ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے ذریعے معاشرتی اصلاح
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Malegaon)
ام المؤمنین حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کی سیرت پر لکھی گئی
ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی کی کتاب سے ۔۔۔۔۔ |
|
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو بھی
نکاح ہوئے وہ سب حکمت و موعظت سے خالی نہیں تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے جن عورتوں کے ساتھ شادی فرمائی اُن کے ذریعے سے عرب معاشرے میں
پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرنے کا درس بھی دیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا کے ذریعے امت کی عورتوں کے مسائل ہمیں معلوم ہوئے۔اسی طرح دوسری ازواجِ
مطہرات کے ذریعے بھی اصلاحِ نسواں کے باتیں ہم تک پہنچیں۔
دورِ جاہلیت میں عرب کے معاشرے نے مردوں اور عورتوں کے درمیان جن امتیازی
رویوں کو جنم دیا تھا ان کو دور کرنے کے لیے کافی وقت درکار تھا۔ اور اس کے
لیے نبیِ کریم ہادیِ برحق رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی رہنمائی
اور تربیت کی ضرورت تھی۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ معاشرے کی اصلاح جتنی ایک
عورت کے ذریعہ ہوسکتی ہے وہ مرد سے نہیں ہوسکتی کیوں کہ مرد اکیلے اپنی
زندگی میں انقلاب پیدا کرسکتا ہے جب کہ عورت اپنے پورے خاندان کی اصلاح
کرسکتی ہے ۔ اس لیے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کی عورتوں کی
اصلاح کے لیے خصوصی طور پر امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کی تعلیم و تربیت
کی ۔ عورتوں کے مسائل کے سلسلے میں امہات المؤمنین نے بھی اپنی ذمہ داری
نبھائی اور جو نہ سمجھ سکیں وہ اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم سے
پوچھا کرتیں ۔ اسلام نے عورتوں کو بلند درجہ دیا ۔ قرآن پاک میں ان کے لیے
کئی آیتیں نازل ہوئیں۔ یہ اسلام ہی کی برکتیں ہیں کہ بیٹیوں کو زندہ دفن
کرنے کی فرسودہ اور ظالمانہ روایت ختم ہوئی۔ جب قرآن پاک نازل ہوا تو
لوگوں کو عورتوں کی قدر و منزلت کا پتا چلا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ان کے حقوق و تحفظ کی خاطر بے شمار اصلاحات فرمائیں۔ نبیِ مکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنے مکان میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے حُسنِ سلوک کا
ایک منفرد اور مثالی معیار قائم فرمایا۔ انھیں اپنی راے کے اظہار کا پورا
پورا حق دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ کتابوں میں بعض ایسی روایتیں ملتی ہیں جن میں
وہ اپنی ضروریات اور اپنے مطالبات پوری بے باکی اور بے تکلفی سے رسولِ
کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کردیا کرتی تھیںاورمعاشرتی اور
دیگر معاملات میں اپنی راے کا اظہار بلا تکلف کردیا کرتی تھیں۔
ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں قدرے جسارت تھی ۔ لہٰذا
بعض مرتبہ گھریلو ماحول میں ہلکی سی تلخی پیدا ہوجاتی تھی لیکن اس مبارک و
مسعود اور مثالی گھر میں جلد ہی یہ صورت حال محبت و الفت اور نرمی و ملائمت
کی مٹھاس میں بدل جایا کرتی تھی۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ :’’ اللہ کی قسم! ہم جاہلیت کے زمانے میں عورتوں کو خاطر میں نہ
لاتے تھے ، انھیں دبا کر رکھتے تھے ۔ جب ہم مدینہ آئے تو ہمیں یہاں ایسے
لوگ بھی ملے جن پر ان کی بیویاں غالب تھیں اور یہی سبق ہماری عورتیں ان سے
سیکھنے لگیں۔ ایک دفعہ کسی کام کے بارے میں مَیں کسی سے مشورہ کررہا تھا ۔
میری بیوی کہنے لگی :’’ ایسااور ایسا کرلو ۔‘‘
حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اِس پر مَیں نے کہا:’’ تمہیں
اس بات سے کیا تعلق؟‘‘ … بیوی نے جواب دیا:’’ تعجب ہے کہ آپ اپنے کام میں
کسی کی مداخلت گوارا نہیں کرتے ۔ حال آں کہ آپ کی بیٹی نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم سے تکرار کرتی ہے جو آپ ﷺ کے لیے دکھ کا سبب بنتی ہے۔‘‘
فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہ اپنی بیوی کی یہ بات سُن کر مَیں نے
چادر سنبھالی اور سیدہ حفصہ (رضی اللہ عنہا) کے مکان پر گیا۔ وہ مجھے دیکھ
کر خوش ہوئی ۔ مَیں نے پوچھا :’’ بیٹی ! کیا تم نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے تکرار کرتی اور انھیں جواب دیتی ہو جو ان کے رنج کا سبب بنتا ہے؟‘‘
بیٹی نے جواب دیا :’’ ہاں !‘‘
’ ’ کیا تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے غضب سے نہیں ڈرتی ہو جو ایسا کرتی
ہو؟‘‘ اور پھر مَیں نے اس سے کہا:’’ اللہ کے رسول ﷺ سے کبھی کوئی ایسی بات
نہ کرنا جو اُن کی طبیعت پر گراں گذرے اور نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا
۔‘‘
ایک دن مسلمان مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کے لیے جمع تھے لیکن
کافی انتظار کرنے کے باوجود بھی جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ
لائے تو مسلمان بے چین ہو اٹھے۔ چناں چہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ اجازت لے کر کاشانۂ نبوت میں حاضر ہوئے، آپ رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اجازت طلب کی اور وہ بھی بارگاہِ
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے آس پاس ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن جمع ہیں اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم خاموش تشریف فرماہیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سوچا
کہ مجھے ایسی کوئی بات کرنی چاہیے جس سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
مسکرانے لگیں۔
چناں چہ انھوں نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! اگر مَیں اپنی بیوی کو دیکھوں
کہ وہ مجھ سے نفقہ مانگتی ہے تو مَیں اس کی گردن پر دھول ماردوں ۔ ‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات سُن کر نبیِ مکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: یہ سب یہی چیز مانگ رہی ہیں۔ ‘‘
اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہاکو ڈانٹا اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی
بیٹی کو ڈانٹ پلائی۔ |
|