پیروں کے مرید

پیر صاحب اپنے امیر کبیر مرید سے راز و نیاز میں مصروف تھے ۔ پیر صاحب اپنے دوست مرید کی خو شامد میں لگے ہو ئے اِس بات سے بھی بے خبر ہو چکے تھے کہ ہم بھی وہاں پر موجود ہیں اور پھر اچانک پیر صاحب کو ہما ری مو جودگی کا احساس بھی ہو گیا تو اب انہوں نے ایک اور پینترا بدلا اب انہوں نے ہما ری طرف اشارہ کر کے سر گو شیوں میں پیر صاحب نے کچھ کہا ۔ اب شیخ صاحب بھی ہما ری طرف حیران اور غصے بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ پیر صاحب کا فی دیر تک اپنے دولت مند مرید سے راز و نیاز کر تے رہے اور پھر شیخ صاحب ہما ری طرف متوجہ ہو ئے کہ آپ لو گ خو ش قسمت ترین لو گ ہیں جن کو پیر صاحب نے اپنے قرب سے نوازا ہے ۔ آپ لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ پیر صاحب روحانیت کے کس مقام پر فائز ہیں پیر صاحب تو کسی کو ایک منٹ عطا نہیں کر تے آپ کے ساتھ تو وہ گھنٹوں سے ہیں اپنی قسمت پر ناز کر یں کہ پیر صاحب نے آپ کو یہ اعزاز بخشا ہے شیخ صاحب بہت دیر تک پیر صاحب کا مقام و مر تبہ ہمیں بتا تے رہے ۔ شیخ صاحب کی بکواس جا ری تھی اور ہم حیران پریشان کہ ہم کہا ں آکر پھنس گئے ہیں یہ ہم سے کیا چاہتے ہیں ہم بھی زمین پر رینگ کر اِن کی قدم بو سی کر یں جبکہ سجدہ اور ما تھا رگڑنا تو خدا کے حضور ہی بنتا ہے یہ کیونکر ہم سے اِس جہالت کی تو قع کر رہے ہیں ، جب شیخ صاحب ہم پر اپنی تقریر جھا ڑ رہے تھے تو صبح سے وہاں مو جود خلیفہ صاحب اور با قی مرید بھی پیر صا حب کی کرا متیں ہم پر پھینکنے لگے ہم بے چارے مجبوراً اُن کو بر داشت کر رہے تھے پھر شیخ صاحب اپنا روحا نی مذہبی فریضہ ادا کر کے چلے گئے شیخ صاحب کی با توں اور مریدوں کی باتوں سے مجھے کئی سال پہلے اخبار میں چھپی ایک خبر یا د آگئی جو اِسطرح تھی ۔ سابق وفاقی وزیر سید فیصل صالح حیات نے احتساب عدالت میں حضرت شاہ جیونہؒ کے عرس میں سجا دہ نشین کی حیثیت سے شرکت کے لیے سترہ روز کے لیے پیرول پر رہا ئی کی درخواست کی ہے درخواست میں مو قف اختیا ر کیا گیا ہے کہ فیصل صالح حیات دربار شاہ جیونہ کے سجا دہ نشین ہیں اور اِس حیثیت سے ان کی عرس میں حاضری لازمی شعائر میں شامل ہے عرس میں چراغ جلا نے کی رسم ادا کی جا تی ہے شاہ جیونہ کے مریدوں کے عقیدے کے مطابق اگر اس مو قع پر سجا دہ نشین موجود نہ ہو تو وہ ایک سال کے عرصے میں فوت ہو جاتا ہے ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اِس عرس میں کم از کم ایک لا کھ مرید مو جود ہو تے ہیں اور چھ سات سو سال کے دوران کو ئی سجا دہ نشین بھی عرس کے موقع پر غیر حا ضر نہیں ہوا لہذا عرس کے مو قع پر فیصل صالح حیات کو 3مئی سے 19مئی تک پیرول پر رہا کیا جا ئے (روزنامہ پاکستان 28 اپریل 2000ء) ۔محترم قارئین خبر اور درخواست کا متن پڑھ کر قہقہ لگا نے کو دل کر تا ہے ۔ قوم کی سادگی تو ہم پر ستی اور مذہب و روحانیت کے نام پر ٹھگ با زی پر رونا آتا ہے کہ وطن عزیز کی نا مور گدیوں پر کیسے کیسے لو گو ں کا قبضہ ہے ۔ آج متلا شیان ِ حق کے مقدر میں کس کس قما ش کے پیر اور گدی نشین آتے ہیں قوم کی جہالت اور وہم پر ستی پر مرثیہ لکھنے کو دل کر تا ہے ۔ جب کہ ہم اچھی طرح جا نتے ہیں کہ آجکل عظیم صوفیوں کی درسگا ہوں پر بہروپیے پیروں اور گدی نشینوں کا قبضہ ہے لیکن پھر بھی اپنی دولت وسائل اور عقل دانش خو شی سے لٹانے کو تیا ر ہیں ۔ اِس خبر میں تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ مذہب کی کس کتا ب میں لکھا ہے کہ عرس پر پیر صاحب کی شرکت بہت ضروری اور مذہبی فریضہ ہے اسلامی فرائض میں نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ جہاد وغیرہ شامل ہیں جبکہ عرس پر جا نا نہ جانا ہر ایک کے ذوق اور فطری رحجان کی بات ہے اگر کو ئی روحانی با لیدگی اور ترقی کے لیے جا نا چاہے تو جا ئے ورنہ اگر مرضی نہیں تو نہ جا ئے اور عرس پر جا نا لا زمی بھی نہیں ہے درخواست میں کہا گیا ہے کہ سجا دہ نشین اگر عرس میں شامل نہیں ہو گا تو وہ سال کے اندر اندر وفات پا جا ئے گا یہ با ت تو بہت ہی جہالت اور بے ہو دگی پر مبنی ہے کیونکہ اسلامی نظریہ کے مطابق زندگی اور مو ت کا اختیار اور وقت صرف ما لک کا ئنا ت خدا کے ہا تھ میں ہے عرس پر غیر حا ضری کی صورت میں مر جا نا یہ کو ئی ہندو ؤانہ نظریہ تو ہو سکتا ہے اسلا می نظریہ قطعاً نہیں اسلامی عبادات میں حج کو بہت نما یا ں مقام حاصل ہے کہ صاحب نصاب پر فرض ہے کہ وہ حج کر ے اور اگر وہ نہ کر ے تو اس پر گنا ہ تو ہو سکتا ہے مگر یہ کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ اگر کسی نے حج نہ کیا تو وہ اگلے سال حج سے پہلے فوت ہو جائے گا ۔ اب یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ بزرگوں کے عرس اب حج سے بھی بڑی عبا دت ہیں جن پر نہ جا نے کی صورت میں زندگی بھی جا سکتی ہے ۔ اِس میں کو ئی شک نہیں کہ حضرت شاہ جیونہ ؒ اور ملک کی با قی بڑی روحانی گدیا ں آستا نے خا نقا ئیں عرصہ دراز سے لوگوں کی کردار سازی میں اہم کر دار ادا کر رہی ہیں یہ بہت بڑے بزرگ اور مستجاب الدعوات ہونگے لیکن حیرت اِس بات پر ہو تی ہے کہ عرس پر حا ضر نہ ہو نے پر موت واقع ہو جاتی ہے لیکن اگر یہی سجادہ نشین ، غریب عوام کی دولت کے بل بو تے پر شاہی محلوں میں عیا شی کر یں، ڈربی ریسوں میں حصہ لیں ، سوروں کا شکا ر کھیلیں ۔ غیر ملکی مہنگے کتے خریدیں ان کی لڑائیاں کروائیں فلمی اداکاروں کے مجرے دیکھیں اُن سے خفیہ شا دیا ں کر یں نماز کے لیے مسجد وں میں کبھی نہ جا ئیں سر عام شرا ب نو شی کر یں بینکوں کے بینک ڈکار جا ئیں لو نڈی ازم کو جا ئز سمجھیں پو ری دنیا میں پھیلے ہو ئے ہزاروں مریدوں کی دولت اور وسائل کو Enjoyکریں ۔ دنیا بھر کےCasinos میں جائیں دبئی مڈل ایسٹ میں شاپنگ اور بڑے ہو ٹلوں میں عیا شیا ں کریں تو اِن گدی نشینوں کو نزلہ زکام تک نہ ہو اور اگر یہ عرس میں شریک نہ ہو ں تو مرنے کا خطرہ کتنی مضحکہ خیز با ت ہے ما دیت پرستی کی کثافتوں میں لتھڑے ہو ئے یہ گدی نشین کس طرح سادہ عوام کی تو ہم پر ستی سے کھیلتے ہیں اِس میں کو ئی شک نہیں کہ وطن عزیز کی تمام روحانی گدیوں کے اصل بزرگ جن کے نام پر مزارات اور آستانے قائم ہیں یہ سارے اہل حق ہیں تمام فرائض اسلامی کے پکے پا بند اور متقی تھے لیکن ہما ری بد قسمتی کہ آج اِن روحانی گدیوں پر نام نہا د گدی نشینوں کا قبضہ ہے جو بر ی طرح عوام کا استحصال کر رہے ہیں اِن سا دہ مریدوں سے کو ن پو چھے کہ اصل قصور وار تو احتساب عدالت تھی جو ان کو عرس پر نہیں جا نے دے رہی سارا ملبہ تو احتساب عدالت پر گرنا چاہیے تھا ۔ جبکہ اُس وقت فیصل صالح حیات صاحب کا نپ رہے تھے کہ میں عرس پر نہ گیا تو فوت ہو جا ؤں گا ۔ میرے پاس کئی بار مریدوں کے جتھے آچکے ہیں جو آکر کہتے ہیں کہ اُن کے پیر صاحب پر جا دو ہو گیا ہے یا اِن کی فلا ں چیز چوری ہو گئی ہے یا گدی کے وارث آپس میں لڑ پڑے ہیں ۔ اب سادے مرید اپنے پیر صاحب کی مدد کے لیے پیروں عاملوں اور سیا سی لو گوں کے پاس جا کر مدد مدد پکارتے نظر آتے ہیں ۔ زیادہ تر گدی نشین پڑھے لکھے اور روشن خیال ہیں اِن کے چکر میں پھنسے ہوئے سادہ لو گ زیا دہ تر دیہاتی اور ان پڑھ ہیں مریدوں کی سادگی جہا لت اور توہم پر ستی ہی تو گدی نشینوں کی جان ہے جس کے بل بو تے پر یہ سادہ لوح مریدوں پر حکمرانی کر رہے ہیں احتساب عدالت پر غصے کی بجا ئے گد ی نشین پر خوف مجھے ایک مشہو ر لطیفہ یا دا ٓگیا کہ ایک ہندو دیوی کا پجا ری تھا لیکن اُس پجا ری کا بیٹا دیوی کو نہیں ما نتا تھا اب جب ہندو کا م کے سلسلے میں با ہر چلا جا تا تو بیٹا دیوی کے ساتھ بد تمیزی کر تا اُس کو زمین پر الٹا گرا دیتا وہ روزانہ دیوی کے ساتھ ایسے ہی کر تا اب دیوی نے لڑکے کے با پ کو خواب میں آکر کہنا شروع کر دیا کہ اپنے بیٹے کو روک دو سمجھا دو ورنہ میں تمہا ری ٹانگیں توڑ دو ں گی تو پجا ری نے ہا تھ جو ڑتے ہو ئے کہا اس میں میرا کیا قصور ہے گستا خی تو میرا بیٹا کر تا ہے تو آپ میری ٹانگیں کیوں تو ڑیں گی تو دیوی نے غصے سے کہا وہ کمینہ گستاخ تو مجھے ما نتا ہی نہیں اِس لیے شامت تمہا ری ہی آئے گی کیونکہ تم مجھے ما نتے ہو ۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 658144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.