باوا آدم ہی نرالا ہے

ایک عرصے سے وطن عزیز پاکستان وحشت، خوف اورغیر یقینی صورتحال کے حصار میں ہے۔ موت سیاہ بادلوں کی مانند ہر وقت معصوم شہریوں پر منڈلاتی رہتی ہے۔کچھ معلوم نہیں کہ کس وقت کون ملک دشمن ایجنٹ پارکوں، عبادت گاہوں، بازاروں، تعلیمی اداروں اور عوامی جگہوں پر درندگی و سفاکیت کی تمام حدود پارتے کرتے ہوئے بے گناہ لوگوں کی زندگیاں چھین لے۔ میرے ملک کے گلی کوچے بھی میدان جنگ بنے ہوئے ہیں۔ کچھ معلوم نہیں کہ ایک درندہ کس جگہ پر دہشتگردی کر کے بے گناہوں کو ہمیشہ کے لیے سانسوں سے محروم کردے۔ جوان، بوڑھے، بچے اور خواتین میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہرکوئی صبح گھر سے نکلنے سے لے کر واپس آنے تک خوف و پریشانی کے عالم میں ہوتا ہے۔ برس ہا برس سے میرے ملک کے باسی اسی خوفناک کیفیت کا شکار ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کا سلسلہ افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد سے شروع ہوا ، جس نے رفتہ رفتہ اسلام آباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، فیصل آباد، ملتان، مری، راولپنڈی سمیت ملک کے تمام شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بلاتفریق ساٹھ ہزار پاکستانی دہشتگردوں کی درندگی وسفاکیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، دیگر نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔

ملک عزیز کو ان بھیانک حالات سے دوچار کرنے میں یقینا بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ”را“ اور اس قبیل کی دیگر کئی قوتیں شامل ہیں، جو ہمارے ہی ملک کے سادہ لوح اور بعض سر پھرے لوگوں کو مالی اور عسکری تعاون فراہم کر کے بے گناہ لوگوں کی جان لینے اور ملک میں بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہیں، جس کا اعتراف گرفتار کیے گئے پاکستان دشمن غیر ملکی ایجنٹ بارہا کرچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور میں پیش آنے والا سانحہ بھی اندرونی و بیرونی دشمنوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہی ہے، جس کی المناکی کا خیال ہی آنکھیں نم کرنے کو کافی ہے۔ انسان روز اپنی آنکھوں سے مختلف ہولناک سانحات رونما ہوتے دیکھتا ہے اور بہت جلد بھول بھی جاتا ہے، لیکن کچھ واقعات اس قدر تکلیف دہ اور المناک ہوتے ہیں، جن کو بھلانا انسان کے بس میں ہوتا ہی نہیں ہے۔ یہ واقعات ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں کہ انسان انھیں اپنی سوچ سے کھرچنے کی لاکھ کوشش کرے بھی تو ناکام ٹھہرتا ہے۔ اقبال پارک کا بدترین سانحہ بھی اسی نوع کا ایک واقعہ ہے، جوکئی روز گزرنے کے باوجود سوچ میں کانٹے کی طرح پیوست ہے۔ لاہور سانحے کی ہولناکی کئی دن گزرنے کے باوجود بھی ذہن میں سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھی ہے کہ کس طرح درندوں نے جھولا جھولتے، کھیلتے کودتے اور خوشیاں مناتے معصوم بچوں کو درندگی کا نشانہ بنا ڈالا۔ معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والے ”بہادروں“ کی بہادری پر تف ہے۔ حقیقت میں یہ انتہائی بزدل لوگ ہیں، جو اسلحے سے لیس ہوکر نہتے بچوں سے لڑتے ہیں۔
میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے

لاہور اقبال پارک میں معصوم بچوں اور خواتین سمیت 74 افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جانا یقیناً ایک قومی سانحہ ہے، جو پوری قوم کے لیے انتہائی پریشان کن اور تکلیف دہ ہے، لیکن میری تکلیف، پریشانی اور خوف کی وجہ اس واقعے میں شہید ہونے والے محمد یوسف کو صرف داڑھی کی وجہ سے دہشتگرد قرار دینا بھی ہے، کیونکہ پاکستان میں مجھ سمیت ایک بڑی تعداد باریش افراد کی ہے، جو بے گناہ لوگوں کی جان لینے والوں کو اسلام، انسانیت اور وطن عزیز کا غدار سمجھتے ہیں، اس لیے محمد یوسف کا واقعہ ہمارے لیے قابل تشویش ہے، جس میں پولیس نے انتہائی غیرسنجیدگی کا ثبوت دیا۔ دہشتگردوں کی خونی کارروائی کا شکار ہوکر اپنی جان جان آفریں کے حوالے کرنیوالے مظلوم محمد یوسف شہید کو پولیس نے واقعے کے کچھ ہی دیر بعد بلا تحقیق ملزم قرار دے دیا، جس کے بعد میڈیا نے معصوم شہری کو سیدھا دہشتگرد اور خودکش بمبار ڈکلیئر کردیا۔ سوشل میڈیا پر اس بے گناہ مظلوم کی تصویر لگا کر کھل کر ہر شخص نفرت انگیز الفاظ میں اس پر تبصرہ کرتا رہا۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مظلوم محمد یوسف کے اہل خانہ کو حراست میں لے لیا۔ خواتین و بچوں سمیت اس کے گھر کے تمام افراد کو دو دن تک بھوکا پیاسا ایک کمرے میں بند کیے رکھا۔ دو دن تک ان کے مویشی بھی بھوکے پیاسے بندھے رہے۔ بھائیوں اور مظلوم کے اہل خانہ پر بدترین نفسیاتی تشدد کیا جاتا رہا۔ بعد میں محمد یوسف کے زخمی دوست کی گواہی دینے کے بعد پولیس کو خود اپنے الزام کی تردید کرنا پڑی۔وہ تو شکر خدا کا محمد یوسف کا دوست زندہ بچ گیا۔ خدانخواستہ اگر محمد یوسف اکیلا ہوتا، یا اس کا دوست بھی اس کے ساتھ دہشتگردوں کی درندگی کا نشانہ بن جاتا تومحمد یوسف کی بے گناہی کی گواہی دینے والا کوئی نہ ہوتا۔ لوگ اس ”دہشتگرد“ کی مغفرت کے لیے دعا کرنا بھی گوارا نہ کرتے۔ اس کے اہل خانہ کی ساری زندگی اجیرن ہوجاتی۔ خدا جانے ان بے گناہوں کو کب جیل سے رہائی نصیب ہوتی اور رہائی کے بعد بھی وہ ہمیشہ تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے۔ محمد یوسف کے ساتھ پیش ا?نیوالے واقعے کے بعد میں خود خوفزدہ ہوں، کیونکہ میرے چہرے پر بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ صرف میں ہی نہیں، پولیس کی نااہلی و غیر سنجیدگی کے اس واقعے کے بعد تو ملک میں ہر باریش یقینا خود کو خوفزدہ محسوس کر رہا ہوگا، کیونکہ خدا نخواستہ اگر ان کی موجودگی میں کہیں دہشتگردی کی واردات ہوجائے تو کچھ بعید نہیں پولیس واقعہ کا سارا ملبہ وہاں موجود کسی باریش شہید کے سر ڈال کر اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوجائے، جس کے بعد باریش شہید کے اہل خانہ پر ایک نئی افتاد ٹوٹ پڑے۔ کیا ان کے پاس طاقت ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ جس بے گناہ شہری کو جب چاہیں، قصوروار ٹھہرا دیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ بلا تحقیق کسی کو بھی مجرم قرار دینا خود ایک جرم عظیم ہے۔ مہذب دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ پولیس بلا تحقیق کسی کو مجرم قرار دے ڈالے، لیکن یہاں کا تو باوا ا?دم ہی نرالا ہے۔ طاقتور ہر قسم کا ظلم کرنے کے باوجود بھی بے گناہ، بے قصور اور پارسا ہے، جب کہ کمزور تمام تر بے گناہی کے باوجود قصور وار، مجرم اور قابل گرفت ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.