نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Malegaon)
ام المؤمنین حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کی سیرت پر لکھی گئی
ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی کی کتاب سے ۔۔۔۔۔ |
|
غزوۂ بدر میں حضرت حفصہ بنت عمر فاروق رضی
اللہ عنہما کے پہلے شوہر حضر ت خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ۔ اس
وقت حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف اکیس سال تھی۔ جب عدت کی مدت ختم
ہوگئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہا کو اپنی جوان بیٹی کے نکاح کی فکر
ہونے لگی۔ وہ چاہتے تھے کہ جلد سے جلد حضرت حفصہ( رضی اللہ عنہا) کا گھر
دوبارہ آباد ہوجائے ۔ چناں چہ اپنی جوان اور بیوہ بیٹی کے لیے نیک اور
صالح اور خوش سلیقہ شوہر کی تلاش شروع کردی ۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بنت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرماچکی تھیں ۔ لہٰذا حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کا خیال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف گیا ۔ اس خیال سے
انھیں یک گونہ مسرت اور تسکین حاصل ہوئی اور وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ
عنہ سے ملنے ان کے گھر تشریف لے گئے۔ یہاں پہنچ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ نے کہا کہ :’’ مَیں آپ کے پاس ایک مقصد کے لیے آیا ہوں ۔ ‘‘
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کہا :’’ کہو!‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس پر کہنا شروع کیا:’’ تم جانتے ہو کہ
میری بیٹی حفصہ بیوہ ہوچکی ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ تم اس سے نکاح کرلو۔‘‘
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ :’’ مَیں کچھ دن سوچ کر جواب دوں
گا۔‘‘
کچھ دنوں کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
کے پاس گئے۔ انھیں اپنے ساتھی پورا بھروسہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
اس رشتے کو قبول کرلیں گے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب اُن سے پوچھا کہ :’’ کیا سوچا ہے تم نے
حفصہ (رضی اللہ عنہا) کے بارے میں ؟‘‘ …تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے
جواب دیا کہ :’’ میرا فی الحال شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سُن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ کو ملال ہوا ۔ انھیں یہی فکر تھی کہ جلد سے جلد حضرت حفصہ (رضی اللہ
عنہا ) کا گھر دوبارہ بس جائے ۔ ان ہی سوچوں میں محو تھے کہ انھیں حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خیال آیا اور وہ اُن کے مکان پر پہنچ گئے۔
یہاں بھی پہنچ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے آنے کا مقصد
بتایااور کہا کہ :’’ تم تو جانتے ہو کہ حفصہ بیوہ ہوچکی ہے اس لیے اس سے
شادی کرلو‘‘ ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اُن کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور
خاموش رہے۔ اسی طرح خاموشی میں کچھ لمحے گذر گئے تو حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ اپنی بیوہ اور جوان بیٹی کی فکر لیے ہوئے
آخر کار ایک دن اُس بارگاہِ عظمت نشان میں پہنچے جہاں ہر دکھی دل کی نہ
صرف سنی جاتی ہے بل کہ اُس کی بگڑی بھی بنائی جاتی ہے۔ بارگاہِ رسالت مآب
صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عریضہ
پیش کیا :’’ یارسول اللہ ﷺ! مَیں نے حفصہ(رضی اللہ عنہا) سے شادی کے لیے
عثمان(رضی اللہ عنہا) سے کہا تو انھوں نے صاف انکار کردیا ۔ ابوبکر (رضی
اللہ عنہ) سے اس سلسلے میں بات چیت کی تو وہ خاموش ہی رہے۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس طرح جوان بیوہ بیٹی کے لیے فکر مند دیکھ
کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ فکر نہ کرو! حفصہ( رضی
اللہ عنہا) کی شادی اس شخص کے ساتھ ہوگی جو (حضرت) ابوبکر اور (حضرت) عثمان
غنی(رضی اللہ عنہم) سے افضل ہے اور عثمان ( رضی اللہ عنہ) کی شادی اس خاتون
سے ہوگی جو حفصہ( رضی اللہ عنہا) سے بہتر ہے۔‘‘
آقاے کائنات مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سُن کر حضرت عمر فارو
ق رضی اللہ عنہ کے بے قرار دل کو سکون حاصل ہوگیا۔ پھر نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنے اس جاں نثار صحابی سے فرمایا :’’ اے عمر ! تم اپنی بیٹی
کی شادی میرے ساتھ کردو۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خوشیوں اور مسرتوں کا ستارا اوجِ ثریا پر
پہنچ گیا ۔اس کے چند روز بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی شادی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چار
سو درہم مہر کے بدلے کردیا ۔ اس طرح حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ بن کر ام المؤمنین کے لقب سے سرفراز
ہوئیں۔ یہ نکاح شعبان المعظم کے مہینے ۳ھ میں ہوا۔ اس وقت حضرت حفصہ رضی
اللہ عنہا کی عمر تقریباً ۲۲؍ سال تھی۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعد
حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے اپنے دوست حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے
ملاقات کی اور کہا : ’’ اے عمر! جب تم نے اپنی بیٹی حفصہ (رضی اللہ عنہا)
کا رشتہ پیش کیا تو عثمان (رضی اللہ عنہ) کے انکار اور میری خاموشی پر
یقینا تمہیں دکھ پہنچا ہوگا۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :’’ ہاں!‘‘ اور پھر بولے:’’ مجھے
عثمان (رضی اللہ عنہ) کے انکار پر اتنا رنج نہیں پہنچا جتنا تمہاری خاموشی
پر۔‘‘
اس بات پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ :’’ اے عمر ! اگر تم کو
حقیقت کا پتا چلے گا تو تمہاری خوشیوں کی کوئی انتہا نہ رہے گی۔ اصل بات یہ
ہے کہ ہمارے سامنے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حفصہ (رضی اللہ
عنہا) کا ذکر کیا تھااگر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے نکاح کرنے کا
ارادہ نہ فرماتے تو مَیں اس کے لیے تیار تھا۔‘‘ یہ بات سُن کر حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ فرطِ مسرت سے جھوم اٹھے۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کاشانۂ نبوت میں
جب حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین کے شرف سے سرفراز ہوکر
کاشانۂ نبوت میں داخل ہوئیں تو اس وقت دو ازواجِ مطہرات پہلے سے موجود
تھیں ۔ ایک حضرت سیدہ سودہ بنت زمعہ اور دوسری سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہن۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جاں نثار صحابی حضرت حارثہ بن نعمان
رضی اللہ عنہ کے کئی مکانات بالکل مسجد نبوی سے لگ کر تھے۔ جب نبیِ کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاتون سے نکاح فرماتے تو یہ جاں نثار صحابی اپنا
مکان خالی کردیتے اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نذر
کردیتے۔ اس طرح انھوں نے ایک کے بعد ایک اپنے تمام مکانات سیدِ کونین صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نچھاور کردیے۔ ان مکانات میں چار مکان کچی
اینٹوں کے بنے ہوئے تھے اور پانچ مکان گارے اور کھجور کی شاخوں کے تھے۔
شادی کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو جس مکان میں رکھا گیا وہ مشرقی
جانب تھا ۔ حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے درمیان
جو باہمی محبت و الفت تھی ، اُس کی وجہ سے حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابوبکر اور
حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہم کے آپس میں بڑے محبت آمیز رویے تھے اور
وہ دونوں ایک دوسرے سے بے حد قریب تھیں۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سات سال کے لگ بھگ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کے نکاح میں رہیں۔ آپ چوں کہ غیظ المنافقین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
کی بیٹی تھیں اس وجہ سے بھی آپ کے مزاج میں جسارت بھی تھی اور نکتہ سنجی و
نکتہ آفرینی بھی ۔ساتھ ہی کسی سے سوال کرنے اور بات کا جواب دینے سے
ہچکچاتی بھی نہیںتھیں۔آپ بڑے ذوق و شوق سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی باتیں سنتی تھیں۔ انھیں سمجھتیں اور اپنے دل و دماغ میں محفوظ کرلیتی
تھیں ۔ کبھی کسی مسئلہ میں کوئی مشکل پیش آتی تو اس کو دور کرنے میں دلیری
نہیں دکھاتی تھیں۔ بل کہ اس کو پہلے تو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کرتیں
اگر نہ سمجھ پاتیں تو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ا س مشکل
کااظہار کردیتیں تاکہ وضاحت ہو جائے اورکسی بھی طرح کا کوئی شک باقی نہ
رہے۔
حضرت ام مبشر انصاریہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ :’’مَیں حفصہ (رضی
اللہ عنہا) کے پاس بیٹھی تھی، اسی دوران نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:
’’ ان شآء اللہ جو اہل ایمان غزوۂ بدر میں شریک تھے اور جنھوں نے مجھ سے
(حدیبیہ کے موقع پر) درخت کے نیچے بیعت کی وہ جہنم میں نہیں جائیں گے۔‘‘
یہ سن کر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکو تعجب ہوااُن کے ذہن میں طرح طرح کے
سوالات ابھرنے لگے ۔ اپنی عادتِ کریمہ کے مطابق پہلے تو کافی غور وخوض کیا
، لیکن جب اس فرمان کی تشریح نہ کرسکیں تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
سامنے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ کر سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا ( یعنی :اور تم میں ایسا کوئی نہیں جس
کا گذر دوزخ پر نہ ہو ، سورۂ مریم آیت۷۱) جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے تو
آپ نے یہ کیسے فرمادیا کہ درخت کے نیچے حدیبیہ کے موقع پر بیعت کرنے والے
دوزخ میں نہ جائیں گے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ
تعالیٰ نے اس کے آگے یہ بھی تو فرمایاہے ثُمَّ نُنَجِّیْ الَّذِیْنَ
اتَّقُوْا وَ نَذَرُالظَّا لِمِیْنَ فِیْھَاجِثِیًّا(یعنی: پھر ہم ڈر والوں
کو بچالیں گے اور ظالموں کو اس میں چھوڑ دیں گے گھٹنوںکے بل گرے،سورۂ مریم
آیت۷۲ ) اس آیت میں پل صراط کاذکر ہے جو دوزخ کی پشت پر قائم ہے ۔ سب کو
اس پر سے گزرنا ہوگا ۔ پرہیز گار اور نیک بندے اپنے اعمال کے لحاظ سے جلدی
یا آرام سے پل صراط سے گذر کر جنت میں پہنچ جائیں گے اور کافر کٹ کٹ کر اس
میں ہمیشہ کے لیے گرجائیں گے اور پار نہ ہوسکیں گے۔ اسی طرح وہ مسلمان
جواپنے گناہوں کی وجہ سے اس میں گریں گے اُن کو اللہ تعالیٰ معاف فرما کر
جنت میں بھیجے گا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا اس طرح سوال کرنا بھی حکمت
سے خالی نہیں ہے ۔ |
|