تعمیر انسانیت
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
چند برس قبل شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ
خان۔مولانا حیدرعلی دھورات،مولانا رفیق ہتھورانی اور قاری برکت اللہ میواتی
کی معیت میں مولانا نذیرمیمن (رکن پارلمان ) اور مولانا محمد علی مایت کی
دعوت پر ہم جو ہانسبرگ سے بائی روڈ ایک ہفتہ قبل موزمبیق کے دار الحکومت
مپوٹو پہنچے تھے،کہتے ہیں کہ’’ جبر الٹر‘‘ کی طرح یہ موسی بن بیک کے نام
میں لہجے کے تغیر سے موزمبیق بن گیاہے ، نیز یہاں کی کرنسی کا نام’’ میٹکال
‘‘مثقال سے بناہے ، یہاں کی سرکاری زبان پرتگیش ہے، انگریزی ،عربی،زولو اور
افریکا نو کا رواج بھی عام ہے ،مسلم آبادی70 فیصد ہے ،لیکن استعمارکے زیرِ
اثر حکومتی اعداد وشمارمیں انہیں لبنان کی طرح 70کے بجائے صرف30 فیصد
دکھایاگیاہے ، ’’مپوٹو‘‘ ایک ساحلی خوبصورت ترین شہر ہے ، عام لوگ اخلاق
میں دیگر اقوام کے سامنے بطور مثال پیش کئے جاسکتے ہیں ،مسلمانوں نے نیٹ
کیبل کی طرح محلوں کی مساجد کے لاؤڈسپیکروں کے مرکزی نظام سے اپنے گھروں کو
مربوط کیا ہواہے، گھر کے تمام کمروں اور مہمان خانے کی چھتوں سے بہت دھیمے
انداز میں اذان ،اقامت ، قراءت ،جمعہ،عیدین ، اور دیگر تقریبات کے وعظ و
بیانات سے اہل خانہ بڑی آسانی سے محظوظ ومستفید ہوتے ہیں ، مساجد کے ماحول
سے ہمہ وقت ارتباط بھی رہتاہے، اورموڈ نہ ہو،تو جب چاہے سوئچ آف کردیں ،یوں
اگرکوئی نہ سننا چاہے، تووہ بھی ممکن ہے ، موزمبیق میں عرب اور عربوں کے
ادارے اچھے خاصے ہیں،یہاں ہمیں بتایاگیا ،کہ پاک وہند کے مدارس دینیہ کے
فضلاء کے حوالے سے مشہور ہے کہ روانی سے عربی خطاب اوربول چال پرقدرت نہیں
رکھتے ،توبرائے کرم آپ مفصّل ومطوّل خطاب فرمائیں ،ہمیں چونکہ عربی ہی میں
بات کرنی تھی ،اس لئے بطور خاص ہم سے ہی یہ استدعاکی گئی ،چناں چہ مسلسل
2گھنٹے تک ہمیں حسبِ فرمائش خطاب کرناپڑا۔
ساؤتھ افریقہ اور موزمبیق میں برصغیر سے قرون وسطی اور استعمارات کے ازمنہ
میں جاکر آباد ہونے والے مسلمان نسبتہً متموّل ہیں ، مقامی مسلمان کئی
حوالوں سے کمزور ہیں ، لیکن ہم نے اپنے بھائیوں سے کہا، کہ وہ یہاں غربت
مٹانے ، علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرنے اور جدید تعلیمی ادارے قائم
کرنے میں تمام بنی نوعِ بشری کو مدنظر رکھیں ، پیام انسانیت کے عنوان تلے
کام کریں ، اگرمسلمان یہاں مذہبی نقطۂ نظر سے بالاتر ہوکر عام باشندوں کے
فلاح وبہبود کے لئے خدمات انجام دینگے ، تو اس سے خود بخود اسلام اور
مسلمانوں کا امیج بہتر ہوگا، ان کی دعوت اور فکر وفلسفے کو تقویت ملے گی ،
اسلام چونکہ بنیادی طور پر ویلفئیر اور فلاحی مذھب ہے ، جوپوری انسانیت کی
بہتری کے لئے اوردنیامیں ہر ایک کی امن وسلامتی کے لئے خالق کائنات نے وضع
کیاہے، ہمیں اسلام کے اسی ماٹو کو اجاگر کرنا ہوگا، اور انسانیت کے نام پر
اپنی کاوشوں اور مساعی کوذہن نشین کراناہوگا،ہم نے یہ بھی بتلایاکہ مسلمان
دیارِ غیر میں جاکر مفادپرست مستعمر ،مستبد اور سازشی قوموں کی انسانیت سوز
حرکتوں کے بجائے تعمیر انسانیت کا کردار ادا کریں ،مال بٹورنے اور غریبوں
کاخون چوسنے کے وہ طریقے جس سے امیر امیر تر اور غریب غریب ترہوتاجاتاہے،
سے احتراز کریں ، توپھر اسلام کی دعوت کتنی آسانی سے عام وتام ہوتی ہے ،اس
کا اندازہ قبل ازوقت لگانا مشکل ہے،شاعر نے کسی ایسے ہی موقع پر کیا خوب
کہاہے:
وہی ہے صاحبِ امروز،جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالاگوہرِ فردا
آج کی دنیا میں اسلام کوسمجھنے اور مشرف بہ اسلا م ہو نے کی جتنی صلاحیت ہے
،وہ پہلے کبھی نہ تھی ، لوگوں میں معلومات کی رغبت بھی بڑھ گئی ہے اور
وسائلِ معلومات کی بہتات بھی ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے دین
ومذہب اور اس کے صحیح پیغام کو حسین، پرکشش اور دلچسپ انداز میں پیش نہیں
کرسکتے ، غیر مسلموں کو ازلی کافر سمجھنے کے بجائے ہمیں اپنے اندر عالم
گیریت ،وسعت فکری ، اختلاف کو برداشت کرنے کا مادہ اور ڈائیلاگ میں معقول
انداز اپناناہوگا،نادانیٔ اسلام کو کفر کہنے سے اجتناب برتنا ہوگا،نہ جاننے
اور نہ ماننے میں فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا،بہت سے لوگ ایسے ہیں،جو اسلام کو
صحیح معنوں میں نہیں جانتے،کیونکہ ہم مسلمان دنیا کے دہندوں میں اتنےپڑگئے
کہ اللہ کے پیغامات کو اس کی مخلوق تک پہنچانے میں کما حقہ کردار ادا نہ
کرسکے،نتیجہ یہ ہوا کہ خلقِ خدا اسلام کے ابدی تعلیمات سے نااشنا رہی اور
ہم نے انہیں نہ ماننے والوں(کفّار) میں سے شمار کیا،یاد رکھیئےماننےنہ
ماننے کا مرحلہ جاننے اور معرفت کے بعد آتاہے، اسلام کے حوالے سے اپنے ’’
مائنڈ سیٹ ‘‘ سے نکل کر ایک آزاد طریقے سے ہمیں سوچنا ہوگا کہ خدا نہ
خواستہ کہیں ہم ہی اسلام کے پھیلنے پھولنے میں رکاٹ تونہیں؟
بہرحال اس کالم کا اصل میں باعث ایک عجیب واقعہ ہے، ایک شام نمازِعصر کے
بعد میں ایسے ہی پیدل مپوٹو کی سڑکوں پر تنہا ٹہلنے کے لئے نکلا ،کیا
دیکھتاہوں کہ ایک ننھی سی کلی پھول بیچ رہی ہے ،میں اس کے قریب جاتے ہوئے
سوچتا رہا، کہ یتیم ہوگی ،حاجتمند ہوگی، یاکسی مزدور کی بیٹی ہوگی ،پتہ
نہیں کیا قصہ ہوگا ،زبان بھی نہیں جانتا کہ پوچھ لوں ،ماجرا کیاہے، مجھے
ایسے بچوں پر ہمیشہ ہی بڑا ترس آتاہے،بسا اوقات رونے لگتاہوں، میں نے جاکر
ایک گل دستہ ان سے خریدا ،وہ مسکرا کر کھل گئی ،گل دستہ لے کر تھوڑی دور
گیا، خیال آیا کہ مجھے تو ان پھولوں کی ضرورت نہیں ، میں ان کی مدد کرنا
چاہ رہاتھا ، پلٹ کر میں دوبارہ ان کے سامنے آیا ، گل دستہ انہیں واپس کیا،
وہ کھلی ہوئی کلی یک دم مرجھاگئی ،فوراً اشاروں کی زبان میں اسے میں نے
سمجھایا کہ یہ پیسے بھی تمھارے اور پھول بھی تمھارے ،وہ دوبارہ گلاب کے
پھول کی طرح مسکرا کرکھل گئی ،اور بے اختیار کھل کھلا کرہنسی ، اس ایک کلی
کے دوبار کھل جانے پر میں خوشی سے معمورتھا ،یہ کئی سال پہلے کی بات ہے ،
مگر وہ معصوم کلی آج بھی میرے خیالات کی اسکرین پر کھل جاتی ہے ، پھر کھل
کھلا کر ہنس جاتی ہے اور مجھے یک گونہ غم وسرورایک ساتھ محسوس ہونے لگتے
ہیں اور میں مندرجہ ذیل شعر دیر تلک گنگنا نے لگتاہوں۔
گندم امیرِ شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی غریبِ شہر کی فاقوں سے مرگئی
|
|