اشتہارات کی جادو گری، انسانی بقا کو خطرہ

آج جس طرح کا تناؤ انسانوں میں پایا جارہا ہے شاید ہی کبھی ایسا تناؤ انسانوں کی زندگی میں آیا ہو ،حالات یہ ہو چکے ہیں کہ انسانوں کی زندگی مسائل کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گم ہو کر رہ گئی ہے اور اسے اپنی بقا کے لئے انتہائی جدو جہد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔حالات یہ ہو چکے ہیں کہ صبر و ضبط کا پیمانہ بھی دم توڑنے لگا ہے ۔کوئی ایسی ضروریات نہیں ہے جس کے بغیر انسان صبر سے کام لے کر خاموش بیٹھ جائے ۔حالات اس قدر پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں کہ لوگوں کو اپنی بقا خطرے میں پڑتے دیکھا ئی دے رہی ہے ۔بنیادی ضروریات انسان کی زندگی سے کوسوں دور ہونے لگی ہے ۔جس طرح سے گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے اسی طرح سے لوگوں کی بنیادی ضروریات میں سے سب سے اہم پانی کا ختم ہونا ہے ۔پانی ایک ایسی شئے ہے جس کے بغیر کوئی جاندار زندہ رہ ہی نہیں سکتا ہے ۔پانی کی قلت گرچہ پورے ہندوستان میں محسوس کی جارہی ہے لیکن فی الحال مہاراشٹر میں جس قدر قحط کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی زندگی کی بقا اب خطرے سے دوچار ہو چکی ہے ۔اسی طرح خشک سالی سے ملک میں آناج کی پیداوار پر اثر پڑ رہا ہے ،جس کی وجہ سے آٹا چاول مہنگائی کی حد کو پار کرنے کے قریب ہے ۔جو عام آدمی کے پہنچ سے باہر ہو رہا ہے ۔یہاں بھی انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے ۔یعنی صبر اور شکر سے کام نہیں چل سکتا ہے جس طرح پانی پیئے بغیر کوئی زندہ رہنے کا تصور نہیں کر سکتا ہے اسی طرح کھانے کے بغیر کوئی زندہ نہیں رہ سکتا ہے اس کی تازہ مثال ہم بندیل کھنڈ میں دیکھ سکتے ہیں جہاں لوگ گھاس کو ذرا سی آٹا میں ملاکر روٹی پکاکر کھا رہے ہیں ۔اس کے علاوہ مختلف طرح کے مسائل ہیں جس سے ہر امیر و غریب دوچار ہے۔معاشی تنگی کی وجہ سے آج نکاح مشکل ہو گیا ہے ،وہیں آگ میں گھی ڈالنے کا کام اسمارٹ فون نے کیا ہے جس میں معلومات کا خزانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر اس چیز کو دیکھ سکتے ہیں جو انسان کی تفریح طبع کے لئے ہے ۔ان سب کی وجہ سے جسمانی ہیجان اس قدر پڑھ رہا ہے کہ اب ہر کوئی فرینڈ فرینڈ کھیلنے میں مصروف ہے وہ بھی چند لمحوں کے لئے اپنے جذبات کے ایندھن کو برقرار رکھنے کا سامان تلاش کر رہے ہیں ۔جس کی وجہ سے آئے دن معاشرہ میں مختلف طرح کی خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں ان سب کا انجام بہت برا ہی نہیں بلکہ انتہائی خطرناک کی حد تک جا پہنچا ہے ۔انسان اپنی زندگی کو خیر آباد کہنے میں عافیت محسوس کر تا ہے ۔چاہے اس کی زندگی کتنی ہی خوشگوار اور مشہور ہو ،خود کشی جیسی لعنت سماج میں عام ہے ۔وہیں عشق و عاشقی کے ناپاک بندھن میں بندھتے جا رہے ہیں ۔اور اسے انجام تک پہنچانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں ۔جس کا فائدہ کچھ تانترک اور کچھ ڈاکٹر اٹھانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں ۔کچھ لوگ تو ان تمام مسائل کو سلجھانے کے دعوے کرتے ہیں اور لاکھوں روپے صرف اشتہارات میں خرچ کر ڈالتے ہیں جو انسان کو گمراہ کرنے کا کام کرتے ہیں ۔اسی اشتہارات کے بڑھتے جرائم کو روکنے کیلئے حکومت نے کچھ اقدامات کئے ہیں جو قابل تعریف ہے ۔اگر کوئی مشہور ہستی گمراہ کرنے والا اشتہار کرتی ہے ،تو اسے بھاری جرمانے ادا کرنے کے علاوہ پانچ سال تک کی جیل کی سزا بھی ہو سکتی ہے ۔ایک پارلیمانی کمیٹی جلد اس سلسلہ میں سفارش کر سکتی ہے ۔ایک ذرائع نے کہا کمیٹی نے کئی میٹنگوں کے بعد اس معاملہ پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا ۔میٹنگوں میں یہ نکل کر آیا کہ گمراہ کرنے والے اشتہارات کے لئے کچھ احتساب طے کرنے کی ضرورت ہے ۔اس میں بھاری جرمانہ لگانے اور یہاں تک کہ پانچ سال کی جیل کی سزا کی سفارش کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ۔پہلی بار غلطی کرنے پر کمیٹی دس لاکھ روپے جرمانہ اور دوسال کی جیل کی سفارش کرنے کی منصوبہ بنا رہی ہے ۔لیکن دوسری بار غلطی کرنے پر پچاس لاکھ روپے جرمانہ اور پانچ سال کی جیل کی سزا کا قانون ہوگا ۔چونکہ انسان کی زندگی کو چمک دھمک کے ساتھ بر قرار رکھنے کے لئے مختلف طرح کے ایسے ادویات یا پروڈکس مارکٹ میں آچکے ہیں جس کے استعمال سے انسان کا جسم متاثر ہوتا ہے اور پھر اس کے بہت بڑے سائڈ افیکٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔کمپنیاں اپنے مال کو مارکٹ میں کھپانے کے لئے مشہور ہستیوں کا سہارا لیتی ہیں اور وہ پیسے کی لالچ میں اشتہار کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں جس سے انسان کی زندگی برباد ہونے والی ہوتی ہے ۔اس لئے سرکار ایسے سلیبریٹی کے خلاف بھی سخت قانون بنانے کی تیاری کر رہی ہے۔اس کے لئے سارا خاکہ تیار ہو چکا ہے ۔صارفین معاملات پر بیس رکنی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ تیلگو دیشم پارٹی کے ایم پی جے سی دیواکر ریڈی ہیں۔کمیٹی کی اگلی میٹنگ انیس اپریل کو ہونی ہے جس کے بعد رپورٹ کو حتمی شکل دی جائے گی ۔بعد میں اسے پارلیمنٹ کے پچیس اپریل سے شروع ہونے والے سیشن میں رکھا جائے گا۔ذرائع نے کہا کہ کمیٹی ان صارفین کو لے کر فکر مند ہے جو سلیبر ٹیز کے ذریعہ پروڈکس یا سروسز کی تشہیر سے گمراہ ہو جاتے ہیں ،جبکہ کئی بار یہ مصنوعات ناقص معیار کے ہوتے ہیں ۔کمیٹی کا کہنا ہے کہ بھاری جرمانے کا التزام اس لئے کئے جانے کی ضرورت ہے جس سے برانڈ ایمبیسڈر کسی اشتہاری معاہدے پر دستخط سے پہلے احتیاط برتیں ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.