ہمت و حوصلہ اور ہماری زندگی
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
بلند جذبات و سوچ کے مالک افراد ہی زندگی
کی کامیابیوں کو آسانی سے چھو سکتے ہیں ، کیونکہ یہ ہی وہ لوگ ہوتے ہیں کہ
جن کے جذبات کے راستے اگر ہوا روکنے لگے تو و ہ طوفان بن کر ڈٹ جاتے ہیں ،
پتھر روکیں تو سیلاب بن کر ان کو بہا کر لے جاتے ہیں، پہاڑ آجائیں تو
آسمانی بجلی بن کر ان کو ریزہ ریزہ کرتے ہیں یا پھر زلزلوں سے ہلا ہلا کر
گرِ ا دیتے ہیں، آگ روکے تو بارشوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ بن کر ڈٹ جاتے
ہیں، دریاؤں کامچلتا ہوا پانی روکنے کھڑا ہو جائے تو سمند ر کا سکوت بن کر
اس کو اپنی ہی ہستی میں فنا کر دیتے ہیں اور اگر سمندر کا سقوت و گہرائی
روکے تو سمندروں کی طے میں پائے جانے والا گوہر نایاب بن کر چمکتے نظر آتے
ہیں مگر کسی بھی مقام پر نہ رکنے کا نام لیتے ہیں اور نہ ہی تھکاوٹ و ہار
اور مایوسی کا بلکہ برق رفتاری سے آگے بڑھ کر غلامی کی زنجیروں کے ایسے
ٹکڑے کر دیتے ہیں کہ ان ٹکڑوں کی آواز ظالم حکمرانوں کے کانوں تک اس قدر
شدید ہو کر پہنچتی ہے کہ ان کے کانوں کی قوتِ برداشت سے باہر ہو کہ اس کا
سار ا ضبط خون بن کر منہ ، ناک و کان سے ایسا نکلتاہے کہ کوئی روکنے والا
اس کو روک نہیں سکتا بلکہ ہر پل اس کو اسکی ظلمت کا احساس دلاتے ہیں، اور
یہ ہی وہ پر جوش وولولہ خیز لوگ ہوتے ہیں جن کو دنیا کی کوئی لالچ نہیں
ہوتی اور نہ ہی وہ دنیا کی زندگی کو مقدم رکھتے ہیں بلکہ وہ پورے ہوش و
ہواس اور جذبہ و ہمت کے ساتھ کسی بھی بڑے سے بڑے معرکہ کو سر زد کرنے کے
لیے اس طرح مگن ہو جاتے ہیں کہ مضبوط سے مضبوط درخت کی جڑوں کو بھی اکھاڑ
پھینکنے کی صلاحیت ان کے ہاتھ لگ جاتی ہے کیونکہ وہ یہ راز جان جاتے ہیں
مضبوط سے مضبوط درخت کی جڑوں پر وار کرو گئے تو وہ بھی دو حصوں میں تقسیم
ہو جائے گااور وہ سامنے آئے ہوئے بندے کو اپنا نشانہ نہیں بناتے بلکہ اس کے
پیچھے چھپے ہوئے ہاتھ کو ظاہر کر کے اس کو جسم سے علیحدہ اس جذبہ و ہمت کے
ساتھ کر تے ہیں کہ دیکھنے والے کو ان کی چال چیتے جیسی،نگاہیں عقاب جیسی
اور ہمت و حوصلہ کوہ پیماؤں کے سلسلہ کی طرح نظر آتا ہے اور ان کی تلواروں
میں بجلی کی حرکت، ارادوں میں پختگی ، چہروں پہ امیدوں کی لہر ، آنکھوں میں
شمع جیسی چمک ،عربی گھوڑے جیسی رفتار اور شیر جیسی طاقت و دھاڑ نظر آ رہی
ہو۔اور وہ جانتے ہیں کہ ان کی ہر سانس کسی کی محتاج ہے اگر اس کا حکم نہ ہو
تو ہم ہوا میں اُڑتی مٹی کی مانند ایسے ہیں کہ جس کو ہوا چاہے جس سمت بھی
لے جائے اور مٹی کچھ بھی نہ کر سکتی ہو ، مگر ہم میں نہ جانے غرور و تکبر
کس سمت سے سمٹ آتا ہے ،جبکہ ہماری حقیقت بھی یہ ہی ہے کہ ہماری ابتداء بھی
مٹی ہے، انجام بھی مٹی ہے، اسی مٹی میں ہم نے مٹی کی طرح مٹی میں مل کر مٹی
ہو جانا ہے (ماسوائے کچھ خصوص ہستیوں کے)پھر نہ جانے اس مٹی کی مورت میں
اسقدر غرورکیوں۔۔۔؟؟؟ کہ وہ مٹی کی خاطر اپنے خالق کو بھول جاتا ہے اور وہ
ہمارا رب عزوجل اس شان و کرم کا مالک ہے کہ ہم دن بدن ہزاروں گستاخیاں کرنے
کے باوجود کبھی ہم کو بھوکا نہ رکھا، کبھی ہماری شکل و صورت بدلتا ہے ہمارے
اوپر کچھ ذمہ داریاں ہیں جن کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے اور ہم کو اپنی ذمہ
داریوں سے منہ موڑنے کے بجائے ان کا سامنا جوانمردی سے کرتے ہوئے ہر لمحہ
دوسروں کی قدر، عزت اور عظمت کا خیال رکھنا چاہیے نہ کہ موقع ملتے ہی دوسرے
کو نیچا دیکھانے کے بہانے تلاش کریں۔۔۔مگر افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے
معاشرے میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اپنے تھوڑے سے فائدے کہ لیے اپنے ہی
دوسرے بھائی کی جان و مال کو نا تالافی نقصان پہچانے کی سوچتے رہتے ہیں یہ
ہی نہیں بلکہ اپنے ہی بھائیوں کو پکڑ کر ظالم و جابر وں کے سپرد کر کے پھر
ان کا نقصان ہوتے دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں جوکہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک
بہت درد ناک المیہ ہے اوریہ ہی وہ المیہ ہے کہ جو ہماری ترقی کی راہوں میں
رکاوٹ ہے مگر اب ضرورت ہے اپنے رویوں کو بدلنے کا، اپنے سوچوں میں تبدیلی
لانے کا ، اپنے دلوں کو کدورتوں سے پاک کرنے کا، جذبات و احساسات کی کیفیات
پیدا کرنے، آئیے آگے آئیے پہل کریں اپنے بھائی یا دوست کو گلے لگائیں اگرچہ
کہ وہ ہی غلطی پر کیوں نہ ہو، اپنوں کی عزت کرو گئے تو کوئی غیر تمہاری عزت
کرے گا۔قوم ، برادری، قبیلہ ، خاندان، علاقہ، صوبہ، ملک یہ سب ایک نشانی
ہیں ان کو اپنی پہچان نہ بناؤ ہم سب مسلمان ہیں اور مسلمان آپس میں ایک جسم
کی مانند ہیں ۔۔۔صرف اسی بات کو سوچنے کی ضرورت ہے ،تبدیلی خود آئے گئی
پھر۔۔۔آزما کر دیکھ لو۔۔۔۔انقلاب خود اُٹھیں گئے۔۔۔قدم بڑھا کر
دیکھو۔۔۔معاشر ے کو پر سکون پاؤ گئے۔۔۔در گزر کر نا سیکھو۔۔۔خوشیاں تمہارے
آنگن پر خود دستک دینے آئیں گئی ۔۔۔ |
|