عالمی یوم وراثت اور ملک کا بدلتا روپ
(Syed Ahmed Qadri, India)
جب سے مرکز میں بھارتیہ
جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے ۔ اس وقت سے ملک میں حکومت وقت کی شہہ پر
متعصب اور مذہبی منافرت پھیلانے والے لوگوں کی جانب سے ہر طرف، نہ صرف
بدلاؤ کا نعرہ دیا جا رہا ہے ، بلکہ عملی جامہ پہنانے کی منظم کوششیں بھی
کی جا رہی ہیں ۔
اس امر سے ہم انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کی ایک شاندار تاریخ رہی
ہے ۔ گنگا جمنی تہذیب ، اعلیٰ قدریں ، مختلف رسم و رواج ، مذہبی رواداری ،
اخوت، بھائی چارگی نیز مختلف زبانوں اور مذاہب کی بہترین روایات سے پوری
دنیا میں ایک خاص پہچان ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے ملک میں فنون لطیفہ کی
یادگار اور شاندار وراثتیں بھی قائم ہیں ،جو کہ ہمارے ماضی کی یادگار ہیں۔
اگر ہم تعصب کی عینک اتار کر اپنے ملک کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں، تو
ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے ملک کے اندر ہندو راجاؤں نے مسلمانوں کے مذہبی
احساسات وجزبات کا احترام کرتے ہوئے جہاں کئی مساجد اور خانقاہوں کی تعمیر
کرائی ، وہیں مسلم بادشاہوں نے بہت ساری مندروں اور مٹھوں کے لئے اپنے
خزانے کھول دئے تھے۔ اورنگ زیب جیسے مشہور کٹّر مسلم بادشاہ تک نے دو گاؤں،
سمیشور مندر کی دیکھ بھال اور دیوتا کے بھوگ کے لئے جاگیر منظور کئے تھے ۔
یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں ، بلکہ سابق گورنر اورمشہور تاریخ داں بی این
پانڈے نے اپنے ایک مضمون میں لکھی ہے ۔ ایسی ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے
موجود ہیں۔ لیکن افسوس کہ ایسی شاندار تاریخ پر وقت کی دھول جمتی جا رہی ہے
اور دوسری جانب ایسے تمام تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پوری طرح مسخ کر نئی
تاریخ لکھی جا رہی ہے ، بلکہ اس کے لئے خفیہ طور پر ایک شعبہ بھی قائم کیا
گیا ہے ۔
ایسے حالات میں 18 اپریل کا دن اس لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ اس دن
کو UNESCO یعنیUnited Nations Educational Scientific and Cultural
Organization نے نومبر 1983 میں اپنی 22 ویں سیشن میں International
Monuments and Sites day کے طور پر منائے جانے کا تاریخی فیصلہ کیا تھا ۔
یہ در اصل ICOMOS یعنی International Council for Monuments Sites کی
کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ جس نے 18 اپریل1982 کو ٹیونیشیا میں اس موضوع پر ایک
سمپوزیم کا انعقاد کیا اور یونیسکو سے اس دن یہ مطالبہ کیا کہ عالمی سطح پر
International Monuments and Sites day منانے کا فیصلہ کرے ۔ اس مطالبہ کو
یونیسکو نے نہ صرف فیصلہ میں بدلا ، بلکہ اس دن کو جشن وراثت کا نام دیتے
ہوئے اس دن بطور خاص ایسی قدیم عمارتوں اور یادگار جگہوں پر جانے ، ان کی
تاریخی اہمیت بتانے اور ان کے تحفظ پر توجہ دینے کی بات کی اور اسے World
Heritage Day کا نام دیا ۔ چناچہ اس فیصلہ کے بعد سے ہر سال 18 اپریل کو
مختلف ممالک میں مختلف قدیم اور یادگار عمارتوں کے لئے کوئی نئی تھیم کے
ساتھ سیمنار ، سمپوزیم، بحث ومباحثہ کے انعقاد پر بھی زور دیا ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو 18 ؍اپریل کا یہ دن اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ
پوری دنیا کے لوگ اپنے اپنے ملک کی قدیم عمارتوں اور یادگار کے سلسلے میں
نہ صرف معلومات حاصل کریں ، بلکہ ان کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے
ان وراثتوں کی ہر ممکن طور پر حفاضت کو یقینی بنائیں ۔ اس لئے کہ یہ ہماری
وراثت صرف قدیم عمارتیں نہیں ہیں ، بلکہ ان میں ہماری پرانی اور قدیم
روایات، تہذیبیں ، تمدن کی جھلک پوشیدہ ہیں اوران میں اپنے اپنے ادوار اور
عہد کی جیتی جاگتی تاریخ جھانک رہی ہیں ۔ ان کا تعمیری حسن ، ان کی دیواروں
، دروازوں ، کلسوں، گنبدوں ، محرابوں اور میناروں سے عیاں ہیں ۔ ان عمارتوں
میں کیسے کیسے نادر پتھروں کو سجایا گیا ہے ، کس کس طرح سے تراش خراش کیا
گیا ہے ۔ ان کی حسن کاری میں، کس طرح کا تعمیری مزاج وشعورکارفرما رہا ہے،
اس کا بھی بھرپور اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔حالانکہ اس زمانے میں جب ایسے
وسائل موجود نہیں تھے ، جو آج ہمارے پاس موجود ہیں ، پھر بھی فن تعمیر کا
اس قدر اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم اپنے ملک کی ایسی شاندار اور یادگار قدیم وراثت
کی اہمیت و افادیت سے غافل ہیں ۔ حکومت وقت بھی ایسی قدیم عمارتوں کے
استحکام سے لا پرواہ ہے ۔ جس کی ایک مثال اس وقت میں پیش کرنا چاہونگا ۔ وہ
ہے بہار کے تاریخی شہر سہسرام میں واقع شیر شاہ روضہ کی مثال ۔ جسے محکمہ
سیاحت نے اپنے تحویل میں لے تو لیا ہے ضرور ، لیکن اس تاریخی عمارت اور اس
کے آس پاس پھیلے باغات و تالاب کی حفاظت کی جانب کوئی توجہ نہ ہونے باعث آس
پاس کے باغات اور تالابوں پر بڑے پیمانے پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور حکومت
خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ کچھ ذمّہ دار افراد اور تنظیمو ں نے حکومت کی
توجہ اس بہت حساس معاملے پر کئی بار دلائی ۔ لیکن ہر صدا ، صدا بہ صحرا
ثابت ہو ئی ۔ ایسی بہت ساری ہماری وراثت ہیں ، جن پر ہمیں اورحکومت وقت کو
خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
اب جہاں تک ملک میں موجود وراثت یا میراث کا تعلق ہے تو ایسی ہزاروں قدیم
عمارتیں اور یادگار ہیں ، جن کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا
ہے ۔ لیکن 2014 میں UNESCO نے بھارت میں ایسی 32 وراثتوں کی نشاندہی کی ہے
۔ جن میں دس سر فہرست یادگار میراث جو شامل ہیں ، ان میں سب سے پہلے تاج
محل کا نام ہے ، جو دنیا کے سات عجائبات میں بھی شمار کیا جاتا ہے ۔ دوسرے
نمبر پر قطب مینار ہے ، تیسرا سوریہ مندر ، چوتھا مونومینٹس آف کھجوراہو ،
پانچواں مہابودھی مندر(گیا)، چھٹا ، کازیرنگا نیشنل پارک(آسام) ساتواں چولا
ٹیمپل(تامل ناڈو)، آٹھواں ، اجنتا کیوس(مہاراشٹر)، نوواں ، ماؤنٹین ریلویز
ان انڈیا (دارجلنگ سے ہمالین ریلوے، مغربی بنگال، نیل گری ماؤنٹین ریلوے،
تامل ناڈو اور کالکا سے شملہ ریلوے، ہماچل پردیش) اور دسواں ، فتح پور سکری
(آگرہ) کا نام شامل ہے ۔
یہ دسوں ہماری ایسی وراثتیں ہیں ، جو ہمارے لئے بلا شبہہ قابل فخر ہیں ۔ ان
میں ایک طرف جہاں منفرد نقش و نگار ، فن تعمیر ، سنگ تراشی اور فنکارانہ
حسن کے اعلیٰ نمونے ہیں ، تو دوسری جانب اپنے وقت اور عہد کے تاریخی حیثیت
کو بیان کرتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے ان قابل
فخر اور قابل قدر تاریخی وراثت کی محافظت کیا کرینگے ، انھیں مسمار کرنے
میں بھی ہمیں کوئی تامل نہیں ہے ۔ ذرا ایک نظر ڈالئے منہدم ہونے سے قبل کی
تاریخی بابری مسجد پر ۔ کس قدر شاندار پتھروں سے اس کے گنبدوں ، میناروں ،
محرابوں سے مذین اور فن خطاطی کے نادر نمونے موجود تھے۔ جسے ہم نے مذہبی
منافرت اور تعصب کے ہتھوڑوں سے اسے بڑی بے دردی سے تاریخ کے اس اہم باب کو
منہدم کر اپنی پیٹھ تھپ تھپا رہے ہیں ۔ اسی طرح ملک کی کئی مایہ ناز تاریخی
وراثتوں کو ختم کرنے کی منظم کوششیں ہو رہی ہیں ۔ اب بعض نام نہاد اور
ناعقبت اندیش تاریخ داں ایسے بھی سامنے آ رہے ہیں ، جو بڑی بے شرمی سے یہ
کہہ رہے ہیں کہ قطب مینار، لال قلعہ ، قلعہ آگرہ اور تاج محل وغیرہ ہندوؤں
کی تعمیر کردہ عمارتیں ہیں ۔ جن پر قرانی آیات کندہ کرکے مسلمانوں نے اپنا
نام دے دیا ہے ۔ یہ نام نہاد تاریخ داں تعصب میں اس قدر اندھے ہو گئے ہیں
کہ انھیں ان عمارتوں کے تعلق سے مستند موجودثبوت وشواہد کی بھی پرواہ نہیں
۔ ان عمارتوں کی تعمیر کے لئے شاہجہاں نے کہاں کہاں سے لال پتھر اور سنگ
مرمر منگوائے تھے اور اس ضمن میں مختلف ممالک سے جو خط و کتابت ہوئی تھی ،
وہ آج بھی آرکا ئیو میں موجود ہیں ۔ ابھی ابھی تاج محل کا قضیہ اتر پردیش
کی عدالت تک پہنچا تھا کہ یہ دراصل ایک مندر تھا ، جسے مسلم حکمراں نے قبضہ
کر لیا تھا ۔ وہ تو کہئے کہ عدالت میں ان لوگوں کو منھ کی کھانی پڑی ، ورنہ
ایسے لوگوں کے حوصلے اوربڑھ جاتے ۔
ان حالات میں 18 اپریل کے اس یادگار دن کو قومی سطح پر منائے جانے اور اس
موقع پر سیمنار ، سمپوزیم اور ڈیبیٹ وغیرہ کا انعقاد کر نے کی سخت جرورت ہے۔
اس دن کو UNESCO نے اسی لئے World Heritage Day کے طور پر منانے اور اپنی
وراثت کو یاد کرنے کا دن مقرر کیا ہے ۔ اس دن ہمارے سیکولر تاریخ داں ،
اساتذہ، مضمون نگار و کالم نگار اپنے ملک میں قائم وراثتوں کی تاریخ بیان
کریں ۔ اس سے نہ صرف تاریخی حقائق سامنے آتے رہینگے بلکہ نئی نسل ان حقائق
سے روبرو بھی ہونگے، ساتھ ہی ساتھ جھوٹھی تاریخ اور تھوتھی دلائل کو مسترد
کرینگے ۔
اس وقت ہمارے ملک کی جو صورت حال ہے اور جس تیزی سے منافرت ، تنگ نظری،
عصبیت اور ہٹ دھرمی فروغ پا رہی ہے اور پورے ملک میں جو مسموم فضا قائم ہو
رہی ہے ، ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ہماری ذمّہ داریوں اور فرائض کے تقاضے
یقینی طور پر بڑھ جاتے ہیں ۔اگر اس جانب ہم نے بہت سنجیدگی سے توجہ نہیں دی
، تو وہ دن دور نہیں جب کسی شاعر کے ایک شعر کا یہ مصرع صادق آئے گا کہ ـ
’’ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں ‘‘۔ |
|