علماء و مشائخ پرطعن و تشنیع کے برے اثرات اور ان کے نتائج
(syed imaad ul deen, samundri)
علماء پر طعنہ زنی کے بہت خطرناک اثرات ہیں
ہم یہاں چند کو احاطہ تحریر میں لاتے ہیں ـ
1- علماء پر سے ایقان و اعتماد ختم ہوجاتا ہے، یقننا یہ بہت خطرناک المیہ
اور ضلالت و گمراہی کا پیش خیمہ ہے ـ کیونکہ جب لوگوں کا اعتماد ہی انبیاء
کے وارثین اور شریعت کے حاملین علماء پر سے ختم ہو جائے گا تو لوگ ہرگز ان
کی کوئی بات تسلیم نہیں کریں گئے او ر نہ ہی فتویٰ بلکہ کبھی کبھار تو
معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ سادہ لوح انسانوں ، جاہلوں کو اپنا رہبر و
رہنما منتخب کرلیتا ہے جو بغیر علم و معرفت کے فتویٰ دیتے ہیں ـ یا بذات
خود ہر انسان مفتی بن جاتا ہے اور علماء سے تعرض کرنے لگتا ہے اور بتدریج
یہ گمراہی اور انحراف کا اہم سبب بن جاتا ہے ، اور کبھی سماج اور قوم میں
علماء کی قیادت و سیادت ختم ہو جاتی ہے ـ
2 ۔معاشرے میں دشمنی و عداوت کی ترویج و اشاعت ہو جاتی ہے کیونکہ جو شخص
علماء دین میں سے کسی عالم کی تعریف و توصیف بیان کرتا ہے اور لوگوں میں
تشہیر کرتا ہے تو وہ اس عالم کی عداوت اور اس کے پیروکار کی عداوت کا سبب
بن جاتا ہے ـ نتیجتا مسلم معاشرہ فرقوں اور جماعتوں میں منقسم ہو جاتا ہے ،
ان کے درمیان منافرت و عداوت اور اختلاف وا نشقاق پیدا ہوجاتے ہیں اور
بلاشبہ یہ تمام امورمسلم معاشرہ کی قوت کی کمزوری کا باعث ہیں ـ
3- جب کوئی عالم اپنی صفائی پیش کرنے اور الزام تراشی کی تردید کرنے پر
مجبور ہو جاتے ہیں ، تو وہ اپنا قیمتی وقت تعلیم و تعلم اور افادہ امت میں
صرف کرنے کی بجائے اپنے اوپر عائد کردہ الزام کے ابطال میں ضائع کرتے ہیں ـ
حالانکہ اگروہ اپنے اس وقت کو درس و تدریس اور امر بالمعروف و نہی عن
المنکر میں صرف کریں تو امت کے لئے زیادہ نفع بخش ثابت ہو گا ـ
4-اگر سماج میں علماء امت میں سے کسی عالم پر بہتان کی اشاعت ہو جاتی ہے ـ
خواہ علماء دین کی جانب سے ہو ، یا طالبان علوم کی طرف سے یا دیگر اشخاص کی
طرف سے بہرحال یہ چیز علماء دین پر نادانوں کو نکتہ چینی کرنے اور ان پر
نگاہ حقارت ڈالنے کا سبب بن جاتی ہے اور یہ بلاشبہ نہایت خطرناک چیز ہے ،
کیونکہ وہ اس کے بعد تمام شریعت پر کیچڑ اچھالنے لگتا ہے ـ
5- جب عوام الناس کا اعتماد کامل اور یقین محکم علماء پر سے ختم ہوجاتا ہے
تو وہ کلی طور پر دین و شریعت سے اعراض و رو گردانی کرنے لگتا ہے ، اور
شریعت محمدی کو استخفاف اور تنقید و طعن کا ہدف بناتے ہیں ـ اور یہ چیز
اسلام کی مقدس تعلیمات سےاپنے آپ کو بری کرلیے کا سبب بن جاتا ہے جبکہ اس
میں وہ فساد و بگاڑ ہے جس کو اللہ واحد کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ـ
علاج
ہم پر واجب ہے کہ اس مہلک وبا کے علاج و معالجہ کی طرف اپنی توجہ مبذول
کریں ـ علاج و معالجہ کی سودمند تدابیر و وسائل اختیار کریں ، تاکہ سماج سے
جلد ازجلد یہ وبا کافور ہو جائے ـ ہم یہاں اس بڑی وبا کی روک تھام اور
ازالہ کے چند ذرائع قلم بند کرتے ہیں
1- علماء کی قدرو منزلت کو پہچانا جائے ، چونکہ وہ بنی نوع انسان کے خیر
خواہ ، قوم و ملت کے روح رواں اور رشد و ہدایت کے روش چراغ ہیں ـ امت کی
صلاح و فلاح ان کی صلاح و فلاح اور امت کی تباہی و بربادی ان کی تباہی و
بربادی میں ہے ـ وہ لوگوں میں ادب و احترام کے زیادہ مستحق ہیں ـ
2- علماء کی عیب جوئی سخت حرام ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ـ اس لئے ان
کی نکتہ چینی پر مرتب ہونے والے گناہ کے بھیانک اثرات کی معرفت حاصل کی
جائے ـ
3- افراد سماج میں ان کے احترام وفضائل کی نشرواشاعت کی جائے ، ان کے قلوب
واذہان میں علماء کے مقام و مرتبہ کو راسخ کیا جائے اور انہیں اس بات کی
یاد دہانی کرائی جائے کہ ان کی تکریم و تعظیم واجب و لازم ہے ـ
4- لوگوں کے درمیان ان کے عیوب و نقائض کی پردہ پوشی کی جائے ، کیونکہ جب
عام مسلمان کے عیب کی سترپوشی واجب ہے تو علماء دیگر لوگوں کی بہ نسبت اس
کے زیادہ حقدار ہیں ـ
5- علماء کے لئے بارہ ایزدی میں دعا کی جائے کہ باری تعالٰی انہں قول وعمل
میں موافقت و مطابقت کی توفیق ارزانی مرحمت فرما ـ خطاء و لغزش سے بچا اور
ان کی ستر پوشی فرما کیونکہ دعا ومناجات توفیق کا عظیم سبب ہے ـ
6-جب ان سے بھول چوک یا کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو ان کی یاددہانی کرانی
جائے اور ایسے اسلوب سے پندہ و نصیحت کی جائے جو ان کے مقام و مرتبہ کی
شایان شان ہو اور ان کی عمدہ کارگزارہ ہر مدح سرائی اور خراج عقیدت پیش کیا
جائے ـ
7- جب کسی معاملہ میں ان سے کوئی لغزش صادر ہو جائے تو ان سے عفو و درگذر
کیا جائے کیونکہ وہ بشر ہیں ، معصوم عن الخطاء نہیں اور ہر بنی آدم خطاکار
ہے ـ
8- ان سے حسن ظن کی امید قوی رکھی جائے کیونکہ وہ لوگوں میں شریعت اور کتاب
وسنت کے زیادہ واقف کار ہیں۔
سیدعمادالدین 449 گ ب سمندری فیصل آباد
|
|