مغل فوج کے بہادر سپاہی شیرافگن کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے عہد کی ایک انتہائی ذہین اورخوب صورت عورت (نو ر جہاں )کا شو ہر تھا۔ نو رجہاں اس وقت شیر افگن کی شریکِ حیات تھی مگرجہاں گیر اپنے باپ کے محسن شیر افگن کو کباب میں ہڈی سمجھتا تھا۔اس نے نو رجہاں کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کے لیے علی قلی خان کی زندگی کی شمع گل کر دی ۔اردو زبان کے عظیم شاعرمیر تقی میر نے سچ کہا تھا:
نہ مِل میر اب ان امیروں سے تُو
ہوئے ہیں غریب اِن کی دولت سے ہم ‘‘

ایک خاک بہ سر جوڑا وہاں موجو دتھاجو بڑے تحمل سے سب روداد سُن رہا تھا۔آلامِ روزگار کے مسموم بگولوں نے ان کو مل کلیوں کو جُھلسا دیا تھااور سانحاتِ دہر نے ان کی گویائی چھین لی تھی۔اس حسین عورت کانام سسی تھاجو وہاں اپنے آ شنا پُنوں کے ساتھ راز و نیاز کی باتوں میں مصروف تھی۔ اس بزم میں کاران ِ ہستی کے تیز گام قافلے کے آبلہ پا مسافروں کی حرماں نصیبی کے قصے سُن کر سسی نے آہ بھر کر کہا :
’’یہ عشق کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے ،یہ تو آگ اور خون کی ندی ہے جس میں غوطہ زن ہو کر عافیت کی تلاش میں دوسرے کنارے پر پہنچنا ہوتا ہے ۔اس دنیا میں نادار دوستوں اور عیار دشمنوں کی ریشہ دوانی جب آفت نا گہانی کی صورت میں سامنے آتی ہے تو سب تدبیریں اُلٹی ہو جاتی ہیں اور بچنے کی کوئی امید بر نہیں آتی ۔یہاں تو بھنبھور اس قدر کٹھور ہو جاتا ہے کہ کیچ کی ملکہ بننے کی تمنا بھی ہیچ ثابت ہوتی ہے ۔ہر دور میں کیوپڈ اپنی ہی چاہ اور طلب کے تیر کھا کر گھائل ہوتے ہیں اور حسن کی طر ف مائل ہوتے ہیں۔ محبت میں تو اپنے لہو سے ہولی کھیلنا اور دُکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پر جھیلنا نوشۂ تقدیر بن جاتا ہے ۔یہاں ہر سائیکی کو کیوپڈ کی محبت میں زینہ زینہ وقت کی تہہ میں اترنا پڑتا ہے ۔اس دنیا میں رومان کی ہر بے فائدہ داستان جی کے زیاں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔‘‘

خوابوں کی خیاباں سازیوں سے تیار کیے گئے چندے آفتاب چندے ماہتاب اطلس ،یاقوت اور سیم و زر سے مزین مرمریں جسم زندگی کے تُند ،تلخ اور درشت حقائق کی آنچ پر جب پگھلنے لگتے ہیں تو ساتھ ہی روح اور قلب بھی سُلگنے لگتے ہیں اس کے نتیجے میں قہقہے ٹُوٹ کر آہوں اور سسکیوں میں ڈھلنے لگتے ہیں۔آلامِ روزگاراور مسائلِ زیست نے زندگی بھر فضیلت بانو کا دامن تھامے رکھا ۔وقت نہایت برق رفتاری سے گزرتا رہا اور اپنے ساتھ نیاماحول اور نئے حالات بھی لاتا رہا ۔وہ آنکھیں جن کی مست جھیلوں کی اتھاہ گہرائیوں کی روانیوں میں کناروں پر منتظر کھڑے متجسس اور مضطرب عشاق کے منھ زور جذبات اور لرزہ خیز اعصاب شکن حالات اور جذبات و احساسات کو خس و خاشاک کے ما نند بہا لے جانے پر قادر تھیں ضعف پیری کے عالم میں رحیلِ کارواں کی صدا سُن کر اُن سے جُوئے خوں روا ں رہتی ہے ۔

فضیلت بانو کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ گیا مگر پے در پے صدمے سہہ کر اس کا پُورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔ اس کی کتابِ زیست کے تمام ابواب لُٹی محفلوں کی دُھول اور مہ و سال کی گر د کی دبیز تہہ میں دب گئے ۔ اس نے اپنی طویل زندگی میں محبت کے پُر شور ہنگاموں کو اس قدر قریب سے دیکھا تھا کہ پیمانِ وفا باندھنے والوں کے اندازِ گفتگو پر اُسے مجذوب کی بڑ کا گمان گزرتا۔ وہ احباب جن کی زندگی کی سحر کی خاطر اس نے اپنے خونِ دل سے مشعلیں فرزاں کیں، وہی اسے مہیب سناٹوں ،اداس راتوں میں جانگسل تنہائیوں ،مہیب سناٹوں اور سفاک ظلمتوں میں انتظار کی صلیبوں پر لٹکا کر نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے ۔راہِ رفتگاں پر چلنے والوں کو آخری منزل جب انھیں پکارتی ہے تو وہ چپکے سے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ لیتے ہیں ۔ اپنی بوسیدہ اور خام جھونپڑی میں جب فضیلت بانو کی دوآنکھیں مُند گئیں تو سب نے دیکھا کہ وہ مونج کے بان سے بُنی ہوئی ایک ٹُوٹی چارپائی پر لیٹی تھی۔ اس کا چہرہ آسمان کی طرف تھا اور پتلے لب بند تھے ۔اس کے چہرے پر اطمینان اور مسرت کے آثار نمایاں تھے۔ ایسا محسوس ہو تاتھا کہ فضیلت بانو راہ ِ رفتگاں پر طویل اور صبر آزمامسافت طے کرنے کے بعد تھک کر ابھی سستانے کے لیے کے لیے لیٹ گئی ہے ۔ فرطِ غم سے نڈھال پاس کھڑے ایک شخص نے آہ بھر کر احمد ندیم قاسمی کایہ شعر پڑھ کر اپنے دلی رنج کا اظہار کیا:
تھک کر یوں ہی دم بھر کو ذرا آ نکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اُٹھیں یہ اِرادہ تو نہیں تھا

ہجوم یاس و ہراس سے گھبرا کر فضیلت بانو اکثر کہا کرتی تھی کہ ابتدا ہی میں اُس کے سب احباب اُسے دائمی مفارقت دے گئے ،عشق کی انتہا لانے والا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔جبر مسلسل کے انداز میں کٹنے والی زندگی یوں لگتا ہے جیسے کسی نا کردہ گنا ہ کی سزا ہو ۔جب اُس کا آخری وقت آئے گا تو اُس کی میّت پر گریہ و زاری کرنے والا بھی کوئی نہ ہو گا۔اس کا یہ اندیشہ غلط نکلا،اس کی حسرت بھری زندگی اور الم ناک موت نے سب کو رُلا دیا۔وہ جس کرب سے ریگِ ساحل پراپنی منتشر زندگی کا حسرت بھر ااحوال تحریر کرتی رہی اور اسی ریگِ رواں سے یادوں کے مجسمے بھی بناتی رہی اس کے بارے میں سوچ کر ہر شخص دل گرفتہ تھا۔ایک سو دس برس کی زندگی میں اس کے سارے خواب بکھر گئے اور سیکڑوں خوابوں کی نا آسودہ تعبیر کی تمنا اپنے دلِ حزیں میں لیے یہ بے چین اور مضطرب عورت رانجھا اورہیرکے مرقد کے شمالی گوشے میں چین سے ابدی نیند سو گئی۔اس کے جہاں سے اُٹھتے ہی دیوار و در پر حسرت و یاس کے سائے منڈلانے لگے سرابوں کے عذاب بڑھ گئے اور حقائق خیال و خواب بن گئے۔ منتشر یادوں اور مضطرب فریادوں کی مظہر اس کہانی کو سمیٹنے کے بعد میں سو گیا ، اچانک نیند ٹُو ٹ گئی جب خواب بِکھرکر قلب اور روح کو تڑپانے لگے تو ممتاز شاعر دانیا ل طریر کی مانوس آواز سنائی دی:
ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سو جاؤ خواب کا کیا ہے
ایک کباڑی گلیوں گلیوں واج لگائے
راکھ خریدوآگ کے بھاؤ خواب کا کیا ہے
لا یعنی ہے سب لا یعنی،یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے


 

Ghulam Ibn-e- Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e- Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e- Sultan: 277 Articles with 679907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.