انسان کو لگنے والی کسی بھی طرح کی لت اچھی نہیں سمجھی
جاتی۔ عموماًیہ لفظ استعمال بھی منفی معنوں میں ہی ہوتا ہے۔اس کے باوجود
مختلف افراد اپنے ذوق کے لحاظ سے مختلف طرح کی لتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔اور
توجہ دلانیس کے باوجو د ان کے لیے اپنی مخصوص لتوں سے چھٹکارا ایک اہم
مسئلہ بن سامنے آتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض اوقات مذہبی امور میں بھی
انسان نہ جانے کون کون سی لتوں میں ملوث ہوجاتا ہے۔نتیجہ میں مذہب کے اُس
آفاقی تصور سے وہ نالاں رہتا ہے،جومطلوب ہے۔لتوں سے چھٹکارے کی خواہش
اورسعی و جہد کے باوجود اگر فردیا گروہ کی صحیح رہنمائی نہ کی جائے تو عین
ممکن ہے کہ ایک لت سے نکل کر دوسری اور دوسری سے نکل کر تیسری لت میں وہ
مبتلا ۔یہاں تک کہ وقت ضائع ہوتا رہے لیکن منزل مقصود ہاتھ نہ آئے۔دیکھا
جائے تو منزل مقصود تک نہ پہنچنے کے عموماً دواسباب بیان کیے جا سکتے ہیں
۔ایک:صحیح رہنماکی عدم موجودگی،اور دو:جذبۂ عزیمت کافقدان۔پھر ان اسباب کے
پس پشت بھی دو بڑے اسباب کارفرما ہیں۔ایک:خلوص نیت کی کم یابی اور دو:مثالی
رہنما کا نہ پایاجانا۔یعنی کسی بھی طرح کی لت میں مبتلا ہے ہر وہ وہ شخص جو
اُس سے چھٹکارا چاہتا ہے نیز وہ تمام نجات دہندہ،ہر دو سطح پر ایک دوسرے سے
نبرد آزما ہیں۔اور چونکہ مریض اور شفاداں،ایک دوسرے کی مخالف سمت میں گامزن
ہیں لہذاتمام طرح کی خواہشات اور مختلف سطح پر کی جانے والی ظاہری کوششوں
کے باوجود ،نتائج کے اعتبار سے ناکامی ہی ہاتھ آتی ہے۔کچھ یہی حال ہمارے
معاشرتی و مذہبی مسائل واموراور ان میں حائل افراد و گروہوں کا بھی ہے۔کہ
اگر ایک فرد یا گروہ سنجیدگی کے ساتھ سعی وجہدکرتا نظر بھی آتا ہے تو اس کے
مخالفین کی بھی ایک بڑی تعداد فوراً ہی سامنے آجاتی ہے۔جس کے نتیجہ میں
مسائل کا حل دیر پا نہیں رہ پاتا۔اس سب کے باوجود اگر عزائم بلند ہوں اور
خلوص نیت بھی کسی حد تک پائی جاتی ہو،تو کامیابی طے شدہ ہے۔بس چاہیے تو ایک
شوق،تمنا،ارمان اورطلب۔
ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی نشہ کی لت وباعام ہے۔نشہ کی ایک شکل گانجہ
، چرس،بھنگ،ہیروئین اورافیون ہے جس کے عادی بڑی تعدادمیں چہار جانب موجود
ہے۔ وہیں دوسری شکلوں میں بیڑی ، سگریٹ اور شراب نوشی میں مبتلا افراد کی
تعداد بھی کچھ کم نہیں۔نشہ کی ایک اورشکل گٹکہ ہے۔ کراچی سمیت دوسرے شہروں
میں گزشتہ دودہائیوں میں ہر عام و خاص کے درمیان گٹکہ کی وبا عام ہوئی
ہے۔یہاں تک کہ یہ ایک مکمل انڈسٹری بن چکی ہے۔پاکستانی معاشرہ میں نشہ آور
اشیاء کا ستعمال قابل گرفت نہیں ہے۔ خوشی کے مختلف مواقعہ پر نشہ آور اشیاء
کا کھلے عام استعمال ہوتا ہے۔پھر اگر فرد صاحب حیثیت ہے تو انگریزی شراب اس
کے اسٹیٹس کوبڑھانے کا ذریعہ بنتی ہے۔پھر اگر شراب اور نشہ آور اشیا ء کا
زبان کو مزہ مل جائے تو کیونکر وہ دوبارہ استعمال نہیں کریں گے؟ یہ بات طبی
ریسرچ ثابت کر چکی ہے کہ نشہ دراصل کہتے ہیں اس عادت کو کہتے ہیں ،جس میں
کوئی بھی کھانے پینے کی کوئی بھی شے فرد کو اس قدر عادی بنا دے،جس سے
چھٹکارا حاصل کرنا ،حددرجہ مشکل ہو۔پھر یہ نشہ آور اشیاء نہ صرف انسان کے
دماغ کو متاثر کرتی ہیں بلکہ اس کے دل،گردے اور پھیپڑوں کو بھی بری طرح
نقصان پہنچاتی ہیں۔نشہ کے عادی افراد کو کینسر ہونا عام بات ہے،وہیں نشہ کے
عادی افراد کی 2.4ملین تعداد ایسی ہے جو HIV Positiveسے متاثر ہیں۔افسوس کی
بات یہ ہے کہ پاکستان فی الوقت دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں ایچ آئی وی
پازیٹیو انفیکشن ان افراد کے ذریعہ پھیل رہا ہے جو نشہ کی لت میں مبتلا
ہیں۔قانونی اعتبار سے ہیروئن کا استعمال کرنے والوں میں پاکستان بھی،ایران
،ہندوستان اور چین کے ساتھ سرفہرست ہے۔وہیں جغرافیائی اعتبار سے دنیا میں
ہیروئن فراہم کرنے والے سب سے بڑے ملک برما اور افغانستان ہیں،جوپاکستان
اور ہندوستان سے بالکل قریب ترین ہیں۔اس اعتبار سے ہیروئن کا پاکستان میں
غیر قانونی طریقہ سے داخل ہونا اور کاروباری شکل اختیار کرنا بہ نسبت دوسرے
ملکوں کے زیادہ آسان ہے۔نشہ آور اشیاء میں چرس اور ہیروئن پاکستان میں سب
سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔مختلف طبقات جن میں دس سے لیکر تیرہ سال کے
بچے،جن میں کمزور طبقات کے بچے بھی شامل ہیں تو وہیں اشرافیہ کے بچے
بھی،طلبہ و طالبات بھی شامل ہیں تو وہیں مرد و خواتین بھی،جھگی جھونپڑیوں
میں رہنے والے بھی شامل ہیں تو اعلیٰ ترین مکانات میں رہنے والے
بھی،کاروباری بھی شامل ہیں تو وہیں عامیانہ زندگی گزارنے والے افراد
بھی۔پھر یہی معاملہ شراب نوشی کا بھی ہے۔اور دیگر نشہ آور اشیاء کا بھی۔
پاکستان میں نشہ کی لت میں مبتلا افراد میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی
ہے۔اگر موجودہ حکومت کا یہ خواب ہے کہ مستقبل میں پاکستان نوجوانوں کی
موجودگی کے بل پر،دنیا کا طاقتورملک بنے ۔وہیں اس خواب کی حقیقت یہ ہے کہ
یہاں پاکستان میں سب سے زیادہ بے روزگاری اگر کہیں ہے تو وہ اسی طبقہ
نوجوانوں میں ہے۔نتیجہ میں ذہنی تناؤ میں مبتلا افراد کی تعداد روزبروز
بڑھتی جا رہی ہے۔یہ ایسے نوجوان ہیں جو بے روزگار بھی ہیں اور ذہنی تناؤ
اور دباؤ کا شکار بھی۔آج نشہ صرف مزہ حاصل کرنا اور تناؤ دور کرنے ہی کا
ذریعہ نہیں ہے بلکہ نوجوانوں کی ایک ضرورت بن چکی ہے۔نشہ کے بغیر وہ اپنی
روز مردہ کی زندگی کے کام ٹھیک اور پڑھائی ٹھیک طرح سے نہیں کرپاتے۔خطر ناک
بات یہ ہے کہ نشہ آور اشیاء ہوٹلوں،عام دکانوں اورتعلیمی اداروں کے قرب و
جوار میں بہت آسانی سے دستیاب ہیں۔حیرت اور افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ آن
لائن خریداری کی ویب سائٹس پر نشہ آوراشیاء مختلف کوڈورڈس میں دستیاب
ہیں۔جنہیں بہت آسانی کے ساتھ بغیر کسی رسک کے ہوم ڈلیوری کے ذریعہ گھر
بیٹھے منگایا جا سکتا ہے، اور یہ جاری ہے۔ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ
،نوجوانوں کے درمیان نشہ کے بڑھتے چلن کے پیچھے،بدلتی طرز زندگی،غیر اخلاقی
دوستوں کا ساتھ،خاندانی دباؤ،ماں باپ کے جھگڑے،انٹرنیٹ پر گھنٹوں وقت صرف
کرنا،اور خاندانی تضادات ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ ہاؤس میں کام کرنے
والے 27%فیصد نوجوان کسی نہ کسی نشہ کی لت میں مبتلا ہیں۔
گفتگو کے پس منظر میں یہ بات پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آج ملک کا نوجوان
نشہ آور اشیاء کا استعمال بڑے پیمانہ پر کررہا ہے۔نتیجہ میں جہاں ایک جانب
وہ مختلف طرح کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہے وہیں معاشرتی ،خاندانی اور
مذہبی امور میں اس کو سرے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ان حالات میں اہل اقتدار
کو چاہیے کہ خواب دکھانے کی بجائے یکساں لائحہ عمل کے ساتھ،پورے ملک میں
عملی اقدامات کریں۔نہیں تو بہت جلد وہ خواب چکنا چور ہو جائے گا جو
نوجوانوں کی بڑی تعداد کے پس پشت دیکھا اور دکھایاجارہا ہے! |