چند دن پہلے کی بات ہے نسبتاً دیر سے
صبح کی سیر کو نکلی ہوئیں اُدھیڑ عمر کی دو خواتین آپس میں محو گفتگو تھیں۔
ایک نے ایام جوانی کو یاد کرکے کہا کہ ’’وہ بھی کیا دن تھے کہ جب ہم بلا
خوف و خطر کسی بھی وقت کہیں بھی آجاسکتے ہیں۔ لیکن آج مجھے تب تک صبح کی
سیر کو نکلنے کی ہمت نہیں ہوتی جب تک نہ اُجالا پوری طرح پھیل جائے‘‘۔
دوسری خاتون نے اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہا ’’میں بھی صبح سویرے نماز و
تلاوت اور چند ایک گھر یلو کام انجام دے کر انتظار کرتی ہوں۔ کہ کب لوگوں
کی آمد و رفت شروع ہو۔ تاکہ میں چہل قدمی کیلئے نکل سکوں۔ سننے میں آیا ہے
کہ کل ایک اور خاتون کے ساتھ دست درازی ہوئی ہے‘‘۔
یہ تھے دو خواتین کی گفتگو کے چند جملے جو آئے روز ہماری سماعتوں سے ٹکراتے
ہیں۔ اور ہمیں ان جملوں میں کوئی ایسی اپیل دکھائی نہیں دیتی ہیں جو فکر و
اندیشہ میں مبتلاء کردیتی۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اس طرح کے الفاظ سے اب کافی
مانوس ہوچکے ہیں۔ اور روز مرہ کی اس گفتگو سے خواتین کشمیر کی اُس فریاد کو
سننے سے قاصر ہیں۔ جووہ عامیانہ لب و لہجہ میں ہم تک پہنچاتی ہیں۔ اگر اس
طرح کی گفتگو کے توسط سے کشمیری خواتین کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو خوف
کے گوناں گوں اور مہیب سائے ان کی پوری شخصیت پر حاوی نظر آئیں گے۔
کشمیر میں صنفی اعتبار سے عورت ہی ہے جو نامساعد حالات سے بہت زیادہ متاثر
ہوتی ہے۔ بلواسطہ یا بلاواسطہ ہر خلافِ معمول واقعہ کے منفی اثرات اس پر
مرتب ہوئے ہیں۔ صنف نازک کے ساتھ ہوئی زیادتیوں کا کون سا پہلو پیش کیا
جائے۔ زیادتیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہمہ پہلو ہے۔ اس نازک اندام ذی روح
کا نفسیاتی، جنسی، جذباتی، جسمانی استحصال بالکل عیاں ہے۔ چند مظالم ایسے
بھی ہیں۔ جو براہ راست اسکے ساتھ تعلق نہیں رکھتے لیکن اُس فرد سے زیادہ
اسی عورت نے سزا بھگتی ہے جو ظلم کا کھلا ہدف ہوتا ہے۔ اس نکتے کی وضاحت
کیلئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر مرد کو کسی بھی قسم کی چوٹ لگتی ہے تو دلِ عورت
سے آہ نکلتی ہے۔ مرد کے گھر سے باہر قدم رکھتے ہی وجودِ زن سے یہ پریشانی
دامن گیر ہوجاتی ہے کہ کب وہ صحیح سلامت واپس گھر لوٹے۔ معمول سے ہٹ کر ذرا
سی دیر ہوئی تو طرح طرح کے وحشت ناک وسوسے اس کے اندروں میں محشر بپاکردیتے
ہیں۔ یہ مرد کبھی اس خاتوں کا بیٹا ہوتا ہے کبھی اس خاتون کا شریک حیات اور
کبھی بھائی یا باپ بھی ہو سکتا ہے غرض اس مرد کے کئی ایک روپ اس عورت کی
فکر مند ی کے باعث ہوا کرتے ہیں ۔ایثارو قربانی کا حد درجہ فطری جذبہ اس
فکر مندی کوایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے
خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
رات کو دیر گئے جو دقل الباب ہوا تو اسکی حالت خزاں کے اس زرد پتے کی سی
ہوتی ہے۔ جو تند و تیز ہوا کی زد پر ہو۔ یہ ہے کشمیری خواتین کے شب و روز
کا مختصر سا خاکہ۔ جسے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ان کی نفسیات پر
نامساعد حالات کس طور اثر انداز ہوئے ہوں گے۔ اس پرمستزاد یہ کہ خلقت کے
اعتبار سے قلبِ زن ہمدردی اور رحم دلی کا خزینہ ہوتا ہے۔ یہ معمولی سے
معمولی صدمے کو برداشت نہیں کرپاتا ہے۔ چہ جائے کہ انسانوں کی بستی پر شش
سمت سے جبرو قہر برستار ہے۔ نازک نفسیات، حساس طبیعت اور جذبات سے پُردل و
دماغ کی حامل اس کومل مخلوق میں اُس پیمانے پر قوتِ مدافعت کہاں ہوتی ہے کہ
کوہِ گراں جیسے مصائب کو بآسانی جھیل سکے۔ تاکہ اُس کا غیر مرئی عالمِ باطن
ویرانیوں سے بچ پائے۔ پر امن ماحول میں ناری کی کوملتا مختلف نفع بخش
صورتوں میں اظہار پاتی ہے۔ یہ کبھی ماں کی مامتا بن کر خاکی پیکر میں محبت
و مروت کی روح پھونکتی ہے تو کبھی بہن کے پیار کا روپ دھارن کرکے ایثار کا
عملی نمونہ بن جاتی ہے۔طفلِ نازک اندام کے لئے اس کے ہاتھوں میں نرمی و
خنکی کی تاثیر پیدا کرتی ہے ۔ یہی کوملتا گھر میں حسن ِ ترتیب کا وہ کام
کرتی ہے کہ جسے گھر جنت نشاں بن جاتا ہے۔اسکے برعکس بدامنی کے حالات میں
یہی ’’کوملتا‘‘ اس نرم و نازک صنف کیلئے بلائے جان بن جاتی ہے۔ اور ہر دراز
دست اس کو لقمۂ تر سمجھ کر اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ کہا جاتا ہے ’’نرم چوب
راکرم می خورد‘‘۔
وقتاً فوقتاً صنفِ نازک کے ساتھ ہوئے ظلم سے طبقۂ نسواں میں یہ احساس بڑھتا
جارہا ہے کہ جنتِ ارضی میں دخترانِ حو ّا غیر محفوظ ہیں۔ سانحۂ شوپیاں سے
عدم تحفظ کا یہ احساس اپنی آخری سرحدوں کو پھلانگنے لگا ہے۔ کشمیری خواتین
کی فکر مندی بجا ہے۔ کیونکہ مرد کی بہ نسبت ان کی سرشت کمزور واقع ہوئی ہے۔
حالانکہ غیر یقینیت کے ماحول میں انہیں جاں و ناموس جیسی دو بیش قیمت چیزوں
کی حفاظت کے تعلق سے چند خدشات لاحق ہیں۔ ہمارے معاشرے میں باعصمت خواتین
ناموس کو زندگی سے عزیز رکھتی ہیں۔ اور ان دو میں سے اگر ایک قربان کرنا
پڑے تو یہ ناموس کی حفاظت کیلئے زندگی کو قربان کردیتی ہیں۔ لہٰذا آبرو پر
کسی بھی قسم کی آفت کا منڈلانا گویا موت سے بھی دُشوار گزار مرحلہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تحفظِ ناموس کے متعلق جتنے بھی خدشات خواتینِ کشمیر
کو لاحق ہیں اُن کو دور کیا جائے۔ مگر کنن پوش پورہ سے لیکر شوپیاں سانحہ
تک جنسی درندوں نے اذیتوں کا ایک سلسلہ جاری رکھا ہے جس کے ہوتے ہوئے
دخترانِ کشمیر کا موجودہ حالات پر اعتماد بحال ہونا خارج از امکان ہے۔ ایک
سانحہ کی کریہہ یادیں ان کے قلب و ذہن سے مٹتی نہیں کہ دوسرا سانحہ پیش آتا
ہے۔
علامہ اقبالؒ نے بجا فرمایا ہے کہ ’’نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد‘‘۔
نسوانیت چاہے داخلی سطح پر خطرے میں ہو یا خارجی سطح پر تہذیبی جارحیت کا
شکا رہو یا سامراجی ظلم و زیادتی کی زد پر ہو۔ اس کی حفاظت کا اولین ذمہ
دار مرد ہی ہوتا ہے۔ لیکن شرط اول یہ ہے کہ اولاً مرد بھی محفوظ ہو۔ کیونکہ
قائدہ ٔ کلی کے مطابق پناہ گاہ وہی فراہم کرسکتا ہے جو خود پناہ یافتہ ہو۔
محافظ وہی ہوسکتا ہے جو خود محفوظ ہو۔ جہاں مردوں کی جان کے لالے پڑے ہوں۔
وہاں طبقۂ نسواں کو یہ یقین کیوں کر دلایا جائے کہ اُن کی حفاظت کیلئے طبقۂ
مرد ڈال بن کے کھڑا ہے۔ کشمیر میں بنت حوا مردوں کی حالتِ زار سے خوب واقف
ہے۔ اس نے اپنے قرب وجوار میں ان کو لٹتے پٹتے دیکھا۔ یہاں تک اکثر اوقات
مردوں کو بچانے کیلئے اس کو مزاحمت دکھانی پڑی ہے۔اس نے اپنی ذات کی مجبوری
پر اُتنا نہیں رویا جتنا کہ مرد کی لاچاری پر اس نے آنسو بہائے ہیں۔ کسی
بہن نے انتہائی بے بسی کے عالم میں بھائی کوگرفتار ہوتے دیکھا۔ کوئی ماں
اپنے لاپتہ بیٹے کی تصویر لئے ہر ایک سے پوچھتی رہتی ہے کہ اس کا لختِ جگر
اور بڑھاپے کا سہارا کہاں اور کس حال میں ہے؟ کسی کا سرتاج نامعلوم بندوق
برداروں کی گولیوں کا نشانہ بن گیا اور اسکی آنکھوں کے سامنے خون سے لت پت
کچھ دیر تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور بالآخر زندگی کی جنگ ہار
گیا۔ وہ بیٹی اُس صدمے کو کیسے بھول پائے جس کے کمر خمیدہ اور سفید ریش باپ
کی سرعام توہین کی گئی۔
یہ حقیقت کافی تشویشناک ہے کہ صنف نازک کا محافظ مرد ہی ہوتا ہے اور اسی کے
ہاتھوں احساسِ تحفظ کی غارت گری انجام دی جاتی ہے۔ آج اگر ہماری ماں بہن
اور بیٹیاں خود کو جنت ارضی میں غیر محفوظ محسوس کررہی ہیں۔ اسکے ذمہ دار
جنگلی درندے، نیز جن یا بھوت پریت نہیں۔ بلکہ وہ انسان نما بھیڑیئے ہیں جو
بدقسمتی سے مردانہ پیکر کے حامل ہیں۔ دیر سویر کسی عورت کا انجان یا سنسان
جگہ سے گزر ہو تو اُسے پاگل کُتے کے کاٹنے کا ڈریا کسی زہریلے سانپ سے ڈسے
جانے کا خوف نہیں ہوتا۔بلکہ اس کا وجود اس کریہہ خیال سے بار بار کانپ
اٹھتا ہے کہ مبادا کہیں کوئی رہزنِ ناموس اپنی کمین گاہ میں بیٹھا ہو۔ صنف
نازک کیلئے سب سے پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ ان رہزنوں کی کوئی مخصوص شناخت
نہیں ہے۔ یہ وردی پوش بھی ہوسکتے ہیں اورعام لباس میں ملبوس ہمارے ہی سماج
کے ہی کچھ عناصر بھیڑکی شکل میں بھیڑیئے ہوسکتے ہیں۔ وردی پوشوں کی
کارستانی کا جائزہ لیا جائے تو کنن پوش پورہ سے لیکر شوپیاں سانحہ تک عزت و
آبرو کی غارت گری کے دسیوں واقعات سامنے آجاتے ہیں۔ دوسری جانب تابندہ غنی
(لنگیٹ) صبرینہ فیاض (راجباغ)، نگینہ (کیلرکپوارہ) فرزانہ (زینہ کدل)،
رومانہ (سرینگر) جیسی نازک کلیوں کا ہمارے اپنوں کے ہاتھوں کچل جانا اس بات
کا کھلا ثبوت ہے کہ یہاں کی سول سوسائٹی بھی صنف نازک کے تئیں روز بروز
کٹھور ہوتی جارہی ہے۔ وردی پوشوں کو لگام دلانے کیلئے ان کے خصوصی اختیارات
(افسپا) کے خاتمہ اور فوجی انخلا کا مطالبہ کیا جار ها ہے۔لیکن ہمارے سماج
کے رگ و پے میں فحاشیت کا جو زہر سرائیت کرگیا ہے، اس کے اثر کو زائل کرنے
کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ایک پولیس آفیسر کی مجرمانہ غفلت کیلئے اسکی
گرفتاری کا مطالبہ بالکل بجا ہے مگر اُن والدین کا مواخذہ کون کرے جنہوں نے
اپنی ہی سولہ سالہ اور نویں جماعت میں زیر تعلیم اُس معصوم لڑکی کو محض اس
لیئے ایک غیر مرد کے ساتھ بھیجاجاتا ہے تاکہ اُس کو سرکاری نوکری
دلادے۔مجرمانہ ذہنیت رکھنے والا افراد سے کیا شکوہ۔،ہمارے معمار ان قوم بھی
اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو اپنی حوس ناکی سے کچل دیتے ہیں۔ ایسے متعدد
واقعات رونما ہوئے جن میں معصوم اور کمسن طالبات اپنی ہی استادوں کی حوس کا
شکار ہوئیں۔ پرن پیلان اوڑی سے تعلق رکھنے والی چوتھی جماعت کی ایک طالبہ،
بالہ پورہ خانصاحب اور بچہ مرگ کپوارہ کی طالبہ کی عصمت کو پار پار کرنے
والا کوئی اور نہیں بلکہ والدین کے بعد سب سے بڑا محافظ استاد ہی ہے۔اس سے
بڑھ کر اس قوم کی بدقسمتی کیا ہوگی کہ ایک طرف شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے
والے استاد شوپیان کے سانحہ پرسراپا احتجاج تھے تو دوسری طرف اسی روز
نسوقاضی گنڈ سے تعلق رکھنے والے چار ٹیچروں کو اس الزام سے معطل کیا گیا کہ
اُنہوں نے ایک کمسن طالبہ کے ساتھ دستد رازی کی ہے۔ یہ تو قوم کے رہبروں کا
حال ہے۔ جنسی رہزنوں کا عالم کیا ہوگا۔ صنف نازک کے اس مظلوم قافلے سے تعلق
رکھنے والی نازک سی کلی بہ زبان حال کہہ رہی ہے۔
مظلوم قافلے کہ یہ داستان ہے میری رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ |