سرکلر روڈ۔ لاہور

 پاکستان میں مشہور مستعمل مقولہ ہے ’’جنہے لاہور نئیں تکیا او جمیا ای نئیں‘‘ (جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ پیدا ہی نہیں ہوا)۔ میں تو پلا بڑھا ہی لاہور میں ہوں۔ اس لیے شروع سے ہی ’’پیدا شدہ‘‘ ہوں مگر اس ’’پیداشدہ‘‘ ہونے کے ’’اعزاز‘‘ پر کبھی کبھی خوشی محسوس ہونے کی بجائے ندامت، افسوس، دکھ اور تکلیف کے احساسات دل و دماغ پر حاوی ہونے لگتے ہیں۔ لاہور شہرکے جلو میں بے پناہ لطافتیں، رنگینیاں، خوبصورتیاں اور انفرادیت کی بہتات کے باوجود میرے ان احساسات کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ آج میرا دل چاہ رہا ہے کہ اپنے حلقہ احباب سے بذریعہ قلم شیئر کروں۔

سرکلر روڈ لاہور سے میرا ایک گہرا قلبی تعلق ہے۔ جب میں نے 2003ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تو تعلیم جاری رکھنے کے وسائل دستیاب نہ ہونے کے سبب میں نے ایک سال تک تعلیمی سلسلے کو منقطع کیے رکھا اور اردو بازار لاہور میں بطور کمپیوٹر کمپوزر محنت مزدوری شروع کر دی۔ میں شمالی لاہور کے علاقہ شادباغ میں رہتا تھا۔ وہاں سے عموماً سائیکل پر ہی سفر کرتے ہوئے اُردو بازار کی جانب گامزن ہوا کرتا تھا۔ صبح اور شام کے اوقات میں روزانہ کا ٹریفک جام معمول کا حصہ تھا۔ دوپہر کے وقت بھی ٹریفک جام ہی رہتی تھی۔ تقریباً روزانہ ٹریفک جام کا مسئلہ مجھے شدید اذیت سے دوچار کیا کرتا تھا۔ میں سوچا کرتا تھا کہ کبھی تو اس سڑک کی صورتحال بھی بہتر ہو گی۔ کبھی تو اس کے حوالے سے حکمران اور انتظامیہ پلاننگ کریں گے اور یہاں پر ٹریفک کا مسئلہ حل کریں گے لیکن میرے ارمان ارمان ہی رہے۔

ابھی چند روز قبل مجھے اس سڑک سے موٹر سائیکل پر سواری کرتے ہوئے گزرنے کا اتفاق ہوا۔ ٹریفک جام کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہوا۔ 13 سال میں ٹریفک کا لوڈ کتنا بھی زیادہ ہوا ہو، دستیاب سڑک کی چوڑائی اتنی ہی تھی جتنی تیرہ سال قبل 2003ء میں تھی۔ مجھے حسبِ معمول ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ آخر اس سڑک کا قصور کیا ہے؟ اس سڑک کی اہمیت اس قدر ہے کہ یہ سڑک شمالی لاہور کو میو ہسپتال سے ملاتی ہے۔ شمالی لاہور سے کوئی بھی ایمرجنسی مریض میو ہسپتال پہنچانا ہو تو اس سڑک سے ’’فیض یاب‘‘ ہونا لازم قرار پاتا ہے۔ یہاں ٹریفک جام ہونا کسی کی جان لے سکتا ہے لیکن پھر بھی میں عینی شاہد ہوں کہ یہاں 13سال سے ٹریفک مسائل حل نہیں کیے گئے۔ ٹریفک جام کی وجہ جاننے کی کوشش کرنے لگا تو مشاہدات نے مجھے مندرجہ ذیل مسائل کی آگاہی دی:
٭ اورنج میٹرو ٹرین کی تعمیر کے باعث دیگر سڑکوں کا ٹریفک لوڈ بھی اس سڑک پر آ رہا تھا۔
٭ اس سڑک پر واقع گڈز فارورڈنگ ایجنسیز اور دیگر دکانوں کے مالکان اور ملازمین نے اس سڑک کو پارکنگ کے لیے (اپنے والد محترم کی جانب سے ورثے میں ملی ہوئی جگہ سمجھتے ہوئے) دھڑلے سے استعمال کر رکھا تھا۔ کئی بڑی چھوٹی گاڑیاں کئی قطاروں میں کھڑی، ٹریفک جام سے ’’متاثرہ‘‘ لوگوں کا منہ چڑا رہی تھیں۔
٭ ہتھ گاڑیوں پر سامان لادے مزدور سڑک کی رونگ سائیڈ (مخالف سمت) سے بڑے دھڑلے سے چلتے ہوئے آ رہے تھے۔

یہ تین تو تھیں وجوہات غلط پارکنگ، مخالف سمت سے آنا اور اورنج میٹرو ٹرین کی تعمیر۔ یہ تینوں وجوہات کوئی اتنی بڑی نہیں کہ جو لاینحل ہوں۔ ان کا کوئی بھی حل موجود نہ ہو۔

اب میں قارئین سے وہ احساسات شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔

میں نے ایک موصوف سے ملاقات کا وقت مقرر کر رکھا تھا۔ میں اپنے پلان کے مطابق وقت مقررہ پر پہنچ رہا تھا لیکن اس ٹریفک جام نے میرے لیے کوفت پیدا کر دی۔ مجھے لگا کہ میں بروقت نہیں پہنچ سکوں گا۔ بہرحال چاروناچار لہو کے گھونٹ پیتے ہوئے ٹریفک جام کے سست رفتار بہاؤ کے ساتھ ساتھ سرکنے لگا۔ اتنے میں مجھے ایک شخص بدحواسی کے عالم میں بھاگ دوڑ کرتا اور لوگوں سے یہ کہتا ہوا نظر آیا کہ براہِ کرم راستہ دے دیں۔ پیچھے ایک مریض آ رہا ہے۔ لوگ خود بری طرح پھنسے ہوئے تھے اور چاہنے کے باوجود ایک دم سے راستہ مہیا کرنے سے قاصر تھے۔ مجھے کچھ دیر کے بعد وہ مریض نظر آ گیا۔ سولہ سترہ سال کی عمر کا ایک لڑکا ایک موٹرسائیکل پر پچھلی سیٹ بیٹھا ہوا تھا۔ چہرے سے نڈھال لگ رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اس کے احساسات اس کا ساتھ چھوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ دیر بعد اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی۔ خدا جانے کہ اس نے کوئی زہریلی چیز کھائی تھی یا کوئی اور طبی مسئلہ تھا کہ جس کے باعث اس کی یہ حالت ہو رہی تھی۔ میں نے اس بے چارے کی اس تکلیف دہ حالت کو دیکھ کر شدید ذہنی اذیت کی لہریں اپنے وجود میں محسوس کیں۔ میرا بس نہ چلے کہ میں ایک لمحے میں ساری ٹریفک کو ہٹا کر اس نوجوان کو ہسپتال تک پہنچا دوں۔ بڑی ہی مشکل سے آہستہ آہستہ اس کی سواری بطرف ہسپتال سرک رہی تھی۔ میرا تو دکھ، تکلیف اور غصے سے برا حال ہو گیا۔ میں نے سڑک کنارے کے ساتھ کھڑی پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو برابھلا کہنا شروع کر دیا۔ کئی ایک سے کہا کہ اپنی گاڑی ہٹائیں جس کا کوئی مثبت ردعمل سامنے نہ آیا۔ آگے ایک چوک میں مجھے کئی مزدور ہتھ گاڑیوں پر سامان لادے سڑک کی مخالف سمت سے آتے ہوئے نظر آئے تو میرا لہو کھول اٹھا۔ میں نے ایک مزدور کا راستہ روکا۔ اسے کہا کہ وہ واپس جائے اور سڑک کی دوسری جانب سے اپنی سائیڈ سے آئے۔ وہ مزدور کہنے لگا جی کہ آپ کو راستہ مل گیا ہے۔ آپ جائیں۔ میں نے بس یہ تھوڑا سا آگے ہی جانا ہے۔ میرا تو غیض و غضب سے برا حال ہو گیا۔ میں طیش میں آ گیا اور اسے غصے سے کہا کہ میں نے تمہاری ہتھ گاڑی آگے نہیں جانے دینی۔ یہی سے واپس جاؤ۔ پیچھے کتنے ہی لوگ ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اس نوجوان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا جو شاید زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا اور یہ ٹریفک جام اسے موت کے منہ میں دھکیلے جا رہا تھا۔ وہ مزدور ڈٹ گیا کہ میں نے اِدھر سے ہی جانا ہے۔ میں نے جب غصے کے عالم میں اس سے الجھنے اور بزورِ بازو روکنے کی کوشش کی تو اسی ٹریفک جام سے ’’متاثرہ‘‘ دو حضرات مجھے کہنے لگے۔ ’’چھوڑیں جی! ایسا نہیں کرتے (لڑائی مت کریں)۔ بس یہ ہمارا پاکستانی بگڑا ہوا بھائی ہے۔ اس نے بات نہیں ماننی۔ بس چھوڑیں پرے۔‘‘ اس لایعنی سپورٹ پر میں خجل ہو گیا اور اپنا راستہ لیا لیکن اپنے راستے پر چلتے ہوئے میرے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں اور سوچے چلا جا رہا تھا کہ ’’سڑک سیاست‘‘ کرنے والے حکمرانوں کی ترجیحات میں یہ سڑک کیوں نہیں شامل؟ اس سڑک کا کیا قصور ہے؟ اس اجتماعی بے حسی اور بدتہذیبی پر مبنی بدترین صورتحال کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟
٭ ناعاقبت اندیش حکمرانوں پر ٭ نااہل انتظامیہ پر ٭ ٹریفک پولیس پر
٭ غلط پارکنگ کرنے والوں پر ٭ مخالف سمت میں سفر کرنے والوں پر
٭ ان لوگوں پر کہ جنہوں نے مجھے بزورِ بازو مخالف سمت سے آنے والے کو درست رستے سے آنے کا کہنے سے روکااور کہا کہ بس چھوڑیں جی، بس اپنی راہ لیں۔
٭ اس قدر اذیت کو جھیلنے کے باوجود بار بار انہی حکمرانوں کو بذریعہ ووٹ منتخب کرنے والوں پر ٭ ان لوگوں پر کہ جو اس اذیت کو روزانہ جھیلتے ہیں لیکن مسئلے کے حل کے لیے تدابیراختیار کرنے سے گریزاں ہیں۔

میری سوچیں میرے دماغ کو سلگاتی چلی گئیں اور میں سوچتا رہا کہ کب میری قوم سدھرے گی؟ کب میری قوم تہذیب یافتہ کہلائے گی؟ کب نااہل انتظامیہ اور حکمرانوں کا احتساب ہو گا؟ کب یہ احساس پیدا ہو گا کہ ہمارا غلط جگہ گاڑی کھڑی کرنا کسی کی جان لے سکتا ہے؟ کب یہ احساس پیدا ہو گا کہ جو غلط کر رہا ہے اسے غلط کرنے سے روکنا ضروری ہے؟ کب یہ سب بدلے گا؟ کب؟ کب؟ کب؟مجھے تو ان سوالوں کاجواب نہیں مل سکا، اگر قارئین میں سے کسی کے پاس جواب ہو تو ضرور آگاہ کیجیے گا۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میری قوم کو ایک مثالی، تہذیب یافتہ اور باوقار قوم بنائے کہ جو اپنے مسائل کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہو۔ آمین

Kashif Habib
About the Author: Kashif HabibCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.