دس روز کے اندرخادم حسین کا یہ دوسرا چکر تھا، اسے
دیکھتے ہی مجھے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے قوم سے خطاب یا د آ گئے
کہ ایک ماہ میں تین مرتبہ انہوں نے قوم کو اعتماد میں لیا، آنے والے وقت
میں بھی نہ جانے انہیں ایک ماہ میں کتنے خطاب کرنے پڑیں۔ مگر خادم حسین کا
موڈ قومی امور پر بات کرنے کا نہیں تھا، اگرچہ اس کی نگاہ بڑے ایشوز پر بھی
رہتی ہے، اور وہ اہم معاملات پر سوال اٹھاتا رہتا ہے، مگر اکثر وہ چھوٹے
اور بنیادی مسائل کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہے، جن کا تعلق عوام کے
مسائل اور لوگوں کے رویوں سے ہوتا ہے۔ خادم حسین نے ماسٹرز کیا ہوا ہے، اور
وہ ایک نجی ادارے میں کام کرتا ہے، اس کو اپنے کام کی اتنی ہی تنخواہ ملتی
ہے کہ وہ کھینچ سمیٹ کر اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔ نہایت ہی سلیقہ مند اور
حساس طبیعت ہونے کی بنا پر اس نے اپنی چھوٹی ملازمت کے آغاز میں ہی معمولی
بچت کی عادت اپنائی ہوئی ہے۔ اس نے اپنے سرمائے کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک
بینک کا انتخاب کیا، اور سرمائے کو بڑھاوا دینے کے لئے اس نے بچت اکاؤنٹ
کھلوایا۔ بینک نے اسلامی بینکنگ کے بارے میں اس کو متاثر کیا اور وہ خود
بھی اس نتیجے پر پہنچا کہ جب منافع فکس نہ ہو تو اسے جائز ہی قرار دیا جائے
گا۔
اس کی آج کی آمد بھی بینک کے بارے میں ہی تھی، اس کا کہنا تھا کہ بینک ایک
کمرشل ادارہ ہوتا ہے جو اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو سروسز فراہم کرتا ہے، ہر
کسٹمر کے ساتھ نرم خوئی سے بات کرنا، اس کو معقول معلومات فراہم کرنا اور
اس کے ساتھ تعاون کرنا بینک اہلکاروں کا فرض ہوتا ہے۔ دوروز قبل کسی دوست
نے اس کے اکاؤنٹ کے ذریعے کچھ پیسے منگوائے، شام ہوچکی تھی، اس نے فون کر
معلوم کرنا چاہا کہ آیا میرے اکاؤنٹ میں پیسے آگئے ہیں یا نہیں، تاکہ اگلی
پارٹی کو بتایا جاسکے۔ فون نہیں سنا گیا۔ پھر وہ بھاگم بھاگ خود بینک پہنچا
کہ اس کے دوستوں کو انتہائی جلدی تھی۔ بینک بند ہو چکا تھا، تاہم دستک دے
کر گارڈ سے اکاؤنٹ کی صورت حال معلوم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اندر سے
وعدہ فردا ہی برآمد ہوا۔ اس نے اپنے اکاؤنٹ کا یقین دلانے کے لئے چیک بک
بھی دکھائی، مگر دال نہ گلی۔ تقریباً سوا گھنٹہ بعد اس کے دوست نے فون کرکے
بتایا کہ میں بینک کے اندر ہوں، فون کرکے اکاؤنٹ کی صورت حال معلوم کرلیں۔
یہ دل ہی دل میں حیران ہوا کہ اکاؤنٹ ہولڈر کو تو معلومات بھی نہیں ملیں،
مگر تیسرا فرد اندر تک پہنچ گیا، وہ بھی سوا گھنٹہ بعد۔ بینک والوں کا یہ
کیسا رویہ ہے؟
اگلے روز خادم صاحب بینک پہنچ گئے، بڑے صاحب تو نہ تھے، ان سے چھوٹے صاحب
سے بات کی، انہیں کل کی روداد سنائی، اپنی حساسیت کا رونا رویا، احتجاج
کرنا چاہا، یہ بھی کہ گاہک سب برابرہونے چاہییں۔ مگر اسے بتایا گیا کہ اگر
سوا گھنٹہ بعد کوئی آیا تھا تو ہمارا بڑا کسٹمر ہوگا، ہمارے لئے سب برابر
نہیں ہوسکتے، ایک بندہ روزانہ لاکھوں کا کاروبار کرتا ہے اور ایک سال بھر
میں دس بیس ہزار جمع کرواتا ہے، تو دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ اسی دوران
بینک کا ایک اور اہلکار وہاں کسی کام کے لئے آیا اس نے بھی فیصلہ کن انداز
میں بتایا کہ ہم سب کو برابر نہیں رکھ سکتے۔ خادم نے اپنے دوست کے آئے ہوئے
پیسوں کا چیک کاٹا اور اس کے بعد بچنے والا اپنا بیلنس معلوم کیا، چند ہزار
روپے پڑے تھے، اِس نے ان کا بھی چیک کاٹا ، اب اس کا اکاؤنٹ خالی تھا،
منیجر نے چند ہزار روپے اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، آپ اپنا اکاؤنٹ
کلوز تو نہیں کر رہے، خادم حسین کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس نے پوری
روداد مجھے سنائی، میں نے اس کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا، اور بینک عملے پر
اس کی تنقید میں اس کی تائید کی۔ اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ بینک عملہ
مجبور ہے، وہ اسی کو سلام کرے گا جس کی جیب گرم ہوگی۔ اگرچہ انسانیت کا
تقاضا یہی ہے کہ سب انسانوں کو برابر جانا جائے، مگر دنیا داری کا تقاضا ہے
کہ اس کی عزت کی جائے دنیا جس کی جیب میں ہوتی ہے۔ اب میں نے یہ فیصلہ کیا
ہے کہ خادم حسین جب بھی میرے پا س آئے گا، اس کا حالِ دل سننے کے بعد میری
کوشش ہوگی کہ ہر دفعہ اس کی حساسیت میں کچھ کمی کا اہتمام کروں، بے حسوں کے
ہجوم میں چند حساس لوگ تو دم گھٹنے سے ہی مرجائیں گے، آکسیجن کون دے گا،
کہاں سے آئے گی؟
|