سوات یونیورسٹی میں لڑکے اور لڑکیوں کے
اکٹھے بیٹھنے پر چیف پراکٹر حضرت بلال نے پابندی عائد کی اور اس جرم کی
پاداش میں اُن کو چیف پراکٹر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی ترجمان
کا کہنا ہے کہ حضرت بلال نے اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے اور ایک متنازعہ
اور غیر قانونی نوٹس جاری کر کے لڑکے اور لڑکیوں کے ایک ساتھ بیٹھنے اور
گھومنے پھرنے پر پابندی عائد کی اور یہ اَمر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی
اجازت کے بغیر کیا گیا۔ وائس چانسلر نے اس اَمر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے حضرت
بلال کو چیف پراکٹر کے عہدے سے ہٹا دیا ہے اور اُن کے خلاف ڈپٹی رجسٹرار کی
سرکردگی میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس کی رپورٹ آنے پر مزید
کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ ان کی اجازت کے
بغیر یونیورسٹی کا کوئی فرد کوئی حکمنامہ جاری نہیں کر سکتا۔ سوات
یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم پر کوئی پابندی نہیں۔ یونیورسٹی میں لڑکے اور
لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اتفاق سے میں بھی ایک اُستاد ہوں اور ایک عرصے سے یونیورسٹی میں پڑھا رہا
ہوں۔ پچھلے دنوں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں بھی پڑھانے کا اتفاق ہوا۔
یونیورسٹی میں نئے داخل ہونے والے طلبااور طالبات کی کلاس تھی، جس کی کل
تعداد پچاس کے قریب تھی۔ لڑکیاں صرف چھ یا سات تھیں۔ پہلے ایک ہفتہ تو
لڑکیاں کچھ سمٹی سمٹی تھیں۔ پھر یہ سب لڑکیاں ایک ایک لڑکا پسند کر کے کلاس
میں اُس لڑکے کے ساتھ ہی بیٹھنے لگیں۔ کلاس کے دوران کچھ دن مسکراہٹوں کا
تبادلہ ہوتا نظر آتارہا، پھر میں نے دیکھا کہ لڑکی یا لڑکا تھک کر ایک
دوسرے کے کاندھے پر سر رکھ دیتے۔ میں نے اس فعل کو ناپسند کرتے ہوئے انہیں
کئی دفعہ سیدھے ہونے کا کہا۔ جب تین چار دن صورت حال بہتر نہ ہوئی تو میں
نے سختی سے لڑکے اور لڑکیوں کے اکٹھے بیٹھنے پر پابندی عائدکر دی۔ میں نے
اس کلاس کو ایک سال تک پڑھایا، لڑکیاں صرف ایک مخصوص حصے میں علیحدہ بیٹھتی
تھیں اور کلاس میں کسی ضرورت کے بغیر لڑکی اور لڑکے کو آپس میں بات کرنے کی
اجازت نہ تھی۔ میں بھرپور انداز میں اپنے طلبا کو کہتا کہ گو تم لوگوں کا
آپس میں کوئی رشتہ نہیں، مگر ایک کلاس فیلو کی حیثیت سے ایک دوسرے کا
احترام بہن بھائیوں کی طرح کرو اور کوئی ایسی بات جو تم کو اپنے بہن بھائی
کے لئے نا پسند ہے، یہاں بھی اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرو۔ مجھے خوشی ہے
کہ میرے بچوں نے میری بات سمجھی اور میری بات کو پورا احترام دیا۔ میں
دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اگر کوئی کمزور وائس چانسلر کے دباؤ میں آکر مجھے
اپنا کہا واپس لینے کو کہتا تو میں پڑھانا چھوڑ سکتا تھا، مگر اپنے عقیدے
سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔
میں سلام پیش کرتا ہوں حضرت بلال کو کہ اس نے جو محسوس کیا اور کو روکنے کے
لئے راست قدم اٹھایا۔ مخلوط تعلیم کا مقصد مادر پدر آزادی نہیں۔ ہمارے ہاں
لڑکوں کا عجیب مزاج ہے، خود چاہتے ہیں کہ مادر پدر آزادی حاصل ہو جائے اور
بہنوں بیٹیوں اور گھر کی بچیوں کی بات ہوتی ہے توان کی غیر ت جاگ جاتی ہے۔
مخلوط تعلیم کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ہم ہر حد سے آزاد ہو جائیں۔ درسگاہیں
کوئی سیر گاہیں نہیں ہوتیں۔ طلبائاور ظالبات لائبریری میں بیٹھ کر یا
یونیورسٹی میں کہیں بھی اچھے انداز میں بیٹھ کر اپنے تعلیمی مسائل پر بحث
مباحثہ کر سکتے ہیں۔ مگر غیر ضروری چھوٹ بہت ساری خرابیوں کا باعث ہو سکتی
ہے۔ درسگاہوں کا ایک تقدس ہوتا ہے جس کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے
اور اسے برقرار رکھنے کے لئے حضرت بلال جیسے اشخاص درسگاہوں کا ایک قیمتی
اثاثہ ہوتے ہیں۔ لگتا ہے کہ وائس چانسلر ایک کمزور آدمی ہیں، میڈیا کا
تھوڑا سا پریشر بھی برداشت نہیں کر سکے۔ کسی کو چیف پراکٹر مقرر کرنے کا
مطلب اسے مکمل اختیارات کے ساتھ ایک منصب عطا کرنا ہے۔ کسی نوٹس کے لئے اسے
بار بار وائس چانسلر کی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ سینئر سے پوچھنے کی
رسم چلی تو محترم وائس چانسلر کو چیف منسٹر یا چانسلر سے پوچھنا پڑے گا اور
بات پھر بھی ختم نہیں ہوگی۔ وائس چانسلر فیصل آباد کا گھنٹہ گھر نہیں ہوتا
کہ ہر طرح صرف اسے ہی مرکزیت حاصل ہو۔ اساتذہ کو اچھی قدریں فروغ دینا
ہے۔اور اس سلسلے میں وہ جب بھی کوئی راست قدم اٹھائیں، وائس چانسلر کو ان
کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتو ہے۔ گو کمزور اور سفارشی لوگ خود میں اتنی ہمت نہیں
پاتے اور بالآخر اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ تعلیم خواندگی کا نام نہیں،
تعلیم ایک طرز زندگی ہے اور حضرت بلال نے ایک استاد کا حق ادا کیا ہے۔
معذرت کے ساتھ جو لوگ ان کے اقدام کے خلاف ہیں، اپنی ماؤں اور بہنوں کو اُس
حال میں کہ جس نے حضرت بلال کو سخت نوٹس جاری کرنے پر مجبور کیا ہے دیکھ
لیں اور پھر کوئی فیصلہ کریں کہ اس غیرت اور حمیت کے پیکر نے صحیح کیا یا
غلط؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور میں ڈی سی آفس کے ریوینیو کے عملے نے ہڑتال کی ہوئی ہے کہ وکلاء نے
ان پر تشدد کیا ہے اور بہت سے اہل کاروں کو پیٹا ہے۔ وکلا کہتے ہیں کہ
ریونیو کا عملہ ہر کام کے پیسے مانگتا ہے اور بغیر پیسے کوئی کام نہیں
کرتا۔ پیسے کے لین دین پر ہی جھگڑا ہوا ہے۔ ریونیو کا عملہ ان کے مؤقف کو
غلط قرار دیتا ہے، ان کا موقف ہے کہ ناجائز پیسے یا رشوت تو دور کی بات
وکلا تو سرکاری فیس دینے کو بھی تیار نہیں۔ ایک تو سرکاری فیس نہیں دیتے
اور اس پر گالی گلوچ بھی کرتے ہیں۔ عام طور پر دو فریقوں میں جھگڑا ہو تو
اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون فریق ٹھیک کہہ رہا ہے اور کون غلط، مگر عجیب بات
کہ اس جھگڑے میں لوگ دونوں کے موقف کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔ |