۲۰۱۳ء میں کئی ایسے چراغ گُل ہوئے جو علم وادب کی
شاہراہ کو روشن رکھے ہوئے تھے۔یوں تو اِن اصحابِ علم وفن کی
تعداد پچاس سے زائدبنتی ہے جو اس سال ہمیں داغِ مفارقت دے گئے تاہم چیدہ
چیدہ شخصیات کا تذکرہ اور ان کی علمی کاوشوں
کا بیان درج ذیل ہے۔
۱۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی:آپ ممتاز شاعر، نقاد، ماہر تعلیم، دانشور اور ادیب
تھے۔ آپ ۱۹۳۸ءکو امروہہ (یو ۔پی انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ ابتداء میں آپ نے
شاعری کی لیکن بعد ازاں تنقید کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔آپ نے انگریزی زبان
میں تقریباًچالیس سال تک روزنامہ ڈان میں Arialکے عنوان سے ادبی و ثقافتی
کالم بھی لکھے۔ وفات سے قبل آپ بزنس ریکارڈرمیں کالم لکھ رہے تھے۔ آپ ترقی
پسند تحریک کی اہم شخصیت تھے۔ آپ نے کراچی یونیورسٹی کے پاکستان سٹڈی سنٹر
میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ قائداعظم اکیڈمی کراچی
کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ ہمدرد یونیورسٹی میں ڈین کے عہدے پر فائز رہے اور
بزٹیک ((Biztek میں بھی ڈین کی حیثیت سے کام کیا۔ آپ نے فیض ، جوش، اقبال،
سر سیّد ، غالب اور قائداعظم پر تقریباً سترہ (۱۷) کتب تحریر کیں۔آپ کو
۲۰۰۳ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازاگیا۔ آپ کی کتب میں’’
توازن‘‘ ، ’’نشانات‘‘ ، ’’کروچے کی سرگزشت‘‘،’’ اشارے‘‘ ، ’’تلاشِ اقبال‘‘،’’
سرسیّد احمد خان اور جدّت پسندی‘‘، ’’مطالعات ِجوش ‘‘، ’’غالب اور آج کا
شعور ‘‘اور ’’ادراک ‘‘شامل ہیں۔ آپ سہ ماہی ’’ارتقا‘‘ کے شریک ِ مدیر بھی
تھے۔آپ اچانک بیمارپڑے اور ہسپتال داخل کرائے گئے لیکن جانبر نہ ہو سکے۔ آپ
نے ۹ جنوری ۲۰۱۳ء کو
وفات پائی ۔
۲۔سراج الحق میمن:آپ سندھی اور انگریزی زبان کے نامورادیب ،شاعراوردانشورتھے۔
بیورو کریٹ اور سپریم کورٹ کے وکیل بھی رہے۔ ان کی سندھی ادب اور ثقافت کے
لیے خدمات قابل تحسین تھیں۔ وہ ۲۴اکتوبر ۱۹۳۳ء کوٹنڈوجام میں پیدا ہوئے ۔
ان کے والد ما ہر تعلیم تھے اور ان کا’’دیوان ِحافظ‘‘کا سندھی ترجمہ ایک
قابل ذکر کارنامہ ہے۔ سندھی زبان میں آپ کے دو افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔
انھوں نے سندھی زبان میں کئی ناول بھی تحریر کئے۔آپ نے ڈرامے بھی لکھے اور
چینی اور امریکی ادب کے تراجم بھی کئے۔آپ کی کتاب ’’سندھی بولی‘‘پرآپ کو
رائٹرزگلڈ کا انعام ملا۔ انھیں حکومت پاکستان نے ’’ستارہ ٔامتیاز‘‘سے بھی
نوازا۔ انھوں نے دو انگریزی
کتابیں ’’ہسٹری آف سندھی لینگویج ‘‘اور’’بائیو گرافی آف این این نون سندھی
‘‘بھی تحریر کیں۔ ۲ فروری ۲۰۱۳ء کوکراچی میں وفات
پائی۔
۳۔نور احمد ناز:آپ اردو زبان کے نوجوان شاعر تھے۔۳۰ مارچ ۱۹۷۴ء کو ڈیرہ
اسمعیل خان میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم ڈیرہ اسمعیل خان سے حاصل
کی۔بعدازاں ڈیرہ اسمعیل خان سے ہی ایف ۔اے کیا۔آپ نے ’’برگ ِ نو‘‘ کے نام
سے ڈیرہ اسمعیل خان سے ادبی پرچہ نکالنا شروع کیا لیکن مالی وسائل کی کمی
کے باعث اسے جلد ہی بند کرنا پڑا۔ آپ کا کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہوا۔آپ
گُردوں کی
بیماری میں مبتلا تھے۔ آپ نے۱۴ فروری۲۰۱۳ ءکو ڈیرہ اسمعیل خان میں وفات
پائی۔
۴۔شبنم شکیل:آپ اردو زبان کی معروف شاعرہ تھیں۔ ۱۲ مارچ ۱۹۴۲ء کو مشہور
شاعر عابد علی عابد کے گھر واقع لاہور میں پیدا ہوئیں۔ عابد علی عابد کی
دختر ہونے کی وجہ سے آپ کی پرورش خالصتاً ادبی ماحول میں ہوئی۔ آپ نے
اسلامیہ کالج لاہور سے بی ۔ اے اور اورینٹل کالج لاہور سے ایم ۔ اے (اردو)
کیا۔ اس کالج کے بعد تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔ کوئین میری کالج
لاہور، لاہور کالج برائے خواتین لاہور، فیڈرل کالج اسلام آباد اور گورنمنٹ
کالج راولپنڈی میں درس و تدریس سے وابستگی رہی۔ ۲ مارچ ۱۹۶۷ء کو آپ کی
شادی ایک بیورو کریٹ سید شکیل احمد سے ہوئی۔ آپ کو ۲۰۰۴ء میں صدارتی تمغہ
برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ آپ کی نثری کتب میں ’’تنقیدی مضامین‘‘
(۱۹۶۵ء)،’’ تقریب کچھ تو ‘‘(۲۰۰۳ء)، ’’حسرت موہانی کا تغزل ‘‘(زیر اشاعت)
اور افسانوی مجموعۂ ’’نہ قفس نہ آشیانہ‘‘ (۲۰۰۴ء) شامل ہیں۔ آپ نے ۲۰۰۵ء
میں وزارت بہبود خواتین کے کہنے پر ڈاکٹر سلیم اختر اور خالدہ حسین کی
وساطت سے ’’ خواتین کی شاعری ((۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۰ء) اور مشاعرے پر اس کے
اثرات‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی مرتب کی ۔ آپ کے شعری مجموعوں میں ’’شب زاد
‘‘(۱۹۸۷ء)، ’’اضطراب ‘‘(۱۹۹۴ء) اور ’’مسافت رائیگاں تھی ‘‘(۲۰۰۸ء) شامل
ہیں ۔ آپ نے موسیقی کے حوالے سے بھی ایک کتاب ’’آواز تو دیکھو‘‘ تصنیف کی۔
آپ اپنی بیٹی کے ہاں کراچی گئی ہوئی تھیں اور وہیں ۲ مارچ ۲۰۱۳ء کو آپ کا
انتقال ہوا۔ آپ
کے جسدِ خاکی کو اسلام آباد منتقل کر کے ۳ مارچ ۲۰۱۳ء کو ایف الیون اسلام
آباد کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
۵۔خالد احمد: آپ اُردو زبان کے معروف شاعر،ادیب اور کالم نگار تھے۔آپ نے
پنجابی زبان میں بھی شاعری کی۔آپ۹جون ۱۹۴۳ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔
خالداحمد جب پانچ چھ سال کی عمر میں اپنی بہنوں اور اپنی ماں کے ہمراہ
لکھنوء سے ہجرت کر کے لاہور آئے تو احمد ندیم قاسمی نے انہیں اپنی تحویل
میں لے لیا۔ اس کے بعد پندرہ سولہ برس تک وہ انہی کے زیرِ سایہ اور زیرِ
تربیت رہے ۔وہ نثری ادب میں نام کمانے والی دو بہنوں خدیجہ مستور اور ہاجرہ
مسرور کے چھوٹے بھائی تھے۔ ان کے بڑے بھائی توصیف احمد خان ایک نامو رصحافی
تھے۔انکے والد گرامی حضرت مولا نا مصطفی خان مداح بھی معروف شاعر تھے۔لیکن
خالد احمد کی پہچان ان حوالوں سے ماورا تھی کیونکہ ان کا اپنا شعری حوالہ
بہت مضبوط اور توانا تھا۔ اُنہوں نے میدانِ سخن میں اس طمطراق سے قدم رکھا
کہ دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی بلندیوں کو جا چُھوا۔ خالد احمد نے اپنا لڑکپن
لاہور میں گذارا۔ مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور سے میٹرک اور دیال سنگھ کالج
لاہور سے بی ایس سی کی ڈگری لی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے فزکس میں ایم ایس سی
کرنے کے بعد ۱۹۷۹ء کو واپڈا میں بحیثیت انفارمیشن افسر تعینات ہوئے اوراسی
محکمے سے بحیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر ریٹائرمنٹ لی۔ خالد احمد کے شعری مجموعوں
میں’’ تشبیب ‘‘(نعتیہ کلام)،’’ ایک مٹھی ہوا‘‘،’’ ہتھیلیوں پہ چراغ‘‘ ،
’’پہلی صدا پرندے کی‘‘، ’’دراز پلکوں کے سائے سائے‘‘ اور ’’نم گرفتہ ‘‘شامل
ہیں۔ آپ کی دو نثری کتب ’’لمحہ لمحہ ‘‘اور ’’بین السطور ‘‘کے نام سے شائع
ہوئیں۔خالد احمد نے کالم نگار ی بھی کی۔شروع میں وہ روزنامہ’’ مشرق ‘‘کے
لئے کالم لکھتے رہے اوربعدازاں’’ لمحہ لمحہ ‘‘کے نام سے آپ نے روزنامہ’’
نوائے وقت‘‘ میں ایک طویل عرصہ کالم نگاری کی۔خالد احمد کو ان کی ادبی
خدمات کے صلے میں مارچ ۲۰۱۱ء کوصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے اعزاز
سے نوازا گیا۔ خالد احمدنے ۱۸ اور ۱۹ مارچ ۲۰۱۳ء کی درمیانی شب لاہو ر میں
انتقال کیا اور
لاہور میں دفن ہوئے۔
۶۔سید اختر پیامی : آپ ایک نامور ادیب ، شاعر، دانشور اور صحافی تھے۔ آپ
راج گیر ضلع بہار (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد آ پ ڈھاکہ
میں ’’ مارننگ نیوز‘‘ سے وابستہ رہے ۔ ۱۹۷۲ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد وہ
کراچی آگئے اور ’’ مارننگ نیوز‘‘ سے وابستگی برقرار رہی۔ بعد ازاں آپ نے
’’ڈان‘‘ جیسے مؤقر اخبار میں ملازمت اختیار کی۔ آپ کا شعری مجموعہ ‘‘ آئینہ
خانہ‘‘ کے نام سے شائع
ہوا۔آپ نے ریڈیو کیلئے سکرپٹ بھی لکھے۔ آپ نے ۸ ،اپریل ۲۰۱۳ء کو وفات پائی
۔
۷۔عباس اطہر: آپ اردو کے نامورشاعر،ادیب اور صحافی تھے۔ادبی زندگی کاآغاز
شاعری سے کیا لیکن بعدازاں مستقل طور پرصحافت سے وابستہ ہو گئے۔آپ ۱۲،
اپریل ۱۹۳۹ءکو مغلپورہ لاہور کے قریب تاجپورہ (غازی آباد) میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم جھنگ میں حاصل کی جہاں ان کے والد عبدالرحیم شاہ بسلسلہ
ملازمت مقیم تھے۔ میٹرک اور ایف اے ساہیوال سے کیا۔ بعدازاں لاہور کے
اسلامیہ کالج سول لائنز میں تھرڈائیر میں داخل ہو گئے تا ہم بی اے کا
امتحان پرائیوٹ طور پر پاس کیا۔انہوں نے کچھ عرصہ ریلوے میں ملازمت بھی کی
لیکن کچھ وقت کے بعدملازمت چھوڑ کر کراچی چلے گئے ۔کراچی میں شوکت صدیقی کی
زیر ادارت شائع ہونے والے اخبار’’ انجام‘‘ کے سب ایڈیٹر رہے۔کم وبیش ایک
سال کے بعد عباس اطہر کراچی سے واپس اپنے آبائی شہر لاہور آ ئے اور
روزنامہ’’ امروز‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔بھٹو کی حمایت کی پاداش میں ضیاالحق دور
میں قید وبندکی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔۱۹۸۱ءمیں دبئی کے راستے امریکہ
چلے گئے اور۱۹۸۸ء تک وہیں قیام کیا۔ ضیاالحق کے دور کے خاتمے پر وہ وطن
واپس آگئے اور دوبارہ صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ اس دوران انہوں نے
روزنامہ’’ مساوات‘‘، ’’صداقت‘‘، ’’آزاد‘‘، ’’خبریں‘‘، ’’پاکستان‘‘ اور
’’نوائے وقت‘‘ میں خدمات انجام دیں۔ان کی بنائی ہوئی روزنامہ ’’آزاد‘‘ کی
ایک شہ سرخی’’ادھرہم اُدھر تم‘‘ نے ضرب المثل کی حیثیت اختیار
کی۔آپ۲۰۰۶ءمیں روزنامہ’’ ایکسپریس‘‘سے وابستہ ہو گئے۔ کالم نویسی کا
باقاعدہ سلسلہ’’ نوائے وقت‘‘ میں شروع ہوا اور ’’کنکریاں‘‘کے عنوان سے ان
کے کالموں نے عالمی شہرت حاصل کی۔ اس دوران انہوں نے پاک ٹی ہاوس جانا شروع
کیاجہاں افتخار جالب کی حوصلہ افزائی نے ان کے اندر کے شاعر کو دوبارہ جگا
دیا۔عباس اطہر کا پہلاشعری مجموعہ ’’دن چڑھے، دریا چڑھے‘‘ـ۱۹۶۴ء میں منظر
عام پر آیا۔ دوسرامجموعہ ’’کہا سنا‘‘کے نام سے آیا لیکن اسے ضبط کر لیا
گیا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے موقع پر انہوں نے جو نظمیں کہیں وہ ’’ذکر‘‘کے
نام سے الگ سے شائع ہو چکی ہیں۔ ۲۰۰۰ءمیں ان کاتمام کلام کلیات کی صورت
میں’’آواز دے کے دیکھ لو‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور قبول عام کی سند حاصل
کی۔ آپ ایک عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔آپ نے۶ مئی۲۰۱۳ء کو لاہور
میں وفات پائی اور تاجپورہ لاہور میں دفن ہوئے۔
۸۔پروفیسر رفیق احمد نقش :آپ اردو ، فارسی اور سندھی زبان کے مشہور
ادیب،شاعر،مترجم،محقق،معلم،مدیر،مرتب اور ماہر لسانیات
تھے۔۱۵مارچ۱۹۵۹ءکومیرپورخاص(سندھ)میں پیداہوئے۔ابتدائی تعلیم کے بعدکراچی
کا رُخ کیا۔جامعہ سندھ سے۱۹۸۱ءمیں ایم۔اے اردواور ۱۹۹۱ءمیں ایم ۔اے
لسانیا ت کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد آپ اکتیس برس درس وتدریس سے وابستہ
رہے۔ آپ نے ہندی ، فارسی اور سندھی سے اردو میں کئی تراجم کئے۔ ایک کتابی
سلسلہ ’’ تحریر‘‘ کے نام سے بھی شائع کرتے رہے جس کے ۹ شمارے شائع ہوئے۔ آپ
نے ’’سب رنگ‘‘ کیلئے مضامین کا انتخاب بھی کیا اور ’’ ایم ایف حسین کی
کہانی اپنی زبانی ‘‘ کا ہندی سے اُردو میں ترجمہ کیا۔ آپ نے مشفق خواجہ کی
تحریک پر خواجہ حمید یزدانی کی کتاب ’’مصطلحات الشعراء‘‘ میں تحقیقی تعاون
کیا۔ کالی داس گپتاکی مشہور کتاب’’دیوان ِغالب کامل‘‘ کے جدید ایڈیشن میں
تصحیح و املا میں انجمن ترقی اردو کراچی سے تعاون کیا۔ اس کے علاوہ انجمن
ترقی اردو کراچی کے ماہنامہ ’’ قومی زبان‘‘ میں اکتوبر ۲۰۰۹ء سے مارچ
۲۰۱۱ء تک ’’ نئے خزانے‘‘ کے عنوان سے اشاریہ مرتب کیا۔ شمس الحق کی کتاب
’’ اردو کے ضرب المثل اشعار تحقیق کی روشنی میں ‘‘ کی ترتیب و تہذیب میں
معاونت کی۔ رفیق نقش کتابوں کے رسیا تھے۔وفات کے وقت آپ کی نجی لائبریری
میں بیس ہزار کتب موجود تھیں۔آپ ۱۵ مئی ۲۰۱۳ء کو اچانک دل کا دورہ پڑنے سے
کراچی میں انتقال کرگئے ۔اگلے روز۱۶ مئی کومحمدشاہ قبرستان کراچی میں دفن
کیا گیا۔
۹۔سیّد اظفر رضوی:آپ اعلی درجے کے شاعر،ادیب اور معلم تھے۔آپ کے دادا پٹنہ
کے معروف طبیب اور علمی وادبی شخصیت تھے۔نانا برصغیر پاک وہند کے نامور
عالم دین تھے۔آپ کے والدسیّد احمد رضوی مشرقی پاکستان میں سول سروسز سے
وابستہ تھے۔سانحہ مشرقی پاکستان کے بعداظفر رضوی کے خاندان نے کراچی ہجرت
کی اوراظفر نے جامعہ کراچی سے ماسٹر کیا۔کراچی میں آپ نے’’ ڈھاکہ انسٹی
ٹیوشنز ‘‘کے نام سے ایک ادارہ بنایا جس نے’’ دائرہ ادب و ثقافت‘‘ کے تعاون
واشتراک سے علمی وادبی سر گرمیوں کو فروغ دیا۔درس وتدریس کے میدان میں بھی
آپ نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔آپ کو انجمن ترقی اردو کراچی کا نائب
معتمد اعزازی تعینات کیا گیا تو آپ نے نہایت جاں فشانی سے یہ خدمت انجام
دی۔۳۱مئی۲۰۱۳ءکو آپ کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔
۱۰۔ریاض الرحمن ساغر:ریاض الرحمن یکم دسمبر ۱۹۴۱ء کو ریاست پٹیالہ کے
شہربٹھنڈا میں پیدا ہوئے ۔۱۹۴۷ء میں اپنے والدین کے ساتھ پاکستان آگئے مگر
والد صاحب فسادیوں کے حملے میں شہید ہو گئے۔ والد کی وفات کے بعد گھر کا
بوجھ اٹھانے کیلئے انہوں نے گلی گلی پیاز، لفافے اور غبارے بیچ کر اپنی
والدہ کا ہا تھ بٹایا تاہم انہوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ ۱۹۵۳ء میں
صادق اے وی مڈل سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا ، خانیوال سے نویں اور
۱۹۵۶ء میں ملت ہائی سکول ملتان سے میٹرک پاس کیا۔ میٹرک کرنے کے بعد
ایمرسن کالج میں داخلہ لے لیا۔ ادبی جریدے’’لیل و نہار‘‘ میں پروف ریڈر کی
نوکری کی۔ پنجابی فاضل اور بی اے کرنے کے بعد ۱۹۵۹ء میں روزنامہ’’ نوائے
وقت‘‘ میں نوکری کرنے لگے ۔ انہیں فلم کا سکرپٹ اور گانے لکھنے کا بہت شوق
تھا۔ ’’نوائے وقت ‘‘میں نوکری کے دوران ان کی ملاقات عزیز میرٹھی سے ہوئی
جو اس وقت فلموں کے کامیاب رائٹر تھے۔عزیز میرٹھی کی وساطت سے ایک فلم
’’کالیا‘‘ کے دو گانے لکھنے کا موقع ملا۔اس طرح ان کی پہچان فلم انڈسٹری
میں بطور نغمہ نگار ہونے لگی۔ اس کامیابی نے ان کیلئے فلم انڈسٹری کے
دروازے کھول دیئے اور پھرریاض الرحمان ساغر نے ان گنت فلموں کیلئے یاد گار
گانے لکھے۔انہوں نے معاشرتی مسائل کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایااور
مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی اپنی نظموں کے ذریعے ان مسائل کو متعلقہ
لوگوں اور محکموں تک پہنچایا۔آپ نے یکم جون ۲۰۱۳ء کو لاہور میں وفات پائی
اور لاہور میں ہی دفن ہوئے۔
۱۱۔فرمان فتح پوری: فرمان فتح پوری کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ آپ ۲۶
جنوری ۱۹۲۶ء کو ریاست اتر پردیش (انڈیا) کے شہر فتح پور کے قریب واقع گاؤں
ہسوا میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۳ء میں آپ کے والد کا انتقال ہو گیا جب آپ کی عمر
صرف ۷ سال تھی ۔ آپ کے والد سیّد عاشق علی پولیس کے محکمے میں سب انسپکٹر
کے عہدے پر فائز تھے۔ والد کی وفات کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کی
والدہ سیّدہ عزیزالنساپر آپڑی جنہوں نے یہ ذمہ داری بڑے احسن طریقے سے
نبھائی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کو فتح پور کے ہائی سکول میں
داخل کرا دیا گیا جہاں سے ۱۹۶۶ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ آپ نے
میٹرک کے فوراً بعد گورنمنٹ مسلم ہائی سکول فتح پور سے بحیثیت استاد ملازمت
کاآغازکیا۔۱۹۴۸ء میں آپ نے حلیم انٹر کالج کانپور سے ایف ۔اے اور ۱۹۵۰ء
میں کرائسٹ چرچ کالج کانپور سے بی اے کیا۔ بی ۔اے کرنے کے بعد جون ۱۹۵۰ء
میں آپ نے پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔کراچی پہنچتے ہی
آپ نے سول ایوی ایشن میں لوئر کلرک کی حیثیت سے کام شروع کیاتاہم جلد ہی آپ
کو اے۔جی۔پی۔آر میں کلرک کی ملازمت مل گئی۔چونکہ اے۔جی۔پی۔آر میں ترقی کے
مواقع قدرے زیادہ تھے اس لئے آپ نے سول ایوی ایشن کو خیرباد کہہ کر
اے۔جی۔پی۔آرکراچی میں مستقل ملازمت اختیار کر لی۔ اے۔جی۔پی۔آرمیں محکمانہ
امتحان میں کامیابی کے بعدآپ ڈویژنل اکاؤٹینٹ بن گئے لیکن آپ کی منزل یہ نہ
تھی۔آپ کو اُردو سے والہانہ محبت تھی اور علامہ نیاز فتح پوری اور مولانا
حسرت موہانی کی صحبت نے اس شوق کو مزید جِلا بخشی۔آپ کوعلم و ادب سے جو
محبت تھی اس کا ثبوت آپ نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ کر دیا۔ کراچی پہنچنے
کے بعد آپ نے ۱۹۵۳ء میں ایس ایم لاء کالج سے ایل ایل بی اور ۱۹۵۵ء میں بی
ٹی کیا۔ اس کے بعد وہ کو توال بلڈنگ کے سکول میں انگریزی اور ریاضی کے
اُستاد مقرر ہوگئے۔ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا اور
۱۹۵۸ء میں آپ نے کراچی یونی ورسٹی سے ایم۔اے اردو کرلیا۔ایم ۔اے کرنے کے
بعد کراچی یونی ورسٹی میں بحیثیت لیکچرار تعینات ہوئے۔۱۹۶۵ء میں آپ نے پی
ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۷۴ء میں ڈی لِٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے آپ
پہلے پاکستانی شہری تھے۔ آپ ۳۰ سال تک درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے ۔
آپ کا زیادہ وقت کراچی یونیورسٹی میں گزرا جہاں آپ نے سینکڑوں طالب علموں
کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا ۔۱۹۸۵ء میں ڈاکٹر ابو الیث صدیقی کے سبکدوش
ہونے کے بعد آپ کو اردو ڈکشنری بورڈ کا سیکرٹری بنایا گیا۔چونکہ آپ ڈاکٹر
ابو الیث صدیقی کے شاگردِ خاص تھے اس لئے انہوں نے اردو ڈکشنری بورڈ کے لئے
آپ کا نام تجویز کیا۔۱۹۹۶ء میں آپ کو سندھ حکومت کے سول سروس بورڈ کا ممبر
بنایا گیا۔ درس و تدریس کے علاوہ ادبی میدان میں بھی آپ نے کارہائے نمایاں
انجام دیئے۔ آپ کے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے ہوا۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری
اپنے ادبی سفر کے بارے میں خودفرماتے ہیں’’مرا پہلا عشق شاعری تھا۔سکول کے
زمانے میں شاعری کا آغاز کیا اورمیری بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔۱۹۴۰ء سے
۱۹۵۰ء کے دوران میں نے اپنے آپ کو اپنے شہر کی حد تک منوا لیااور میرا
شمار شہر کے معروف شعراء میں ہونے لگا‘‘۔بعد ازاں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے
تحقیق و تنقیدکی طرف توجہ مبذول کی اور اسی کے ہو کر رہ گئے۔آپ۶۰ سے زائد
کتابوں کے مصنف تھے اورغالب شناسی میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں آپ
نے تحقیق و تنقید ، اقبالیات اور لسانیات میں کافی کام کیا۔آپ کی چیدہ چیدہ
کتب کے نام کچھ یوں ہیں۔اردو رباعی،تدریسِ اردو،تحقیق و تنقید،نیا اور
پرانا ادب،نواب مرزا شوق کی مثنویاں، قمر زمانی بیگم،زبان اور اردو زبان،
اردو املا اوررسم الخط ،اردو کی نعتیہ شاعری،تاویل و تدبیر،اقبال سب کے
لئے،فنِ تاریخ گوئی،اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری(پی ایچ ڈی
مقالہ)،اردو کی منظوم داستان (ڈی لِٹ مقالہ)میر انیس ۔حیات اور شاعری ،غالب
شاعر امروز و فردا،دریائے عشق اور بحرِ محبت کا تقابلی جائزہ، اردو افسانہ
اور افسانہ نگاری، ہندی اردو تنازعہ، نیاز فتحپوری۔دیدہ شنیدہ ، عورت اور
فنون ِ لطیفہ، غزلیات ِ غالب ۔شرح و متن ،اردو کی ظریفانہ شاعری،اردو فکشن
کی مختصر تاریخ ،اردو کی بہترین مثنویاں اورارمغانِ گوکل پرشاد۔آپ نے ’’بلا
جواز‘‘ کے نام سے اپنی سوانح عمری بھی تحریر کی۔نیاز فتح پوری آپ کے روحانی
پیشوا تھے۔ نیاز فتح پوری نے ۱۹۲۲ء میں لکھنو سے ادبی جریدہ ’’نگار‘‘ شروع
کیا۔ علامہ نیاز فتح پوری کی وفات کے بعد آپ ’’نگار‘‘ کے مدیر رہے۔آپ کی
ادبی خدمات کے عوض آپ کو۱۹۸۵ء میں ’’ستارہ امتیاز‘‘ دیا گیا۔آپ نے ۸۵ سال
کی عمر میں ۳ ،اگست ۲۰۱۳ء کو وفات پائی۔آپ کی نماز جنازہ مسجد خلفائے
راشدین ،بلاک ۱۳۔ڈی ون گلستان اقبال کراچی میں ۴ ،اگست کو ادا کی گئی۔آپ
کوکرا چی یونی ورسٹی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
۱۲۔قریش پور:آپ کا اصل نام ذوالقرنین قریشی تھا ۔آپ ۱۹۳۲ء میں پیدا ہوئے۔
آپ اردو کے معروف ناول نگار ، کالم نگار اور کمپیئر تھے۔ آپ نے ٹی وی
پروگرام ’’کسوٹی‘‘ سے شہرت پائی ۔ ۱۹۷۲ء میں پی ٹی وی سے بحیثیت کنٹرولر
پریزنٹیشن وابستہ ہوئے اور ۱۹۹۲ء میں اسی حیثیت سے سبکدوش ہوئے ۔ آپ نے ۵
،اگست ۲۰۱۳ء کو طویل علالت کے بعد وفات پائی ۔ پاپوش نگر کراچی میں دفن
ہوئے
۱۳۔سعیداحمد اختر:آپ ایک نامور شاعر ، ادیب اور اعلیٰ سرکاری افسر تھے۔ ۳
مارچ ۱۹۳۳ء کو پشین (کوئٹہ) میں پیدا ہوئے جہاں اُن کے والد محکمہ تعلیم
میں ملازمت کے سلسلہ میں مقیم تھے۔ بنیادی طور پر سعید احمد اختر کے والد
کا تعلق تحصیل کلاچی (ڈیرہ اسمعیل خان) سے تھا۔ آپ نے ۱۹۵۸ء میں پشاور
یونیورسٹی سے ایم ۔ اے انگلش اور اسی یونیورسٹی سے ۱۹۶۵ء میں ایم ۔ اے
اردو کیا۔ آپ نے ۱۹۵۴ء میں ملازمت کا آغاز لیکچر رشپ سے کیا لیکن بعد ازاں
۱۹۶۸ء میں پاکستان سول سروس کے ذریعے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے عہدے پر
فائزہوئے۔ خیبر پختون خواہ کے کئی اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر رہنے
کے بعد ایڈیشنل کمشنر کے عہدہ سے ۱۹۹۰ء میں ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد
ڈیرہ اسمعیل خان شہر میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ آپ نے ۲۰، اگست ۲۰۱۳ء
کو ڈیرہ اسمعیل خان میں وفات پائی ۔ آپ کے شعری مجموعوں میں ’’دیارِ شب‘‘
(۱۹۷۶ء)، ’’سطحِ آب‘‘ (۱۹۷۸ء)، ’’ چاندنی کے سائے‘‘(۱۹۸۱ء)، خوابگینے‘‘
(۱۹۸۳ء)، ’’لے گئی پون اُڑا ‘‘ (۱۹۸۷ء)، ’’پتہ ٹوٹا ڈال سے ‘‘
(کلیات۔۱۹۸۷ء)، ’’پوجا کے پھول ‘‘ (۲۰۰۰ء)، ’’ورشانجلی‘‘ (۲۰۰۲ء) Songs
from the desert (۲۰۰۳ء)، ’’اب کے بچھڑے کب ملیں‘‘ (۲۰۰۷ء)، ’’دُور پڑے
ہیں جا‘‘ (۲۰۰۹ء)، ’’گھونگھٹ کا پٹ کھول ری ‘‘ (۲۰۱۰ء)، ’’بیچے تو بک
جاؤں ‘‘ (۲۰۱۱ء) اور Flowers from the Templeشامل ہیں۔
۱۴۔محمود واجد:آپ معروف افسانہ نگار،مدیر اور نقاد تھے۔آپ کی ادارت میں
نکلنے والا سہ ماہی’’آئندہ‘‘ایک جدید طرز کا ادبی جریدہ تھا جس نے طویل
عرصہ ادب کی آبیاری کی۔محمود واجد نے ۲۴،اگست۲۰۱۳ء کو وفات پائی۔
۱۵۔احمد ہمیش:آپ یکم جولائی ۱۹۴۰ء کو اتر پردیش (بھارت) کے ضلع بلیا کے
چھوٹے سے گاؤں بانسپار میں پیدا ہوئے۔ دس سال کی عمر میں والدہ انتقال کر
گئیں۔ والد نے دوسری شادی کر لی ۔ سوتیلی ماں کے نارواسلوک کی وجہ سے
اٹھارہ سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔ یہاں آ کر شاعری شروع کی
اور پہلی نظم ماہنامہ ’’نصرت‘‘ میں ۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی ۔آپ اردو میں نثری
نظم کے بانیوں میں سے تھے ۔ ۱۹۷۰ء میں کراچی آگئے اور ریڈیو پاکستان کراچی
سے منسلک ہو گئے۔ اس زمانے میں قمر جمیل کی قیادت میں نثری شاعری نے ایک
تحریک کی شکل اختیار کی تو احمد ہمیش اس کے اہم کارکن تھے۔ ان کا پہلا
افسانوی مجموعہ سات افسانوں پر مشتمل تھا جس کا نام ’’مکھی‘‘ تھا ۔ یہ
مجموعہ ۱۹۶۸ء میں ہندوستان سے شائع ہوا۔ ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ
’’کہانی مجھے لکھتی ہے ‘‘۱۹۹۸ء میں شائع ہوا۔احمد ہمیش کی شاعری کا مجموعہ
’’ہمیش نظمیں ‘‘کے عنوان سے ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ آپ نیشنل اکیڈمی آف پر
فارمنگ آرٹ کراچی سے بھی وابستہ رہے ۔ آپ ادبی جریدہ ’’تشکیل‘‘ کے بانی
مدیر تھے۔ آخری دنوں میں وہ فنون ِلطیفہ کے تربیتی ادارے ناپا (NAPA)میں
کام کر رہے تھے ۔ آپ نے ۸ ستمبر ۲۰۱۳ء کو وفات پائی ۔
۱۶۔شفیع عقیل:آپ اردو اور پنجابی زبان کے مایہ ناز ادیب ، شاعر اور صحافی
تھے۔ آپ کا اصل نام محمد شفیع تھا ۔ آپ کی پہلی تحریر ۱۹۴۸ء میں ’’زمیندار
‘‘ میں شائع ہوئی۔ آپ ۱۹۳۰ء میں لاہور کے قریب گاؤں تھینسہ میں پیدا ہوئے
۔ ۱۹۵۰ء میں وہ کراچی منتقل ہو گئے ۔ ابتدا میں سائن بورڈ لکھ کر بسر
اوقات کر تے رہے ۔ بعد ازاں مجید لاہوری کے جریدے ’’نمکدان ‘‘ سے وابستہ ہو
گئے ۔ آپ کے افسانوں کا مجموعہ ’’بھوکے‘‘۱۹۵۲ء میں شائع ہوا ۔ ’’نمکدان ‘‘
کے بعد وہ بچوں کے رسالے ’’بھائی جان ‘‘ کے مدیر مقر ر ہو گئے۔ اس کے بعد
آپ روز نامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور ۶۰ سال تک اسی اخبار سے منسلک رہے ۔
شفیع عقیل نے پنجابی زبان میں بھی بہت کچھ لکھا ۔ وہ پنجابی شاعری میں ایک
نئی صنف کے موجد تھے۔ اس صنف پر مشتمل ان کی شاعری دو جلدوں میں شائع ہوئی
۔ آپ نے پنجابی لوک کہانیوں کو جمع کیا اور یونیسکو نے انگریزی اور دوسری
زبانوں میں یہ کتاب شائع کی ۔ آپ نے دنیا بھر سے کہانیوں کو جمع کر کے
انہیں اُردو میں منتقل کیا اور گیارہ جلدوں پر مشتمل کتاب شائع کی ۔ شفیع
کو مصوری سے بے حد لگاؤ تھا ۔ انہوں نے مصّوری پر بہت کچھ لکھا۔ انہوں نے
مجسمہ سازوں ، مصوروّں اور ادیبوں کے انٹر ویو زبھی کئے جو کئی جلدوں میں
شائع ہوئے۔ آپ نے مجید لاہوری کی شخصیت اور فن پر بھی کتاب لکھی اور مجید
لاہوری کے کالم ’’حرف و حکایت‘‘ کے نام سے مرتب کئے ۔ آپ نے ’’مشہور اہلِ
قلم کی گم نام تحریر یں‘‘ اور ’’نامور ادیبوں کا بچپن‘‘ کے نام سے بھی
کتابیں شائع کیں۔ قائداعظم کے اقوال اور کلام غالب کو انہوں نے پنجابی میں
منتقل ۔ شفیع کو سیرو سیاحت سے بھی دلچسپی تھی آپ نے کئی سفر نامے بھی لکھے
۔ آپ کو تمغۂ امتیاز ، داورادبی انعام اور خوشحال خان خٹک ایوارڈ سے نوازا
گیا۔ آپ نے ۸ ستمبر ۲۰۱۳ء کو کراچی میں وفات پائی ۔
۱۷۔شفقت تنویر مرزا: شفقت تنویر مرزا ، ۶ فروری۱۹۳۲ء کو جہلم میں پیدا
ہوئے ۔شفقت تنویر مرزا کا بڑا اور نمایاں حوالہ اُن کی صحافت تھی۔ انھوں نے
اپنی صحافت کا آغاز ۱۹۴۹ء میں روز نامہ ’’تعمیر‘‘ راولپنڈی سے کیا۔ اس کے
بعد وہ روز نامہ ’’ہلال‘‘ راولپنڈی سے منسلک ہو گئے۔ ۱۹۵۶ء میں انھوں نے
ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں ملازمت اختیار کر لی۔ ۱۹۵۸ء میں ان کو ریڈیو
پاکستان کی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ اسی ملازمت کے چھن جانے کے بعد
وہ لاہور منتقل ہو گئے ۔ اس دوران میں انھوں نے کچھ عرصے سول ملٹری گزٹ میں
بھی کام کیا ۔ ۱۹۶۴ء روزنامہ ’’امروز‘‘ میں چلے گئے۔ اس زمانے میں اس
اخبار میں اس دور کے ترقی پسند شعرا اور صحافی منسلک تھے۔ جن بڑی اور عظیم
ہستیوں کے ساتھ انھوں نے اس اخبار میں کام کیا ان میں جناب احمد ندیم قاسمی
، حمید اختر ، ظہیر بابر اور عبداﷲ ملک نمایاں ہیں۔یحییٰ خاں کے دور میں
آمرانہ ہتھکنڈے ویسے ہی تھے جیسے ایوب خاں دور کے تھے۔ اس دور میں سچ لکھنے
کی پاداش میں شفقت تنویر مرزا کو روزنامہ ’’امروز ‘‘ سے فارغ کر دیا گیا ۔
۱۹۷۵ء میں انھوں نے حنیف رامے، منوبھائی سے مل کر روزنامہ ’’فسادات کی
بنیاد رکھی۔
شفقت تنویر مرزا کو اپنی ماں بولی پنجابی زبان سے غیر معمولی لگاؤ اور محبت
تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے اظہار اور ابلاغ کا وسیلہ ارد و کے سا
تھ پنجابی زبان کو بنایا۔ پنجابی زبان اور اُس کے کلاسیکی شعرا پر اُن کا
کام ایک حوالے کا درجہ رکھتا ہے ۔ انھوں نے پنجابی کے کلاسیکی شعرا کے کلام
کا جہاں اردو میں ترجمہ کر نے کا آغاز کیا وہاں اُن کی یہ کوشش تھی کہ اُن
کے کلام کو انگریزی کا جامہ پہنایا جائے ۔ اس ضمن میں انھوں نے ’’ڈان‘‘
اخبار میں پنجابی سے انگریزی میں تراجم کا سلسلہ بھی شروع کیا لیکن یہ
سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا ۔ البتہ ’’وارث شاہ‘‘ اور ’’شاہ حسین‘‘
کے کلام کے جو اردو تراجم کیے اُن کو بے حد پذیر ائی ملی ۔ بطور ِ محقق
انھوں نے پنجابی زبان میں جو تحقیق کی وہ اُن کی شبانہ روز کھوج اور تلاش
کا مظہر ہے ۔ تحقیق میں انھوں نے مفروضوں کو چھوڑ کر اصل اور حقیقی ماخذا ت
تک رسائی حاصل کی ۔ کسی بھی موضوع پر لکھنے سے پہلے وہ اس کے جملہ پہلوؤں
کی گہری جانچ اور پرکھ کر تے پھر اُس پر قلم اُٹھاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی
تحقیقی کتب ایک حوالے کا درجہ اختیار کر گئی ہیں ۔ تحقیق کے باب میں اُن کی
یہ کتابیں قابل ِ ذکر ہیں۔شاہ حسین کی آپ بیتی، ادب راہیں پنجاب دی
تاریخ،تحریک پاکستان وچ پنجاب دا حصہّ، اکھیا سچل سر مست نہیں، بوہا کوئی
نا، لہو سہاگ، آزادی مگروں پنجابی ادب اور
Resistance themes in Punjabi Literature۔آپ ۲۰ نومبر ۲۰۱۳ء کو فوت ہوئے
۱۸۔اسلم سراج الدین:آپ ایک نامور افسانہ و ناول نگار تھے۔ آپ ۵ جنوری
۱۹۴۷ء کو موضع کھنیان لدھیانہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام
سراج الدین تھا۔ عملی زندگی کا آغاز درس و تدریس کے شعبے سے کیا ۔ آپ کے
افسانوں کا مجموعہ ’’سمر سامر‘‘ گوراپبلشرز لاہور نے ۱۹۷۷ء میں شائع کیا ۔
آپ نے اکادمی ادیبات اسلام آباد کے کتابی سلسلے ’’معمارِ ادب ‘‘ کے تحت
’’محمد منشافن و شخصیت ‘‘کے نام سے بھی ایک کتاب تصنیف کی جسے اکادمی نے
مارچ ۲۰۱۰ء میں شائع کیا ۔ آپ کے افسانوی مجموعے پر آپ کو اکادمی ادبیات
کی طرف سے مولوی عبدالحق ہجرہ ایوارڈ (۱۹۹۸ء) دیا گیا ۔ آپ کا ایک ناول
بھی اشاعت کیلئے زیر ترتیب تھا جس کے مختلف ابواب ادبی جریدوں میں شائع ہو
چکے تھے لیکن اس کی مکمل اشاعت کی زندگی نے انہیں مہلت نہ دی ۔ آپ نے ۳
دسمبر ۲۰۱۳ء کو گوجرانوالہ میں وفات پائی ۔
۱۹۔محبوب خزاں:آپ کا اصل نام محمد محبوب صدیقی تھا۔ آپ اتر پردیش (بھارت)
کے ضلع بلیہ کے ایک گاؤں چندا دائر میں یکم جولائی ۱۹۳۰ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۲
برس کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا تو آپ کی تعلیم و تربیت بڑے بھائی
محمد ایوب صدیق نے کی۔ ۱۹۴۸ء میں بی ۔اے کر کے آپ نے پاکستان کا رُخ کیا ۔
سی ایس ایس کا امتحان دیا اور پہلی تقرری لاہور میں اسسٹنٹ اکاؤٹنٹ جنرل کی
حیثیت سے ہوئی۔ بعدازاں ڈپٹی اے جی پی آر کے طور پر ڈھاکہ میں تعیناتی ہوئی
۔ تہران کے سفارتی مشن سے بھی وابستگی رہی۔ تہران قیام کے دوران ن ۔م راشد
سے قربت رہی۔ تہران سے واپسی پر اے جی پی آر کراچی تعینات ہوئے اور یہیں سے
ریٹائرہوئے ۔ آپ کا شعری
مجموعہ’’ اکیلی بستیاں‘‘ ۱۹۶۳ء میں شائع ہوا۔ آپ نے ۴ دسمبر ۲۰۱۳ء کو
کراچی میں وفات پائی ۔
۲۰۔لطیف الزماں خان : آپ ایک معروف محقق ، خاکہ نگار، انشاپرداز، مترجم اور
غالب شناس تھے۔ لطیف الزماں خاں ۱۳، مارچ ۱۹۲۴ء میں بھیلواڑہ ریاست میواڑ
میں پیدا ہوئے ۔ قلمی نام لطیف عارف ہے ۔ والد عبدالطیف خاں محکمہ پولیس
میں ملازم تھے۔ مکتب کی تعلیم ۱۹۳۲ء میں مولوی احمد حسن دہلوی سے حاصل کی
۔ تیسری جماعت کا امتحان کنور پدامڈل سکول جگ دیش چوک اودے پور سے پاس کیا۔
مہارانا مڈل سکول چتوڑ گڑھ میواڑ سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔
مہارنا انٹر کالج اودے پور سے نہم اور میٹرک راجپوتانہ بورڈ سے پاس کیا ۔
۱۹۴۷ء میں انٹر میں تھے کہ فسادات پھوٹ پڑے ۔ اس وجہ سے تعلیم ترک
کرناپڑی۔ ۱۴ ، مارچ ۱۹۴۸ء کو کراچی آگئے ۔ انٹر اور بی۔اے اردو کالج کراچی
سے کیا ۔ ۱۹۵۹ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے انگریزی ادبیات میں کیا۔
پہلا تقرر بحیثیت لیکچرار شعبہ انگریزی میں گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں
ہوا۔ یکم ستمبر ۱۹۶۳ء میں گورنمنٹ کالج ملتا ن میں تبادلہ ہو گیا۔ ملازمت
کا بیشتر عرصہ اسی کالج میں گزارا اور یہیں سے ۱۳، مارچ ۱۹۸۶ء میں ریٹائرڈ
ہوئے۔
رشید احمد صدیقی سے عقیدت اور غالب سے عشق تھا۔تمام عمر اسی عقیدت اور عشق
کو نبھانے میں صرف کر دی۔ اسی عقیدت اور عشق کا حاصل ان کی درج ذیل تالیفات
ہیں۔ عزیز ان علی گڑھ بخط رشید احمد صدیقی ، گنج ہائے گراں مایہ حصہ دوم ،
خطوط رشید احمد صدیقی جلد اول تا جلد ہشم ، سرسیدکا مغربی تعلیم کا تصور
اور اُس کا نفاذ علی گڑھ میں ، مرشد ذاکر صاحب ہمارے ذاکر صاحب ، گنج ہائے
گراں مایہ حصہ دوم ، پیام اقبال ، غالب نکتہ داں ، غالب آشفتہ سر ، میزانِ
نثر جلد اول تا پنجم ، تراجم میں نامہ ہائے فارسی غالب مرتبہ سیدا کبر علی
ترمذی کا ترجمہ مکتوباتِ غالب ، مہر نیم روز عکسِ مخطوطہ و ترجمہ ، خاکوں
کا مجموعہ ان سے ملیے۔ اس کے علاوہ ان کے بہت سے خاکے اور مضامین ’’امروز‘‘
میں شائع ہوئے۔ امروز میں خان صاحب سہیل ربانی اور لطیف عارف کے نام سے
لکھتے تھے۔ خان صاحب کے بہت سے خطوط ’’قرطاس‘‘ اور ’’تحقیق‘‘ میں بھی شائع
ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں خطوط ہندوستان اور پاکستان کے اہل ِ قلم کے پاس
موجود ہیں۔لطیف الزماں خاں ۲۶دسمبر ۲۰۱۳ء بروز جمعرات علی الصبح۸۹ سال کی
عمر میں ملتا ن میں انتقال کر گئے۔ ۲۸ دسمبر کو دو بجے دوپہر مرحوم کی
نمازِ جنازہ عیدگاہ ملتان کینٹ میں ادا کی گئی اور گلگشت کالونی میں واقع
قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔
۲۱۔متفرق: درج بالا علمی شخصیات کے علاوہ دیگر اہلِ قلم جنہوں نے ۲۰۱۳ء
میں وفات پائی ان کے نام ،تواریخِ وفیات اور مقاماتِ وفیات کچھ اس طرح
ہیں۔زاہدعکاسی(۱۲جنوری۔لاہور)،ڈاکٹرنذیرقیصر(۲۴جنوری۔لاہور)،بربط
تونسوی(۳۰جنوری۔ملتان)،پروفیسر حفیظ صدیقی(۲۰فروری۔لاہور)، یادصدیقی
(۲۷فروری۔کراچی)، اقبال اختر(۲۸فروری۔فیصل آباد) قیصرسلیم (۷مارچ۔کراچی) ،
امیرالاسلام ہاشمی(۱۸مارچ۔کراچی)، پروفیسرسبطِ جعفری(۱۸مارچ۔کراچی)،
ڈاکٹرطارقدرانی (۲۲مارچ۔لاہور) ، سیدفاروق شاہ(۳۱مارچ۔پشاور)، اقبال
کوثر(اپریل۔جہلم)،عبدالسلام بخاری(۸مئی۔کوئٹہ) ذوقی مظفر
نگری(۱۷مئی۔لاہور)، افتخارحیدر (۲۵مئی۔لاہور)، خالد بخاری (۱۳جون۔صادق
آباد)، خاورعباس(۲جولائی۔لاہور)، انوارفیروز(۲جولائی۔راولپنڈی)، صائم
کرنالی (۲۱جولائی۔وزیرآباد)، آصف علی فرخ (۲۸جولائی)، آئی۔ایچ۔خورشید
(۸،اگست۔لاہور)، پروفیسر طہٰ خان (۲۵ اگست۔پشاور)، ڈاکٹر سعید مرتضی
زیدی(یکم ستمبر۔لاہور)، رفیق پاشا(۹ ستمبر۔فیصل آباد)، محمد
لطیف(۲۲ستمبر۔لاہور)، پروفیسر سجاد مرزا (اکتوبر۔گوجرانوالہ)، احسان اﷲ
ثاقب(۹،اکتوبر۔لاہور)، ماسٹر الطاف حسین (۲۷ ،اکتوبر۔شیخوپورہ)، ڈاکٹر صدیق
جاوید (۳نومبر۔لاہور)، لطیف فتح پوری(۵نومبر۔فتح پورلیہ)، حنیف بھٹی
(۱۰نومبر۔حافظ آباد) پروفیسرڈاکٹرالطاف حسین
(۲۳نومبر۔لاہور)جاوید علی منور(۲۷نومبر۔کراچی)،
|