کالم:قلم کتاب فاطمہ خان
پنسل ایک تھی اور اُس کو استعمال کرنے والے تین تھے. اُن میں سے دو آپس میں
بھائی تھے اور تیسری اُن کی بہن تھی.پنسل اُس وقت بہن کے ہاتھ میں تھی اور
وہ دونوں منتظر نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے.اُس لڑکی نے مسکرا کر
اپنے بھائیوں کی طرف دیکھا اور پنسل اپنے پہلے بھائی کے ہاتھ میں تھما دی
اور خاموش نظروں سے اشارہ کیا کہ وہ اپنا کام مکمل کر کے یہ پنسل دوسرے
بھائی کو دے دے. اُن دونوں کے لئے یہ سب خاصا حیران کن تھا کیونکہ وہ جانتے
تھے کہ اُن کی بہن کا کام کہیں زیادہ ہے مگر بہن کی حوصلہ افزائی پر دونوں
نے نہایت اطمینان سے اپنا کام مکمل کیا. بہن کے ہاتھ جب پنسل آئی تو وہ
اتنی چھوٹی ہو چکی تھی کہ اُس سے بمشکل کام کیا جا سکتا تھا .اُس لڑکی نے
اپنا کام مکمل تو کر لیا مگر ایسا کرنے سے اُس کی اُنگلیاں بہت دیر تک
دُکھتی رہیں.ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا اُسے ایسی قربانیاں دینے کی عادت
سی پڑ گئی تھی اُس کے ماں باپ بھی اپنی بیٹی کی اس قدر ذمہ دارنہ سوچ دیکھ
کر بہت حیران ہوتے تھے مگر وہ ایسی ہی تھی سب کا خیال رکھنا گویا اُس نے
پیدا ہوتےہی سیکھ لیا تھا..وہ سب سے بڑی تھی اس لئے ذمہ دار اور حساس بھی
ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تھی.اپنی تعلیم سے زیادہ فکر اُسے اپنے بہن بھائیوں
کی تعلیم کی تھی.دل میں بس ایک ہی لگن تھی کہ سب کے سب بہت زیادہ تعلیم
حاصل کریں.دوسروں کا بھلا سوچنے والی اُس لڑکی کی اپنی تعلیم ادھوری رہ گئی
اور بہت کم عمری میں اُس نے عملی میدان میں قدم رکھ لیا اور ایک فیکڑی میں
کام شروع کر دیا.شادی ہوئی تو بہن بھائیوں نے سوچا کہ اب یہ اپنے گھر کی ہو
جاےُ گی اُن پر ویسی توجہ نہیں دے پاےُ گی.مگر یہ اُن کی خام خیالی تھی
کیونکہ شادی کی اگلی صبح وہ پہلے سے کہیں زیادہ ذمہ دار اور متحرک نظر آ
رہی تھی اور اب وہ معاشی طور پر بھی اپنے بہن بھائیوں کی مدد زیادہ بہتر
طور پر کر سکتی تھی.اُس کی یہ خوشقسمتی تھی کہ اُسے ایک بہت بہترین ہمسفر
ملا تھا جس نے زندگی کے ہر مقام پر اسے اپنے بہترین تعاون کا یقین دلایا
تھا.اُس کی زندگی میں ٹہراوُ نہیں آیا تھا.بلکہ اب وہ بیک وقت دو محاذوں پر
سرگرم تھی ایک اُسے اپنے بہن بھائیوں کی تعلیم کی فکر تھی دوسرا اُسے اپنے
سسرال میں بھی اچھی بہو ہونے کا ثبوت دینا تھا.اُس کے بھائیوں نے تعلیمی
میدان میں کامیابیاں سمیٹنا شروع کر دیں.اب اُس کی تمنا تھی کہ اُس کی
چھوٹی بہن بہت زیادہ پڑھے.گھر کے نامساعد حالات کے باوجود اُس نے اپنی بہن
کو حوصلہ دیا اور یہ اُس کے حوصلے کا ہی کمال تھا کہ اس کی بہن نے بزنس
ایڈمینسٹریشن میں اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور اپنی تمام تر کامیابیوں کی وجہ
صرف اور صرف اپنی بڑی بہن کو قرار دیا.اب جبکہ اُس کے بہن بھائی تعلیم مکمل
کرنے کے بعد عملی میدان میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا رہے ہیں مگر تعلیم سے
اس کی محبت کا رشتہ ویسے ہی برقرار ہے.اُس نے خواب دیکھنے نہیں چھوڑے بلکہ
اب اپنے خوابوں کو اُس نے اپنی دونوں بیٹیوں کی آنکھوں میں منتقل کر دیا
ہے.اپنے گھر والوں کے لئے جینے والی اس عورت کا نام شیریں ہے.میں جس ادارے
میں پڑھاتی ہوں شیریں وہاں کی کینٹین چلاتی ہے.انتہائی خوش لباس اور خوش
گفتار شیریں کو دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اُس نے زندگی میں
اتنے نشیب و فراز دیکھ رکھے ہیں.اُس کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی. سفر مسلسل
جاری و ساری ہے. تعلیم سے اتنی محبت میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھی
ہے.ہمارے معاشرے میں اکثر گھروں میں کوئی نہ کوئی بڑا بھائی یا بڑی بہن کا
کردار ایسا ضرور ہوتا ہے جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا سہارا بنتا ہے اور
اپنی تمام تر زندگی اُنہیں کسی اُونچے مقام پر دیکھنے میں گزار دیتا
ہے.شیریں نے بھی اُسی بڑے بھائی کا کردار نبھایا ہے.اشفاق احمد ایک جگہ
لکھتے ہیں کہ ہم میں سے زندہ وہی رہے گا جو دلوں میں زندہ رہے گا اور دلوں
میں وہی زندہ رہتے ہیں جو خیر بانٹتے ہیں اور آسانیاں بانٹتے ہیں اور مجھے
لگا شیریں کی کہانی ایسے ہی لوگوں کی کہانی ہے جو خیر بانٹتے ہیں اور
آسانیاں بانٹتے ہیں.اپنی زندگی میں اپنے لئے کم اور دوسروں کے لئے زیادہ
سوچتے ہیں.ایسے باہمت لوگوں کی ہی ہمارے ملک کو ضرورت ہے جو محنت پر یقین
رکھتے ہیں اور اپنی محنت سے صحرا میں بھی پھول اُگانے کا حوصلہ رکھتے ہیں.
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے.
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جاےُ وہ لوگ
آپ نے نہ دیکھے ہوں شائد مگر ایسے بھی ہیں. |