برصغیر پاک و ہند میں آج سے لگ بھگ پچاس سال پہلے تک
کیمیا گری ایک طلسماتی فن سمجھا جاتا تھاکیمیا گری کا نام آتے ہی سب سے
پہلے جو چیز ذہن میں آتی وہ سونا بنانے کا طریقہ تھا ،برصغیر میں ایک وقت
میں ہزاروں لوگ سونا بنانے کا فارمولا جاننے کے لیے ساری ساری زندگی کھوج
لگانے میں لگے رہتے تھے ، کھوج لگانے والے سونا بنانے کا فارمولا جاننے کے
لیے لمبے لمبے سفر کرتے جنگلوں پہاڑوں میں عرصہ دراز بسیرا کرتے مختلف
کیمیاگر استادوں کی شاگردی کرتے، مقصد صرف ایک ہی ہوتا تھا کسی طرح سونا
بنانے کا طریقہ جان لیا جاے پھر باقی زندگی سکون سے ٹانگ پے ٹانگ رکھ کر
گذاری جاے ، جب پیسے ختم ہوں سونا بنایا اور بازار میں بیچ کر سکون سے بیٹھ
گئے ،نیم حکیموں کے مطب سنیاسی بابوں کے تھڑوں کا ایک ہی موضوع ہوتا ،جہاں
مختلف لوگ اکھٹے ہوتے اور اپنے اپنے خیالات کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے
،اگر کسی محفل میں کوئی کیمیاگر ہونے کا دعوی کرتا تو درجنوں لوگ اسکی
شاگردی اختیار کرنے کو تیار ہوتے ، عام طور پر یہ ہی خیال کیا جاتا کہ اپنے
اُستاد کی سیوا کی جاے ، بدلے میں کچھ سال بعد شائد اُسے سونا بنانے کے
طریقے تک رسائی مل جاے ،کیمیاگر اپنے شاگردوں سے مختلف کام لیتے ، کبھی کسی
جڑی بوٹی کو کھوجنے کے پیچھے لگا دیا تو کبھی کسی دھات کی تلاش میں پہاڑوں
تک بھیج دیا ، مختلف دھاتوں کی آمیزش سے سونا بنانے کی کوشش کی جاتی
رہتی،کبھی تانبے میں چاندی ملا کر کبھی پیتل میں تانبہ ملاکر ، کبھی کوئی
جڑی بوٹی تجربے کے طور پر ملا دی کبھی تانبے میں لوہامخصوص طرح ملا کر
مختلف درجہ حرارت پر گرم کیا جاتا ، کیمیا گر اپنا کام کرتے رہتے اور شاگرد
اُس موقعہ کی تلاش میں رہتے کہ کیسے کب وہ سونا بنتا دیکھیں اور پھر خود اس
قابل ہوں کہ سونا بنا کر باقی ذندگی عیش و عشرت سے گذار سکیں ،عام طور پر
یہ بھی خیال کیا جاتا کیمیا گر خود تو سونا بنانا جانتے ہیں مگر کسی کو
سکھانے پر آمادہ نہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہوتا کہ فلاں کیمیا گر سونا بنانا
جانتا ہے مگر اسکے اُستاد نے سونا بنانے سے روک رکھا ہے ، اور اس بندش کی
مختلف وجوہات بھی بیان کی جاتی تھیں، جہاں چار حکیم دو سنیاسی اکھٹے ہوتے
بس بات سونا بنانے کی شروع ہو جاتی ، کیمیا گر،نیم حکیم، سنیاسی بابے اپنے
اپنے تجربات ایک دوسرے سے شئر کرتے ، اگر ایک کیمیا گر کہتا کہ وہ فلا ں
فلاں دھاتوں کو ملا کر سونا بنانے کے قریب ہی تھا کہ موسمی حالات غیر موافق
ہو گے اور بنا بنایا کام بگڑ گیا تو دوسرنیم ا حکیم یا سنیاسی و کیمیا گر
اس سے چار ہاتھ آگے کی سناتا ، کہ وہ تانبے کو سات دن تک ایک زمین دوز بھٹی
میں مخصوص درجہ حرارت دیتا رہا مگر جب سونا بننے کا وقت آیا تو یکدم زلزلہ
آ گیا اور میرے سارے کیے کراے پر پانی پھر گیا اور پھر رونی سی صورت بنا کر
کہتا میں نے اس تجربے پر بہت پیسہ خرچ کیا اور اب میں جیب خالی کر کے بیٹھا
ہوں جیسے ہی کوئی فنانسر ملا تو میں نے سونا بنایا ہی بنایا ، یہ لوگ ایک
دوسرے سے بڑھ کر بات سناتے مقصد ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہوتا تھا ، آج
جب میں انکے بارے میں سوچتاہوں کہ کیسے لوگ سونا بنانے کے لیے جنگلوں
پہاڑوں میں اپنی زندگیاں در بدر کرتے تھے تو میرے ذہن میں سب سے پہلے یہ ہی
بات آتی ہے کہ آج سے کم و بیش 70 یا 80 سال پہلے جب برصغیر میں نہ تو کوئی
کارخانے تھے نہ ملٹی نیشنل ادارے ، نہ ریلوے ، نہ جہاز رانی کے ادارے ، نہ
بسیں کاریں بنانے والے بڑے بڑے کارخانے ، نہ سٹیل کی فیکڑیاں ، نہ پینٹ
بنانے والے کارخانے نہ اخبارات و جرائد چھاپنے والے بڑے بڑے چھاپہ خانے ،
اگر تھے بھی تو مخصوص علاقوں میں مخصوص لوگوں کے لیے ، لہذا س وقت جب لوگ
زریعہ معاش کے لیے زراعت یا گلہ بانی سے آگے کچھ جانتے ہی نہیں تھے ، تو
ظاہر ہے جب جسکے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ ہو اس بیچارے نے کیمیا گروں ،نیم
حکیموں، سنیاسی بابوں کے چکر ہی کاٹنے تھے ، تاکہ اپنا اور اپنے آنے والی
نسلوں کا تحٖفظ کر سکے ، مگر جہاں تک میری معلومات ہیں کوئی ایک بھی کیمیا
گر ، سنیاسی ، حکیم سے سونا نہیں بنا سکا،بس اپنی خواہشیں دلوں میں لیے ،
یہ لوگ لمبے لمبے سفرکرتے کبھی پہاڑوں کی گھاٹیوں میں کبھی گھنے جنگلوں میں
مارے مارے پھرتے پھراتے اپنی زندگیاں ختم کر بیٹھتے تھے -
آج جب برصغیر کئی حصوں میں بٹ چکا، اور اﷲ پاک کے خصوصی کرم سے پاکستان
معرض وجود میں آ چکا، تو آج آپکو سونا بنانے والے کیمیاگر سنیاسی بابے تو
نظر نہیں آتے ، مگر ایک مخصوص طبقہ ضرور پاکستان میں ہے جو وہ کیمیا گر ہے
،جو وہ سنیاسی بابا ہے جو وہ نیم حکیم ہے ، جو سونا بنانا تو نہیں جانتے
مگر ہر اس چیز کو اپنے مفادات کے لیے سونے جیسا بنانا جانتے ہیں ،جو انکی
دسترس میں ہے اور وہ ہیں پاکستان کے سیاست دان ، میں یہ تو نہیں کہتا کہ سب
سیاست دان اسی ڈگر کے ہیں مگر میں اتنا ضرور کہتا ہوں کہ ان میں ایک بڑی
تعداد اسی قبیل کی ہے جو ہر چیز کو سونے جیسا بنا نا جانتے ہیں ، ایک سیاست
دان اگر فلور مل لگاتا ہے تولوگوں کے لیے تو وہ آٹا بنانے کی مل ہے مگر اس
سیاست دان کے لیے وہ سونے کا انڈہ بنانے والی مرغی ، ایک سیاست دان اگر
شوگر مل لگاتا ہے تو لوگوں کے لیے تو وہ چینی بنانے والا ایک کارخانہ ہے
مگراُس سیاست دان کے لیے ،وہ شوگر مل نوٹ چھاپنے والی مشین ، ایک سیاست دان
اگر سٹیل مل لگاتا ہے تو لوگوں کے لیے تو وہ لوہا بنانے والا ایک کارخانہ
مگر اُس سیاست دان کے لیے وہ سونے کے سکے بنانا والا ٹیکسال ، یہ ہر کام
میں اپنا کوٹہ لیتے ہیں ، چاہے وہ ایل پی جی کوٹہ ہو، چاہے وہ ایل این جی
کوٹہ ہو، چاہے وہ ملازمتوں کا کوٹہ ہو ، چاہے ، اپنے بچوں کو بڑے بڑے
سکولوں کالجوں یونیوورسٹیوں کی سیٹیوں کا کوٹہ ہو، یا میڈیکل کالجوں میں
داخلے کا کوٹہ ، اپنا حصہ بقدر جُثہ پورا وصول کرتے ہیں، یہ آج کے کیمیا گر
اپنے فرنٹ مینوں کے زریعے مختلف کاموں کے لاکھوں سے لیکر اربوں روپے کے
ٹھیکے بھی نہیں بخشتے ، اس میں بھی انکا کئی کئی جگہ حصہ ہوتا ہے ،جو کسی
جگہ کمیشن اور کسی جگہ منافع کی صورت میں ہوتا ہے آپ اخبارات میں مختلف
سیاست دانوں کے قصے تو پڑھتے ہوں گے کہ فلاں سیاست دان پچیس سال پہلے ایک
معمولی کلرک کے عہدے پر سرکاری نوکری کرتا تھا پھر اس نے کیمیا گری سیکھی
اور سیاست دان بنا اور اب یہ ایک کامیاب سیاست دان ہے ، اب اسکے درجن بھر
گھر ہیں جو چاچوں ماموں کزنوں بہن بھائیوں بیٹوں کے نام پر ہیں ،اسکے پاس
بیس پچیس گاڑیاں ہیں ، یہ الگ بات ہے اسکے اپنے نام پر ایک بھی نہیں،یہاں
میں اگر یہ نہ کہوں کہ اکیلا سیاست دان ہی قصور وار ہے تو یقننا یہ سوٖفیصد
غلط ہے ، ہم جانتے ہیں ، سیاست دان اکیلے نہیں کھاتے ، وہ بیوروکریسی میں
موجود زکوٹا جنوں کو انکا حصہ پوری ایمانداری سے لینے دیتے ہیں ، چاہے وہ
کسی فارن کانٹریکٹ میں کمیشن کی صورت ہی کیوں نہ ہوجب میں دیکھتاہوں ، ایک
طرف آج سے سو سال پہلے والے وہ کیمیا گر سنیاسی حکیم وغیرہ جو اپنے مشن
یعنی سونا بنانے کے قریب قریب بھی نہ پہنچ سکے اور دوسری طرف ہمارے سیاست
دان و بیوروکریٹ، جو جس کام کوہاتھ ڈالیں ، ان پرسونے چاندی جواہرات کی
بارش شروع ہو جاتی ہے ، تو مجھے سو سال پہلے کے کیمیاگروں کی قسمت پر دُکھ
تا ہے ، ان بیچاروں نے جنگلوں پہاڑوں میں خاک چھانی نتیجہ صفر جمع صفر، اور
جب میں اپنے ملک کے ان جدید کیمیا گروں کی طرف دیکھتا ہوں ،تو مجھے ان پر
ہوتی نوٹوں کی بارش دیکھ کر انکی قسمت پر رشک آتا ہے - |