معاشرئے میں منافقت کی بہتات کے سماجی معاملات پر اثرات

مصلحت اور منافقت میں جو فرق ہوتا ہے اُس حوالے سے ہمارئے معاشرئے میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ جب یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اِس دنیا کی زندگی عارضی ہے اور اِس عارضی زندگی میں وقوع پزیر ہونے والے افعال کی بابت حقیقی زندگی میں جوابدہی ہونا ہے۔ اور آخرت کے امتحان کا پرچہ بھی اِسی بود و باش کے متعلق ہوگا جو انسان نے دُنیا میں اختیار کیے رکھی۔

منافقت ایک رویئے کا نام ہے اور اس رویہ کو بنی نوع انسان کے ہر دور میں انتہائی نفرت انگیز سمجھا گیا اور اب بھی سمجھا جارہا ہے ۔لوگ بھی منافقت سے نفرت کرتے ہیں جو خود نفاق یا منافقت میں مبتلا ہوتے ہیں، منافقت معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے، کوئی انسان اچھا ہو تو اس کو اچھا کہا جاتا ہے کوئی برا ہو تو اسے برا،لیکن دنیا میں ایسے انسانوں کی کمی نہیں جن کے رویے کا رجحان برائی کی طرف تو ہوتا ہی ہے۔لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتے اور بظاہر دوسرا انسان ایسا محسوس کرتا ہے کہ مقابل فرد اچھے رویے کا حامل ہے یا اس میں برائیاں نہیں ہیں لیکن دراصل وہ برائیوں سے لتھڑا ہوتا ہے اور ایسا شخص معاشرے کے لئے زہر کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام ’’۔ ایسا شخص پیٹھ پیچھے وار کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔علماء کرام نے منافقت کو مسلمانوں کے ایمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔کسی بھی شخص کے دین کے لیے سب سے بڑا خطرہ نفاق ہے۔ بعض اوقات لوگ منافقت کے شکار ہوتے ہیں اور انہیں پتہ ہی نہیں چلتا، بندہ نماز پڑھتاہے، روزہ رکھتاہے اور حج پر بھی جاتاہے لیکن ممکن ہے نفاق میں مبتلا ہوجائے۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں، ایک کا تعلق عقیدے سے ہے اور دوسری نوع عملی منافقت ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان کا دعویٰ کرے لیکن دل میں اﷲ اور اس کے رسول برحق کو نہ مانے، وہ اعتقادی نفاق میں مبتلا ہے۔ یہ گروہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں رہتے تھے۔بظاہر تمام عبادات اور کاموں میں مسلمانوں کے ساتھ تھے، لیکن دل سے اپنے سابقہ مذہب پر تھے۔ آج کے اکثر مسلم حکمران جو خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، جھوٹے لوگ ہیں۔ یہ لوگ منافق ہیں جو دین کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام دشمن عناصر کے ساتھ دوستی نبھاتے ہوئے مسلم قوموں کو لادینیت کی جانب دکھیلتے ہیں۔عملی نفاق کا مطلب ہے بندہ عبادات پر عمل کرتاہے اور اسلام و شریعت پر عقیدہ بھی رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود نفاق کی نشانیاں ا س میں پائی جاتی ہیں۔حدیث شریف میں ہے جب کسی شخص میں تین صفات پائی جائیں تو وہ منافقوں میں شمار ہوگا۔جھوٹ اور دروغ گوئی کو منافقین کی نشانی یاد کرتے ہوئے منافق لوگوں کی خصلت یہ ہے کہ کثرت سے جھوٹ بولتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے ہمارے معاشرے میں مختلف طریقوں اور بہانوں سے جھوٹ بولی جاتی ہے۔ بعض لوگ دوسروں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔ فرقوں اور مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے خلاف دروغ گوئی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ حالانکہ جھوٹے لوگوں پر اﷲ کی لعنت ہے۔ اسلامی تعلیمات نے سختی سے جھوٹ بولنے سے منع کیاہے اور سچی بات کہنے پر زور دیاہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کے مسلم گھرانوں میں بھی جھوٹ بولا جاتا ہے، حتیٰ کہ چھوٹے بچے جھوٹ بولتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ والدین خود جھوٹ بولتے ہیں اور بچے ان ہی سے سیکھتے ہیں۔عہدشکنی یا وعدہ خلاف بھی منافقوں کی دیگر صفات میں شمار ہوتی ہے، منافق کی ایک نشانی وعدہ خلافی و عہدشکنی ہے۔ منافق لوگ اپنے وعدوں پر نہیں ٹھہرتے اور یہی بیماری ہمارے معاشروں میں پائی جاتی ہے۔ حالانکہ ماضی میں وعدہ خلافی لوگوں کی روایات اور کلچر کے سراسر خلاف سمجھی جاتی تھی۔ اسلام نے وعدہ پورا کرنے پر بہت زور دیاہے، حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ’’جو وعدہ خلافی کرتاہے اس کا کوئی دین نہیں ہے۔’’امانت میں خیانت منافقوں کی دیگر خاصیت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے دین کو ایک آسمانی امانت یاد فرمائی ہے۔ لہٰذا دینی احکام پر عمل نہ کرنا دین میں خیانت ہے اور شخص کے دین کو نقصان پہنچاتاہے۔ حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ جو امانتداری نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں ہے۔ جتنا نقصان نفاق نے امت مسلمہ کو پہنچایا اتنا واضح دشمنوں نے بھی نہیں پہنچایا، مدینہ منورہ میں جب رسول اﷲﷺ ہجرت کرکے آئے تو مکہ مکرمہ کی نسبت مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی طاقت میں آئے روز اضافہ ہوتا گیا ایسی صورتحال میں منافقوں کی ایک جماعت مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی جن کا سرغنہ عبداﷲ بن ابی تھا اس نے رسول ﷺ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ منافقین کے گروہ نے اپنی ایک مسجد بھی بنا رکھی تھی جس کو مسجد ضرار کہا جاتا تھا لیکن اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا۔ نبی کریمﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں وحی کے ذریعے بتایا اس لئے آپ ان منافقین سے بچ کے رہتے۔یہ منافقین آپ ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کا زہریلا پروپیگنڈہ کرتے رہتے۔ جنگ بدر، جنگ احد میں منافقین جہاد میں جانے کی بجائے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے اور لوگوں میں یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ صحابہ کرام تو تھوڑے ہیں اور کفار مکہ ان کو شکست دیدیں گے اس لئے جنگ میں شامل ہوکر اپنے تعلقات خراب نہ کرو ا ن منافقین کی دلی خواہش تھی کہ مسلمانوں کو شکست ہو لیکن اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو فاتح بناتا رہا حتیٰ کہ جنگ خیبر میں مسلمانوں نے یہودیوں کو ان کی بار بار کی عہد شکنی کے بعد شکست سے دوچار کیا۔اس طرح یہودی جو شروع دن سے مسلمانوں کے دشمن اور منافقت عروج پر دل میں رکھتے تھے انہیں شکست ہوئی۔ یہودی فتح خیبر کے اپنے کرتوتوں کے باعث علاقہ بدر ہوئے مگر دلوں میں مسلمانوں کے خلاف منافقت لیتے ہوئے گئے اور اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا، یہودی چونکہ کمزور ہوچکے تھے اس لئے وہ سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کو باہم لڑاتے رہے ۔منافقت ایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو جس میں انسان کا ظاہر، باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔ سورۃ البقرہ کی آیات 8 تا 20 میں مسلسل منافقین کی علامات بیان کی گئی ہیں۔ یہ علامات منافقین پر قرآن حکیم کا واضح چارٹر ہے جو اس لیے دیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے احوال اور معاملات کا جائزہ لے سکے اور ان کی روشنی میں اپنی اصلاح کی کوشش کر سکے۔ منافقت کی علامات درج ذیل ہیں:دعویٰ ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا۔محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالت محمدی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کو اس قدر ضروری نہ سمجھنا۔دھوکہ دہی اور مکر و فریب کی نفسیات کا پایا جانا۔یہ سمجھنا کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں۔یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔قلب و باطن کا بیمار ہونا۔جھوٹ بولنا۔نام نہاد اصلاح کے پردے میں مفسدانہ طرز عمل اپنانے کے باوجود خود کو صالح سمجھنا۔دوسروں کو بیوقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا۔اجماع امت یا سوادِ اعظم کی پیروی نہ کرنا۔کردار میں دوغلاپن اور ظاہر و باطن کا تضاد ہونا۔اہل حق کے خلاف خفیہ سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا۔مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور حقیر سمجھتے ہوئے ان کا مذاق اڑانا۔باطل کو حق پر ترجیح دینا۔سچائی کی روشن دلیل دیکھتے ہوئے بھی اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا۔تنگ نظری اور دشمنی میں اس حد تک چلے جانا کہ کان حق بات نہ سن سکیں، زبان حق بات نہ کہہ سکے اور آنکھیں حق نہ دیکھ سکیں۔اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا۔اہل حق کی کامیابیوں پر حیران رہ جانا اور ان پر حسد کرنا۔اپنے مفادات کے حصول کے لئے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا۔حق کے معاملے میں نیم دلی اور ہچکچاہٹ کی کیفیت میں مبتلا رہنا۔ہمارئے معاشرئے میں نفوس پذیری کے حامل افراد جن کا رائے عامہ ہمورا کرنے میں اہم کردار ہوتا ہے اُن کی جانب سے اگر منافقت والی روش اختیار کی جاتی ہے تو ظاہری بات ہے اُس کے اثرات پورئے معاشرئے کو منتقل ہوتے ہیں۔ لیکن شائد اِن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے کہ جو اُن کے فائدئے کی بات ہے اُس کو وہ اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ اسی منافقت نے تو معاشرئے میں عجیب بے چینی پیدا کر رککھی ہے اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرئے پر اعتماد ختم ہوگیا ہے محبت خلوص نام کی چیز قصہ پارینہ ہو چکی ہے۔ان حالات میں کیا ہم اپنے معاشرئے کو ایک صحت من معاشرہ کہہ سکتے ہیں۔ نبی پاک ﷺ سے محبت کرنے والوں کی عقیدت اطاعت میں کیوں ڈھل نہیں جاتی۔وکیل ،ڈاکٹر، تاجر ،عالم دین معاشرئے کے انتہائی اہم افراد کی باتوں میں حقانیت تو نظر آتی ہے لیکن اُن کے افعال اُن کے اقوال کی تصدیق نہیں کرتے جن کی وجہ سے معاشرئے میں نفوس پذیری کے حامل افراد کی بات کو وزن حاصل نہیں رہا۔زبان بھی نکتہ توحید تو آسکتا ہے ۔ تیرئے دماغ میں بُت خانہ ہو تو کہیے۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430205 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More