کیکر تے انگور چڑھایا
(Rana Tabassum Pasha(Daur), Dallas, USA)
کہتے ہیں کہ نیکی اور قربانی کبھی رائیگاں
نہیں جاتی ۔ لیکن اگر انکی بنیاد بیوقوفی بزدلی اور بےدینی پر رکھی جائے تو
پھر خون کے رشتے بھی صرف خون ہی چوستے ہیں ۔ ہر کسی کے دل میں خدا کا خوف
نہیں ہوتا ۔ ایسے ہی آخرت کی پوچھ پکڑ سے بےنیاز ایک گھرانے کا نوجوان چھ
بہنوں کا اکلوتا بڑا بھائی تھا ۔ ابھی کالج ہی کر رہا تھا کہ اچانک والد کا
انتقال ہو گیا ۔ سفید پوش گھرانہ تھا پہلے ہی گذر بسر مشکل سے ہوتی تھی اب
گھر کے سربراہ کی وفات کے بعد کفالت کی ذمہ داری اس نوجوان کے سر پر آ پڑی
۔ اور اپنے حالات کو سدھارنے کے لئے وہ سعودی عرب کو سدھارا ۔ دو سال بعد
پہلی چھٹی پر گھر آیا تو اسکی شادی کر دی گئی کیونکہ گھر والوں کو اپنے گھر
کے کام کاج کے لئے ایک ملازمہ درکار تھی اور وہ خوش قسمتی سے انہیں مل بھی
گئی ۔ انتہائی پسماندہ عسرت زدہ گھر کی لڑکی ۔ وہ دس بہنیں تھیں ۔ بھائی
ایک بھی نہ تھا ۔ بس اسکے بعد قربانیوں اور اپنوں کی خودغرضیوں اور سازشوں
کا ایک طویل سلسلہ شروع ہؤا جو تیس برس تک جاری رہا ۔
پورے تیس برس تک یہ بےعقل، دینی تعلیمات اور احکامات سے قطعی بےنیاز گھرانے
کا چشم و چراغ اپنی ماں بہنوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا رہا ۔ انکے
اشاروں پہ ناچتا رہا ۔ بیوی کو پاس بلانا تو رہا درکنار اسے عمرہ حج تک نہ
کروایا ۔ دو ڈھائی سال بعد چند ہفتوں کی چھٹی پر گھر آتا تھا تو بھی اسکی
منکوحہ کسی زرخرید کنیز کی طرح اپنے معمولات میں حسب دستور مصروف رہتی ۔
اور یہ اپنی لالچی اور مطلب پرست بہنوں کے حرام ہڈ شوہروں کے قضئے نمٹاتا
پھرتا ۔ ان ہی کے بچوں کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں لگا رہتا ۔ لہذا خود
اپنی اولاد سے محرومی کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہ ملتی ۔ انہی حالات
میں تیس برس بیت گئے اور وہ کمپنی ہی ختم ہو گئی جہاں یہ ملازمت کرتا تھا ۔
لہذا لوٹ کے بدھو گھر کو آئے ۔ ایک اچھے علاقے میں فلیٹ اپنی والدہ کے نام
سے خریدا تھا جس میں بہنوں کے ڈیرے ڈلے رہتے تھے ۔ کوئی جمع پونجی نہ تھی
اب زندگی اور گھر کی گاڑی گھسیٹنے کے لئے چھوٹے موٹے کام شروع کئے ۔ آمدنی
کی صورتحال پہلے جیسی نہ رہی تو دبی زبان سے والدہ کو اپنی شاہ خرچیوں اور
بہنوں کی آمد و رفت کو لگام ڈالنے کا کہا تو ایک ہنگامہ مچ گیا ۔ ماں بہنوں
نے اسکی ایسی خبر لی کہ بس اللہ دے اور بندہ لے ۔ ساری زندگی بھائی بھابھی
کا خون چوسنے والی انہیں لوٹ کر کھانے والی بہنوں نے اسے ایسی کھری کھری
سنائیں کہ وہ سکتے میں آگیا ۔
شادی شدہ زندگی کے پردیس میں کاٹے جانے والے تیس برسوں میں تیس مہینے بھی
بیوی کے ساتھ نہ گذارنے والے اس بدنصیب شخص کو صرف سال بھر بعد اجل نے آ
لیا ۔ بس اس دونوں کا ساتھ اتنا ہی تھا ۔ اور وہ شوہر کی زندگی میں ہی بیوہ
ہو جانے والی دکھیاری مصیبتوں کی ماری تو پہلے ہی اتنا رو چکی تھی کہ اب
اسکے آنسو تک خشک ہو چکے تھے ۔ شوہر کی میت پر ایک آنسو اسکی آنکھ سے نہ
ٹپکا ۔ |
|