سیلاب آنے سے پہلے پل بنا لیں

۱۳مارچ ۶۱۰۲کو سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیاہے کہ زبانی طلاق، طلاق ثلاثہ اورتعددازواج کے سلسلے میں رپورٹ کو چھ ہفتے کے اندر عدالت کے سامنے پیش کرے۔یہ حکم اتراکھنڈ کی ایک خاتون سائرہ بانوکی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دیاگیا۔سائرہ بانونے اپنی عرضی میںعدالت سے درخواست کی ہے کہ اس کے شوہر نے اسے ایک ہی نشست میںتین طلاقیں دے دی ہے جو کہ خلاف قرآن ہے لہٰذااسے انصاف دلوایاجائے۔واضح رہے کہ سابقہ یوپی اے حکومت نے فروری ۲۱۰۲ میں وزارت خواتین اوربہبود اطفال کے تحت ایک چودہ رکنی کمیٹی رام راجپوت (ڈائریکٹرسینٹر فار وومن اسٹڈیز پنجاب یونیورسٹی)کے زیرنگرانی قائم کی تھی جس کا مقصدحکومت کو طلاق ثلاثہ اورتعدد ازواج کے بارے میںمشورہ دیناتھا۔گزشتہ سال اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کردی ہے ۔حالانکہ اس رپورٹ کو ابھی عام نہیںکیاگیاہے لیکن باوثوق ذرائع کے مطابق اس کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ طلاق ثلاثہ اورتعدد ازواج پر پابندی لگائی جائے۔اس کمیٹی نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ زبانی طلاق اوریکطرفہ طلاق پر بھی پابندی لگائی جائے۔سپریم کورٹ نے حکومت ہند سے یہی رپورٹ طلب کی ہے ۔اس رپورٹ کی طلبی کا واضح مقصد یہ ہے کہ عدالت اس رپورٹ کو قبول کرنے کیمنشاءرکھتی ہے ۔اس دوران ملک میںعام طور پر یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ مسلم خواتین سے متعلق قانون میںترمیم کی جائے۔یکساںسول کوڈ کی بحث بھی بہت پرانی اورطویل بحث ہے۔ملک کا ایک بڑاطبقہ مسلم خواتین سے متعلق قوانین پر بحث اورتبدیلی کا مطالبہ کی آڑ میں یکساں سول کوڈ کی وکالت کرتا رہاہے،ایسے میںمسلم تنظیموںاورمسلم اکابرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس جانب توجہ دے۔اس سے پہلے کہ حکومت اپنی مرضی سے مسلم قوانین میںخلاف قرآن و شریعت ترمیم کر کے 1937 کے شریعت ایکٹ کو نئی صورت میں پارلیمنٹ میںپیش کرکے اسے پاس کروالے اورپھر مسلمانوںکو اسے ماننے پر مجبور کردے۔مسلم ارباب حل وعقد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاملے کی نوعیت اورسنگینی پر سنجیدہ غور کریںاورخود اپنی جانب سے مبنی برقرآن واحادیث تجاویز حکومت ہند کو پیش کرے۔

۷اپریل ۳۷۹۱کو آل انڈیامسلم پرسنل لاءبورڈ وجود میںآیاتھا،اس کا مقصدشریعت اسلامی کی بقاوتحفظ تھا۔بورڈ اس وقت وجود میںآیاجب حکومت ہند متبنیٰ بل کو پاس کرانے کے لیے اسلامی قوانین سے صرف نظر کرتے ہوئے پارلیمنٹ میںبل لارہی تھی۔مسلمانوںنے اس کی شدید مخالفت کی اورایک منظم تحریک کے ذریعے اپنے آپ کو متبنیٰ بل سے مستثنی کروالیاتھا۔بورڈ کے قیام کے بعد یہ پہلی تحریک تھی جس نے شریعت اسلامیہ میںحکومت ہند کی دست درازی کو کامیابی سے روکاتھا۔اس کے بعد شاہ بانوکیس میںبھی سپریم کورٹ نے خلاف شریعت ایک فیصلہ دیاجس کے نتیجے میںمسلم پرسنل لاءبورڈ کو ایک زبردست عوامی تحریک چلانی پڑی اوربالآخر پارلیمنٹ کے ذریعے ہی اس فیصلے کے اطلاق کو روکاگیااورایک نیاقانون بناناپڑا۔اس تمام عرصے میںبہت سے مسلم دانشوروںاورعلماءکی جانب سے یہ مطالبہ اٹھتارہاہے کہ عائلی قوانین سے متعلق مسلم لاءکی تدوین (Codification of Muslim law)کی جائے اوراسے پارلیمنٹ سے پاس کرواکے تمام عدالتوںکو اس کا پابند بنایاجائے۔جس طرح جواہر لال نہرو نے 1954میں ہزار مخالفتوں کے باوجود ہندو کوڈ بل پاس کرواکے ہمیشہ کیلئے ہندو عائلی قوانین کو منظور کروالیا تھا۔

اس مطالبے کو لے کر مسلم پرسنل لاءبورڈ کے ارکان بورڈ کے اندر بھی اصرار کرتے رہے ہیں اوربورڈ کے باہر بھی مسلم دانشوروںنے متعدد بار یہ مطالبہ دہرایاہے اورچونکہ مسلم پرسنل لاءبورڈ ہی کو مسلمانوںکا متحدہ متفقہ اورمشترکہ پلیٹ فارم سمجھاجاتاہے اس لیے یہ مطالبہ کرنے والوںکی نظریں بھی بار بار بورڈ کی جانب ہی اٹھتی ہیں کہ بورڈ ایک بار مسلم لاءکی تدوین کرکے اس سلسلے میںاٹھنے والے تنازعات کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔۲۱۰۲میںنئی دہلی میںایک بہت بڑی کانفرنس کرکے ملک کی نامور مسلم شخصیات اورمسلم ماہرین قانون نے بھی یہ مطالبہ کیاتھا۔ مثلا مدراس ہائی کورٹ کے جسٹس جی ایم اکبر علی نے اسی کانفرنس میںیہ کہاتھاکہ قرآن واحادیث اوردیگر مذہبی کتابوںپر مشتمل قوانین کی تدوین کی جانی چاہیے۔معروف دانشور اصغر علی انجینئر نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔معروف قانون داں اورمسلم مجلس مشاورت کے سابق صدرسید شہاب الدین بھی باربار اس پر اصرار کرتے رہے ہیںلیکن بورڈ کے ارباب حل وعقد نہ تو واضح طور پر اس کا انکار کرتے ہیں اورنہ مسلم لاءکی تدوین کی جانب عملی اقدام کرتے ہیں جس کے نتیجے میںعدالتوںکو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ درانہ خلاف شریعت فیصلے دیتی رہیںاورشریعت متین کا مزاق اڑایاجاتارہے نیز اسلام دشمن عناصر کو اس بہانے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بحث تازہ کرنے کا موقع ملتارہے۔ابھی حال ہی میںبہت سی مسلم خواتین نے ایک تحریری عرض داشت کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ طلاق ثلاثہ پر پابنی لگائے اورجائیداد میںعورتوں کی برابر کی حصہ داری کے غیر شرعی حق کو تسلیم کرے نیز تعدد ازواج پربھی پابندی لگائے۔اسی طرح اتراکھنڈ کی ایک خاتون نے حال ہی میں یہ الزام لگایاہے کہ پہلے تو اس کا شوہر اس کے ساتھ مارپیٹ کرتارہااوربعد میںاسے ایک ہی نشست میںتین طلاق دے کر دربدر کردیاجو قرآنی احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے لہٰذااسے انصاف دلایاجائے ۔سائرہ بانو کی اس عرضی نے ایک بار پھر مروجہ اسلامی عائلی قوانین پر سوالیہ نشان کھڑاکردیاہے۔ اور سپریم کورٹ اور حکومت ہند دونوں کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ مسلم عائلی قوانین کی بحث کو تازہ کر دے۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلم خواتین کی اکثریت اس قسم کی طلاق کے خلاف ہے اورتعدد ازواج کو بھی پسند نہیں کرتیں۔ لیکن مسلم ادارے ،انجمیںاورتنظیمیںاپنی آبادی کی اس نصف حصے کی خواہشات کو شریعت کی آڑ میںہمیشہ نظر انداز کرتی رہی ہیں۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ قرآن میں سورہ نساءکی آیات کے مطابق ایک نشست میںتین طلاق کا وجوب ثابت نہیں ہے ۔تین طلاقیں تین مختلف طہر میںمصالحت کی کوششوںکے بعدہی واقع ہوتی ہیںلیکن ہندوستان میںاس طریقے پر عمل نہیںکیاجاتااورایک ہی بار میںزبانی طور پر تین بار طلاق طلاق طلاق کا لفظ دہرادینے سے طلاق تسلیم کرلی جاتی ہے حتی کہ نشے اورغصے کی حالت میں بھی اسے جائز ماناجاتاہے کچھ علماءنے تو صرف نیت کرلینے پر بھی طلاق کو جاری مان لیا۔ان حالات میںہندوستان میںطلاق مسلم خواتین کے لیے ایک عذاب بن چکی ہے جس کا قرآن سے بھی کوئی ثبوت نہیںملتا۔ایسے میںاگر مسلم خواتین اور دیگر دانشور طبقے یہ مطالبہ کررہے ہیںکہ طریقہ طلاق کو قرآن کی طرف لوٹایاجائے تو اس میںکیاحرج ہے۔واضح ہوکہ بورڈ کے ایک سابق سکریٹری مولاناعبدالرحیم قریشی مرحوم نے بھی اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل یہ بیان دیاتھاکہ ایک نشست کی طلاق ثلاثہ ایک مجرمانہ عمل ہے مگر ہم اسے روکنے پر قادر نہیںہیں،یہ حیرت انگیز اورعجیب وغریب بات ہے کہ خود بورڈکے ذمہ داران طلاق کے اس طریقے کو براسمجھتے ہوئے بھی اسے روکنے پر اپنی معذوری ظاہر کرتے ہیںاگر بورڈ اسلامی شریعت کے قرآنی نفاذ میںاتناہی مجبوروبے بس ہے تو بورڈ کے وجود کی کوئی ضرورت نہیںرہتی۔امرواقعہ یہ بھی ہے کہ اسی بورڈ میںاہل حدیث اورشیعہ حضرات بھی شریک ہیںجن کے مسلک میںاس قسم کی طلاق رائج نہیں ہیںمگر وہ بھی محض بورڈ کی اپنی رکنیت کو بچائے رکھنے کی خاطر اس معاملے پر خاموش رہتے ہیں۔واضح رہے کہ دنیاکے بیشترمسلم ممالک طلاق کے اس طریقے کو اپنے یہاںمنسوخ کرچکے ہیں،وہ کونسی مصلحتیں ہیں جو ہندوستان میںاسے منسوخ نہیںہونے دیتیں۔اسی طرح تعددازواج کا مسئلہ بھی قابل بحث ہے۔قرآن نے جہاںایک سے چار تک شادیوںکی اجازت دی ہے وہیں اسے انصاف کے ساتھ مشروط بھی کیاہے اورایک ہی شادی کو احسن بھی قرار دیاہے ۔اسی شرط کی وجہ سے دنیاکے بہت سے مسلم ممالک نے تعدد ازواج کو مشروط قرار دے رکھاہے۔ہندوستان میں بھی اس تعلق سے کچھ ایسی شرائط لاگوکی جاسکتی ہیں جن کے ذریعے مسلم مرد کو تعددازواج پر عمل کرتے ہوئے بھی اعتدال اورانصاف قائم کرنے پر مجبور کیاجاسکے اورمسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ کیاجاسکتا ہے۔یہی مسئلہ جائیداد کے تعلق سے بھی موجود ہے۔ملک کے اکثر مقامات پر عورتوںکو ان کے شرعی حصے سے محروم کردیاجاتاہے اوردلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہم نے جہیز دے دیاہے اس لیے اب شرعی حصے کی ضرورت نہیں رہی،یہ مسلم خواتین پر سراسر ظلم ہے۔اسلام جہیز کے نام پر کسی اسراف کی اجازت نہیں دیتا۔لیکن خواتین کے شرعی حصے پر زور دےتاہے۔ یہاںمعاملہ اس کے برعکس ہورہاہے۔شادیوںپر بے تحاشااخراجات کیے جاتے ہیں اوراپنی دولت اورنام ونمود کے اظہار کے لیے کروڑوں روپیے خرچ کیے جاتے ہیں ہزاروںلوگوںکی دعوت کی جاتی ہے اورلمبے چوڑے جہیز دیے جاتے ہیں مگر مسلم علماءان تمام غیر اسلامی حرکات پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیںاوراسراف بیجاکرنے والے یہی بدقماش لوگ جب عورتوںکو شرعی حصہ دینے کا موقع آتاہے تو اسی غیراسلامی شادی کا نام لے کر اس شرعی حق سے محروم کردیتے ہیںاوراس پر بھی یہی علماءمجرمانہ خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں۔یہی معاملات جب ملک کی عدالتوںمیںجاتے ہیںاورمسلم خواتین دستوکے رہنما اصولوںمیںدی گئی گارنٹی کے مطابق انصاف کا مطالبہ کرتی ہیںتو پھر یہی علماءشریعت متین میںحکومت کی بے جا مداخلت کا شوشہ لے کر طوفان بپاکردیتے ہیں۔امت کو بہر حال یہ تو سوچناہی ہوگاکہ داخلی سطح پر اگر امت کے ذمہ داران خود اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ نہیں ہیں تو آخر کار ملک میںموجود عدالتیں اورانتظامیہ ایک دن خود اس ظلم کو روکنے کے لیے سامنے آجائیںگی ۔ملک کی موجودہ حکومت کا موقف سب کے سامنے ہے۔یہ حکومت کسی طور پر بھی یکساں سول کوڈ کے نام پر ملک کے تمام طبقات کو ہندوقوانین اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی خواہش رکھتی ہے اورحکومت کے سامنے سب سے بڑی سدراہ مسلمان اوراسلامی قوانین ہی ہیں۔حکمراں جماعت کی جانب سے مذکورہ بالاتینوںامور کو لے کر ہمیشہ ہی تنقید کی جاتی رہی ہے اور ان کو بدلے جانے پر اصرار کیاجاتارہاہے ،پہلے وہ حزب اختلاف میں تھے تو بہت کچھ کرنے پر قادر نہیں تھے اب وہ ملک میںایک مضبوط حکومت چلارہے ہیں ،پارلیمنٹ میںکوئی بھی قانون لاکر پاس کرنے کی پوزیشن میں ہیں ایسے میں مسلم قوانین کے اندر اپنی مرضی کی ترامیم کرکے عدالتوںاورپارلیمنٹ سے اسے پاس کرواکے مسلمانوںکے اوپر اسے تھوپناکوئی زیادہ مشکل کام نہیںہوگااورخود مسلم خواتین ایک بڑاطبقہ بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی مصداق حکومت وقت کا ہمنوابن کر کھڑاہوجائے گا۔ذراتصور کیجیے ایسے میںمردوںپر مشتمل اس مسلم سماج کے ذمہ داران کا کیاحشر بنے گا۔مسلم پرسنل لاءبورڈ اس لیے وجود میںآیاتھاکہ وہ شریعت کی حفاظت کرے ،اس کا وجود صرف اس لیے نہیں ہے کہ ہر معاملے پر صرف حکومت کے خلاف تحریک چلاتارہے بلکہ اپنی جانب سے بھی مثبت پیش رفت کرتے ہوئے عصر حاضر میںعائلی قوانین کی عملی تطبیق کے لیے جہاںجہاںاصلاح کی ضرورت ہووہاں ایمانداری سے ترمیم کرکے حکومت ہند کے سامنے اس کاڈرافٹ پیش کرے اورحکومت کو مجبور کرے کہ وہ اسے قبول کرلے۔بصورت دیگر اسلام مخالف حکومت نے مذکورہ بالارپورٹ کی بنیاد پر اگر پارلیمنٹ میںکوئی قانون پیش کرکے کوئی خلاف شریعت قانون پاس کروالیاتو مسلمانوںکے پاس اس کے سواکوئی چارہ نہیں رہ جائے گاکہ وہ اس کے خلاف بڑی تعداد میںسڑکوںپر اتر آئیں۔دین بچاو ¿ ،دستور بچاو ¿ تحریک چلانے والوںکو یہ سوچناچاہیے کہ اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ وہ کوئی قرآن بچاو ¿ تحریک بھی چلائیںکیوںکہ مسلم خواتین سے متعلق مروجہ رسوم صریحا قرآن کے خلاف ہیں جس پر بورڈ کے یہ ذمہ داران مجرمانہ خاموشی اختیارکرکے مسلم خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرکے ظلم کررہے ہیںجس کا جواب انھیں اس دنیامیںبھی دیناپڑے گااوراللہ کے یہاںبھی دیناپڑے گا۔محض خوش کن تاویلوںاوردلیلوںکے ذریعے قرآن کی منشااورتعلیمات سے انحراف آخر کار امت کو ایک خلفشار میںمبتلاءکررہاہے اوراگر بورڈ خود کو واقعی امت کا سب سے بڑاپلیٹ فارم سمجھتاہے حالانکہ اس کی کوئی دستوری اورقانونی حیثیت نہیں ہے وہ محض ایک رجسٹرڈ این جی او ہے ،لیکن اگر پھر بھی بزعم خود بورڈ کے ذمہ دار ن خود کو شریعت اسلامی کا محافظ مانتے ہیں تو یااپنافرض منصبی اداکرکے عند اللہ ماجور ہوںیاسامنے سے ہٹ جائیں،امت میںایسے علماءاوردانشوروںکی ابھی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو بلاکسی فرضی دلیل کے احکامات قرآنی کی تفہیم رکھتے ہیں اوران کی تنفیذ کی خواہش رکھتے ہیں۔واضح رہناچاہیے کہ ایک دستوری جمہوری حکومت ہر ایک شہری کے لیے جواب دہ ہوتی ہے اوراس حیثیت سے قوانین کی تشکیل اورتنسیخ کے لیے بھی آزاد ہوتی ہے ،حکومت کے اس حق کو ملک کا ایک چھوٹاساطبقہ بہت دیر تک چیلنج نہیںکرسکتا۔سمجھدار قوموںکی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ سیلاب آنے سے پہلے پل باندھ لیاکرتی ہیںتاکہ آنے والاسیلاب ان کے گھروںکی کھڑکیاںدروازے توڑ کے گھروںمیںداخل نہ ہوجائے اورپھر ہر چہار طرف تباہی بپاکردے۔ابھی وقت ہے اگر امت کے اکابرین اس آوازہ جرس کو سن کے منزل کی جانب روانہ ہوجائیںتو امت کو بڑے نقصان سے بچایاجاسکتاہے۔اور شریعت کی حفاظت بھی کی جا سکتی ہے۔
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں )

Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 27663 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More