ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی باہمی محبت

ام المؤمنین حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کی سیرت پر لکھی گئی ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی کی کتاب سے ۔۔۔۔۔
نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ ازواجِ مطہرات میں جو باہمی محبت و الفت تھی وہ تاریخ کا ایک روشن حصہ ہے۔ دراصل نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گھرانہ دنیا بھر کے لیے ایک آئیڈیل اور رہنما تھا۔ اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نکاح فرمائے وہ امت کی اصلاح اور سبق ہی کے لیے تھا ۔ آپ نے ازواجِ مطہرات سے جیسا برتاو رکھا اس کے ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویاں آپس میں بڑی شیر و شکر تھیں، اُن کے درمیان جو خلوص و محبت تھا وہ ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے ۔ وہ ایک دوسرے کی تکلیف اور دکھ درد پر بے چین ہوجایا کرتی تھیں۔ آپس میں بیٹھ کر باتیں کرتی تھیں۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت میں تمام ازواجِ مطہرات سرشار تھیں۔ انسانی فطرت کے مطابق کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ آپس میں معمولی شکر رنجی ہوجاتی لیکن جلد ہی وہ آپس میں گھل مل جاتیں ۔ دل سے بھی اُن باتوں کو بھلا دیتیں ۔
ایک دن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا رورہی ہیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت سے پوچھا : ’’ کیا ہوا؟‘‘
’’ حفصہ(رضی اللہ عنہا) نے مجھے یہودی کی بیٹی کہا ہے۔‘‘ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی تو آپ ﷺ نے حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایاکہ :’’ اے حفصہ ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے کہا کہ :’’ ہم نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تم سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہیں کیوں کہ ہم آپ ﷺ کی بیوی تو ہیں ساتھ ہی چچازاد بہن بھی ہیں۔ ‘‘
اس بات سے بھی حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہارنجیدہ ہوگئیں ، انھوں نے نبیِ مکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی جس پر آقاے کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:’’ اے صفیہ ! تم نے یوں کیوں نہیں کہہ دیا کہ تم مجھ سے زیادہ پسندیدہ کیوں کر ہوسکتی ہو میرے شوہر (حضرت) محمد (ﷺ) ، میرے باپ حضرت ہارون علیہ السلام اور میرے چچا حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔‘ ‘
ایک واقعہ
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدس گھر ایسا تھا جس کی کوئی مثال اب تک نہیں پیش کی جاسکتی۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں عام عورتوں کی طرح نہ تھیں ، بل کہ وہ تمام مومنوں کی مائیں ہیں ۔ ان مقدس خواتین نے امتِ مسلمہ کی عورتوں سے متعلق ایسے ایسے مسائل حل کیے جو ان کے علاوہ اور کوئی حل کر ہی نہیں سکتا ۔ اسی پر بس نہیں بل کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے رخصت فرمانے کے بعد اِن مقدس ماوں نے امت کی روحانی بیٹیوں اور بیٹوں کی جس طرح سے تعلیم و تربیت فرمائی کوئی دوسرا کرہی نہیں سکتا تھا۔
ایک مرتبہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھیں ، ساربان اونٹوں کو تیزتیز ہانک رہے تھے ، اس پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ دیکھو! یہ نازک شیشیاں ہیں ۔ ‘‘ اس ایک جملے سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کا کیا مقام و مرتبہ تھا۔
تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن بھی نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت و الفت اور عقیدت رکھتی تھیں ۔ان کی خواہش یہی رہا کرتی تھی کہ ان کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ سے زیادہ قبت نصیب ہو اور وہ اس کے لیے محبت کے ہاتھوں مجبور بھی تھیں۔ لہٰذا کبھی کبھار کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا جو بہ ظاہر اُن کی شان کے لائق نہ ہوتا تھا۔
واقعہ یوں ہوا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا بہت پسند تھا۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس کہیں سے شہد آیا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہا ں شہد کا شربت پیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اُن کے حجرے میں معمول سے کچھ زیادہ وقت لگ جایا کرتا تھا۔ لیکن اس دیر کی وجہ دوسری ازواجِ مطہرات کو نہ تھی۔ امہات المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت سودہ ، حضرت صفیہ بنت حیی اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہن نے آپس میں مشورہ کیا کہ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائیں تو وہ کہا کریں کہ :’’ یارسول اللہ! آپ کے منہ سے مغافیر کی بُو آتی ہے۔‘‘ (مغافیر : ایک قسم کا گوند ہوتا ہے بعض نے کہا ہے کہ درخت کا پھل ہوتا ہے)
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے حجروں میں تشریف لے گئے اور سب سے ملاقات فرمانے کے بعد جب آپ ﷺ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آئے تو دیگر ازواجِ مطہرات کی طرح انھوں نے بھی وہی بات دہرائی جو مشورے میں طَے ہوئی تھی۔
اس پر نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اے حفصہ! مَیں نے زینب بنت جحش(رضی اللہ عنہا) کے یہاں شہد پیا ہے۔مَیں نے مغافیر نہیں کھایا۔‘‘
چوں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت نفاست پسند بل کہ نفاستوں کی بھی آبرو تھے۔ آپ کے جسمِ مبارک سے کسی بھی قسم کی بُو وغیرہ نہیں آتی تھی۔ جب ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی باتیںسنیں تو فرمایاکہ:’’ اے حفصہ! اب مَیں آیندہ شہد کا شربت نہیں پیوں گا ، لیکن تم اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔ ‘‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے اس بات کو ظاہر کرنے کے لیے اس لیے منع فرمایا تھا تاکہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو دکھ نہ پہنچے، کیوں کہ نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات سے کبھی کسی کو دکھ اور تکلیف نہیں پہنچتی تھی۔
یہ باہمی مشورہ جو امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن نے کیا تھا وہ اُن کی شان کے لائق نہ تھا جس کی وجہ سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو ایک حلال چیز کھانے سے روک لیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ تحریم کی آیت نازل فرمادی کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک زوجہ کو راز کی بات بتادی اور وہ اس نے دوسری کو بتادی۔ اس پر آیت اس لیے نزل ہوئی کہ اول تو وہ اس عظیم المرتبت رسول کی بیوی تھیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے انتہائی ذمہ داری کا کام سونپا تھا ، دوم اگر کوئی بات راز نہ رہے تو تبلیغ و اشاعتِ دین جیسے بڑے مقصد کو نقصان پہنچ سکتا تھالہٰذا اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرماکر راستہ روشن فرمادیا کہ آیندہ کوئی ایسی بات نہ ہو۔
واقعۂ طلاق اور رجوع ( جنت میں اہلیہ ہونے کا اعزاز)
حضرت قیس بن زید رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی تھی۔ جب اُن کے دونوں ماموں ( قدامہ و عثمان) اُن کے پاس آئے تو انھوں نے روتے ہوئے کہا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی دشمنی اور عیب کی وجہ سے طلاق نہیں دی ہے ، یہ باتیں ہورہی تھیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کرلیا۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :’’ مجھے جبریل امین (علیہ السلام) نے نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ حفصہ کو اپنے نکاح ہی میں رکھیے اور جبریلِ امین کہتے ہیں کہ یہ انتہائی عبادت گزار اور کثرت سے روزے رکھنے والی ہے اور جنت میں بھی آپ کی اہلیہ ہوں گی۔
علامہ ابن عبدالبر نے حضرت عمار بن یاسر سے روایت کردہ حدیث نقل کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو حضرت جبریل امین علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اسے طلاق مت دو اس لیے کہ یہ انتہائی زہد و تقویٰ والی اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر سختی سے عمل کرنے والی ، عبادت گزار ، کثرت سے روزے رکھنے والی اور جنت میں بھی آپ کی اہلیہ ہوں گی۔
بعض شارحینِ حدیث کہتے ہیں کہ ممکن ہے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق نہ دی ہو بل کہ صرف ارادہ ہی فرمایا ہو اور معاملہ جو بھی رہا ہوگا اُس کو دیکھ کر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور دیگر حضرات نے یہ سمجھ لیا ہو کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی۔ جیسا کہ اوپر درج کی گئی روایت میں بیان ہو اہے۔ جبریل امین علیہ السلام نے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا حکم سنا دیا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہا کہ یہ جنت میں بھی آپ ﷺ کی بیوی ہوں گی تو لوگوں نے سمجھا ہوگا کہ اب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع فرمالی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 596810 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More