بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
( طہارت )
ہمارے بچپن کی بات ہے ابا جان بیرون ملک سفر پر جارہے تھے۔ ہم بچوں کی
دلچسپی ان کے ساتھ جانے والے سوٹ کیس میں تھی۔پلاسٹک کا جگ ہم سب کے لیے
حیرت کا باعث بن رہاتھا۔ وجہ جان کر ہم سب ہنس ہنس کر دہرے ہورہے تھے مگر
ساتھ ہی یہ بات سخت عجیب لگی تھی کہ یورپی لوگ طہارت کے لیے پانی استعمال
نہیں کرتے جبکہ ہمارے یہاں تو ننھے بچے کو بھی پانی سے دھویا جا تا ہے !
ٹوائلٹ پیپر اور پر فیوم کا مقصد بھی حیران کن لگا تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ
مسلم شاور کی اصطلاح سنی اور دیکھی گویا ستھرائی کا یہ منفرد طریقہ اسلام
کا طرہ امتیاز ہے! کس قدر فطر ی اور پاکیزہ طریقہ ہے۔ سورہ توبہ میں اﷲ نے
اسے پسند کیا ہے ! قابل فخر اسلامی تہذیب انسان کو کہیں بھی تنہا نہیں
چھوڑتی !
ایک بہت اعلٰی خاندان کی ہندو عورت نے یہ بات محسوس کی کہ اس کے ارد گرد
اتنے امیر اور تعلیم یافتہ افراد ہیں مگر سب کے پاس سے ایک ناگوار بو آ تی
ہے جبکہ گھر میں آنے والے مسلمان حتٰی کہ غریب دھوبی تک اس بو سے دور ہیں۔
وجہ جان کر فوراً مسلمان ہوگئی۔
٭ اسلام کا نظام طہارت اعلٰی تہذیب کا اظہار ہے!
( پلاؤ یا پزّا؟ )
آج کسی بچے سے پسندیدہ کھانا پوچھیں تو پزّا کہے گااور پسندیدہ جگہ pizza
hut!
گلوبل ولیج نے دنیا واقعی سمیٹ دی ہے! ہمارے بچپن میں معلومات کے ذرائع
مختصر تھے۔ایک دفعہ کسی نے یورپ کے سفر کی تفصیلات بتاتے ہوئے pizzaکا ذکر
کیاتوہم چونک گئے کہ کبھی دیکھا نہ سناتھا ۔ پوچھنے پر بتایا گیاکہ یہ وہاں
کی روٹی سی ہوتی ہے جس پر پنیر وغیرہ لگا ہوتا ہے۔ہمیں شوق چرایا کہ ہم بھی
کھائیں تو امی سے بنوایا ! کوئی خاص مزیدار نہ لگا اور لگتا بھی کیسے ؟ اس
کی اصلی شکل تو تھی نہیں ! بہت سالوں بعدجب ہم نے پہلی دفعہ اصلی پزا دیکھا
تو اپنے بچپن کا پزّایاد کرکے ہنسی آ گئی۔
دنیا بھر میں پھیلے انسان اپنی معاشرت کے حساب سے کھانا پسند کرتے ہیں ۔
منہ کاذائقہ بدلنے کے لیے
دوسروں کی غذا بھی چکھ لیتے ہیں مگر مسلمان پزّا کھائیں یا چائینیز ، پلاؤ
کھائیں یاکباب! شرط صرف حلال غذا ہوتی ہے! کبھی کبھی کبھار غذا بھی تبلیغ
کا ذریعہ بن جاتی ہے! علامہ اقبال کے حوالے سے ایک مشہور واقعہ ہے جب ایک
غیر مسلم نے پلاؤ کھا کر اسلام قبول کرلیا تھا کہ جس قوم کی غذا کا ذوق
اتنا اچھا ہو گا وہ واقعی بہترین ہوگی! یہ ہی بات تو ہے کہ فرانس میں بڑھتی
ہوئی کبابوں کی دکانیں یورپ کے لیے خطرہ بن رہی ہیں توامریکہ میں فلفل یعنی
مرچ پر پابندی لگانے کی بات ہورہی ہے!اب ان کو کیا پتہ کہ غذائیت اور لذت
اجزائے ترکیب میں نہیں بلکہ صرف حلال کھانے میں ہے! حلال کھانے میں ایک نور
ہوتا ہے جو کچھ خاص افراد دیکھ سکتے ہیں!
٭ مسلمان کچھ بھی کھائیں بس حلال اور پاکیزہ ہو!
حرام تو گنتی کی چند چیزیں ہیں باقی پورا دستر خوان کھلا ہے !
( اﷲ کی چال غضب کی ہے! )
ایک دفعہ کامکس پڑھتے ہوئے لفظ ویلنٹائن آیا ۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ ایک ننھی بچی اپنے والدین سے اپنے کسی دوست کا ذکر کرتی
ہوئے کہتی ہے کہ میں اس سے ناراض ہوں کیونکہ اس نے مجھے ویلنٹائن کا تحفہ
نہیں دیا․․․․اور ماں باپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ہما ری بیٹی اتنی بڑی
ہوگئی کہ اسے ویلنٹائن کا انتظار اور ضرورت ہے․․․․․․․اور ہم اس لفظ پر اٹک
گئے کہ آخر کیا ہے؟ بڑوں سے پوچھا تو لاعلم ! اب آج کا زمانہ تو تھا نہیں
کہ گوگل سے پوچھ لیتے! دوسری بات یہ کہ اگر آج کا دور ہوتا تو ہم اتنے
نابلد نہ ہوتے اس لفظ سے! ڈکشنری سے یہ مسئلہ حل کیا اور کہانی مکمل
کی․․․․․
میڈیا کی ترقی ہے کہ بچے ہر اس لفظ سے مانوس ہیں جو ان کے لیے قطعاً غیر
ضروری اور نقصان دہ ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ ہمارے ہاں آئی ٹی میں انوسٹمنٹ
کا مقصد صرف اور صرف اس در کو کھولنا ہے جہاں تعفن اور گندگی ہے ! جی ہاں !
لادینی ثقافت اور تہذیب کے گندے انڈے جن کی بد بو دماغوں کو پراگندہ کر رہی
ہے۔ اس تہذیب کو ہمارے معاشرے میں مسلط کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے یہ
بظاہر ہے مگراس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس یلغار نے ہر طبقہ فکر کو چونکا
دیا اور وہ اس کے خلاف ڈٹ گئے۔کامیابی شاید ان کو بھی نہ ملی مگر وہ یہ
احساس تو زندہ کرگئے کہ ہمارا معاشرہ مردہ نہیں ہے! سب سے بڑھ کر یہ کہ نئی
نسل اس بے ہودہ رسم کے بارے میں لاعلم نہیں رہی بلکہ اس کا توڑ بھی کر رہی
ہے ۔الحمد ﷲ ! شیطان کی چالیں اپنی جگہ مگر اس کے خلاف کشمکش ہی تو ایمان
کا تقاضاہے !مبارک کہ معاشرہ زندہ ہے سوائے چند نفس پرست مردہ لوگوں کے !
٭ اﷲ کی چال بڑے غضب کی ہے! وہ شیطان کی چالوں کو الٹ دیتا ہے
( ہماری شلوار )
’’ شلوار ؟ ٹراؤ زر کہیں نا! ‘‘کسی بچی نے ہماری زبان درست کرتے ہوئے
کہا۔ہم کپڑے کی سلائی پر بات کر رہے تھے ۔اس کے اعتراض پر سوچ میں پڑ گئے
کہ شلوار کیا ہے؟ یہ ہماری زندگی میں کب سے ہے ؟ بہت بچپن میں بھی شلوار کے
بغیر فراک ادھوری لگتی تھی ․․پھر جمپر کے ساتھ بیل باٹم اور فلیپر بھی
پہنا! پہلی دفعہ شلوار سینے کا اتفاق انٹر کی چھٹیوں میں ہوا جب ہم با
قاعدہ سلائی سیکھ رہے تھے۔ ورنہ اس سے پہلے تو بس امی یا کسی بڑے کے کہنے
پر سلائی جوڑ دیتے تھے ․․․․اس موقع پر مشہور مصنفہ سلمٰی یاسمین نجمی کا
مزیدار مضمون پڑھنے کو ملا جس میں انہوں نے اپنی شلوار کی سلائی کو موضوع
گفتگو بنا یا تھا! زبر دست ترکیب (articulation ( ہوتی ہے کسی پزل کی طرح
ٹکڑے جڑ تے چلے جاتے ہیں اور شلوار تیار !!
ہاں تو ہم شلوار سینا سیکھ گئے ۔اتنا مزہ آ یا کہ بتا یا نہیں جا سکتا !
خاص طور پر بیلٹ لگانا ! خاصہ ہنر مندی کا کا م ہے جیسے حساب میں فارمولے
لگاکر متعین جواب حاصل کر لیا جا ئے تو خوشی حاصل ہوتی ہے !
شلوار سینا اتنا بڑا فن ہے ہمیں تو اندازہ ہی نہیں ہوتا ! وہ تو ہماری
بھاوج جو مشرق وسطٰی سے تعلق رکھتی ہیں جب پاکستانی شلوار لے کر مقامی
اعلٰی درزی کے پاس لے کر گئیں کہ ایسی بنا دو تو وہ اپنے تمام ہنر و فن کے
باوجود اس کو ڈیزائن کرنے سے قاصر رہا اور یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ
․․․․․پاکستانی بہت اعلٰی ذہن رکھتے ہیں․․․․!تو عزیز بہنو ! ہماری شلوار بہت
بڑا شاہکارہے ۔اس کی قدر کریں کہ اس کو سینا اور پہننا عمدہ ذوق کی نشانی
ہے !
آئیے! اپنی شلوار کو رواج دے کر واپس لائیں !
آپ اپنے مردے کا کیا کرتے ہیں ؟
یہ سوال ایک چینی سے کیا گیا اور اس نے بات ٹال دی۔ وجہ ؟ مشرق خصوصا ً چین
ایک پر اسرار قوم ہے لہذا اس کے رسم و رواج بھی حیرت ناک ہیں ۔اس موضوع پر
بات کرتے ہوئے ہم دیگر اقوام کے مرنے جینے کے طریقوں پر گفتگو کرنے لگے۔ یہ
موقع تھا جب ہماری بھا وج چین میں تین ماہ گزار کر واپس آئی تھیں اور ہم ان
سے وہاں کے حالات سن رہے تھے۔
بات پہنچی جب تقابلی جائزے کی تو اندازہ ہوا کہ کوئی قوم اپنے پیاروں کو مر
نے کے بعد جلادیتی ہے اور پھر راکھ محفوظ کر لیتی ہے ۔ دوسری قوم اپنے مردے
کو چیل کووں کی غذا بننے کے لیے کنوئیں میں ڈال دیتی ہے ․․․․․وغیرہ وغیرہ
۔اور جو اہل کتاب دفن کرتے ہیں ان میں بھی افراط و تفریط کا معاملہ نظر آتا
ہے جبکہ اسلام میں اپنے مردے کو نہلا دھلا کر پاک صاف کر کے آخری سفر پر
روانہ کرنا ایک ممتاز طریقہ ہے ! جن لوگوں کو کبھی کسی مردے کو نہلانے کا
اتفاق ہوا ہے تو انہوں نے ضرور ایک روحانی سا احساس کیا ہو گا! کسی ایسے
فرد کو تیار کرنا جس کی ملاقات فرشتوں سے ہونے والی ہے کتنا روح پرور ہوتا
ہے ! اگر کسی ماہر حسن کو ہوجائے تو اسے دلہن تیار کرنے سے زیادہ خوشی ملے
شاید !!
پچھلے دنوں ایک سر جن کی ویڈیو دیکھی جو ایک عشرے سے امریکہ میں تجہیز و
تکفین اور تد فین کا کام کر رہا ہے ! کس قدر جذباتی انداز میں وہ اپنے
تجربات کیمرے میں بتا رہا تھا! سبحان اﷲ !
٭ مسلمانوں کا آخری سفر پر روانگی کا منظر کتنا شائستہ اور پاکیزہ ہے !!
|