عالم اسلام اور عملی اقدامات

شاہ فیصل مرحوم اور ذوالفقار علی بھٹو کا نام ذہن میں آتے ہی عالم اسلام کو متحد کرنے کی کوششوں میں مصروف شخصیات کا خاکہ ذہن میں گھوم جاتا ہے ۔عالم اسلام اس وقت غم وحزن کی کیفیت میں مبتلا ہے ۔ایک طرف عراق،شام ،افغانستان میں امریکہ بہادر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف کشمیر وفلسطین میں یہود وہنود نے مسلم امہ کو خون میں جکڑا ہو اہے اور رہی سہی کسر داعش،خوارج اور تکفیری پوری کررہے ہیں ۔مسلمانوں کو کافر کہہ کر ان کا قتل کرنا اور مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانا ان خارجیوں کا پسندیدہ عمل ہے۔اسلام جو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے وہ کس طرح اسلام کے پیروکاروں پر ظلم کا حکم دیتا ہوگا ۔ظاہرہے یہ اسلامی ایجنڈا نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کارفرما وہیں دشمن عناصر ہیں جو اسلام کو اور مسلمان کو دنیا میں دیکھنا نہیں چاہتے ۔عالم اسلام کو متحد کرنے کی کوششیں سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد سے دوبارہ کی جارہی تھیں لیکن حالیہ ادوار میں یہ کوششیں تیز ہوگئی ہیں اور امت مسلمہ میں بھی متحد ہونے کا شعور پھر سے بیدار ہورہاہے ۔ پاکستان میں میری مختلف مکاتب فکرکے لوگوں سے عالم اسلام کے اتحادپربات ہوئی۔ ان سب کا نقطہ نظر یہی تھا کہ ہم سب مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر عالم اسلام کو درپیش مسائل سے نکالنا ہوگا ۔سعودی عرب کی طرف سے مسلم ممالک کا فوجی اتحاد اور پھر مسلم ممالک کی فوجی مشقیں ہم مسلمانوں کے امید بہار کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

ترکی کے شہر استنبول میں OIC (اسلامی تعاون تنظیم ) کے 13ویں اجلاس صدارت مصر نے ترکی کے حوالے کی ۔ دوروزتک جاری رہنے والے اس اجلاس کی نمایا ں ترین شخصیت خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزاور ترکی کے صدر طیب اردوان کی تھی۔اعلی ترین سطح پر نمائندگی کے لحاظ سے یہ اجلاس تاریخی اہمیت کا حامل تھا جس میں 30 ممالک کے سربراہان ریاست اور حکومتی عہدیداران نے شرکت کی ۔ شاہ سلمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ امت مسلمہ کے مسائل کو فوری طور پر حل ہونا چاہیے جن میں فلسطین کا مسئلہ سرفہرست ہے ۔ شام کے بحران پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جنیوا 1 کے فیصلوں اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کے مطابق شام کے بحران کا خاتمہ چاہتے ہیں اور لیبیا میں سیاسی بحران کے خاتمے کے سلسلے میں موجودہ کوششوں کی سپورٹ چاہتے ہیں۔آج درحقیقت ہمیں اس بات کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ ہم دہشت گردی کی آفت کے خلاف لڑنے کے لیے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور نوجوان نسل کو اس شدید حملے سے بچائیں جس کی زد میں وہ ہے۔ اس حملے کا مقصد نوجوان نسل کو دین کے سیدھے راستے سے ہٹا کر ان کی راہ پر ڈال دینا ہے جو زمین پر دین کے نام پر فساد پھیلا رہے ہیں جب کہ دین اسلام ایسے لوگوں سے اپنی براء ت کا اظہار کرتا ہے۔ہم نے دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد تشکیل دے کر اس جانب ایک سنجیدہ قدم اٹھا لیا ہے۔ اتحاد میں 39 ممالک شامل ہیں اور اس کا مقصد فکری، ذرائع ابلاغ کی، مالی اور عسکری سطح پر منصوبوں کے ذریعے تمام تر کوششوں میں تعاون اور ان کو مربوط بنانا ہے‘‘۔ترکی کے صدرایردوآن کا کہنا تھا کہ’’ ہم پر لازم ہے کہ ان اصطلاحات کی حقیقت کے ادراک میں جلدی کریں کیوں کہ جانوں سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد بدستور بڑھتی جارہی ہے۔ یقینا عالم اسلام نے استنبول میں اس سربراہ اجلاس سے دلی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ہم انہیں پورا کرسکتے ہیں۔ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے جن میں مسلک کا فتنہ اور نسلی امتیاز سرفہرست ہیں۔ ہمارا دین امن و سلامتی اور مصالحت کا دین ہے۔ ہمارے نبی محمد ﷺ خدائی انصاف پھیلانے کے لیے آئے اور ہمیں تعاون کا حکم دیا اور ظلم و زیادتی سے روک دیا۔ہمارے درمیان جو بھی مسائل ہوں تاہم اسلامی ممالک ہونے کے طور پر ہم ان لوگوں کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے جو قتل و غارت گری کررہے ہیں۔انہوں نے دہشت گردی اور تشدد کو عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ گردانتے ہوئے کہا کہ پہلے القاعدہ تنظیم کی وجہ سے افغانستان تباہ ہوا اور اب داعش وبوکوحرام جیسی تنظیموں کے سبب یہ امر پھر سے دہرایا جارہا ہے۔ترکی کے صدر نے مغربی ممالک کے دہرے معیار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان ممالک نے انقرہ، استنبول اور لاہور حملوں سے تو چشم پوشی کرلی اور تمام توجہ برسلز پر مرکوز کردی۔ اسلام دشمنی کا مظہر پروان چڑھ رہا ہے اور مغربی دنیا مسلمانوں کے لیے ایک خطرناک عالم میں تبدیل ہورہی ہے۔ترکی کے صدر نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کام کریں، ایسی ریاست جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔ تنظیم پر لازم ہے کہ وہ ان تمام مسلم عوام اور اقوام کو سپورٹ کرے جو دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کررہے ہیں‘‘۔مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی طرف سے خطاب کیا۔ شکری کا کہنا تھا کہ شام، یمن اور لیبیا میں شورشیں درحقیقت داخلی اور خارجی سطح پر مسائل کی پیداوار ہیں۔شکری نے تنظیم کے کردار کو فعال بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین ابھی تک حل نہیں ہوسکا، ہم امید کرتے ہیں کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عالمی برادری اپنی ذمہ داری پوری کرے گی۔شکری نے لیبیا میں بحران کے حل کے لیے مصر کی شدید خواہش کو باور کراتے ہوئے طرابلس میں صدارتی کونسل کے استحکام کا خیرمقدم کیااور شام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مصر ایسے حل پر زور دیتا ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ کیا جاسکے اور شامی سرزمین کی یکجہتی کو برقرار رکھا جاسکے۔اسلامی تعاون تنظیم کے سکریٹری جنرل ایاد مدنی کا کہنا تھا کہ’’ مسئلہ فلسطین ابھی تک تنظیم کے لیے اولین ترجیح ہے۔جکارتہ کے سربراہ اجلاس میں سلامتی کونسل سے یہ مطالبہ کرنے پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اسرائیلی قبضہ ختم کرانے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے قرار داد جاری کرے۔ تنظیم نے انسداد دہشت گردی کو سب سے زیادہ توجہ طلب امر کے طور پر رکھا ہے تاہم دہشت گردی کے خلاف برسرجنگ ہونے کے معاہدے کی رکن ممالک میں سے صرف 20 ملکوں نے توثیق کی ہے‘‘۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی صدر ممنون حسین نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زوردیا ۔ صدرپاکستان نے کشمیری بھائیوں کی سیاسی ،سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھنے کا بھی عندیہ دیا ۔پاکستان چاہتا ہے کہ آزاداورخودمختار فلسطینی ریاست قائم ہو جس کا دارالحکومت القدس ہو ۔ دہشت گردی مسلم امہ کے لئے ایک بڑے خطرے کے طور پرابھری ہیجس سے نمٹنے کے لئے اسلامی دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا ۔ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب،رنگ یا نسل سے نہیں بلکہ تاریخی ناانصافیاں اور نوآبادیاتی طرزعمل بھی دہشت گردی کو مزید تقویت پہنچارہاہے ۔جس کے لئے مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا حل ناگزیر ہے۔ صدر ممنون حسین نے کہاکہ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد’’امن برائے ترقی اورپرامن ہمسائیگی ‘‘ہے۔اس کے علاوہ صدرممنون حسین نے ترک وزیراعظم احمد داؤد اوگلو،افغانستان کے چیف ایگزیکٹیوعبداﷲ عبداﷲ اور بیلاروس کے صدر سے بھی ملاقات کی اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ۔علاوہ ازیں اوآئی سی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں پرتشددکاروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور خصوصی نمائندہ کو مقبوضہ کشمیر میں بھیجنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ۔

21اگست 1969ء کو مسجد اقصیٰ پریہودی حملے کے بعد 25ستمبر1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں بننے والی یہ تنظیم اب تک 13اجلاس کرچکی ہے ۔ اس تنظیم کا بنیادی طور پر مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرنا ہے ۔عالم کفر اسلام کے خلاف عملی طور پر کام کررہاہے ۔ ان کا پروپیگنڈا اس قدر شدید ہے کہ غیر مسلم تو ایک طرف ایک سادہ اورعام مسلمان بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر مسلم ممالک کے خلاف ان کا حصہ بن جاتا ہے ۔جہاد کو ایک پروپیگنڈے کے تحت دہشت گردی سے نتھی کردیاگیاہے۔اسلام کا نام لے کر اسلام کے ماننے والوں کا خون بہایاجارہاہے ۔اسلامی ملکوں کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی خواہش نے عالم کفر کو مسلم ممالک کو توڑ کر ان پر حکومت کرنے کی راہ پرلگادیا ۔آج بھی جب عالم اسلام کو ایک کرنے کی بات ہوتی ہے تو کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں ۔خلافت ایک ایسا لفظ تھا جس پر عالم اسلام متحد ہواتھا اس لئے خلافت کو اور جہاد کو بدنام کرنے کے لئے داعشی ٹولہ کھڑا کیا گیا کہ خلافت کا لفظ اس قدر بگاڑ دیاجائے کہ مسلمان اس سے نفرت کریں ۔مندرجہ بالا مختلف اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کے تنظیم کے اجلاس سے خطبات کے اقتباسات ہیں۔یہ سب خوش آئند ہے کہ عالم اسلام کو متحد کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور کچھ ممالک نے عملی مظاہرہ بھی کیا ہے ۔لیکن اب وقت بیانا ت دینے کا نہیں بلکہ عمل کرکے دکھانے کا ہے۔کشمیروفلسطین کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک عالم اسلام کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتا ۔قراردادوں سے یہ مسائل حل ہونے ہوتے تو آج سے بیس سال قبل ہوچکے ہوتے ۔اس وقت ضرورت ہے عمل کی اور عمل اسی صور ت میں ممکن ہوگا جب اﷲ پر توکل کرکے اپنے فیصلے خود کرنے اور عالم اسلام کے تحفظ کے لئے پختہ اقدامات کئے جائیں گے ۔
Muhammad Atiq Ur Rhman
About the Author: Muhammad Atiq Ur Rhman Read More Articles by Muhammad Atiq Ur Rhman: 72 Articles with 61834 views Master in Islamic Studies... View More