زمیں نگل گئی آسماں کیسے کیسے
(Muzaffar Ahmad Mushtaq, Multan)
خدا تعالیٰ نے حضرتِ انسان کو کائنات کی سب
سے اعلیٰ مخلوق اور اپنی صفات کا مظہر بنا کر اس دنیا میں بھیجا اور اسے
اپنا خلیفہ اور عبد قرار دیا ہے ۔نیز انسان کی پیدائش کا مقصد بھی یہی تھا
کہ خدا تعالیٰ کے نور کی پہچان ہو سکے اور انسان عبودیت کا حق ادا کرتے
ہوئے اپنا سر ربِّ کائنات کے حضور جھکائے۔اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ
انسانی پیدائش کی علتِّ غائی صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت ہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ صفاتِ ایزدی کے مظہر انسان
کو خدا تعالیٰ نے پوری طرح فکری آزادی سے ہمکنار کیا اور اس پر تقویٰ اور
فجور کی راہیں واضح کرنے کے بعد فیصلہ اس کے اپنے ہاتھ دے دیا کہ جس راہ کو
چاہے چُن لے۔ تاہم بشری کمزوریں کے پیشِ نظر ایک احسان یہ کر دیاکہ جب جب
ظلمت اور تاریکی نے انسانیت کا دامن تھاما خدا تعالیٰ نے اپنے فرستادوں کے
ذریعہ اصلاح کے سامان مہیا فرما دیے۔ پھر بھی بعض نے اس روشنی کو قبول کیا
اور بعض گمراہی کی راہوں پر ہی سرگرداں رہے۔ دنیا کی تاریخ دونوں ہی طرح کے
انسانوں سے بھری پڑی ہے اور بعض کے نام تو قیامت تک کے لیے محفوظ کر لیے
گئے ہیں۔مگر انسان نے کسی دور میں بھی کائنات میں ہونے والی تبدیلیوں اور
تغیّرات سے سبق نہیں سیکھا اور ہمیشہ اس بات کو نظر انداز کرتا رہا ہے کہ
اس کا مقدر فنا کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔اور آج نہیں تو کل ضرور اس نے اس
دنیا سے کُوچ کرکے اپنے تخلیق کنندہ کے دربار میں اپنے اعمال کا حساب دینا
ہے ۔
ابتدائے آفرینش سے لیکر آج تک لاکھوں لوگ ایسے گزرے ہیں جو غیر معمولی
صلاحیتوں کے حامل تھے ۔ ان میں سے بعض علم و حکمت میں باکمال تھے تو بعض
طاقت میں بینظیرتھے ، بعض جاہ و جلال میں لاثانی تھے توبعض وجاہت و حسن میں
اپنی مثال آپ تھے، بعض کی پہچان ان کا ہنکار و غرور تھا تو بعض دولت کا
انبارِ کثیر رکھنے والے،بعض کو خدا تعالیٰ کی نمائندگی کا شرف ملا تو بعض
بارگاہِ ایزدی سے دھتکار دیے گئے،بعض عشق کی داستانیں بن گئے تو بعض ظلم و
جبر کی علامت کہلائے، مگر ان میں سے کسی کو بھی حیات جاوداں نصیب نہ ہوئی۔
کئی شہر بسے اور کئی اُجڑے، کئی قومیں آئیں اور کئی صفحہ ہستی سے مٹا دی
گئیں ۔ اقتدار کے ایوانوں نے زوال کے نظارے بھی دیکھے اور بہادروں نے
کھوپڑیوں کے مینار بھی تعمیر کیے مگر وقت کی رفتار کو کوئی نہ روک پایا اور
آج تک کسی کو اسے روکنے کی طاقت نصیب نہ ہوئی ۔
سلیمان علیہ السلام کا جاہ و جلال اور سلطنت ہویا رستم کی طاقت ہو سب فانی
ہی قرار پائے۔ یوسف علیہ السلام کا حسن بھی قصہ بن کر رہ گیا اور قارون کے
خزانے بھی لا پتا ہوگئے۔لقمان کی حکمت ہو یا ارسطو و افلاطون کا فہم و
ادراک کچھ بھی انھیں موت کے پیالے سے نہ بچا سکا۔فرعون و نمرود کا غرور و
ہنکار بھی خاک میں مل گیا اور سکندر کی خواہشیں بھی دم توڑ گئیں۔ہلاکو و
چنگیز کی خون ریزی بھی ضائع گئی اور ہٹلر کی تباہی بھی تھم گئی۔اور اسی طرح
کے سینکڑوں اور بھی نام ہیں جو تاریخ کے اوراق میں دفن ہو کر رہ گئے حتیٰ
کے دنیا کے سب سے پیارے وجود سرور کائنات سیدالانبیاء خاتم المرسلین حضرت
محمد مصطفیٰ ﷺ کہ جن کی خاطر خدا تعالیٰ نے اس کائنات کو تشکیل دیا وہ بھی
اپنی معین مدت گزار کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
'اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے
چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن
ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے'
خلاصہ کلام یہ کہ موت ہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور آج تک کوئی بشر
بھی اس سے بچ نہیں سکا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اس فانی زندگی کے
مقصد کو حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔آج ہم میں سے اکثریت ان
لوگوں کی ہے جو اس حقیقت کو پسِ پشت کیے ہوئے مادیت کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
عالمی لیڈران ہوں یا ہمارے اپنے ارباب اختیار سب اپنی اپنی خواہشات اور حوس
کی پوجا کر رہے ہیں ۔ قومیں دوسری قوموں کو زیر کرنے کی کوشش میں ہیں ،
ممالک دوسرے ممالک کے وسائل ہتھیانے کی تگ و دو کر رہے ہیں ۔اور یوں دنیا
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ایک خطرناک تباہی کی جانب گامزن ہے۔ سیاستدان اقتدار
کی حوس میں خون کی ہولی تک کھیلنے سے بھی بازنہیں آتے اور منصفین چند سکوں
کے عوض ضمیر کا سودا کر دیتے ہیں ۔غرض جس کاجہاں جتنا بس چلتا ہے وہ لوٹ
مار کرتا ہے۔ اور کسی کو بھی اپنے ارد گرد بسنے والوں کے مسائل سے کوئی
سروکار نہیں اور ہر کوئی اپنا اُلو سیدھا کیے بیٹھا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ پھر
بھی ہم اس بات کو کس طرح بھول سکتے ہیں کہ ہم نے اس جہاں سے رخصت ہو کر خدا
کے دربار میں ضرور پیش ہونا ہے۔ وہاں نہ تو ہماری اولاد ہمارے کسی کام آئے
گی اور نہ ہی مال و دولت اور شان و شوکت ہمیں بچا سکے گا۔ اگر کسی چیز نے
کام آنا ہے تو وہ ہمارے اپنے اعمال ہیں کہ آیا ہم نے اپنی پیدائش کے مقصد
کو حاصل کیا اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی پورے طور پر کوشش
کی یا نہیں؟
پس اگر ہم نے اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات کے
سانچے میں ڈھال لیا اور اپنے اپنے دائرہ میں خلقِ خدا کی ہمدردی کی راہ
اپنا لی تو ہم نہ صرف اپنے معاشرہ کو ایک جنت نظیر معاشرہ بنا لیں گے بلکہ
اپنی عاقبت بھی سنوار لیں گے ۔ اس سے ایک طرف جہاں ہماری آنے والی نسلیں
ہمارے لیے دعا گو بن جائیں گی تو دوسری طرف ہمارے جانے کے بعدبھی ہمارا نام
اچھے لفظوں میں زندہ رہے گا۔
آج ضرورت ہے تو اس بات کی کہ عالمی طاقتوں اور عالمی راہنما ؤں سے لیکر
ہمارے اپنے حکمراں ، سیاستدان، منصفین، مصنفین، اطباء ، استاتذہ ، طلباء،
دوکاندار، کسان اور مزدور تک ہر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ انسان اپنی اپنی
ذمہ داریوں کو ادا کرے اور پوری قوت کیساتھ اس بات کی کوشش کرے کہ ہم نے
معاشرہ میں امن کےقیام کے لیے جدوجہد کرنی ہے اور دوسروں کے حقوق کسی صورت
حذف نہیں کرنے ۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم اپنی زندگی
کے مقصد کو پا لیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توقیق عطا فرمائے۔
'جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما' |
|