پاکستان میں مزدور کے اوقات
ہمیشہ ہی تلخ رہے ہیں اس کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول کسی جہاد سے کم نہیں
ہوتا ۔ حکومت ہر بار مزدوروں کے حقوق فلاح و بہبود کے دعوے تو بہت کرتی ہے
لیکن اس کے بلند بانگ دعوے سمندر کی ریت کے گھروندوں کی طرح ایک لہر کی مار
ہی ہوتے ہیں ، مزدور اپنے شب و روز سرمایہ داری نظام کو مضبوط بنانے میں
لگا دیتا ہے لیکن سرمایہ دار طبقہ، مزدور سے اس کا پسینہ ہی نہیں بلکہ خون
بھی نچوڑنے سے باز نہیں آتا ۔ حکومت، انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کے چارٹرڈ
کے مطابق پابند ہے کہ مزدور کی اجرت میں اضافہ ہو اس کے اوقات کار متعین
ہوں اسے بہتر ماحول فراہم کیا جائے اور اس کے خاندان کی صحت و تعلیم کا بھی
خیال رکھا جائے ۔ لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوتا اور مزدور مسلسل بد
حالی کا شکار رہتا ہے ، سرمایہ دار کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کسی ایک
مزدور کی محنت سے کتنے افراد کا کنبہ اﷲ تعالی کے دیئے گئے رزق حلال کو
حاصل کر رہا ہے ۔ حکومت کی زیادہ تر توجہ مالکان پر ہی رہتی ہے کیونکہ ان
کے اپنے مخصوص مفادات ہوتے ہیں ، جبکہ آجر کے مقابلے میں اجیر کیلئے
معاملات کبھی مثالی ثابت نہیں ہوئے ہیں۔لیبر ڈیپارنمنٹ 18 ویں ترمیم سے قبل
وفاق کے پاس تھا لیکن ترمیم کے بعد صوبائی حکومت کو لیبر ویلفیئر کا شعبہ
دے گیا لیکن اس پر کماحقہ عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔ لیبر کورٹ میں سالوں
سالوں کیس لٹکتے رہتے ہیں اور بچارا مزدور کورٹ کے چکر لگا لگا کر تھک جاتا
ہے ۔ قانون کے مطابق مزدوروں کیلئے لیبر کالونیاں ، مزدور خواتین کے وظائف
، بچیوں کی شادی کیلئے میرج گرانٹ دینا ، آجر کی مرکزی ذمے داری میں شامل
ہے ۔ ورکر ویلفیئر گرانٹس ایک اہم شعبہ ہے لیکن اس سے بھی مزدوروں کو کوئی
فائدہ نہیں پہنچ پاتا ۔ فیکٹری مالکان کی جانب سے عمومی طور پر مستقل
بنیادوں پر مزدور بھرتی ہی نہیں کئے جاتے ، قانونی سقم ہونے کی بناء پر نوے
دن تک وہ کنٹریکٹر کے کھاتے میں چلتا رہتا ہے اور پھر اسے دوبارہ یومیہ
اجرت کے کھاتے میں ڈال کر مزدوروں کی جائز قانونی ملنے والی امداد و مراعات
سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ زیادیہ تر ادارے اپنے مزدروں کو لیبر ڈیپارنمنٹ
میں رجسٹرڈ نہیں کراتے اور محکموں کے کرپٹ افسران کی وجہ سے مزدوروں کے
حقوق غصب کر لیئے جاتے ہیں۔ ایسے ادارے جو اپنے مزدوروں کو رجسٹرڈ نہیں
کراتے وہ غیر قانونی اقدام کے مرتکب اور ٹیکس چوری میں ملوث ہوتے ہیں۔ لیبر
ڈیپارنمنٹ فعال کردار ادا نہیں کر پاتے اس کی مثال بلدیہ اور لاہور کی
فیکٹریوں کے سانحات ہیں جس میں انسپکشن ٹیم اگر آئی ہوگی تو انھیں رشوت
دیکر سب اچھا ہے کی رپورٹ تیار کرادیتے تھے ، یہ سمجھ نہیں آتا کہ لاکھوں ،
کروڑوں روپیہ بھتہ خوروں کو تو دے دیتے ہیں لیکن جس محنت کش کے دم سے جو
فرعون سرمایہ دار بنا ہوتا ہے اس کے چند ہزار کی مراعات دینے سے اس کی جان
جیسے نکل جاتی ہے۔عمومی طور پر جس فیکٹری میں مزدوروں کی تعداد زیادہ ہو تو
وہاں مزدور یونین بنانا ضروری ہے تاکہ مزدوروں کے حقوق کیلئے وہ آواز بلند
کرسکے اگر مزدور کے تحفظات ہیں تو اسے مالکان سے مل کر دور کرے یا مالکان
کے کچھ مسائل ہیں تو مزدور اس کا ساتھ دیں ، لیکن یہاں بھی سرمایہ دار اپنے
ادارے میں یونین بنانے کی سوچ رکھنے پر گیٹ ہی بند کرا دیتا ہے ، یومیہ
اجرت کے نام پر سالوں سال کام کرنے والے مزدور جب اپنی جوانی اور اپنی
جسمانی طاقت سرمایہ دار کو سونپ کر بوڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس
کے ہاتھ میں ایک ماہ کی تنخواہ بھی نہیں ہوتی اور وہ بے سہارا بن کر بے
مقصد زندگی جینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ فیکٹریوں کیلئے ضروری ہے کہ صحت
،حفاظتی اقدامات ، بانڈڈ لیبر اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کرے ، سب سے اہم بات
انسپکشن ٹیم کا قانون پر مکمل عمل درآمد کرانا ہے لیکن انسپکشن ٹیم قانون
کے بجائے اپنی ذاتی مفادات کے حقوق پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔سوشل سیکورٹی
لاز اجتماعی دانش کے تحت بنائے جاتے ہیں ، قانون جتنا پرانا ہوگا اتنا ہی
موثر ہوگا ، محکمے میں کرپٹ افراد کی وجہ سے سوشل سیکورٹی لاز پر عمل درآمد
ممکن نہیں ہوپاتے ۔ اکثر ممالک میں گھنٹوں کے حساب سے مزدور ی طے کی جاتی
ہے اور بڑی کمپنیوں کیلئے لازم ہے کہ وہ لیبر کالونیاں بھی بنائیں تاکہ جب
مزدور کام سے فارغ ہو تو اسے یہ ڈر نہ ہو کہ وہ گھر کیسے جائے ، عموماََ
فیکٹریوں میں تین شفٹوں میں کام لیا جاتا ہے لیکن سرمایہ دار کو اس سے غرض
نہیں ہوتی کہ اس کا مزدور رات گئے آئے گا کیسے اور رات گئے جائے گا کیسے ۔
یہ قوانین میں شامل ہے کہ کہیں ایک مزدور بھی کام کرتا ہو اس کی بھی
انشورنس ہونی چاہیے یہ بھی قانون ہے کہ اگر کسی فیکٹری میں سو مزدور کام
کرتے ہوں وہاں اسپتال بنانا ضروری ہے ۔ کہا جاسکتا ہے کہ کمپنی کے پاس سو
مزدوروں کے لئے اسپتال بنانے کے اتنے ذرائع نہ ہوں لیکن اب تو مزاج ہی بگڑ
سا گیا ہے پہلے تو پرچون کی دوکان کیلئے لائینس نمبر ضروری تھا لیکن اب جس
کا جیسا بس چلتا ہے ، ویسا ہی وہ اپنا سکہ چلاتا ہے۔کسی بھی فیکڑی میں کم
ازکم 15مزدور ں پرمشتمل یونین ہونی چاہیے ۔ آئی ایل او اور انڈسٹری حقوق پر
فیکٹری سے انڈسٹری حقوق پر فیکٹری سے عمل درآمد کروایا جائے ۔ محنت کشوں کو
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک ان میں اتحاد اور یونین نہیں ہوگی ان مزدوروں
کو سوشل سیکورٹی اور دیگر لیبر ایکٹ کے مطابق مراعات نہیں مل سکیں گی۔
سرمایہ دار ہمیشہ اپنے فائدے کی سوچتا ہے اگر وہ یونین بنانے کی کوشش بھی
کرتا ہے تو وہ سرکاری کی آنکھ میں دھول جھونکنے کیلئے ڈمی اور پسندیدہ
افراد پر مشتمل یونین بنا دیتا ہے ۔ تاکہ مزدوروں کو ان کے حقوق نہ مل سکیں
۔ لاتعداد فیکڑیاں ہیں جو اپنے پاس ہزاروں کی تعداد میں ٹھیکداری نظام اپنا
کر حکومت کی آنکھ میں دھول جھونکتی ہیں اگر مزدور کبھی اپنے حقوق کی بات
کرے تو ایسے فوراََ بے دخل کرکے، اسے کمپنی کا باغی تصور کیا جاتا ہے ۔ اس
کی سالوں کی محنت جس میں اس کی جان جانے کے کئی مراحل بھی آتے ہیں اس پر
بھی سرمایہ دار طبقے کی کان پر جوں نہیں رینگتی ۔بلدیہ اور لاہور میں جب
اندوہناک واقعہ ہوا تو یہ المیہ سامنے آیا تھا کہ ان ملازمین کو سوشل
سیکورٹی میں رجسٹرڈ نہیں کیا گیا تھا ، انسکپیشن ٹیم اپنی جیبیں گرم کرکے
چلیں جاتیں تھیں ، بھتہ خوروں کو ماہانہ لاکھوں روپیہ جو بھتہ دیا جاتا ہے
وہ سرمایہ دار کی جیب سے نہیں بلکہ ،لازمین کے غصب کئے گئے حقوق سے دیئے
جاتے ہیں ، مگر حکومت کے سامنے رونا یہی روتے ہیں کہ بھتہ خوروں نے ان کے
کاروباروں کو تباہ کردیا لیکن حقیقیت اس کے برعکس ہے کہ انھوں نے محنت کشو
ں طبقے کو برباد کردیا ہے۔ ہمارے یہاں کرپشن کا زہر اس قدر حاوی ہوچکا ہے
کہ ہمارے لائیو اسٹاک اورمحکمہ خوراک سمیت بلدیاتی ادارے کبھی یہ دیکھتے
ہیں نہیں کہ غذائیت کے نام پر جو بڑی چھوٹی فیکٹریاں ہیں وہاں حفظان صحت کے
مطابق کام بھی ہو رہا ہے کہ نہیں ،خاص طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے
فارمولوں میں بین الاقوامی اسینڈرڈ کے مطابق حرام اجزا کے فلیور ڈائقے
بڑھانے کیلئے ڈال دیئے جاتے ہیں ، اور عام عوام جانے بغیر کہ یہ حلال ہے یا
حرام ، مہنگے داموں تشہری مہم کے ذریعے ان حرام اجزا سے بنی ہوئی غذائی
مصنوعا ت کو خرید لیتے ہیں۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ ا س سلسلے میں کیا کاروائی کرتا
ہے اس سے عوام بے خبر ہے۔مثال کے طور پر عوام کی آگاہی کیلئے کچھ کوڈ کا
تذکرہ کردوں جو کہ بیرونی کمپنی کے رپیر پرلکھے ہوتے ہیں پیکٹ کے
ingredient(اجزا) جس میں جیپس ، بسکٹ ، چیونگم ٹافیاں وغیرہ شامل ہیں ،
عموماََ گائے کے گوشت کیلئے E222، الکحل( شراب) کیلئے E222،الکحل اور دوسرے
کیمکلز E442،گائے کا گوشت اور الکحل کا عنصر E 471، الکحل E 476، گائے اور
خنزیر کے گوشت کا مکسچر E 481، جان لیوا اور خطرناک کیمکیل E 627، گائے ،
خنزیر اور بکری کے گوشت کا مکسچر E 472، خنزیر کی چربی کا تیلE 631، وغیرہ
۔ آپ انھیں گوگل پر سرچ کرکے بھی تصدیق کرسکتے ہیں ، کیا آپ نے کبھی چیپس ،
بسکٹ ، ٹافیاں ، چیونگم ، پیزا، کولا ڈرنک ،وغیرہ کے اجزا میں دیکھا کہ
وہاں کیا کوڈ نمبر ہیں ، اگر کوڈ نہیں ہیں تو عوام سے کیوں چھپایا گیا ہے
۔خاص طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملکی فیکڑیاں تو اس بات کا خیال ہی
نہیں رکھتی ، جہاں سرمایہ دار لیبر کا استحصال کرتا ہے وہاں ان ہی لیبروں
کو بلیک میل کرکے ان کی لاعلمی میں ان سے حرام اشیا بنائی جاتی ہیں ۔ضرورت
اس بات کی ہے قانون اگر بنایا گیا ہے اس پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔ حکومت
کا فرض ہے کہ محنت کشوں کو ان کے حقوق دیں ورنہ وہ اپنا حق لینے کیلئے جب
کوئی جائز قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے تو شکاگو کی تاریخ کسی بھی وقت رقم
ہوسکتی ہے۔محنت کشوں کے حقوق غصب کرکے عذاب الہی کو دعوت کیوں دیتے ہیں ۔
کیا انھیں رب کائنات کے عدالت میں جواب نہیں دینا ہوگا ۔ ہم تو صحافی ہیں
مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اس پر عمل درآمد حکومت کی اور جدوجہد محنت کشوں
کی ذمے داری ہے۔ |