لندن میں کوئی اپنے اثاثوں کا تحفظ کر رہا
ہے، کوئی ان کی سراغ رسانی میں پھر رہا ہے۔ کوئی یہاں راء کی ایجنٹی کے داغ
دھبے دھو رہا ہے۔ ایسے میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، کے پی کے میں لا
تعداد لوگ بارشوں اور زلزلہ سے لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں ہیں۔ لا تعداد
رہائشی مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ سڑکیں اور پہاڑ سرک رہے ہیں۔ ڈنہ اور شوائی
ہی نہیں بلکہ ہر علاقے میں لوگ متاثر ہو ئے ہیں۔ ابھی برسات کا موسم آنے
والا ہے۔ زمین آج ہی پھٹ رہی ہے۔ لوگ بے یار ومددگار ہیں۔سیاستدان الیکشن
توڑ جوڑ کر رہے ہیں۔ حکام یا تو پروٹوکول تقاضے پورے کرتے ہیں یا بھاگتے
چوروں کی لنگوٹی کے پیچھے پڑے ہیں۔
جہاں میرٹ پامال ہو۔ ناخواندہ اور ناہل لوگ پالیسیاں تشکیل دیں۔ تو یہی ہو
گا۔ راولپنڈی کو آزاد کشمیر سے ملانے والی شاہرائیں ان کے لئے سونے کی
کانیں ہیں۔ یہ ان کے ہاتھ میں ایسے چیک ہیں جو کسی بھی کیش ہو جاتا ہے۔ مری
کوہالہ شاہراہ ایسے متاثر ہوئی ہے کہ دو ہوٹلوں اور سٹوروں کا نام و نشان
ہی مٹ چکا ہے۔ یہاں سے گزریں تو کوئی یقین نہیں کرتا کہ چند دن قبل تک یہاں
تعمیرات تھیں اور یہاں کی رونقیں عروج پر تھیں۔
مری مظفر آباد شاہراہ ایک ہفتہ سے بھی زیادہ عرصہ تک بند رہی۔ اس وقت مرغ
110روپے کلو تھا۔ متبادل راستہ پنڈی براستہ ایبٹ آباد تھا۔ پنڈی سے مظفر
آباد کا سفر تین چار گھنٹے کے بجائے سات آٹھ گھنٹوں میں طے ہونے لگا۔ اس
وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ جب پنڈی مظفر آباد راستہ بحال ہوا تو
قیمتیں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئیں، آج مرغ 200روپے کلو ہے۔ حکامبے بس اور
لاچار بنے ہیں۔ وہ سیاسی تجاوزات ہٹانے میں لگے ہیں۔ ہٹو بچو کی صدائیں لگا
رہے ہیں۔ تا کہ ان کے قافلے میں شامل وزیر مشیر، جھنڈی والا نان سٹاپ منزل
پر پہنچ جائے۔ یہ ایک چھوٹا س اشہر ہے۔ ندی نالے ، نیلم جہلم دریا ہیں۔ جو
پہاڑوں کو سرکاتے اور زمین کے کٹاؤ کا ایک سبب بنتے ہیں۔ فنڈز کا بہتر اور
معقول استعمال ہوتا تو ان ندی نالوں ، نیلم جہلم دریا کے دونوں جانب کنکریٹ
دیواریں تعمیر کی جاتیں۔ شجر کاری ہوتی ۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ 2005کے زلزلہ
کے بعد لوگ یہاں آ کر رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ انہیں ڈھلوانوں،
دروں ، نالوں کے آس پاس جگہ دستیاب ہوئی۔ یہ ان کی مجبوری تھی۔ کوئی رہائشی
بستی بھی نہیں۔ میرا تنولیاں میں 90کی دہائی میں ایک سکیم شروع کی گئی۔ ایم
ڈی اے اسے عوام کے لئے تسلی بخش اور سہولت مند نہ بنا سکی۔ اب اس نے لنگر
پورہ، ٹھوٹھی سٹیلائٹ ٹاؤنز مین پلاٹ تقسیم کرنے کے لئے درخواستیں فروخت
شروع کیں۔ ایک فارم کی قیمت تین ہزار روپے رکھی۔ لوگ اس بارے مین زیادہ پر
امید نہ تھے۔ ایم ڈی اے کا ریکارڈ اور سیاسی مداخلت سب کے سامنے ہے۔ یہاں
اہم اداروں میں افسوس کی ھد تک سیاسی مداخلت ہے۔ اگر سیاسی حکومت اپنے
لوگوں کو اداروں کا سربراہ بنائے گی۔ ان کا میرٹ ان کی وابستگی ہو گا۔ کوئی
معیارنہیں۔ پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے کا چندہ ملے گا۔ ادارے سے کما
ئی میں حصہ طلب ہو گا۔ اپنی بھرتیاں ہوں گی۔ من پسند تبادلے ہوں گے۔ تو یہی
ہو گا۔ سب کہتے تھے کہ عدالت کا سٹے آئے گا۔ وہی ہوا۔ عدالت نے سٹے دے دیا۔
ہزاروں فارم فروخت ہو چکے تھے۔ عوام عدلیہ کی طرف انصاف کے لئے دیکھ رہے
ہیں۔ جج حضرات اگر میرٹ پر تقرر ہوں گے تو ان سے امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر
سفارش اور تعلقات، برادری کا کلچر چلتا رہے گا تو اس نظام کو زوال پذیر
ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لوگ سفارش سے غلط کام کرانے پر دباؤ ڈالتے
ہیں۔ اپنے اہم تعلقات کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ یہ ایک مافیا ہے ۔ جو ہر ایک
شعبہ میں موجود بہے۔ مگر تشویش یہ ہے کہ اس مافیا میں گٹھ جوڑ اور ساز باز
ہو رہا ہے۔ ان کے آپس میں لنکس ہیں۔ جو فوری متحرک ہو کر نظام کو مفلوج اور
ماحول کو اپنے حق میں ساز گار بنا دیتے ہیں۔ ان کے آگے یہ بارش، زلزلہ کے
متاثرین کس کھیت کی مولی ہیں۔ اس مافیا نے شہروں کی زیادہ تر زمینی پر قبضۃ
جما لیا ہے۔ شاملات، کاہ چرائی، محفوط اور دیہہ جیسی اراضی پر قبضہ جمانے
کے بعد یہ اسے فروخت کر رہے ہیں۔ اس میں محکمہ مال کے بعض حرام خور پٹواری،
گرداور، نائب تحصیلدار، تحصیلدار، اے سی ، کمشنر جیسے لوگ بھی شامل ہو جاتے
ہیں۔ سروے کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان لوگوں نے سرکاری اراضی پر منظم
انداز میں قبضہ کیا ہو اہے۔ جبکہ یہ زمانہ قدیم میں مشترکہ زمین تھی۔ یہ
پہلے جانوروں کی چراہ گاہ تھی۔ اب انسانوں کی چراگاہ ہے۔ ایک بار آزاد
کشمیر کے سابق صدرسردار عبد القیوم مرحوم نے کہا تھا کہ یہ زمین عوام کو دی
جائے۔ اب کوئی مال مویشی نہیں تو شاملات، کاہچرائی کیسی۔ انہوں نے ایک بار
محکمہ مال کے افسران سے پوچھا کہ کیا اب یہاں سردار قیوم گھاس چرنے آئے گا۔
وہ اسے عوام میں تقسیم کرنے کے خواہشمند تھے۔ اسی وجہ سے مظفر آباد کی بعض
محفوظ کاہ چرائی تک کو شاملات اور بندوبستی بنایا گیا۔ یہ ایک مناسب قدم
تھا۔ مگر فائل کمشنر بندوبست کے دفتر میں شاید گم ہو گئی۔ کچھ سائنسی شعور
کا احساس ہوتا تو محکمہ مال کمپیوٹرائزڈ اور ای گورنمنٹ پر فوری عمل در آمد
کیا جاتا۔ ایسی سنجیدگی نہیں ہے ورنہ لینڈ سلائیڈنگ کے متاثرین کھلے آسمان
تلے نہ پڑے رہتے۔اربوں روپے کوہالہ مظفر آباد، نیلم جہلم شاہراؤں پر لگا
دیا گیا۔ مگر دریا ؤں کے دونوں طرف کنکریٹ دیوار، نالوں پر دیوار بندی،
سڑکوں پر پانی کی نکاسی کے لئے نالیاں ، کلوٹ، سیوریج کی طرف توجہ نہ دی
گئی۔ زرا سی بارش سڑکوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ یہ کھنڈر بن جاتی ہیں۔ ضرورت
صرف خلوص اور سنجدگی کی تھی۔ ذمہ دار شہریت کا درس ہمیں کہیں نہیں ملا۔
روپے کمانے کی مشین بننے کی دوڑ میں لوگ شامل ہو رہے ہیں۔ شاہراہ قراقرم
جیسی سڑکیں بھی لیند سلائیڈنگ کی زد میں آئی ہیں۔ ان بارشوں نے ایسے علاقوں
میں بھی سلائیڈنگ کی ہے جہاں اس کا کبھی گمان بھی نہ تھا۔ ضرورت اس بات کی
ہے کہ عوام کے ٹیکسوں کو یوں ضائع نہ کیا جائے۔ بلکہ جامع منصوبہ بندی سے
حساس اور اہم نوعیت کی شاہراؤں کی تعمیر و مرمت کی طرف توجہ دی
جائے۔اب03009568439پر موصول ہونے والے پیغامات۔ آپ کے کالم’’نئی تعلیمی
پالیسی کی ضرورت‘‘پڑھا ۔سرکاری تعلیمی ادارے محض ایمپلائمنٹ ایکسچینج کا
کردار ادا کر رہے ہیں اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے ’’صنعت‘‘ کی صورت اختیار
کر چکے ہیں۔ ایک طرف معیار تعلیم کا جنازہ اٹھ رہا ہے اور دوسری طرف
کاروبار سج رہا ہے۔ قوم کدھر جائے؟ آزادکشمیر میں تعلیم کے دو وزراء صاحبان
اور دو تعلیمی ٹھیکیداران ہیں۔ مطلوب انقلابی اور میاں وحید پر ’’تعلیمــ
کا بڑا بوجھ لدا ہوا ہے۔ چوہدری مجید اور قمرالزمان ریاست کو ایجوکیشن سٹی
بنانے میں مصروف ہیں ۔لیکن نتائج صفر سامنے آرہے ہیں۔کبھی وقت نکال کر
اعداد و شمار کے ساتھ یہ بھی لکھیں کہ ریاست سرکاری سطح پر ایک طالب علم پر
قوم کی کتنی رقم سالانہ خرچ کرتی ہے اور سال بعد اس کا نتیجہ کیا نکلتا
ہے۔خالد محمود کیانی، باغ آزادکشمیر۔03425204175۔آپ نے موجودہ تعلیمی
پالیسی اورنظام کی خامیوں کی درست نشاندہی کی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹرنے
ایجوکیشن کو ٹریڈ بنا رکھا ہے۔ نیز حکومت کا تعلیم کو پرائیویٹ کرنے کا
رحجان پرائیویٹ سیکٹر کے لوٹ کھسوٹ کے نظام کو تقویت دے رہا ہے اور
نوجوانوں کو مایوس کر رہا ہے۔ ایم عباس بہاولپور۔03447162841۔آپ نے سو فیصد
سچ لکھا ہے۔ میری تجویز ہے کہ پرائیویٹ سکول بند کر دیئے جائیں تو غریب
امیر کا بچہ گورنمنٹ سکول جائے گااور سب ٹھیک ہو جائے گا۔ نذیر خان ،کورنگی
کراچی03452869215۔تما م سکول کا یکساں اور گورنمنٹ سے منظور شددہ نصاب ہونا
چاہیئے۔ کتب، کاپیاں من پسند جگہ کے بجائے ستوڈنٹس کو آزادی دی جائے کہ وہ
جہاں سے مناسب سمجھے خریداری کرے۔ ایم طاہر،فورٹ عباس03026372006۔آپ کا
کالم’’ نئی تعلیمی پالیسی کی ضرورت ‘‘حقیقت پر مبنی ہے۔ یکساں نصاب
ہو۔سرکاری ملازمین اور استاد اپنے بچے سرکاری سکولوں میں داخل کریں۔نام
نہیں لکھا۔03555105839۔ |