رکشہ یا آٹو رکشہ غریب لوگوں کی سب سے زیادہ استعمال
ہونے والی کرائے کی سواری ہے لیکن یہ رکشے ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ
شور یا صوتی آلودگی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے خیبر
پختونخوا کا محکمہ ٹرانسپورٹ صوبے میں بجلی سے چلنے والے الیکٹرانک رکشے یا
’ای رکشے‘ متعارف کرانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
|
|
ڈوئچے ویلے کے مطابق اس سلسلے میں تجرباتی طور پر چند رکشے صوبائی
دارالحکومت پشاور پہنچ چکے ہیں۔ خوبصورت ڈیزائن اور بظاہر کسی منی کار کی
طرح دکھائی دینے والے یہ رکشے ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔ ان میں
نہ تو پٹرول ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی سی این جی یا مائع گیس کی۔
ان میں لگائی گئی بیٹری کو ایک بار چارج کرنے سے ایسے کسی بھی رکشے کو 120
سے 150 کلومیٹر تک چلایا جا سکتا ہے۔
’ای رکشہ‘ کے مقابلے میں پاکستان بھر میں چلنے والے، تین پہیوں والے روایتی
رکشے بہت شور کرتے ہیں اور فضا میں زہریلی گیسوں کے اخراج کا باعث بھی بنتے
ہیں۔ علاقائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے سیکرٹری نعمت اللہ کے مطابق صرف پشاور
شہر میں قریب 13 ہزار چھوٹے رکشے رجسٹرڈ ہیں، جبکہ غیر رجسٹر شدہ اور غیر
قانونی رکشوں سمیت یہ تعداد 50 ہزار کے قریب بنتی ہے۔
نعمت اللہ کہتے ہیں کہ یہ پرانے رکشے دوسری گاڑیوں کے مقابلے میں 20 سے 30
گنا زیادہ ہائیڈروکاربنز اور کاربن مونو آکسائیڈ گیس خارج کرتے ہیں جوکہ
نہایت خطرناک بات ہے۔ ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’ای رکشوں سے فضائی آلودگی میں
خاطرخواہ کمی ہو گی کیونکہ یہ خاموش اور ماحول دوست ہیں۔‘‘
|
|
پشاور میں ’ای رکشے‘ جاپان سے درآمد کرنے والے بلال شاہ آفریدی کے مطابق
دیگر خصوصیات کے علاوہ ان رکشوں کی قیمت بھی عام رکشوں کے مقابلے میں کم ہے۔
’’دو لاکھ سے ڈھائی لاکھ روپے تک آپ کو ایک ایسا رکشہ مل سکتا ہے جس میں
تیل یا گیس ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ اسے تین سے چار گھنٹے تک بجلی سے
ری چارج کرنے کے بعد دن بھر چلا سکتے ہیں۔‘‘
بلال شاہ آفریدی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایئر کنڈیشننگ کی سہولت سے آراستہ
یہ رکشے ایک ماہ میں تقریباﹰ 2300 روپے تک کی بجلی استعمال کرتے ہیں، جبکہ
ایک اندازے کے مطابق ایسے کسی ایک رکشے سے ایک مہینے میں نوے ہزار روپے تک
کمائے جا سکتے ہیں۔
ایسے ای رکشوں کی ساخت کے بارے میں بلال شاہ آفریدی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،
’’یہ الیکڑانک رکشہ ایک سادہ سے طریقہ کار کے تحت کام کرتا ہے۔ اس میں دو
اہم چیزوں میں سے ایک دوبارہ چارج ہونے والی بیٹری ہے اور دوسری ایک سادہ
سی موٹر۔ ان میں سے کچھ بھی خراب ہو جائے تو نئی بیٹری یا موٹر بازار سے
آسانی سے خریدی جا سکتی ہیں۔‘‘
|
|
بلال آفریدی کا کہنا تھا، ابتدائی طور پر چھ اقسام کے رکشے منگوائے گئے ہیں،
جن میں سواریوں کے استعمال میں آنے والے رکشوں کے علاوہ منی کیب اور لوڈر
رکشے بھی شامل ہیں۔ یہ رکشے 750 کلوگرام تک وزن لے جانے کی صلاحیت رکھتے
ہیں اور 40 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار تک چلائے جا سکتے ہیں۔‘‘
ان رکشوں کا متعارف کرایا جانا ایک طرف اگر آلودگی میں کمی اور عوام کو
بہتر سفری سہولیات کی فراہمی کا سبب بنے گا تو دوسری طرف ایسے رکشے عام
رکشہ ڈرائیوروں میں بے چینی کی وجہ بھی بن رہے ہیں۔ پشاور میں پرانی طرز کا
ایک روایتی رکشہ چلانے والے محمد اسماعیل کہتے ہیں، ’’اگر حکومت نئے رکشے
لارہی ہے تو پھر وہ ہم جیسے غریب لوگوں کے مستقبل کا بھی سوچے۔ ہمارے لیے
تو یہ روزی کمانے کا واحد ذریعہ ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہ تو اتنے
مہنگے نئے رکشے خرید سکتے ہیں اور نہ ہی نئے رکشوں کی وجہ سے زیادہ سواریاں
ان کے پرانے رکشوں میں بیٹھیں گی۔
اس کے برعکس بلال شاہ آفریدی نے کہا کہ ان نئے رکشوں کے کئی فوائد ہیں۔
پیچیدہ مشینری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی دیکھ بھال بہت آسان ہے۔ ایک مرتبہ
ان ماحول دوست رکشوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بعد لوگ اپنے لیے بہتر کمائی
کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ ’’ابھی تک صوبائی حکومت نے باقاعدہ طور پر ان رکشوں
کو کمرشل بنیادوں پر چلانے کی منظوری نہیں دی، لیکن مجھے امید ہے کہ جلد ہی
یہ ’ای رکشے‘ صوبے کی سڑکوں پر دوڑتے نظر آئیں گے۔‘‘ |