یہ لوگ ہماے لئے اناج ، غلہ پیدا
کرتے ہیں۔ کھیتوں میں گرم سرد موسم کی پروا کئے بغیر مصروف رہتے ہیں۔ ان کی
خواتین بچے بھی ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں ان
کے بچے سکل نہیں جا سکتے۔ یہ لوگ ہاری اور مزارع ہیں۔ نسل در نسل ان کا یہی
پیشہ ہے۔ یہ وہ کاشتکار ہیں جو لینڈ لارڈز کے زر خرید غلام بن چکے ہیں۔
ہماری بھوک مٹانے کے لئے یہ خود بھوکے رہتے ہیں۔ دن رات کھیتوں میں پڑے
رہتے ہیں۔ لیکن ان کے حقوق کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔
پاکستان میں زرعی اصلاحات کے بغیر کسانوں کی اہمیت کا درست اندازہ نہیں
لگایا جا سکتا ہے۔ اس وقت ایک جاگیردار اور زمیندار کے پاس لاکھوں کنال
اراضی ہے۔ یہ زمین اسے کیسے ملی۔ کس نے تحفہ میں دی۔ یہ جاگیریں پہلے
انگریزوں کے قبضہ میں تھیں۔ وہ ان کا مالیہ وصول کرتا تھے۔ یہ ایک قسم کا
ٹیکس تھا۔ ہر ایک پیداوار میں ٹیکس لگتا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کسان
ان ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب گئے۔ چھوٹے کسان زیادہ متاثر ہوئے۔ وہ بڑے کسانوں
اور ساہوکاروں سے قرض لے کر گزارہ کرنے لگے۔ جب یہ قرض واپس نہ کرسکتے تھے
تو یہ زمیندار جاگیردار ان سے ان کی زمین لے لیتا تھا۔ بھوک سے بہتر تھا کہ
وہ زمینیں دے کر گزارہ کر لیں۔ جب زمیندار کو تسلی نہ ہوتی تو وہ اس چھوٹے
کسان کی اولاد بچیاں بھی قرض عدم ادائیگی کی وجہ سے اپنی ملکیت بنا لیتا۔
یہاں آج بھی یہی قانون ہے۔ ان جاگیرداروں زمینداروں کا اپنا قانون ہے۔ وہ
سیاستدانوں کو پارٹی فنڈ کے نام پر بھاری چندے دیتے ہیں اس لئے ان کے
قوانین میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتاہے۔ چاہے یہ اپنے ہاری پر کتے چھوڑ دیں
یا اس کی بیٹی کو اغوا کر لیں۔ یہی لینڈ مافیا والے، یہی جاگیردار اس وقت
ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے آباؤ اجداد نے انگریزوں سے
یہ جاگیریں لی ہیں۔ یہ انہیں خیرات میں نہیں ملیں۔ بلکہ والیان ریاست نے
خوش ہو کر یا مخبری کے بدلے میں یہ تحائف اور بخشیش میں دیں۔ بہت کم
جاگیردار ایسے ہوں گے جن کے پاس یہ زمینیں اپنی وراثت ہیں۔
ملک کی اراضی پر ان جاگیرداروں اور لینڈ لارڈز کا قبضہ ہے۔ اس لئے ہماری
پیداوار کم ہو رہی ہے۔ ہم آلو پیاز تک بھارت جیسے ممالک سے درآمد کرنے پر
مجبور ہو رہے ہیں۔وہ بھی مضر صحت اور غیر معیاری ۔ آسٹریلیا جیسے ممالک سے
سڑی ہوئی گندم خریدنے اور بعد ازاں اسے سمندر برد کرنے کی بھی ایک داستان
ہے۔ ہماری پیداوار کم ہو رہی ہے۔ غلہ اناج کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔ اس کی
ایک بڑی وجہ بھی یہی جاگیرداری نظام ہے۔ جس نے ہماری زرعی پالیسی کو یرغمال
بنا رکھا ہے۔ افسوس ہے کہ یہ مافیا ہی پالیسی سازی میں کردار ادا کرتا ہے۔
باقی لوگ ان کے ہاری اور مزارع ہیں۔ کوئی سیاسی ہاری ہے اور کوئی سماجی۔
اوکاڑہ ملٹری فارمز کا ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی زمینوں پر
کام کرنے والے ان غریب لوگ گوناں گوں مسائل کا شکار ہیں۔ 17اپریل کو ان
کسانوں کا عالمی دن تھا۔ عالمی یوم کسان۔ ملک کے کسانوں نے اپنے مسائل پر
بات کرنے کیلئے ایک کنونشن طلب کیا تھا۔ مگر ان کے لیڈر کو گرفتار کر لیا
گیا۔ اس موقع پر 16ایم پی او کو حرکت میں لا کر ڈ ی سی او اوکاڑہ کے حکم پر
انجمن مزارعان پنجاب کے جنرل سیکریٹری کو حراست میں لیا گیا۔ یہاں کے
کسانوں کے کیا مسائل ہیں۔ ان کو توجہ سے سننے اور ان کے حل کی ضرورت ہے۔
یہ کسان، دہقان ، ہاری، مزارع، کاشتکار ہے۔ اسے جس نام سے بھی پکاریں، یہی
ہمارے لئے خوراک پیدا کر تا ہے۔ اس کے حالات بہتر ہوں گے تو وہ پیداوار میں
اضافہ کا باعث بنے گا۔ ملک میں پہلے ہی زرعی اراضی کم ہے۔ لاکھوں ایکڑ امین
بنجر پڑی ہے۔ بارانی اراضی کو سیراب کرنے کے لئے نہریں نکالنے کی جانب بھی
کوئی توجہ نہیں دیتا۔ نیز ملک میں زرخیز زرعی اراضی پر رہائشی بستیاں تعمیر
ہو رہی ہیں۔ زرعی اراضی پر کالونیاں تعمیر کرنے پر فوری پابندی عائد کرنے
کی ضرورت تھی۔ لیکن حکومت اس جانب بھی توجہ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
ملک میں زرعی اصلاحات کی بھی فوری ضرورت ہے۔ ہاری ، مزارع اور کاشتکار کو
زمین دی جانی چاہیئے۔ یہ جاگیردار ملکی اراضی پر سانپ بنے بیٹھے ہیں۔ لیکن
یہ اصلاحات کون کرے گا۔ یہی لوگ قانون سازی کرتے ہیں۔ ہاری کو یہ اپنی
ملکیت سمجھتے ہیں۔ اس لئے یہ ووٹ بھی اپنی مرضی سے نہیں ڈال سکتا۔ اس لئے
ان کے حق میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی ہے۔ دنیا کے ممالک میں زرعی اصلاحات
کی گئیں۔ جاگیرداروں نے رضاکارانہ طور پر اپنی زمینیں حکومت کو دے دیں۔
انھوں نے عظیم کام کیا۔ حکومت نے ان زمینوں کو کاشتکاروں ہاریوں میں تقسیم
کر دیا۔ اس وجہ سے ان کی زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا اور وہ خود کفیل بن
گئے۔ ملک پر کوئی صنعت کار یا کوئی جاگیردار حکومت کرے لیکن اصل معاملہ
ہماری زرعی پیداوار کا ہے۔ اس میں فوری اضافے کی ضرورت ہے۔ زرعی اصلاحات کے
بغیر یہ ناممکن ہے۔ آج عالمی یوم کسان کے موقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ
ملک کے ان غریب ہاریوں، مزارعوں، کاشت کاروں کو بھی انسان سمجھا جائے۔ ان
کے لئے بھی کچھ کیا جائے۔ کسان خوشحال ہو گا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔ اس
لئے Land to the Tillerکے اصول پر فوری عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ |