تحریر :عاصمہ عزیز‘راولپنڈی
ربا عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی زیادہ ہونا ‘بڑھنایا اصل سے زیادہ کے
ہیں۔اردو میں ربا سے مراد سود کے ہیں یعنی وہ فکسڈ اضافہ جو قرض دینے والا
اپنے مقرض سے لیتا ہے۔اسلام امیر و غریب سب کے لئے یکساں سلامتی اور خیر کا
دین ہے جو دولت کو چند ہاتھوں میں رکھنے کا قائل نہیں اس لئے ہمارے دین میں
ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔قرآن پاک میں سود کی حرمت کے بارے
میں سات آیات اور چالیس احادیث ہیں۔سودی نظام انسانی ہمدردی اور مدد کے
اصولوں کے خلاف ہے جس میں ایک فرد یا گروہ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے
ہوئے اسے معاشرے کے بے بس افرادکی صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔اس سے معاشرے میں
غریب افراد کی غربت میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ بغیر کسی محنت کے سود کے
ذریعے سے حاصل کی جانے والی دولت معاشرے میں حرام مال کے اضافے کا باعث
بنتی ہے۔سود کسی بھی معاشرے میں ظلم کو جنم دیتا ہے۔جب مجبور کی مجبوری سے
فائدہ اٹھایا جانے لگے تو لوگ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے غلط راہ
اختیار کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔اس لئے اسلام ایسے نظام کو حرام
قرار دیتا ہے جو لوگوں کے استحصال کا باعث بنتا ہے۔حصرت عمررضی اﷲ عنہ نے
ربا کے بار ے میں فرمایاکہ آخری چیز جو آپﷺپر نازل ہوئی وہ ربا کی آیت ہے
لہٰذا تم سود کو چھوڑ دو اور اس چیز کو بھی چھوڑ دو جس میں سود کا شبہ بھی
ہو۔
قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سود کو نہ چھوڑنے والا اﷲ اور اس کے
رسول ﷺ سے جنگ کر رہا ہے۔ سودکا کاروبار کرنے والے سے اس سے بڑھ کر اﷲ اور
اسکے رسول ﷺ کی ناراضگی کا اظہار اور کیا ہوگا کہ اس کیلئے جنگ کا لفظ
استعمال کیا گیا۔ہمارا ایمان ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دینے والے بنیں۔کسی
کو دیتے وقت اس کی مجبوری سے منافع حاصل کرنے کی بجائے اس سے احسان کا رویہ
احتیار کریں۔جبکہ سود کا نظام معاشرے میں خودغرضی پیدا کرتا ہے۔اس میں
بظاہر دنیا کا فائدہ تو ہے لیکن آخرت میں سود لینے والا ایسے اٹھے گا جیسے
دیوانگی کی حالت میں ہو۔حلال طریقے سے محنت کے ذریعے حاصل کیے جانے والے
مال میں اﷲ کی طرف سے برکت پیدا ہوتی ہے جبکہ بغیر کسی محنت ومشقت سے منافع
کے طور پر حاصل کردہ مال کبھی نہ کبھی قلت کا شکار ضرور ہوتا ہے ۔آپ ﷺ نے
بھی اس بارے میں فرمایا جس کسی کا مال سود سے زیادہ ہوگا آخرکار وہ قلت کی
طرف جائے گا۔
حضورﷺتمام انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور آپ ﷺ کی امت ہونے کی
حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام انسانیت میں خیر اور بھلائی پھیلانے
کا ذریعہ بنیں نہ کہ خودغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کی
مجبوریوں سے فائدہ اٹھائیں۔امت مسلمہ ایک جسم کی حیثیت رکھتی ہے کہ اگر جسم
کے ایک حصے میں درد ہوتو پورے جسم میں تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔ |