ایک مر تبہ گوتم بُدھ اپنے پیرو
کاروں کے ساتھ کسی گاوں کے قریب ایک جنگل میں بیٹھا واعظ و تبلیغ میں مصروف
تھا کہ ایک د یہا تی اُس کے سامنے آکھڑا ہوا اور پوچھا تم میں سے بُدھا
کون ہے ؟ گوتم بُدھا نے سر کی جنبش سے جواب د یا کہ میں بُدھا ہوں ۔ اُس د
یہاتی کی آنکھیں غصے سے تن گئیں اور اُس نے نہائت حقارت سے بُدھا کے چہر ے
پر تھوک د یا ۔
اُس کے پیروکاروں کو غصہ آگیا اور اُس کے ایک قر یبی ساتھی اشوکا نے اُس د
یہاتی کی گستاخی پر اُسے پکڑ کر ما ر نا چا ہا ، مگر بُدھا نے اُسے ا یسا
کر نے سے روک د یا ۔ پھر گوتم بدھ ا پنے پیروکاروں سے مخا طب ہوا اور کہا
کہ درحقیقت اس نے میرےچہرے پر اپنی نفرت نہیں کسی دوسرے کی نفرت اُنڈیلی ہے
نہ تومیں اس کو جا نتا ہوں اور نہ اس کو میری پہچان ہے ۔ یہاں تک کہ اس
مجمع میں بھی اس کو مجھے شناخت کر نے میں دقت ہو ئی ہے ۔ یہ کسی اور کا حسد
اور نفرت ہے جو اُس نے اس کے سینے میں بھر د ی تھی اور آج اس نے مجھے تلاش
کر کے وہ میرے چہر ے پر اُنڈیل دی ہے ۔
بدھا نے اُس د یہاتی سے کہا،‘‘ جاؤ مجھے تم سے کو ئی انتقام نہیں لینا‘‘۔
وہ دیہاتی واپس گاؤں لُوٹ آیا مگر ساری رات احساس ندامت نے اُسے سونے نہ د
یا ۔ صبح وہ دوبارہ جنگل گیا اور بُدھا کے سامنے کھڑے ہو کر بولا اے نیک
فطرت شخص میں تیرے مقام سے بے خبر تھا ،’’مجھے مُعاف کر دو‘‘۔
گوتم بدھ نے اُس شخص کی طرف نگاہ اُٹھا کر دیکھا اور کہا،’’ تم کس بات کی
معافی ما نگ ر ہے ہو ؟‘‘اس د یہا تی نے کہا ،’’گزشتہ کل میں نے آپ کے چہر
ے پر تھو کا تھا مجھے اس بات کا بڑا رنج ہے ۔‘‘ گوتم مُسکرا یا اور کہا،’’
میں تمھیں نہیں جا نتا جس کے چہر ے پر تھو کا گیا تھا وہ کو ئی اور تھا اور
جس نے تھو کا تھا وہ بھی کو ئی اور تھا میں اور تم آج ملے ہیں ۔ انسان کے
اندر کا انسان روز بدلتا ر ہتا ہے جیسے ہم در یا کے کنارے کھڑے یہ خیال کر
تے ہیں کہ یہ وہ ہی دریا ہے جس کے کنارے ہم کل کھڑے تھے حا لانکہ وہ کل
والا دریا نہیں ہو تا ۔ اُس کے اندر کا سارا پا نی تبدیل ہوچکا ہو تا ہے
اور اُس کی جگہ دوسرا پا نی ہو تا ہے جس پر ہم پتھر پھینک ر ہے ہو تے ہیں
۔‘‘
’’پس تم بھی نئے ہو اور میں بھی نیا ہوں آؤ کو ئی نئی بات کر یں۔‘‘
قا رین !مقصد جتنا بڑا ہوتا ہےاُس کے لیے ہمیں اُتنی ہی بڑی مخالفت درپیش
ہو تی ہے ۔اور جب ہم اس مخالفت کے سامنے ڈٹ جا نے کا فیصلہ کر تے ہیں تو
ہمیں اس کے لیے اتنی ہی بڑی قربا نی بھی د ینا پڑتی ہے ۔ یہ قربانی تضحیک ،قطع
تعلقی ،تشدد،اپنے عزیزوں کی جُدائی ،بلیک میلنگ اور لاتعداد صدموں کی شکل
میں ہو سکتی ہے ۔مگر آفر یں ہے اُوجِ ثریا کے اُن ستاروں پر جو ذرا بھی
مدھم نہیں ہو تے اور اپنے گردو پیش کو بقا نور بناتے ر ہتے ہیں ۔ سسکیوں کو
مسرتوں میں بدلتے ر ہتے ہیں ۔ رات کے وجود سے دن تراشتے ر ہتے ہیں ۔ بانجھ
زمیں کی آغوش میں گلستاں اُگاتے جا تے ہیں ۔ مشکل ر استوں کو آساں بنا تے
جا تے ہیں ۔ ان ہی کے دم سے پھر نئے جہاں آباد ہو تے جا تے ہیں ۔
اور جو لوگ معاف کر دینے کے ظرف سے بے بہرہ ہو تے ہیں یہ ہی لوگ مسرتوں کو
نوچ کر آہوں کو عیاں کر تے ہیں ۔نخلستانوں کو ریگستانوں میں بدل دیتے ہیں
۔ وہ جو خوبصورت چہرے بنا تا ہے وہ جو گم نام پانی سے با سم انساں بنا تا
ہے ۔ اُسی کا نام لے کر انساں ہی انساں کو کاٹ د یتا ہے ۔معصوم غنچوں کے
حلقوم پہ کس بر بریت سے وہ خنجر چلاتا ہے ۔خود تو غرق ہے دوزخ کے نہاں خا
نوں میں ، بھلا اس بد بختی کا وہ بدلہ کیوں پھولوں سے لیتا ہے ۔ وہ یہ کیوں
نہیں کہہ د یتا تم بھی نئے ہو میں بھی نیا ہوں آو کو ئی نئی بات کر تے ہیں
۔ بہلا ہم کیوں لڑتے ہیں ۔ یہ چھو ٹا سا فقرا ایک حیوان کو انسان بنا سکتا
ہے ۔ |