اذان سے نماز تک

 ایک مسلمان جب اس پر آشوب دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو اس کی سماعتوں میں اذان کی آواز سے شیرینی گھولتی جاتی ہے ، گویا ایک طرف تو اسے خوش آمدید کہا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ در پردہ واپسی کے سفر سے آگاہ کردیا جاتا ہے۔

بالفاظ دیگر یہ باور کرا دیا جاتا ہے کہ زندگانی مستعار لے کر آۓ ہو ، یہ حیات گراں مایہ تمہارے وجود ناتواں کو بخش کر دنیا کی کلفتوں کی حوالے کردیا گیا ہے ۔ اب چاہو تو اپنی حیات جاوانی کو چمنستان بنانے کا سامان کرلو یا خارستان !

ہاں ! یہ بات یاد رہے کہ حیات فانی کے سیماب صفت لمحوں کو مٹھی میں قید کرنے کا خواب ایک سیراب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا لہذا اس کے دام الفت میں گرفتار ہو کر کور چشمی کا مظاہرہ مت کر بیٹھنا ۔

تمہارے اختیار میں ہے کہ زندگانی کو عمل تلویح سے گزار کر ذرۂ ماہ تاب بنا ڈالو یا دشت نوردی کرکے ذرۂ خاک بن جاؤ!

تمہاری حیات فانی برف کی اس سل کی مانند ہے جو کھلے آسمان تلے آفتاب کے رحم و کرم پر ہے، جس کا سفر پرواز خیال کی مانند تیزی سے جاری و ساری ہے ۔ اس سفر کو امیدوں کی طرح طویل کرنا تمہارے بس کی بات نہیں ،یہ سفر کس لمحے ، کس گھڑی اور کس آن تھم جائے ،کوئ نفس اس سے واقف نہیں ۔

گویا زندگی کی اذان سے اجل کی نماز تک کا وقفہ کتنا ہے ،کسی کو بھی معلوم نہیں !
از قلم : بنت میر
 
Sadia Javed
About the Author: Sadia Javed Read More Articles by Sadia Javed: 24 Articles with 20449 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.