فرقہ واریت کا خاتمہ ناگزیر ہوچکا ہے……!!

مملکت خداداد سرزمین پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے ہی سنگین مسائل سے دوچار رہی ہے۔ بیرونی اور اندرونی مسائل نے ملک کی جڑوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ ملک دشمن قوتوں نے ایک بہت بڑی سازش تیار کی اور اس گلشن کو ایک نہ ختم ہونے والی کشت و خون کی لہر میں دھکیل دیا۔ شیعہ سنی مسالک میں اختلافات کو اس نہج پر پہنچادیا گیا کہ لوگ دیگر مسالک کے افراد کے خون کے پیاسے ہوگئے، پاکستان کی تاریخ میں 1980ء سے لے کر 1995ء تک ہزاروں خاندان فرقہ واریت کے سبب تباہ و برباد ہوگئے۔ برین واش کئے گئے نوجوانوں نے اسلحہ تھام کر ملک کے کونے کونے میں خون کی وہ ہولی کھیلی کہ ’’گلشن‘‘ کا شیرازہ ہی بکھر گیا۔ پاک مٹی کی تسکین پانی کے بجائے خون سے کی گئی۔ 15 سال پر فرقہ واریت کی اس شدید اور خونی جنگ میں علماء، وکلاء، ججز، صحافی، فنکار، صنعت کار، سرکاری افسران سمیت ہر شعبۂ ہائے سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو چن چن کر سفاکیت سے مار دیاگیا۔ ذہنوں پر طاری خون کی بھوک اس حد تک پہنچ گئی کہ مخالف طبقہ فکرکے لوگوں کو صرف ناموں کی بنیاد پر بھی قتل کیاگیا۔ مسلکی تنظیموں و جماعتوں کے سربراہوں کے قتل کے بعد پورا ملک اس آگ میں ایسا جھلسایا کہ جس کے شعلے اب بھی باقی ہیں۔ حکومتیں آئیں اور چلی گئیں مگر اس سنگین اور تشویشناک مسئلے پر خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ صرف تنظیموں اور جماعتوں پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔ مگر اس کے باوجود قتل و غارت گری کا سلسلہ نہ تھم سکا۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ 23 اپریل 1995ء میں ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر تمام مکاتب فکر کے تمام جید ترین علماء کرام و مشائخ عظام اس سنگین و تشویشناک قومی مسئلے پر یکجا ہوئے اور انہوں نے ملک سے فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے 17 نکات پر مشتمل ضابطہ اخلاق مرتب کیا اور اس پر دستخط بھی کئے۔ اس تاریخی ضابطہ اخلاق پر علامہ شاہ احمد نورنی (مرحوم) سربراہ جمعیت علمائے پاکستان، مولانا سمیع الحق امیر جمعیت علمائے اسلام (س)، قاضی حسین احمد (مرحوم) امیر جماعت اسلامی پاکستان، مولانا فضل الرحمن امیر جمعیت علمائے اسلام (ف)، علامہ ساجد علی نقوی سربراہ تحریک فقہ جعفریہ پاکستان، مولانا محمد ضیاء القاسمی (مرحوم) چیئرمین سپریم کونسل سپاہِ صحابہ پاکستان، مرید عباس یزدانی (مرحوم) سربراہ سپاہ محمد پاکستان، پروفیسر مولانا ساجد میر سربراہ جمعیت اہلحدیث پاکستان، شیخ حاکم علی صدر سپاہ صحابہ پاکستان، قاری محمد حنیف جالندھری جنرل سیکریٹری وفاق المدارس پاکستان ، مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی، صاحبزادہ عارف سلیمان روپڑی، مولانا محمد رمضان سلفی، مولانا عبدالرؤف قریشی، مولانا احمد فاروقی، مولانا محمدا جمل، مولانا اسلم سلیمی، مولانا کمال الدین، ملک جاوید اکبر خان، آصف علی گیلانی، صاحبزادہ مولانا عبدالرحمن، علامہ آصف علی، گوہر رحمن، علامہ حسین اصغر سمیت 31 علمائے کرام ومشائخ عظام کے دستخط ثبت ہیں۔

ملی یکجہتی کونسل کا 17 نکات پر مشتمل ضابطہ اخلاق مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ اختلافات اور بیگاڑ کو دور کرنے کیلئے اہم ضرورت یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر نظم مملکت اور نفاذ شریعت کیلئے ایک بنیاد پر متفق ہوں، چنانچہ اس مقصد کیلئے ہم 31 سرکردہ علماء کے 22 نکات کو بنیاد بنانے پر متفق ہیں۔
2۔ ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو اسلام کیخلاف سمجھتے ہیں، اس کی پُرزور مذمت کرنے اور اس سے اظہار برأت کرنے پر متفق ہیں۔
3۔ کسی بھی اسلامی فرقہ کو کافر اور اس کے افراد کو واجب القتل قراردیناغیر اسلامی اور قابل نفرت فعل ہے۔
4۔ اہل بیتؓ، اطہارِ و امام مہدیؓ، عظمت ازواج مطہراتؓ، عظمت صحابہ کرامؓ اور نبی کریمﷺ کی عظمت و حرمت ہمارے ایمان کی بنیاد اور جز ہے اور آنحضورﷺ کی کسی طرح کی توہین کے مرتکب فرد کے شرعاً، قانوناً موت کی سزا کا مستحق ہونے پر ہم متفق ہیں، اس لئے توہین رسالت ﷺ کے ملکی قانون میں ہر ترمیم کو مسترد کردیں گے اور متحد و متفق ہوکر اس کی مخالفت کریں گے۔
5۔ ایسی ہر تقریر و تحریر سے گریز و اجتناب کیا جائے گا کسی بھی مکتبہ فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔
6۔ شر انگیز اور دل آزار کتابوں، پمفلٹس اور تحریروں کی اشاعت، تقسیم و ترسیل نہیں کی جائے گی۔
7۔ اشتعال انگیز اور نفرت انگیز مواد پر مبنی کیسٹوں پر مکمل پابندی ہوگی اور ایسی کیسٹس چلانے والا قابل سزا ہوگا۔
8۔ دل آزار، نفرت آمیز اور اشتعال انگیز نعروں سے مکمل احتراز کیا جائے گا۔
9۔ دیواروں، ریل گاڑیوں، بسوں اور دیگر مقامات پر دل آزار نعرے اورعبارتیں لکھنے پر مکمل پابندی ہوگی۔
10۔ تمام مسالک کے اکابرین کا احترام کیا جائے گا۔
11۔ تمام مکاتب فکر کے مقاماتِ مقدسہ اور عبادت گاہوں کا احترام و تحفظ کویقینی بنایا جائیگا۔
12۔ جلسوں، جلوسوں، مساجد اور عبادت گاہوں میں اسلحہ خصوصاً غیر قانونی اسلحے کی نمائش نہیں ہوگی۔
13۔ عوامی اجتماعات اور جمعے کے خطبات میں ایسی تقریریں کی جائیں گی جن سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے میں مدد ملے۔
14۔ عوامی سطح پر ایسے اجتماعات منعقد کئے جائیں گے جن سے تمام مکاتب فکر کے علماء بیک وقت خطاب کرکے ملی یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں گے۔
15۔ تمام مکاتب فکر کے متفقات اور مشترکہ عقائد و نکات کی تبلیغ اور نشر واشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔
16۔ باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم اور تحمل و رواداری کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔
17۔ ضابطہ اخلاق کے عملی نفاذ کیلئے ایک اعلیٰ اختیاراتی بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو اس ضابطے کی خلاف ورزی کی شکایات کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ صادر کرے گا اور خلاف ورزی کے مرتکب کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے گا۔

ملی یکجہتی کونسل کے ان 17 نکات کو اس وقت کی حکومت کو پیش کیاگیا، جس پر انہوں نے فوری عملدرآمد اور قانون سازی کی یقین دہانی بھی کرائی۔ مگر حکومتی وعدہ ، وعدہ ہی رہا۔ وقت گزرتا رہا اور فرقہ واریت کا سلسلہ جدید سے جدید تر ہوتا گیا۔ جس کے سبب بات گولیوں سے بم حملوں اور پھر خودکش حملوں تک پہنچ گئی۔ اس انتہائی حساس معاملے پر حکومت کی عدم دلچسپی اور بے حسی کے سبب اب بھی ملک کے کونے کونے میں آئے روز مختلف مسالک کی عبادت گاہوں اور مذہبی شخصیات پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔

ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل نامی ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 1998ء سے لے کر 2016ء تک فرقہ واریت کے 3020 واقعات ہوئے، جس کے نتیجے میں 5,230 افراد جان سے گئے اور 9904 افراد زخمی ہوئے جبکہ www.satp.org کے مطابق سال 2002ء سے 2016ء تک پاکستان میں مختلف مکاتب فکر کی 101 مساجد پر حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 1330 افراد جاں بحق اور 2711 افراد زخمی ہوئے۔ مگر افسوس 21 سالوں سے ملی یکجہتی کونسل کا ضابطہ اخلاق حکومتی توجہ کا متقاضی ہے۔ مگر اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ تمام مکاتب فکر آج بھی اس ضابطہ اخلاق پر متحد و متفق ہیں۔ اس لئے ملک سے فرقہ واریت جیسے ناسور کے خاتمے، کشت و خون کی ہولی کی روک تھام اور آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کیلئے حکومت سمیت تمام اداروں کو چاہئے کہ ملی یکجہتی کونسل کے ان 17 نکات پر فوری اقدامات اور قانون سازی کیلئے کردار ادا کرے۔ کیونکہ
یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسباں اِس کے
Kamran Chouhan
About the Author: Kamran Chouhan Read More Articles by Kamran Chouhan: 5 Articles with 3713 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.