بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے
فرمایا تھا کہ تعلیم پاکستان کیلئے زندگی و موت کامسئلہ ہے ۔ اس لیے ہماری
چاروں صوبائی حکومتیں تعلیم پر خصوصی توجہ دیے ہوئے ہے۔ہر سال کا غذی
کاروائی کے طور پر ایک انرولمنٹ مہم کا آغاز کرتی ہیں ۔اس مہم کا بنیادی
مقصد6سال سے 16سال کے بچوں کا سکول میں داخلہ ممکن بنا نا ہے جو کہ ایک بہت
ہی مشکل ٹاسک ہے ۔ملک بھر میں 2016میں بچوں کی سکول داخلہ مہم کا آغاز ہو
چکا ہے ۔پنجاب میں بھی اس مہم کو کافی زور و شور سے چلایا جا رہا ہے۔جس کی
مرکزی تقریب ماڈل ٹاون لاہور میں ہوئی۔مہم کا آغازوزیر اعلٰی پنجاب نے
داخلہ فارم پر دستخط کر کے کیا۔ضلعی لیول پر بھی تقاریب ہوئیں جن میں بچوں
کوداخلے کے ساتھ ساتھ بستے ،کتا بیں ،کاپیاں مفت تقسیم کی گئی۔یاد رہے کہ
یہ مہم پہلی بار نہیں چلائی گئی اس مہم کو ہر سال شروع کیا جاتا ہے لیکن یہ
مہم ہر سال اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے مگر پھر بھی ہماری
حکومتیں اور انتظامیہ ایک روایت کے تحت ہر سال اس مہم کو چلاتی ہیں جو ہر
سال کی طرح ناکامی کا منہ دیکھتی ہے۔کبھی حقائق جاننے کی کوشش نہیں کی کہ
آخر کیو ں ہم اپنے اہداف حاصل کرنے میں نا کام ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ حقائق
سے آگاہ ہیں تو پھر کیوں نہیں اقدامات کر کے خامیاں دور کرتے ہیں اور بچوں
کا سکول داخلہ ممکن بناتے۔میری ذاتی تحقیق کے مطابق آج کل والدین کے پا س
بچے کو سکول داخل کروانے کے دو ہی آپشن ہو تے ہیں پہلے نمبر پر سرکاری سکول
اور دوسرا اور آخری آپشن پرائیویٹ تعلیمی ادارے ۔پہلے آپشن سرکاری تعلیمی
ادارے جو اپنی بد حالی اور عدم توجہ کا رونا روتے نظر آتے ہیں جن میں ہر
قسم کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔یہ ادارے صرف نام کے ہی ہیں یہاں آج بھی
بچے 20سے 25سال پُرانے طریقہ تدریس سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔سکولوں میں
پڑی اساتذہ کی خالی کرسیاں بھی ناکامی کا ثبوت ہیں جن پر یا تو اساتذہ
تعینات ہی نہیں ہو ئے یا پھر سرکاری خزانے کے بوجھ سکولوں میں آنے کی زحمت
نہیں کرتے۔ اساتذہ کی کمی بھی سرکاری سکولوں کی نا کامی کا سبب بنتی ہے۔آج
پاکستان میں تعلیمی ادارے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔دشمن طاقتیں عوام کو
تعلیم کی طرف سے بدگمان کر کے ملک کی ترقی میں رکاوٹیں حائل کر رہیں ہیں۔جس
وجہ سے ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا مسئلہ بھی سنگین ہو تا
جا رہا ہے۔ حکومت نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ذلیل کر کر کے بیریر ،سکیورٹی
کیمروں ، سکیورٹی گاڈزسے لیس کروا دیا لیکن اپنے سرکاری تعلیمی اداروں میں
ابھی تک چار دیواری بھی مکمل نہیں کر وائیں ۔ حکومت نے خود وویلہ کر کے
والدین کو سکیورٹی ایشو پر حساس کر دیا وہ اب نا مکمل سکیورٹی والے اداروں
میں بچوں کو بھیجنے پر آ مادہ نہیں اور اتنا بڑا رسک لینے کو تیار
نہیں۔چلیںْ اگر ہم سکیورٹی کے اس مسئلہ کو بھی نظر انداز کر دیں تو یا د
رہے کہ سر کاری اداروں میں اور بھی بہت سے مسائل موجودہیں جو حکومتی وعدوں
اور دعوں کی حقیقی تصویر ہیں۔ والدین جا نتے ہیں کہ ملک بھر کے 95% سکولوں
میں پینے کا صاف پانی تک غریبوں کے بچوں کو میسر نہیں ٹھنڈے پا نی کا تو
چکر ہی کوئی نہیں ۔جس کی وجہ سے غریبوں کے بچے ہیپا ٹا ئٹس،پیٹ کی بیمار
یوں میں مبتلاء ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ سرکاری تعلیمی اداروں میں صفائی کے
نا کافی سہولیات کی وجہ سے طلبا جلدی بیماریوں سے پریشان ہوتے ہیں۔اس کے
ساتھ ساتھ فرنیچر کی عدم دستیابی کی وجہ سے اکیسویں صدی کے بچے گرد آلود
فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں ۔ ان مسائل کے انبار میں ایک
اضافہ یہ ہے کہ کئی سرکاری تعلیمی اداروں میں بیت الخلاء بھی مو جود نہیں
ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری سکول بجلی کی عدم دستیابی کا بھی رونا
رو رہے ہیں۔ہر روز بڑھتی گرمی کی یہ شدت اور بجلی کی عدم دستیابی یا
لوڈشیڈنگ میں پڑھنا اور پڑھانا کیسے ممکن ہے۔ اپریل ،مئی ،جون کی گرمی اور
اگست کا حبس بھی بچوں کو سکول سے دور رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔یہ سب مسائل
حکومت کی تعلیم سے عدم دلچسپی کو ظاہر کر تی ہے۔ان مسائل کی وجہ سے والدین
سر کاری سکولوں سے باغی ہیں اور بچوں کوسرکاری سکول بھیجنے پررضا مند
نہیں۔اگر یہ والد ین دوسرے اور آخری آپشن کو دیکھتے ہیں تو پرائیویٹ تعلیمی
ادارے بچوں کی ہر تعلیمی اور بنیادی ضرورت کو مد نظر رکھ کر سہولیات مہیا
کرتے ہیں اور پھر والدین سے منہ ما نگے واجبات طلب کر تے ہیں جو کہ ایک
غریب آدمی کی دسترس سے باہرہیں۔اب والدین مجبور ہو تے ہیں کہ بچوں کو فارغ
پھرنے دیا جائے جب یہ بچے 10سے 12 سال کے ہونگے تو کسی ورکشاپ ہوٹل ،کریانہ
کی دوکان پر لگا دئیے جائیں گے اور ان کا مستقبل خاک میں ملا دیا جائے
گا۔یہ داستان ہے جناب غریب کی اور انرولمنٹ مہم کی نا کامی کی۔مگر ہماری
حکومت توجہ نہیں دے رہی۔ حکومت سرکاری سکولوں کو چلا کر صرف ایک فارمیلٹی
پوری کر رہی ہے۔سرکاری سکولوں کو سہولیات دیکر حکومت یا حکومتی اراکین کو
کیا فائدہ ہو گا نہ تو ان کے بچوں نے یہاں تعلیم حاصل کرنی ہو تی ہے اور نہ
ہی وہ سہولیات مہیا کرتے ہیں۔اگر قانون پاکستان میں ترامیم کر کے یہ قانون
لا گو کیا جائے کہ ہر سرکاری افسر اور حکومتی اراکین کے بچے قریب ترین
سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کریں تو ممکن ہے کہ پھر حکومت ان سرکاری سکولوں
پر توجہ دے گی۔اس طرح شاید ان بڑے لوگوں کے صدقے غریب کا بچہ بھی اچھی
تعلیم کے ساتھ سہولیات سے مستفید ہو سکے اور اپنے روشن مستقبل کی راہ پر
گامزن ہو سکے۔ |